جہاں کسب حلال کے بے شمار فضائل ہیں وہاں رزق حرام کمانے اور کھانے پر بہت ہی سخت وعیدیں بھی ہیں۔ بد قسمتی سے آج کل کسبِ حلال نایاب ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی بلا ضرورت جھوٹ بول کر بلکہ معاذ اللہ جھوٹی قسمیں تک کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں۔ مال کا عیب اور نقص اگر ہے تو اسے بھی ظاہر نہیں کرتے۔ رشوت، سود،دھوکہ بازی،جس بھی گناہ کا سہارا لینا پڑ جائے ضرور لیتے ہیں اور کماتے ہیں۔ ذرا غور تو کریں! آپ اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی آپ کے پیٹ میں گنجائش ہوتی ہے، اسی قدر پہنتے ہیں جس قدر آپ کی جسامت ہے۔باقی آپ کی کمائی آپ کے اہل و عیال کھاتے ہیں اور و بال آپ پر آئے گا۔ لہذا برائے مدینہ! اپنے جسم ناتواں پر رحم کیجیے۔ خدارا!اسے جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہی رزق عطا کرنے والا ہے اور جو کچھ مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کس طرح حاصل کرتے ہیں۔ حرام کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، آج کل ہر کوئی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، میری پر یشانیاں دور نہیں ہوتیں، نہ جا نے کونسی خطا ہو گئی ہے جس کی مجھے سزا مل رہی ہے، یاد رکھیں، شیطان کایہ بھی کامیاب ترین وار ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے پھر بھی اس کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ تیری تو کوئی خطا ہی نہیں۔ حا لانکہ اس کا مال حرام کا، نماز کی توفیق نہیں، جھوٹ کی ہر وقت عادت، بد گمانی، وغیرہ۔ مومن کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ مال حلال ہی استعمال کرے اور مال حرام سے بچتا رہے۔ چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) (پ2،البقرۃ: 172) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ اب مال حرام کی مذمت احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

2۔ بندہ جو حرام مال کمائے گا اگر اس کو صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی۔ اور اگر اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ بنے گا۔ (شرح السنۃ للبغوی، 4/206، حدیث: 2023)

3۔ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہوگا اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/131، حدیث: 2772 )

4۔ تم لوگ سودا بیچنے میں بکثرت قسم کھانے سے بچتے رہو، کیونکہ قسم کھانے سے سودا تو بک جاتا ہے لیکن اس کی برکت برباد ہو جاتی ہے۔ (مسلم، ص 868، حدیث: 1607)

5۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جو کسی کپڑے کو دس درہم میں خریدے اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس آدمی کے بدن پر رہے گا اللہ پاک اسکی کسی نماز کو قبول نہیں فرمائے گا یہ کہہ کر حضرت ابن عمر نے اپنی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں ڈال کر یہ فر مایا کہ اگر میں نے اس حدیث کو حضور ﷺ سے نہ سنا ہو تو میرے یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمہ حرام کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں )موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

حرام ذریعوں سے کمائے ہوئے مالوں کو کھانا، پینا،پہننا یا کسی اور کام میں استعمال کرنا حرام وگناہ ہے اوراس کی سزا دنیا میں مال کی قلت و ذلت اور بے برکتی ہے اور آ خرت میں اس کی سزا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو حلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔