اللہ پاک ربُّ العالمین ہے تمام مخلوق کو رزق دینے والا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو ۔ (پ12،ھود:6)

اللہ پاک بغیر کسی سبب کے رزق دینے پر قادر ہے مگر اس نے بندے کو اختیار دے دیا کہ وہ کسب کرے اب یہ بندے کی مرضی ہے حلال طریقے سے کمائے یا حرام، اور اسی کسب پر سزا و جزا کا مدار ہے، حلال طریقہ اختیار کریگا تو رزق کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ملے گی اور اس میں برکت بھی ہوگی، اور اگر حرام طریقہ اختیار کرے گا تو ہو سکتا ہے رزق تو مل جائے مگر! اللہ کی ناراضگی، بے برکتی دنیا و آخرت میں رسوائی اس کا مقدر ہوگی۔

حرام کمانے اور کھانے کی مذمت احادیث میں بیان کی گئیں ہے ہم ان میں سے کچھ بیان کرتے ہیں۔

حرام کمائی کا صدقہ مقبول نہیں اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے بلکہ مالِ حرام مرنے کہ بعد آگ کی طرف لے جانے کا سبب بنتا ہے:

(1) حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا: یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس سے خیرات کرے تو وہ قبول ہوجائے، اور نہ یہ کہ اس سے خرچ کرے تو اس میں اسے برکت ہو، اور اس حرام کو اپنے پس ماندگان کے لیے نہ چھوڑے مگر یہ اس کا آگ کا توشہ ہوگا۔

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: یعنی جب تک اس کے وارثین اس کا حرام مال کھائیں گے یا برتیں گے اسے دوزخ میں عذاب ہوتا رہے گا کیونکہ یہ حرام کا سبب بنا، معلوم ہوا کہ جیسے بعض صدقے جاریہ ہوتے ہیں ایسے ہی بعض حرام بھی گناہِ جاریہ ہو جاتے ہیں۔(مرآت،4/259)

(2) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔(مسلم شریف 535)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا: کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس پر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔ (مسند احمد،7482)

اللہ اکبر! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صرف کہہ دینا ہی کافی تھا! مگر آپ کے قسم ارشاد فرمانے سے حرام کھانے کی شدید مذمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(4) روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق کا ایک غلام تھا جو انہیں آمدنی دیتا تھا تو صدیق اکبر اس کی آمدنی کھاتے تھے وہ ایک دن کوئی چیز لایا جس میں سے ابوبکر صدیق نے کچھ کھا لیا تب غلام نے عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں جو یہ کیا ہے ابوبکر صدیق نے فرمایا کیا ہے وہ بولا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کی فال کھولی تھی اور میں فال جانتا تھا نہیں میں نے تو اسے دھوکہ دیا تھا وہ آج مجھے ملا اور مجھے اس کے عوض یہ دی یہ وہی ہے جو آپ نے کھائی فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق نے ہاتھ ڈالا اور جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کردیا۔(مشکوۃ،1/248، حدیث:2663)

سبحان اللہ! سبحان اللہ! نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ تقوی کے کیسے انتہائی اعلی درجے پر فائز تھے اللہ کریم ہمیں ان کے تقوے کا کوئی ذرہ عطا فرمائے۔

(5) حرام سے پلنے والا گوشت آگ کے ہی لائق ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جس کی نشونما حرام سے ہوئی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور ہر وہ گوشت جس کی پرورش حرام سے ہوئی وہ آگ کے ہی زیادہ لائق ہے۔

مفتی احمد یار خان اس کے تحت فرماتے ہیں: جو شخص حرام کھا کر پلا جنت میں کیسے جائے! طیب جگہ طیب لوگوں کے لیے ہے۔ حرام خور دوزخ کی آگ کا مستحق ہے کہ مرے اور آگ میں پہنچے کیونکہ "اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ" گندے لوگوں کے لیے گندی چیزیں ہیں ۔(مراۃ المناجیح،4/260)

اللہ پاک ہمیں حرام سے بچ کر رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے، حرام کھانے سے محفوظ فرمائے، شریعت مطہرہ کے مطابق اور صحابہ کرام علیہم الرضوان اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم