قرآن کریم ہمیں بہت سے کاموں سے بچنے کا حکم فرماتا ہے۔ جن میں سے حرام مال کمانا اور کھانا بھی ہیں۔مالِ حرام میں کوئی پیسہ اپنے کھانے پینے، پہننے یا کسی اور کام میں لگانا حرام ہے۔ اور نہ ہی حرام کمایا ہوا مال کسی مسجد یا مدرسہ میں لگا سکتے ہیں۔کیونکہ وہ غصب،چوری،ڈاکہ،رشوت اور جوئے جیسے حرام کام کے زریعے سے کمایا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر29میں رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اب حرام مال کی مذمت کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو شخص حرام کی کمائی کھاتا ہے۔ وہ ایسے بیمار کی طرح ہے جس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ حرام کا مال بروزِ قیامت اُس کے خلاف گواہی دے گا۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842)

2۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اُس نے جو حاصل کیا وہ حلال سے ہے یا حرام سے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

3۔ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346)

4۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو آگ اُس کے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، 5/56، حدیث: 5759)

5۔ جس نے حرام کا مال جمع کیا (کمایا) پھر اسے صدقہ کر دیا تو اُس کو صدقہ کا کوئی اَجَر نہیں ملے گا بلکہ اُس پر اِس (حرام مال کمانے) کا وبال ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، 5/151، حدیث: 3356)

لہذا معلوم ہوا کہ حرام مال سے کئے جانے والے نیک کام بھی قَبول نہیں کئے جاتے۔کیونکہ الله پاک ہے اور پاک مال ہی کو قبول فرماتا ہے۔ حرام مال کمانے، کھانے والوں کو چاہیے کہ آخرت کو یاد کرتے ہوئے اِن بُرے اَعمال سے دور رہیں، کیونکہ زیادہ عقلمند وہی ہے جو اپنے حصے کا رزق، حلال طریقے سے حاصل کرے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو حلال مال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام مال جیسی نحوست سے بچائے۔ اَللّٰهُمَّ اكْفِنِىْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَاَغْنِنِىْ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ آمین