ہمارا دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ وہ ہماری ہر دینی اور غیر دینی معاملات میں اچھی رہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں معاشرے میں رہنے کے اصول و ضوابط اور اچھے انداز سے زندگی گزارنے کے طریقے بیان کرتا ہے انہیں باتوں میں سے ایک بات حلال روزی کمانا اور حرام کمانے سے بچنا بھی ہے کیونکہ اسلام میں حرام کمانے کی بہت ممانعت ہے جس کی وعیدیں قراٰن احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ رب تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)

(1) مالِ حرام کا صدقہ کرنا مقبولِ بارگاہ نہیں: حرام مال سے اگر کوئی صدقہ کرے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول نہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(تفسیر صراط الجنان،2/ 182،مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود، 2/33،حدیث:3472)

(2) حرام کھانے والے پر جنت حرام ہے :حرام مال ایسی خراب چیز ہے جس کہ سبب اللہ پاک جنت حرام فرما دیتا ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(تفسیر صراط الجنان،2/ 182۔ کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3) چالیس (40)دن تک عمل قبول نہیں ہوتا: حرام کھانے کے سبب اللہ پاک 40 دن کے عمل قبول نہیں فرماتا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان،2/ 183)

(4) حرام کھانے کے سبب دعا قبول نہیں ہوتی: حرام ایسی بے برکت چیز ہے جس کہ سبب سے اللہ پاک دعا قبول نہیں فرماتا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (تفسیر صراط الجنان،2/ 183)

(5) نماز قبول نہیں ہوتی: حرام مال سے خریدے ہوئے کپڑوں میں نماز قبول نہیں ہوتی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو کوئی کپڑا دس درہم سے خریدے اور ان میں ایک درہم حرام ہو تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ اس کی کوئی نماز قبول نہ کرے گا پھر آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں اور فرمایا یہ بہرے ہوجائیں اگر میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (مرآة شرح مشکوة المصابیح،کتاب البیوع، حدیث:2668)

اس تمام گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ حرام مال بہت خراب چیز ہے کہ یہ بہت سی چیزوں سے محروم کر دیتا ہے اور تباہ و برباد کر دیتا ہے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر یہ پاک مال سے مل جائے تو اس کو بھی بے برکت کر دیتا ہے لہذا ہمیں اس(حرام)سے بچنا چاہیے ۔

اللہ پاک ہمیں حلال کمانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم