عبد الباسط عطاری (درجہ ثانیہ
جامعۃُ المدینہ فیضان نور مصطفےٰ لیاری کراچی، پاکستان)
الحمد اللہ ہماری شریعت جگہ بہ جگہ ہر مسائل میں اصلاح کرتی
ہے آج ایک اہم موضوع جس کی اس معاشرے میں بہت زیادہ ضرورت وہ موضوع حرام کمانے اور
کھانے کے مسائل ہیں آج ہم غور و فکر نہیں کرتے کہ آج ہم حلال طریقے سے کما رہے ہیں
یا حرام؟ ہم آج ابھی اس وقت جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام؟ ان سب کی ایک وجہ
علمِ دین سے دوری ہے۔ ( اب آئیں حرام کھانے کی مذمت میں 4فرامین مصطفےصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں)
(1 )ایک شخص
طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان ( بکھرے ہوئے ) ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی
اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو ) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر
یارب یارب! کہتا ہے (دعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا
حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیوں کر مقبول ہوا ۔ یعنی اگر قبول
دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو۔
( 2) لوگوں پر
ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پر واہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل
کیا ہے، حلال سے یا حرام سے۔
( 3 )جو بندہ
مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے
لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے۔ اللہ
پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے، بے شک خبیث
(یعنی ناپاک) کو خبیث نہیں مناتا۔
(4) جس نے عیب والی چیز بیچ کی (یعنی بیچی) اور اُس (عیب) کو
ظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر
لعنت کرتے ہیں۔(حلال طریقے سے روزی کمانے کے 50مدنی پھول ،ص 2سے3)
لقمہ حرام کی نحوست: مُكاشَفَةُ الْقُلوب میں ہے: آدمی کے
پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کریگا جب تک اس
کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں ( یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں
) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔(مكاشَفَةُ القُلوب، ص 10)
حرام روزی اور دعا کا قبول نہ ہونا: حضرت سیدنا ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مؤمنین کو
اس بات کا حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا، اللہ نے فرمایا: اے رسولو! تم پاک
چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں(المؤمنون 51) اور
فرمایا اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ۔(البقره:
172)
پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے حال
یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے
کہتا ہے اے رب اے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا
لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو ۔(رزقِ حلال کی برکتیں )
اس حدیث پاک کی شرح کے کچھ مدنی پھول:
(1) یہ حدیث اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔
(2) اس حدیث میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
کھانے، پینے لباس کے متعلق اپنی امت کو تعلیم دی اور دعا کی قبولیت کے اسباب کو
بیان کیا۔
(3) اللہ پاک ہر عیب سے پاک ہے اور حلال پاکیزہ چیز ہی پسند
فرماتا ہے۔
(4) اچھے اور نیک سفر کرنے والا بھی حرام روزی کمائے گا تو
اس کی دعا قبول نہیں ہو گی حالانکہ سفر میں دعا قبول ہوتی ہے لیکن حرام روزی اس
میں رکاوٹ ہے۔
(5) اس روایت میں حلال مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی
ترغیب ہے۔
جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس نے کہاں سے مال
کمایا تو اللہ پاک کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ اسے جہنم کے کس دروازے سے داخل
کرے۔ جیسا کہ آپ نے پڑھا حدیث مبارک میں قراٰنِ کریم اس سے منع فرمایا اور اس کے
دنیا میں بھی نقصانات ہیں اور آخرت میں بھی ۔
الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے ہمیں حلال روزی کمانے اور
حرام روزی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم