امداد علی ( درجہ رابعہ جامعۃُ
المدینہ کنزُ الایمان مزنگ لاہور، پاکستان)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ
السّلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرمائی ہے جو حرام
غذا سے پلا بڑھا ہو۔
(1)
حرام کمانے کی مذمت: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام
حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کیلئے اس میں
برکت نہیں۔ اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک
بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا ہے ۔ ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹا دیتا ہے بیشک خبیث
(ناپاک) کو خبیث نہیں مٹاتا ۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ، 2/ 33 حدیث : 3672 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ
السّلام نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پَرا گندہ اور بدن
غُبار آلودہ ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر یارب ! یا رب ! پُکار رہا
ہے حالانکہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غِذا حرام ہو، پھر اس کی
دعا کیسے قبول ہوگی۔ (مسلم کتاب الزکاۃ باب قبول الصدقۃ من الكسب الطبيب و تربيتها
۔ص 506،حديث : 1015)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے پیارے پیارے آقا مکِّی
مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سُن لئے ۔ذَرا سوچیں! کہ
حرام کھانے کی کتنی بڑی بڑی وعیدیں ہیں اور نحوستیں ہیں تو ان فرامین کو مدِّنظر
رکھتے ہوئے غور و فکر کریں کہ کہیں ہم بھی تو نہیں اِس زُمرے میں ۔
حرام کھانے کی
مذمت: مکاشفۃ القلوب میں ہے آدمی کے پیٹ میں جب حرام کا لقمہ پڑا تو زمین و آسمان
کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کریگا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اُسی حالت میں(
یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ
القلوب ،ص 10)
حضور علیہ السّلام نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد
فرمایا کہ اے سعد! اپنی غِذا پاک کر لو مُستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اُس ذات کی قسم
جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اُس
بندے کے 40 چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جِس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا
ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط من اسمہ محمد 34/5حدیث 6495)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ
السّلام نے ارشاد فرمایا: پاکیزہ کمائی اُن تاجروں کی ہے جو گُفتگو کے وقت جھوٹ
نہیں بولتے ، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہیں کرتے جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو
خیانت نہیں کرتے جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی بُرائی بیان نہیں کرتے اور جب کچھ
بیچیں تو اس کی تعریف بیان نہیں کرتے جب اُن پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں پس و
پیش نہیں کرتے اور جب انہوں نے کسی سے لینا ہو تو اس پر تنگی نہیں کرتے ۔(در منثور
النساء )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! باطِل اور ناجائز طریقوں سے (
دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اور اس میں حرام خوری کی ہر صورت داخل ہے خواہ لوٹ
مار کر کے ہو یا چوری، جوئے، سُود، رُشوت میں کسی طریقے سے یا جھوٹی گواہی دے کر
گواہ نے کمایا یا جھوٹا فیصلہ دے کر قاضی اور جج نے (مال پانی) وصول کیا یا جھوٹ
کی وکالت کر کے وکیل نے فیس لی یا یتیم بیوہ، غریب امیر الغرض کسی کے مال میں
خیانت کرکے ڈنڈی مار کر یا کسی بھی طرح دھوکہ دے کر مال ہتھیا لیا یا حرام تماشوں
جیسے ناٹک، فلموں ڈراموں، گانے بجانے کی اُجرت وصول کی یا حرام کاموں یا حرام
چیزوں کا معاوضہ ہو یا بلا اجازت شرعی بھیک مانگ کر رقم لی ہو یہ سب ممنوع حرام
اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔
تو پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! ہمیں حرام کمانے اور کھانے سے خود کو تو بچانا ہے لیکن اپنے دیگر
اسلامی بھائیوں اپنے گھر والوں، خاندان، دوست ،احباب سب کو بھی بچانا ہے۔