پیارے پیارے اِسلامی بھائیو! جس طرح گناہوں کے اِرتکاب میں جِسْم کے ظاہِری اَعضاء مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ کا کِردار ہے اسی طرح ہمارے سینے میں دھڑکنے والا دِل بھی گناہوں کے اِضافے میں اِن کے ساتھ برابر کا شریک ہے ۔ جب میدانِ مَحشَر میں آنکھ، کان وغیرہ سے حساب لیا جائے گا تو یہ دِل بھی ان کے ساتھ شریک ہوگا۔ چنانچہ دِل سے پوچھا جائے گا کہ اِس کے ذریعے کیا سوچا گیا اور پھر کیا اِعتِقاد رکھا گیا۔ بہت سارے  دل سے ہونے والے گناہوں میں سے ایک گناہ بدگمانی ہے آئیے ’’بدُگمانی‘‘ میں کے بارے کچھ جانتے ہیں۔

سوء ظن یعنی بدگمانی کی تعریف: بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔ (شیطان کے بعض ہتھیار، ص32)

آئیے ! اس سلسلے میں احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ چند وعیدیں پڑھئے اور خوفِ خدا سے لرزیئے:

(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث: 5143)

(2) اللہ پاک کے محبوب، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)

محترم قارئین ! آپ نے بدگمانی کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں اب بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات ملاحظہ کیجیے۔

بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات: یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی ترغیب ملے، چنانچہ اس کے 4 دینی نقصانات یہ ہیں:۔ (1)جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔(2) اگر اس کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔(3)بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں کو تلاش کرنا ناجائز و گناہ ہے ۔ (4)بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔(صراط الجنان ، 9/435 )

بد گمانی کے شرعی حکم کی تفصیل: صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو(جیسا اس کے بارے میں گمان کیا) تو اب حرام نہیں مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا۔( فتاوی امجدیہ، 1 / 123)

بد گمانی کا علاج: بدگمانی کے علاج کے لئے گمانوں کی کثرت سے بچئے، بُرے کاموں سے بچئے کیونکہ جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اس کے گُمان بھی بُرے ہو جاتے ہیں، بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، حُسنِ ظن (اچھا گمان) کی عادت بنائیے، اپنے دِل کو سُتھرا رکھنے کی کوشش کیجئے، روزانہ دس بار ”اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم“ پڑھنے والے پر شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر کر دیتا ہے، اپنے مسلمان بھائیوں کی خُوبیوں پر نظر رکھئے، اپنی بُرائیوں پر نظر کیجئے اور انہیں دُور کرنے میں لگ جائیے، جب بھی دل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنی تَوَجُّہ اس کی طرف کرنے کے بجائے بدگمانی کے شَرْعِی اَحْکَام کو پیشِ نظر رکھئے اور بدگمانی کے انجام پر نِگاہ رکھتے ہوئے خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے، جس سے بدگمانی ہو اس کے لئے دُعَائے خیر کیجئے ۔

نوٹ: بدگمانی کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ57 صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی ‘‘کا ضرور مطالعہ کیجئے ۔

اللہ کریم ہمیں بدگمانی سے بچنے اور مسلمانوں سے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم