محمد صابر عطّاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح
شاہ ولی ہبلی کرناٹک ، ہند)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
یقیناً دلوں کے حالات اللہ پاک کے علاوہ
کوئی اور نہیں جانتا اور وہی ہر غیب کو جاننے والا ہے بیشک ہمارے دلوں میں جو کچھ
ہم لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں اللہ پاک اس کو جانتا ہے کوئی اچھا سوچتا ہے تو کوئی برا سوچتا ہے۔ اچھا سوچنا (گمان کرنا) کبھی واجب ہوتا ہے تو کبھی مستحب اور برا گمان کبھی جائز تو کبھی ممنوع لیکن کسی نیک
شخص کے بارے بدگمانی (برا گمان) کرنا حرام ہے۔ ہمیں ان سب کاموں سے بچنا بےحد
ضروری جن امور کو اللہ پاک نے ہم حرام کیا ہے
بدگمانی کی تعریف: کسی واضح قرینے کے بغیر کسی مسلمان کے بارے میں برائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بد
گمانی کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص343)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا
مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )
آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے اپنے مؤمن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ
بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت
سے بچا جائے۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 12، 7 / 352)
(1) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بدگمانی کی بیشک اس نے
اپنے رب سے بدگمانی کی۔ (بدگمانی کی تباہ کاریاں، ص5)
(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بد
گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفراءض، باب تعلیم
الفرائض، 4 / 313، حدیث: 6724)
(3) ارشاد فرمایا حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیشک اللہ پاک نے مسلمان کا خون، مال حرام قرار دیا ہے
اور یہ بھی حرام ٹھہرایا ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی یعنی برا گمان کیا
جائے۔ (شعب الایمان، 5/297، حدیث:6706)
(4)حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں :تم اپنے بھائی کے
منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت
الآیۃ: 12، 7/ 566)
(5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ پاک کے ساتھ برا گمان رکھنا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے
ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، 1 / 364، حدیث: 1469)
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی
ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی
ترغیب ملے، چنانچہ اس کے 3دینی نقصانات یہ ہیں: (1) جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر
دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری
حرام ہے ۔ (2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور
مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ (3)بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک
اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔
اور اس کے دو بڑے دُنْیَوی نقصانات
یہ ہیں :۔(1) بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر
اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم
ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی
رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق
اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(2) دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج
اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا
ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی
ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے
میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ%86بڑھ
جاتا ہے۔
بد گمانی کا علاج: امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل
میں بدگمانی ڈالتا ہے تو مسلمان کو چاہیے
کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش
نہ کرے حتّٰی کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو پھر بھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی
کر کلی کردی ہو یا کسی نے اس کو جَبراً
شراب پلادی ہو اور اس کااِحتمال ہے تو وہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کر کے شیطان کو خوش
نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا
گناہ نہیں ہوگا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے)۔ (احیاء العلوم ، کتاب
آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، 3 / 186ملخصاً)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
بدگمانی کی ہلاکت سے بچنے کے لئے اور اس باطنی بیماری کو دور کرنے کے لئے ہمیں
عملی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ مسلمان بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور بری صحبت
سے بچیں اور اچھی صحبت اختیار کیجئے کیونکہ بری صحبت سے برے گمان پیدا ہوتے ہیں
اگر پیدا ہو تو اس کے انجام پر غور و فکر کریں اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں
اور مالک و مولا کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں ۔
اللہ پاک ہمیں بد ُگمانی سے بچنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین