قراٰنِ پاک اللہ پاک کی وہ سب سے آخری اور مستند ترین کتاب ہے، جسے انسانوں کی دینی اخلاقی، سماجی، اور معاشرتی ہدایت کے لیے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کیا گیا۔ یہ عظیم کتاب دورِ رسالت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے دلیل و برہان اور نورِ ہدایت ہے۔ قراٰنِ پاک اللہ پاک کی بے مثل کتاب ہے، جس کا ایک ایک لفظ محفوظ اور ناقابل تبدیل ہے، اولین و آخرین کے علوم کے جامع تمام انسانوں کے لیے بشارت، رحمت اور شفاء نیز اقوامِ عالم کو عظمت اور رفعت کا درس سکھانے اور بنی آدم کو حلال و حرام کمانے اور کھانے میں فرق کرنے والی کتاب ہے۔

کھانے اور کمانے کے بارے میں اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمایا: آیت مبارکہ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)

اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29 ، 1 / 370)

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حرام مال آخر ہے کیا؟

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب رحمۃُ اللہ علیہ حرام مال کی تعریف کچھ یوں فرماتے ہیں: جو مال حرام ذرائع سے حاصل کیا جائے وہ حرام مال ہے۔

حرام مال کمانے کی مذمت: حرام مال کھانے و کمانے والا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2 / 33، حدیث: 3672)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات(یعنی دعا کے قبول ہو جانے والے)ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

ان احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام مال کھانے اور کمانے والا کس حد درجے برا ہے، اللہ پاک ہمیں اپنی جناب سے حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

معاذ اللہ آج کل ہمارے معاشرے کے اندر حرام مال کمانے کے مختلف ذرائع ہیں جس کی مثالیں درج ذیل ہیں: سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

ان سب ذرائع سے کمانا حرام اور ناجائز ہیں۔

سُود: سود کے متعلق قراٰنِ مجید فرقان حمید میں رب تعالٰی کا فرمان علی شان ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ

ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مَخبوط بنا دیا ہو۔(پ3،البقرۃ:275)

مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 1598)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بندہ سود دے یا لے یا اس کے کاغذات تیار کرے یا اس میں گواہی دے یا اس کو سپورٹ کرے کسی بھی حوالے سے اس کی رہنمائی کریں، وہ سب کے سب ہی برابر کے گنہگار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار 'سود' ہے کیا چیز ؟

جواب: 'سود' کو انگریزی زبان میں 'Usury' کہتے ہیں. بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی صاحب نے 'سود' کی تعریف کچھ یوں فرماتے ہیں: عقدِ مُعَاوَضَہ (یعنی لین دین کہ کسی معاملے) میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مُقَابِل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ 'سود' ہے۔

بہار شریعت میں ہے سود حرامِ قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر(یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے،اس طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ ( بہار شریعت 2/768،حصہ:11)

رشوت: رشوت کے متعلق قراٰنِ مجید فرقان حمید میں رب تعالٰی کا فرمان علی شان ہے: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)

تفسیر صراط الجنان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت میں ہے باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔ (احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/ 304)

حضور اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت لینے اور دینے والے کے بارے میں فرمان علی شان ہے : رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں آگ میں ہیں۔ (معجم اوسط،حدیث: 2026)

اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے یہ کس قدر برا کام ہے رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

رشوت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار رشوت ہے کیا ؟

جواب: رشوت کو انگریزی زبان میں 'Bribery'کہتے ہیں۔

اس کی تعریف اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے فتاوی رضویہ میں کچھ یوں کی ہے : جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے (وہ) رشوت ہے، یوں ہی جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو (یا حاکم کے علاوہ کسی اور کو بھی) دیا جائے (وہ) رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم کو دور کرنے) کے لیے جو کچھ دیا جائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں یہ دے سکتا ہے (لیکن) لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اس سے لینا حرام (ہے)۔ (فتاوی رضویہ، ج23 /ص597)

امیر اہل سنت اپنی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب میں فرماتے ہیں: رشوت کا لین دین قطعی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص181)

جہنم کے خطرات مکتبۃ المدینہ کی کتاب میں تحریر ہے: رشوت لینا دینا اور دونوں کے درمیان دَلّالی(Dealing )کرنا حرام اور گناہ ہے۔ ( جہنم کے خطرات مکتبۃ المدینہ،ص71)

مال کی حرص میں بہت سارے افراد منصب، عہدے یا نوکری حاصل کرنے کی جستجو میں حرام کھانے اور کمانے میں لگ جاتے ہیں۔ مالِ حرام میں سے کوئی پیسہ کھانے پینے یا کسی اور مصرف (یعنی کام) میں لگانا حرام ہے۔

اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں، حرام پیسے کسی کام میں لگانا اصلاً (یعنی بالکل) جائز نہیں، نہ نیک کام میں( مثلاً مسجد و مدرسہ وغیرہ کی تعمیر میں) لگا سکتے ہیں، نہ کسی اور کام (مثلاً خرید و فروخت وغیرہ) میں ۔

اعلی حضرت علیہ رحمہ اپنے فتاوی رضوی میں فرماتے ہیں : زبانی توبہ سے حرام مال پاک نہیں ہو سکتا بلکہ توبہ کے لیے شرط ہے کہ جس جس سے لیا ہے واپس دے وہ (زندہ) نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو دے (اگر اَصْل مالِک یا اس کے وارِثوں کا) پتہ نہ چلے تو اتنا مال (بلا نیتِ ثواب صدقہ کر دے اس کے عِلاوہ (کوئی طریقہ مالِ حرام کے) گُناہ سے براءَت (یعنی چھٹکارے) کا نہیں۔ (فتاوی رضویہ ج23/ص544 بتغیر قلیل)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حرام کھانے اور کمانے سے محفوظ رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم