حرام کمانے
کھانے کی مذمت از بنت عارف محمود، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار
دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی وکالت، خیانت اور
غضب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور
حرام ہے۔ یونہی اپنے مال کو باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نا فرمانی میں خرچ
کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ رشوت کا لین دین کرنا ،ملاوٹ والا مال فروخت کرنا،قرض
دبا لینا ،ڈاکہ زنی اور ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی سب حرام میں شامل ہے۔ حرام
کمانا اور کھانا اللہ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی
اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
1۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل
کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت
نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ برائی سے برائی
کو نہیں مٹاتا،ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند
امام احمد، 2/33، حدیث:3672)
2۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد
فرمایا: ایک شخص جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے وہ
اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا
حرام، پینا حرام ،لباس حرام اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم،
ص 506، حدیث: 1015)
3۔ سرورِ کائنات ﷺ نے حرام مال کے متعلق فرمایا:
اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز
العمال، 2/8، حدیث: 9257)
4۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے
ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو، اس زات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں
محمد ﷺ کی جان ہے، بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے
عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ
بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)
حلال کی کمائی انسان کھاتا ہے جبکہ حرام کمائی
انسان کو کھا جاتی ہے، لقمہ حلال کی بہت برکت ہے حلال کھانے والے نفس کی شر انگیزی
میں کمی آتی ہے اور دل میں روشنی پیدا ہوتی ہے دل نرم رہتا ہے اور غیرت والے انسان
کا دل مطمئن رہتا ہے اس کے برعکس اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جس کے پیٹ میں لقمۂ
حرام ہو حرام کھانے کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے اور پھر
اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا، قرآن پاک میں ایمان والوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ
منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے جو
ایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کر دے گا، مال کی محبت میں
اپنے حال کی پرواہ نہ کرے گا، اور اولاد کی خوشی کے لئے آخرت سے غافل رہے گا تو
ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ انہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے
گھر کی باقی رہنے والی نعمتوں کی پروا نہ کی۔ جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ
چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال
کھاتا ہے تو اس کے اعضاء فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمالِ خیر کی توفیق دی
جاتی ہے۔
مذکورہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال
کھانے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور
انسان جنت کا مستحق ہو جاتا ہے جبکہ حرام کھانے سے نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے،
نیک اعمال قبول نہیں ہوتے اور دوزخ مقدر بن جاتی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں
نصیحت کے مدنی پھول اور غوروفکر کرنے والوں کے لئے واضح حدایت موجود ہے اللہ تبارک
و تعالیٰ ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور احادیثِ
مبارکہ سے نصیحت حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین