شاہد احمد (درجہ خامسہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص
رزقِ حلال و حرام میں تمیز کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے
اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز،روزہ و دیگر فرائض پر عمل پیرا
ہونا۔مگر قابلِ تعجب یہ بات ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی کم ہی لوگ ہیں جو حلال و
حرام کی تمیز کرتے ہیں، بلکہ اس حیرت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب مسلم
سوسائٹی کے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز حرام کیوں ہے؟ اس کے استعمال میں
حرج کیا ہے؟ حالانکہ یہ بات مسلمان کی شان سے بعید ہے کہ وہ اللہ پاک کے نازل کردہ
قانون کو ماننے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے۔!
اللہ پاک نے پارہ 2 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 168میں
انسانیت کو یوں خطاب فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ
لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)﴾ ترجمۂ کنز
الایمان: اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ
رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ (پ2، البقرة: 168)
اسی طرح اللہ پاک نے سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 172 میں خاص
طور پر ایمان والو سے یوں خطاب فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ
كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری
چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)
اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 88 میں بھی رب تعالیٰ نے ایمان
والوں کو حلال و پاکیزہ رزق کھانے کی یوں تلقین کی چنانچہ اللہ پاک نے ایمان والوں
سے فرمایا:﴿وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا
اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۸۸)﴾ترجمہ کنزالایمان: اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو
اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔
مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رزقِ
حلال و طیب کھانے سے نیکیوں اور عمل صالح کی توفیق ملتی ہے، گویا کہ رزق حرام سے
بچنے والے انسان کیلئے نیک اعمال کرنے آسان ہو جاتے ہیں،رزقِ حلال سے تقوی و طہارت
کا حصول ہوتا ہے اور رزقِ حلال وہ عظیم دولت ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے اُسے اور
کچھ نہ ملے تو کوئی پرواہ نہیں، یعنی انسان رزقِ حلال کی برکت سے نقصان سے محفوظ
ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے
ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اگر
تیرے اندر یہ چار باتیں ہوں تو دنیا تجھ سے فوت بھی ہو جائے تو تجھے کوئی نقصان
نہیں، ایک امانت کی حفاظت، دوسری بات میں سچائی، تیسری اچھے اخلاق اور چوتھی کھانے
میں پاکیزگی(یعنی رزقِ حلال)(مسند احمد 6652، مستدرک ،349/4) اور دوسری
روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے حلال مال کمایا،
پھر اس کو اپنی ذات پر(خرچ کیا) یا دوسری اللہ پاک کی مخلوق کو کھلایا، یا ( اس
مال میں سے) کپڑا پہنایا تو اُس کیلئے یہ چیز پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ بنے
گی۔(صحیح ابن حبان،10/48،مستدرک،4/144)
رزقِ حرام کمانے کی حرمت و نحوست : رزق حرام
کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے، چنانچہ
قراٰنِ مجید میں سورہ نساء کی آیت نمبر29 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ
بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان
والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا
مندی کا ہو ۔(پ5، النسآء:29)
اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 188 میں بھی اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے کہ: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا
بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ
بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں
کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان
بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)
اسی طرح اللہ پاک نے سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 267 میں خبیث
اور مالِ حرام کے خرچ کرنے سے منع فرمایا کیونکہ مالِ حرام خبیث مال ہوتا ہے اور
ناپاک ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا
لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ
لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ
غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے
کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ
کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو
اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے۔(پ3،البقرۃ:267)
آئیے حرام مال کی مذمت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ
کرتے ہیں:
حضرت
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس
سے(اپنی ضرورت میں) خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہو گی، اور اگر اس مال سے صدقہ
دے گا تو (عنداللہ) قبول نہیں کیا جائے گا اور ترکہ میں اس مال کو چھوڑ کر
مرے گا تو وہ (مال) اس کیلئے جہنم کا توشہ ہو گا۔(مسند احمد،3672)
اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں
ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔(مسلم شریف 535)
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے
منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس ہر اللہ
پاک نے حرام کی ہے۔(مسند احمد،7482)
اللہ اکبر ! حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم مٹی سے پیٹ بھر لینے کو رزقِ حرام سے پیٹ بھرنے پر ترجیح دے رہے ہیں
،معلوم ہوا کہ رزق حرام سے بچنا مسلمان کیلئے ضروری امر ہے۔
حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا کہ جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہو گا جو حرام سے پلا ہو، اس کیلئے
تو دوزخ ہی مناسب ہے۔(ترمذی شریف 614)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ
قیامت کے دن بندے کے قدم ( اپنی جگہ سے) نہیں ہٹ سکتے، جب تک چار چیزوں کے متعلق
پوچھ گچھ نہ ہو جائے(1) عمر کہاں گنوائی؟(2) جوانی کہاں برباد کی؟(3) مال کو کہاں
سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟(4) جو علم سیکھا تھا اس پرکیا عمل کیا؟ (شعب
الایمان: 1785)
رزقِ حرام مقدار میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی با برکت نہیں
ہوتا، بعض دفعہ اس مالِ حرام کی وجہ سے اللہ پاک اس شخص کو ایسی
بیماریوں ،پریشانیوں یا ایسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہی اللہ پاک
کی نافرمانی (ظلم و زیادتی) سے کمایا ہوا مال تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔