ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی
سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، اس کو ظن بھی کہتے ہیں۔(بد گمانی،ص13)
بنیادی طور پر گمان کی دو
اقسام ہیں:(1)حسنِ ظن (یعنی اچھا گمان) (2)سوئے ظن(یعنی برا گمان)۔اسے بد گُمانی
بھی کہتے ہیں۔
پھر ان میں سے ہر ایک دو قسمیں
ہیں۔ حسنِ ظن کی اقسام: (1)واجب ،جیسے اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔
(2)مُستحَب، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا۔
سوئے ظن (بدگمانی)کی اقسام: (1)ممنوع حرام ۔جیسے اللہ پاک کے ساتھ برا گمان
کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا۔ (2)جائز ،جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا۔ جیسے افعال اس
سے ظہور میں آتے ہوں ۔ (صراط
الجنان،ص433،444)بدگمانی ایسی مذموم باطنی بیماری ہے جس کی مذمت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
آئیے بدگمانی کے بارے میں
حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات سنتے ہیں:
(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے
آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی
عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی
نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(صراط الجنان،ص435)
بد گمانی کا شرعی حکم بیان
کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ
شرعی نہ ہو۔( صراط الجنان،ص434)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول
وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( صراط الجنان،ص434)
(2) ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بےشک اس نے اپنے ربّ سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ
پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات،ص142)
(3) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم بدگمانی کر بیٹھو تو اس پر جمے نہ رہو۔ یعنی
اسے اپنے دل میں جگہ نہ دو ،نہ کسی عمل کے ذریعے اس کا اظہار کرو اور نہ اعضاء کے
ذریعے اس بدگمانی کو پختہ کرو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص144)
بدگمانی کی مذمت جو احادیث میں
بیان ہوئی وہ ایک طرف اس کے کئی دینی و دنیاوی نقصانات بھی ہیں، جیسے:
(1)جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر
دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری
حرام ہے ۔
(2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ
غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
(3)بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر
اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم
ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی
رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق
اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(صراط
الجنان،ص435،436)
اللہ پاک ہمیں بد گمانی جیسی
مہلک باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد بلال بن فیصل(درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ دار الحبیبیہ کراچی،
پاکستان)
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!
جس طرح گناہوں کے اِرتکاب میں جِسْم کے ظاہِری اَعضاء مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ
کا کِردار ہے اسی طرح ہمارے سینے میں دھڑکنے والا دِل بھی گناہوں کے اِضافے میں
اِن کے ساتھ برابر کا شریک ہے ۔ جب میدانِ مَحشَر میں آنکھ، کان وغیرہ سے حساب لیا
جائے گا تو یہ دِل بھی ان کے ساتھ شریک ہوگا۔ چنانچہ دِل سے پوچھا جائے گا کہ اِس
کے ذریعے کیا سوچا گیا اور پھر کیا اِعتِقاد رکھا گیا۔ بہت سارے دل سے ہونے والے گناہوں میں سے ایک گناہ بدگمانی
ہے آئیے ’’بدُگمانی‘‘ میں کے بارے کچھ جانتے ہیں۔
سوء ظن یعنی بدگمانی کی تعریف: بدگمانی سے مراد یہ
ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔ (شیطان
کے بعض ہتھیار، ص32)
آئیے ! اس سلسلے میں احادیثِ
مبارکہ میں بیان کردہ چند وعیدیں پڑھئے
اور خوفِ خدا سے لرزیئے:
(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی
بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث:
5143)
(2) اللہ پاک کے محبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان
کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی
تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے
بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے
بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ،
الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
محترم قارئین ! آپ نے بدگمانی
کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں اب بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات ملاحظہ کیجیے۔
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی ترغیب ملے، چنانچہ اس
کے 4 دینی نقصانات یہ ہیں:۔ (1)جس
کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے
سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر
مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔(2)
اگر اس کی غیر موجودگی میں دوسرے
کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت
کرنا حرام ہے ۔(3)بدگمانی
کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں لگ
جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں کو تلاش کرنا ناجائز و گناہ ہے ۔ (4)بد گمانی کرنے سے بغض
اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔(صراط الجنان ، 9/435 )
بد گمانی کے شرعی حکم کی تفصیل: صدر الشریعہ مفتی
امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں :بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا
ہونا ثابت ہوتا ہو(جیسا اس کے بارے میں گمان کیا) تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں آتے
جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے
والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا۔( فتاوی امجدیہ، 1 / 123)
بد گمانی کا علاج: بدگمانی کے علاج کے لئے
گمانوں کی کثرت سے بچئے، بُرے کاموں سے بچئے کیونکہ جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو
اس کے گُمان بھی بُرے ہو جاتے ہیں، بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، حُسنِ ظن (اچھا گمان)
کی عادت بنائیے، اپنے دِل کو سُتھرا رکھنے کی کوشش کیجئے، روزانہ دس بار ”اَعُوْذُ
بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم“ پڑھنے والے پر
شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر کر دیتا ہے، اپنے مسلمان
بھائیوں کی خُوبیوں پر نظر رکھئے، اپنی بُرائیوں پر نظر کیجئے اور انہیں دُور کرنے
میں لگ جائیے، جب بھی دل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنی
تَوَجُّہ اس کی طرف کرنے کے بجائے بدگمانی کے شَرْعِی اَحْکَام کو پیشِ نظر رکھئے
اور بدگمانی کے انجام پر نِگاہ رکھتے ہوئے خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے، جس سے
بدگمانی ہو اس کے لئے دُعَائے خیر کیجئے ۔
نوٹ: بدگمانی کے بارے میں تفصیلات
جاننے کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ57 صفحات پر
مشتمل رسالے ’’بدگمانی ‘‘کا ضرور مطالعہ کیجئے ۔
اللہ کریم ہمیں بدگمانی سے
بچنے اور مسلمانوں سے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن راولپنڈی، پاکستان)
اعلٰی
حضرت امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ایک
مسلمان پر بلا دلیل یہ گمان کیا کہ (کسی نیکی میں) اس کی نیت ریاکاری و تفاخر و
ناموری ہے تو یہ حرامِ قَطعِی ہے۔کسی برائی کا حکم بغیر واضح دلیل کے کسی معین
مسلمان کے لئے سمجھ لینا بدگمانی ہے اور بدگمانی حرام ہے۔ (ملخصاً، شیطان کے بعض
ہتھیار، ص39)
معاشرے
میں کئی فسادات اور برائیوں کے بڑھنے میں بدگمانی ایک بیج کا کردار ادا کر رہی ہے
کہ سب سے پہلے بندہ کسی شخص کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے غلط باتیں سوچ لیتا ہے،
پھر تجسس میں لگ جاتا ہے، موقع دیکھتے ہے غیبتوں اور تہمتوں کا سلسلہ شروع، پھر جس
شخص کے خلاف یہ کاروائیاں جاری ہوں اور اسے معلوم ہو جائے تو بدلے کی آگ جل اٹھتی
ہے اور نہ جانے پھر یہ آگ کہاں تک تباہی کردیتی ہے۔ بدگمانی اور اس طرح کی ہر بیماری
کا اول سبب تو لاعلمی ہی ہے کہ جب قراٰن و حدیث کو سمجھ کر پڑھیں گے ہی نہیں تو کیسے
معلوم ہوگا کہ ہمیں شریعتِ اسلامیہ بدگمانی تو دور زیادہ گمان کرنے سے بھی منع کرتی
ہے کہ کوئی گمان بدگمانی نہ ہو جائے، جیسا کہ قراٰن مجید میں ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) اسی
طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی بدگمانی سے منع کیا گیا ہے۔”سوچ“ کے تین حروف کی نسبت
سے بدگمانی کی مذمت پر 3 احادیثِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں:
(1)
فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بدگمانی سے بچو بے شک بدگمانی
بدترین جھوٹ ہے۔( شیطان کے بعض ہتھیار، ص32)
(2)فرمانِ
رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مسلمان کاخون، مال اور اس سے
بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔(بدگمانی، ص18)
(3)حضور
رحمۃ الّلعٰلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی
کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے ربّ سے بدگمانی کی۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات، ص12)
ان
احادیثِ مبارکہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بدگمانی جھوٹ کی بھی بدترین
صورت ہے اور حرام ہے۔ جبکہ لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے، اور جدید دور میں
بدگمانی کی بھی جدید قسمیں رائج ہوگئیں، مثلاً: کال نہ اٹھائی تو بدگمانی کہ جان
بوجھ کر نہیں اٹھائی ، سائیکل سے بائیک لی یا بائیک سے کار یا کرائے کے مکان سے
اپنے مکان میں چلا گیا تو بدگمانی کہ حرام کماتا ہے، کوئی بڑا منصب مل گیا تو
بدگمانی کہ رشوت دی ہوگی یا سفارش کروائی ہوگی، امام مسجد چند منٹ لیٹ ہوجائیں تو
بدگمانی کہ سویا ہوگا یا فکر ہی نہیں نماز کی وغیرہ ، الغرض طرح طرح کی باتیں اور
خیالات بغیر کسی ثبوت کے گڑھ لیے جاتے ہیں اور اگر پوچھ لیا جائے کہ اس بات کا
ثبوت ہے آپ کے پاس تو جواب ملتا ہے کہ بس جی! ہمیں سب پتا ہے۔ اللہ کے بندوں! تمہیں
کون یہ غیب کی خبریں دے رہا ہے؟ کون سے مؤکل یہ سب آپ تک پہنچا رہے ہیں؟ خدارا جب
تک کسی معاملے کا یقینی علم نہ ہو، تب تک کوئی غلط خیال نہ لائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ
ہمیشہ حسنِ ظن رکھیں کہ ضرور کوئی مجبوری یا بہتری ہوگی۔ اللہ پاک ہمیں بدگمانی سے سے بچنے اور حسنِ ظن قائم کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔
خُدایا عطا کر دے رحمت کا پانی
رہے قَلب اُجلا دُھلے بد گُمانی
مصطفیٰ رضا عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
اولیا احمدآباد، ہند)
ایک انسان کی زندگی میں نیکی
اور گناہ کا ارتکاب جس طرح ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے جیسے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان، وغیرہ اسی طرح دل بھی نیکی اور گناہ کے ارتکاب
میں برابر شریک ہوتا ہے جیسے انسان کسی سے
حسد کرے یا، بغض و کینہ، یا کسی کے بارے
میں اچھا یا برا گمان رکھے، وغیرہ بہت سے کام اسے ہیں جو دل سے سرزد ہوتے ہیں کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بُرے دل سے جو برے
کام سرزد ہوتے ہیں انہی برے کام میں سے بد گمانی بھی ہے ۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) آیت کریمہ میں کثرتِ گمان سے منع کیا
گیا کیوں کہ زیادہ گمان کی وجہ سے انسان حسد ، بغض و عداوت ، غیبت جیسی خطرناک
بیماریوں میں جا پڑتا ہے۔
نوٹ! یاد رہے جس گمان کی وجہ
سے انسان گناہ میں کے دلدل میں دھنستا ہے اُس گمان سے مراد بد(برا) گمان ہے۔
بد گُمانی کی تعریف: شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بد گُمانی کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ
بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے كا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)
بد گُمانی کی مذمت اور اس سے
بچنے کے متعلق احادیثِ مبارکہ پڑھئے:
(1)نبی مکرم شافع اُمم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح
البخاری،کتاب النکاح،باب ما یخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث: 5143)
(2) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا ،
بیشک اس نے اپنے ربّ سے برا گمان رکھا۔(الدر المنثور ،پارہ 26،الحجرات،
تحت الآیۃ 12 ، 7/566)
احادیث کی روشنی میں بدگُمانی
کی مذمت بیان ہوئی پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ اس باطنی بیماری سے
بچتے رہیں اور اس دل کی بیماری کا علاج
کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
بد گُمانی کے چند علاج:(1)ہم اپنے مسلمان
بھائی کی خوبیوں پر نظر رکھے اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کسی کے بارے میں برا خیال
آیا بھی تو ہم اس کی کوئی اچھائی کو سامنے رکھ کر بد گُمانی کو دور کر سکتے ہیں۔(2)جب
بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی پیدا ہو تو اسے جھٹکنے کی کوشش کرے اور اس کے بارے میں حسن ظن رکھے کیونکہ حسن ظن
(اچھا گمان) عبادت ہے حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان عالیشان ہے ۔ اچھا گمان اچھی عبادت
سے ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب ،4/387،حدیث: 4993)(3)نیکوں کی صحبت اختیار کرے ۔(4)دل
کا محاسبہ کرتے رہے ۔ دل کے محاسبے کا بہترین ذریعہ امیرِ اہلسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم
العالیہ کا عطا کردہ ′نیک اعمال′ نامی رسالہ بھی ہے اس کے مطابق عمل کرکے دل کے محاسبے میں کئی حد تک آسانی
ہوگی۔ (5)اپنی اصلاح
کی کوشش کرتے رہیں کیونکہ جو خود نیک ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی اچھا گمان
رکھے گا اور جو خود برا ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی برا ہی گمان رکھے گا عربی کا مقولہ ہے : إذا ساءَ
فِعلُ المرءِ ساءتْ ظنونُهُ ( یعنی جب کسی
کے کام برے ہو جاتے ہیں تو اس کے گمان بھی برے ہو جاتے ہیں )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
جب بھی کسی کے بارے میں بد گُمانی دل میں آئے تو اسے جھٹکیں اور اس کے بارے میں
حسنِ ظن رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر وہ صحیح ہوگا تو آپ کو حسنِ ظن کا ثواب مل جائے گا اور اگر وہ غلط بھی ہوا تو آپ اس پر
حسنِ ظن رکھنے کی برکت سے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے ۔
امامِ اہل سنت مجدد دین و ملت
الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے
ہیں : مسلمان کا حال حتی الامکان صلاح (یعنی اچھائی) پر حمل کرنا ( یعنی گمان
کرنا) واجب ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ شریف، 9/691)
امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ
مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں :حسنِ ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بد گُمانی میں
کوئی فائدہ نہیں۔
اللہ پاک ہمیں بد گُمانی جیسی
خطرناک بیماری سے نجات عطا فرمائے اور حسن ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ
طٰہٰ و يٰسٓ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اصغر علی عطّاری مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضان عمر
بن عبدالعزیز بروڈا گجرات، ہند)
اللہ پاک نے انسانوں پر فضل
فرمایا اور اسے کثیر نعمتوں سے سرفراز فرمایا انہی میں سے ایک نعمت حسن ظن بھی ہے
جس کا حصول کثیر فضائل و فوائد کا مجموعہ ہے اسی کے بر عکس ایک وصف قبیح(برا) بھی
پایا جاتا ہے جسے بد گمانی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
آئیے اس کے متعلق کچھ باتیں
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ پاک ہم سب کو بری خصلتوں سے بچا کر اچھی خصلتوں کا
خوگر بنائے۔ اٰمین
بد گمانی کیا ہے؟ بد گمانی مطلقاً برے گمان کو کہتے ہیں ۔ مسلمانوں سے اچھا گمان
رکھنا واجب اور بد گمانی سے بچنا لازم ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا
كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ
ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد
شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے
میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ
یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ،
پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)
اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا
اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے
میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی
غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ،
الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)
معلوم ہوا کہ بد گمانی کا
ثبوت قراٰن کریم سے بھی ہے ۔ آئیے مزید احادیث مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی
روشنی میں اس وصفِ قبیح کے بارے میں جانتے ہیں:۔
حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سَرْوَر ، دو جہاں کے تاجْوَر ، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میری امت میں تین چیزیں لازِماً رہیں گی : بدفالی ، حَسَد اور بد ُگمانی۔ ‘‘ ایک
صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی : ’’یارسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !
جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تدارُک کرے ؟‘‘ارشاد فرمایا : ’’جب تم حَسَد کرو تو اللہ
پاک سے اِسْتِغْفار کرو اور جب تم کوئی بد ُگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب
تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔ ‘‘ (المعجم الکبیر ، 3/228،حدیث: 3227)
مزید تین فرامینِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔
(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی
بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث:
5143)
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان
،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے
بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے
بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)
یاد رہے بد گمانی اسی صورت
میں موجب گناہ ہوگی جبکہ دل میں اس گمان کا یقین پایا جائے محض کسی شخص کے متعلق
دل میں غلط خیال آجانے کا نام بد گمانی نہیں ہے وگرنہ اس سے بچنا انتہائی دشوار
امر ہوجائے گا۔
اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس
شخص کے ساتھ آپ کا رویہ مختلف ہوجائے یا اس کی نفرت دل میں پائی جائے یا اس کی اہمیت
جو دل میں تھی اس میں کمی واقع ہوجائے یا اس کی طرف سے آپ لا پروا ہوجائیں جو فکر
اس کی دل میں تھی ختم ہوجائے، تو ان صورتوں میں ممکن ہے کہ آپ فرد مقابل کہ متعلق
گمانِ بد میں مبتلا ہوں۔
مذکورہ بالا آیات قراٰنی اور
احادیث کریمہ سے واضح ہو گیا کہ بد گمانی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کا مرتکب گنہگار
اور عذابِ نار کا حقدار ہے نیز یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس سے بچنا از حد ضروری ہے
کیونکہ اس گناہ کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اس سے
بچنے کی اس کے واسطے کوشش کرنے نیز اس سے دوسروں کو بچانے والا بنائے۔ اٰمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس
میں انسانوں کے با ہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور
معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان
سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی
زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر
دیتی ہے۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس
کے متعلق دو عادل گواہ ہوں۔ آئیے ! بد گمانی کی مذمت کے سلسلے میں احادیث کریمہ
ملاحظہ فر مائیں :
(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ
بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ
کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو
بھائی بھائی ہو جائو۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ
والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)
(2) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ
پاک قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہر
کیے، اللہ پاک اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو اس کے گھر میں رسوا
کر دے گا۔ (کشف الخفاء، 2/133)
(3)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟
صحابہ کرام نے عرض کیا: جی یارسولُ اللہ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: وہ چغل خور لوگ ہیں جو اچھے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔ (علل حدیث،2/392،
حدیث: 7832)
(4) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی
کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب
الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
بدگمانی کے نُقصانات: بدگمانی کے بہت
سے نُقصانات ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
(1) اگر سامنے والے پر اپنی بدگمانی کرنے کااظہار
کِیا تو اُس کی دِل آزاری کا قوی اندیشہ ہے اور بغیر اِجازتِ شرعی مسلمان کی دِل
آزاری حرام ہے ۔
(2) اگر اس کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے پر
اِظہار کِیا تو غِیبت ہوجائے گی اور مُسَلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
(3) بدگُمانی کے نتیجے میں تَجَسُّس پیدا ہوتا
ہے، کیونکہ دِل محض گُمان پر صَبْر نہیں کرتا، بلکہ تَحْقِیْق طَلَب کرتا ہے، جس
کی وجہ سے اِنسان تَجَسُّس میں جا پڑتا ہے اور تَجَسُّس یعنی اپنے مُسَلمان
بھائیوں کے گُناہوں کی ٹَوہ میں رہنا یہ بھی ممنوع ہے ۔
(4) بدگمانی سے بُغض،حَسَد، کینہ، نَفْرت اور
عَداوت جیسے باطِنی اَمراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔(فتح الباری ،10/ 410، حدیث:6066)
(5) بات بات پر بدگمانی کرنے والے شَخْص سے لوگ کَتراتے ہیں اور ایسا شَخْص لوگوں کی نگاہوں
میں ذَلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
بد گمانی سے بچنے کی تر غیب: بد گمانی کی روک
تھام کے لیے ہمیں چاہئے کہ اپنے مسلمان
بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ جو اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں حسن ِظن رکھتا ہے اسے سکونِ قلب نصیب ہوتا اور جو بد ُگمانی کی بُری عادت
میں مبتلا ہو اس کے دِل میں وحشتوں کا بسیرا رہتا ہے۔
اپنی اِصلاح کی کوشش جاری
رکھئے کیونکہ جو خود نیک ہوتا ہے وہ دوسروں کے بارے میں بھی اچھے ُگمان رکھتا
ہے۔ بُری صحبت سے بچتے ہوئے نیک صحبت
اِختِیار کیجئے ، جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وہیں بد ُگمانی سے بچنے
میں بھی مدد ملے گی۔
جب بھی کسی مسلمان کے بارے
میں دِل میں بُرا گُمان آئے تو اسے جھٹکنے کی کوشش
کریں اور اس کے عمل پر اچھا گُمان قائم
کرنے کی کوشش کریں ۔ جب بھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بد ُگمانی پیدا ہو تو اپنی توجہ اس کی طرف
کرنے کے بجائے بد ُگمانی کے شرعی اَحکام کو پیش ِنظر رکھئے اور بد ُگمانی کے انجام
پر نگاہ رکھتے ہوئے خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے ۔ دِل کے مُحَاسَبے میں کبھی غفلت نہ کیجئے ورنہ شیطان مسلسل کوشش کے
ذریعے بالآخر بد ُگمانی میں مبتلا کروا
سکتا ہے۔
شفیع ُالمذنبین ، انیس
ُالغریبین ، سراج ُالسالکین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ لوگوں سے منہ پھیر لو کیا تم نہیں جانتے
کہ اگر تم لوگوں میں شک کے پیچھے چلو گے تو انہیں فساد میں ڈال دو گے۔
اللہ پاک امت مسلمہ کو ایسے
فتنوں سے محفوظ فر مائے اور اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فضل خاص عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد ساجد رضا عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مولیٰ علی کرنیل گنج گونڈہ اُتر پردیش ، ہند )
انسان کی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری
کا نام بد گُمانی بھی ہے، ایک تعداد ہے
جو اس بیماری میں مبتلا نظر آتی ہے بلکہ انسانوں کی اکثر تعداد اس بیماری میں
مبتلا ہے۔
بد گُمانی کی تعریف: امیرِ اہلسنّت بانِی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ بد گمانی کی تعریف کرتے
ہوئے فرماتے ہیں: بد گُمانی سے مُراد یہ ہے: بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے
اعتقاد جازم یعنی يقین کرنا۔( شیطان کے بعض ہتھیار ،ص 32) بد گُمانی کو سوئے ظن اور برا گمان بھی کہا
جاتا ہے۔
بد گُمانی کے متعلق 5 فرامینِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
(1)اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی
کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب
الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
(2)نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی
بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث:
5143)
(3)آقائے نامدار، مدینے کے
تاجدار، دونوں عالم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(4) ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب
تم حسد کرو تو زیادتی نہ کرو، جب تمہیں بد گُمانی پیدا ہو تو اُس پر یقین نہ کرو
اور جب تمہیں بد شگونی پیدا ہو تو اسے کر گزرو اور اللہ پاک پر بھروسہ کرو۔(الکامل
فی ضعفاءالرجال،عبدالرحمن بن سعد،5/509)
(5)فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میری اُمت میں تین چیزیں لازماً
رہیں گی: بدفالی،حسد اور بد گُمانی۔ ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جس شخص میں یہ تین خصلتیں(Traits) ہوں وہ اُن کا
تدارک(علاج) کس طرح کرے؟ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو
اور جب تم بد گُمانی کرو تو اُس پر جمے نہ رہو اور جب تم بد فالی نکالو تو اُس کام
کو کر لو۔ (معجم کبیر،3/228،حدیث:3227)
تو تمام احادیثِ مبارکہ اور آیت مبارکہ کی
روشنی میں معلوم یہ چلا کہ بد گُمانی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا كام ہے۔
بد گُمانی کے نقصانات: پیارے
اسلامی بھائیو! والدین اولاد ، بھائی بہن، ساس بہو، شوہر و بيوی بلکہ تمام اہلِ
خاندان نیز اُستاد و شاگرد،سیٹھ و نوکر،راجا و پرجا،افسر و مزدور الغرض ایسا لگتا
ہے کہ تمام دینی و دنیوی شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت اس وقت بد
گُمانی کی خوفناک آفت کی لپیٹ میں ہے کسی کو موبائل پر فون کرو اور وہ Receive نہ کرے تو بد گُمانی۔ کاروبار میں نقصان ہو گیا تو قریبی کاروباری
حریف سے بد گُمانی، کسی فیکٹری سے اچھی نوکری سے فارغ ہو گئے تو دفتر کے کسی فرد
سے بد گُمانی، تنظیمی طور پر خلافِ توقع بات ہو گئی تو ذمّہ داران سے بد گُمانی،
اجتماعی ذکر و نعت کے انتظامات میں کمزوری ہوئی تو فوراً منتظمین سے بد گُمانی،
اجتماعی ذکر و نعت میں کوئی شخص جھوم رہا ہے یا رو رہا ہے تو بد گُمانی، جس نے قرض
لیا اور وہ رابطے میں نہیں آ رہا تو بد گُمانی، جس سے مال بُک کروا لیا وہ مل نہیں
رہا تو بد گُمانی، کسی نے وقت دیا آنے میں تاخیر ہو گئی تو بد گُمانی، کسی کے پاس
اچانک مختصر وقت میں گاڑی، پیسہ، مکان، زمین، مال اور دیگر سہولیات آ گئی تو بد
گُمانی، کسی کو شہرت مل گئی تو بد گُمانی، اور گھر کی بات کریں تو گھر میں ایک
دوسرے کے متعلق بد گمانیا ہی بد گمانیاں ، یوں ہر طرف لوگ بد گُمانی کے شکار ہیں۔
ہم غور کرتے جائیں تو شب و روز نہ جانے کتنی
بار ہم بد گُمانی کا شکار ہوتے ہوں گے پہلے تو ہم کسی شخص کے متعلق بد گمانی کرتے
ہیں پھر شیطان اس شخص کے عیبوں پر ٹوہ لگاتا، حسد پر ابھارتا ، غیبت اور بہتان پر
اکساتا اور پھر آخرت برباد کر دیتا ہے۔
اس بد گُمانی کی وجہ سے بھائی بھائی میں
دشمنی،ساس بہو میں ،میاں بیوی میں جھگڑا،بھائی بہن میں، راجا و پرجا میں، استاد و
شاگرد میں، سیٹھ و نوکر میں، افسر و مزدور میں، پیر و مرید میں اختلاف قائم ہو
جاتے ہیں اور يوں ایک اچھا خاصا گھر، اچھا خاصا قبیلہ، آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد، ایک دوسرے سے
محبت پل بھر میں ختم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ہم کو نا قابلِ بیان نقصان
اٹھانا پڑتا ہے۔
بد گُمانی سے بچنے کے لیے بد
گُمانی کے علاج: پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! بد گُمانی کے نقصانات سے بچنے کے لیے درج ذیل باتوں کا خیال رکھتے ہوئے
عمل کی کوشش کرے۔
پہلا علاج: سب سے پہلے
ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق اپنے دل اور ذہن میں اچھے خیالات رکھیں کیونکہ جو
اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق اپنے دل میں اچھے خیالات رکھتا ہے تو اُسے سکونِ قلب
نصیب ہوتا ہے اور جو برے خیالات رکھتا ہے تو وہ شیطانی وسوسوں میں مبتلا رہتا ہے۔
دوسرا علاج: برے صحبت سے بچتے ہوئے نیک صحبت اختیار
کیجئے جب اچھی صحبت میں رہینگے تو جہاں بد گُمانی جیسے گناہ سے بچیں گے وہیں نیک
صحبت کی برکت بھی ملےگی کیونکہ نیک صحبت انسان کو نیک بنا دیتی ہے اور بری صحبت
انسان کو بُرا بنا دیتی ہے۔
تیسرا علاج: اپنے کام سے
کام رکھيں دوسرے کے کاموں میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائےتو انشاء اللہ دل میں
برے خیالات آئیں گے ہی نہیں۔
چوتھا علاج: جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی آئے تو اُس کے لئے
دعائے خیر کریں اور اُس کی عزت میں اضافہ کریں تو اس سے شیطان اپنے مقصد میں نا
کامیاب ہو جائے گا۔
پانچواں علاج:
اپنے دل اور نفس کا محاسبہ کرتے رہیے اور اس کی عادت بنا
لیجئے ورنہ شیطان اپنے کوششوں کے ذریعے بلآخر بد گُمانی میں مبتلا کروا سکتا ہے۔
چھٹا علاج: اپنے دل اور دماغ کو ہمیشہ پاک اور صاف رکھئے اور موت اور
آخرت کو ياد کرتے رہیے۔
ساتواں علاج: جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی آئے تو بد گُمانی
کے شرعی احکام کو مدّ نظر رکھتے ہوئے عذابِ الٰہی کو یاد کریئے اور سوچیئے کہ دنیا
کی آگ برداشت نہیں تو جہنّم کی آگ کیسے برداشت کرینگے۔
آٹھواں علاج: اللہ پاک سے دعائیں کرتے رہیئے دعا یوں کیجئے: اے میرے
پروردگار! تیرا یہ ناتواں کمزور بندہ شیطان کو ہرانے کے لیے، دنیا اور آخرت کی
کامیابی کے لیے اس بد گُمانی سے بچنا چاہتا ہے یا ربِ کریم! میری مدد فرما اور
مجھے اس سے بچنے میں کامیابی عطا فرما۔ اے میرے مالک و مولا! مجھے تیرے خوف سے
کانپنے والا دل، رونے والی آنکھیں اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
نواں علاج: پیارے اسلامی بھائیو! بد گُمانی سے بچنے کے لئے ان تمام باتوں پر عمل کرتے ہوئے کچھ روحانی علاج
کو بھی اپنائیے ۔
بد گُمانی سے بچنے کے لئے
تین روحانی علاج: (1)جب بھی کسی
کے متعلق بد گُمانی ہو تو فوراً "اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم" ایک بار پڑھیے اور اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو
کریئے۔ ( 2) هُوَ
الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ پڑھ لینے سے فوراً
وسوسہ دور ہو جاتا ہے۔(3) سورہ اخلاص گیارہ بار صبح ( آدھی رات ڈھلے سے سورج کی
پہلی کرن چمکنے تک صبح ہے) پڑھنے والے پر اگر شیطان لشکر کے ساتھ کوشش کرے کہ اس
سے گناہ کرائے تو نہ کرا سکے جب تک کہ یہ خود نہ کرے۔ (4)روزانہ دس بار "اعوذ باللہ
من الشیطٰن الرجیم" پڑھنے والے پر شیطان سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک
ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے۔ (5)
سورۃ الناس پڑھ لینے سے بھی وسوسہ دور ہو جاتا ہے۔
کوشش جاری رکھئے: پیارے اسلامی
بھائیو! یاد رکھئے کہ اگر کوئی ان سب باتوں پر عمل کرنے کے باوجود بد گُمانی سے
نہیں بچ پا رہے تو ہار نہ مانیے بلکہ کوشش جاری رکھیے کیونکہ ہمارے اُستاد صاحب
فرماتے ہیں : جس نے کوشش کی اُس نے کامیابی پائی۔
دوسروں کو بھی بد گُمانی سے بچائیے: یاد رکھئیے!
خود تو بد گُمانی سے بچیے ہی نیز دوسروں کو بھی بد گُمانی سے بچائیے ایسے کام کرنے
سے پرہیز کیجئے کہ جس کی وجہ سے کسی دوسرے کو بد گُمانی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔
دُعا: اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، بد
گُمانی اور دیگر گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبی سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
خدا! بد گُمانی کی عادت مٹا دے
مجھے حُسنِ ظن کا تو
عادی بنا دے
میرا تن صفا ہو میرا من صفا ہو
خدا! حُسنِ ظن کا خزانہ عطا ہو
سمیع اللہ (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ حیدرآباد فیضانِ
امام احمد رضا خان، ہند)
بدگمانی کی تعریف بیان کرتے
ہوئے امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا
دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم(یعنی یقین) کرنا۔(شیطان کے بعض
ہتھیار،ص32)
بدگمانی ایک ایسی بری چیز ہے
کہ اس کے متعلق قراٰن کریم میں ایمان والوں سے فرمایا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
اسی طرح کثیر احادیث میں بھی
بدگمانی سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کا فرمایا گیا ہے، ان میں سے پانچ احادیث درج
ذیل ہیں۔
(2)رب سے بدگمانی: اُمُّ المؤمنین حضرت
سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی
بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:( اجْتَنِبُوْا
كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ
کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق،ظن السوء ، 2/199، حدیث : 7582)
(3)سب سے جھوٹی بات: حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفرائض،
باب تعلیم الفرائض، 4/313، حدیث:6724)
(4)منہ سے نکلنے والی بات: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے
والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور،
الحجرات، تحت الاٰيۃ:12، 7/566)
(5)عمدہ عبادت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حُسنِ
ظن عمدہ عبادت ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الظنّ،4/387، حدیث:4993)
بدگمانی سے متعلق مزید
معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب [بدگمانی] (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا
مفید ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ الکریم۔
اللہ پاک ہمیں بدگمانی سے
بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
مجھے غیبت و چغلی و بدگمانی
کی آفات سے تو بچا یا الٰہی (وسائلِ
بخشش، ص80)
محمد صابر عطّاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح
شاہ ولی ہبلی کرناٹک ، ہند)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
یقیناً دلوں کے حالات اللہ پاک کے علاوہ
کوئی اور نہیں جانتا اور وہی ہر غیب کو جاننے والا ہے بیشک ہمارے دلوں میں جو کچھ
ہم لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں اللہ پاک اس کو جانتا ہے کوئی اچھا سوچتا ہے تو کوئی برا سوچتا ہے۔ اچھا سوچنا (گمان کرنا) کبھی واجب ہوتا ہے تو کبھی مستحب اور برا گمان کبھی جائز تو کبھی ممنوع لیکن کسی نیک
شخص کے بارے بدگمانی (برا گمان) کرنا حرام ہے۔ ہمیں ان سب کاموں سے بچنا بےحد
ضروری جن امور کو اللہ پاک نے ہم حرام کیا ہے
بدگمانی کی تعریف: کسی واضح قرینے کے بغیر کسی مسلمان کے بارے میں برائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بد
گمانی کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص343)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا
مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مؤمن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ
بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت
سے بچا جائے۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 12، 7 / 352)
(1) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بدگمانی کی بیشک اس نے
اپنے رب سے بدگمانی کی۔ (بدگمانی کی تباہ کاریاں، ص5)
(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بد
گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفراءض، باب تعلیم
الفرائض، 4 / 313، حدیث: 6724)
(3) ارشاد فرمایا حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیشک اللہ پاک نے مسلمان کا خون، مال حرام قرار دیا ہے
اور یہ بھی حرام ٹھہرایا ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی یعنی برا گمان کیا
جائے۔ (شعب الایمان، 5/297، حدیث:6706)
(4)حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں :تم اپنے بھائی کے
منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت
الآیۃ: 12، 7/ 566)
(5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ پاک کے ساتھ برا گمان رکھنا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے
ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، 1 / 364، حدیث: 1469)
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی
ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی
ترغیب ملے، چنانچہ اس کے 3دینی نقصانات یہ ہیں: (1) جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر
دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری
حرام ہے ۔ (2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور
مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ (3)بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک
اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔
اور اس کے دو بڑے دُنْیَوی نقصانات
یہ ہیں :۔(1) بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر
اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم
ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی
رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق
اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(2) دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج
اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا
ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی
ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے
میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ%86بڑھ
جاتا ہے۔
بد گمانی کا علاج: امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل
میں بدگمانی ڈالتا ہے تو مسلمان کو چاہیے
کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش
نہ کرے حتّٰی کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو پھر بھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی
کر کلی کردی ہو یا کسی نے اس کو جَبراً
شراب پلادی ہو اور اس کااِحتمال ہے تو وہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کر کے شیطان کو خوش
نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا
گناہ نہیں ہوگا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے)۔ (احیاء العلوم ، کتاب
آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، 3 / 186ملخصاً)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
بدگمانی کی ہلاکت سے بچنے کے لئے اور اس باطنی بیماری کو دور کرنے کے لئے ہمیں
عملی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ مسلمان بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور بری صحبت
سے بچیں اور اچھی صحبت اختیار کیجئے کیونکہ بری صحبت سے برے گمان پیدا ہوتے ہیں
اگر پیدا ہو تو اس کے انجام پر غور و فکر کریں اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں
اور مالک و مولا کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں ۔
اللہ پاک ہمیں بد ُگمانی سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین