اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ایک مسلمان پر بلا دلیل یہ گمان کیا کہ (کسی نیکی میں) اس کی نیت ریاکاری و تفاخر و ناموری ہے تو یہ حرامِ قَطعِی ہے۔کسی برائی کا حکم بغیر واضح دلیل کے کسی معین مسلمان کے لئے سمجھ لینا بدگمانی ہے اور بدگمانی حرام ہے۔ (ملخصاً، شیطان کے بعض ہتھیار، ص39)

معاشرے میں کئی فسادات اور برائیوں کے بڑھنے میں بدگمانی ایک بیج کا کردار ادا کر رہی ہے کہ سب سے پہلے بندہ کسی شخص کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے غلط باتیں سوچ لیتا ہے، پھر تجسس میں لگ جاتا ہے، موقع دیکھتے ہے غیبتوں اور تہمتوں کا سلسلہ شروع، پھر جس شخص کے خلاف یہ کاروائیاں جاری ہوں اور اسے معلوم ہو جائے تو بدلے کی آگ جل اٹھتی ہے اور نہ جانے پھر یہ آگ کہاں تک تباہی کردیتی ہے۔ بدگمانی اور اس طرح کی ہر بیماری کا اول سبب تو لاعلمی ہی ہے کہ جب قراٰن و حدیث کو سمجھ کر پڑھیں گے ہی نہیں تو کیسے معلوم ہوگا کہ ہمیں شریعتِ اسلامیہ بدگمانی تو دور زیادہ گمان کرنے سے بھی منع کرتی ہے کہ کوئی گمان بدگمانی نہ ہو جائے، جیسا کہ قراٰن مجید میں ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی بدگمانی سے منع کیا گیا ہے۔”سوچ“ کے تین حروف کی نسبت سے بدگمانی کی مذمت پر 3 احادیثِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں:

(1) فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بدگمانی سے بچو بے شک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔( شیطان کے بعض ہتھیار، ص32)

(2)فرمانِ رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مسلمان کاخون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔(بدگمانی، ص18)

(3)حضور رحمۃ الّلعٰلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے ربّ  سے بدگمانی کی۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص12)

ان احادیثِ مبارکہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بدگمانی جھوٹ کی بھی بدترین صورت ہے اور حرام ہے۔ جبکہ لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے، اور جدید دور میں بدگمانی کی بھی جدید قسمیں رائج ہوگئیں، مثلاً: کال نہ اٹھائی تو بدگمانی کہ جان بوجھ کر نہیں اٹھائی ، سائیکل سے بائیک لی یا بائیک سے کار یا کرائے کے مکان سے اپنے مکان میں چلا گیا تو بدگمانی کہ حرام کماتا ہے، کوئی بڑا منصب مل گیا تو بدگمانی کہ رشوت دی ہوگی یا سفارش کروائی ہوگی، امام مسجد چند منٹ لیٹ ہوجائیں تو بدگمانی کہ سویا ہوگا یا فکر ہی نہیں نماز کی وغیرہ ، الغرض طرح طرح کی باتیں اور خیالات بغیر کسی ثبوت کے گڑھ لیے جاتے ہیں اور اگر پوچھ لیا جائے کہ اس بات کا ثبوت ہے آپ کے پاس تو جواب ملتا ہے کہ بس جی! ہمیں سب پتا ہے۔ اللہ کے بندوں! تمہیں کون یہ غیب کی خبریں دے رہا ہے؟ کون سے مؤکل یہ سب آپ تک پہنچا رہے ہیں؟ خدارا جب تک کسی معاملے کا یقینی علم نہ ہو، تب تک کوئی غلط خیال نہ لائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ حسنِ ظن رکھیں کہ ضرور کوئی مجبوری یا بہتری ہوگی۔ اللہ پاک ہمیں بدگمانی سے سے بچنے اور حسنِ ظن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خُدایا عطا کر دے رحمت کا پانی

رہے قَلب اُجلا دُھلے بد گُمانی