مصطفیٰ رضا عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
اولیا احمدآباد، ہند)
ایک انسان کی زندگی میں نیکی
اور گناہ کا ارتکاب جس طرح ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے جیسے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان، وغیرہ اسی طرح دل بھی نیکی اور گناہ کے ارتکاب
میں برابر شریک ہوتا ہے جیسے انسان کسی سے
حسد کرے یا، بغض و کینہ، یا کسی کے بارے
میں اچھا یا برا گمان رکھے، وغیرہ بہت سے کام اسے ہیں جو دل سے سرزد ہوتے ہیں کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بُرے دل سے جو برے
کام سرزد ہوتے ہیں انہی برے کام میں سے بد گمانی بھی ہے ۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک
کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 ) آیت کریمہ میں کثرتِ گمان سے منع کیا
گیا کیوں کہ زیادہ گمان کی وجہ سے انسان حسد ، بغض و عداوت ، غیبت جیسی خطرناک
بیماریوں میں جا پڑتا ہے۔
نوٹ! یاد رہے جس گمان کی وجہ
سے انسان گناہ میں کے دلدل میں دھنستا ہے اُس گمان سے مراد بد(برا) گمان ہے۔
بد گُمانی کی تعریف: شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بد گُمانی کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: بد گُمانی سے مراد یہ ہے کہ
بلا دلیل دوسرے کے بُرے ہونے كا دل میں اعتقادِ جازم ( یعنی یقین) کرنا۔ (فیض القدیر، 3/122،تحت الحدیث:2901 وغیرہ)
بد گُمانی کی مذمت اور اس سے
بچنے کے متعلق احادیثِ مبارکہ پڑھئے:
(1)نبی مکرم شافع اُمم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بد گُمانی سے بچو بیشک بد گُمانی بدترین جھوٹ ہے ۔ (صحیح
البخاری،کتاب النکاح،باب ما یخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446، حدیث: 5143)
(2) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب
الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا ،
بیشک اس نے اپنے ربّ سے برا گمان رکھا۔(الدر المنثور ،پارہ 26،الحجرات،
تحت الآیۃ 12 ، 7/566)
احادیث کی روشنی میں بدگُمانی
کی مذمت بیان ہوئی پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ اس باطنی بیماری سے
بچتے رہیں اور اس دل کی بیماری کا علاج
کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
بد گُمانی کے چند علاج:(1)ہم اپنے مسلمان
بھائی کی خوبیوں پر نظر رکھے اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کسی کے بارے میں برا خیال
آیا بھی تو ہم اس کی کوئی اچھائی کو سامنے رکھ کر بد گُمانی کو دور کر سکتے ہیں۔(2)جب
بھی کسی مسلمان کے بارے میں بد گُمانی پیدا ہو تو اسے جھٹکنے کی کوشش کرے اور اس کے بارے میں حسن ظن رکھے کیونکہ حسن ظن
(اچھا گمان) عبادت ہے حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان عالیشان ہے ۔ اچھا گمان اچھی عبادت
سے ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب ،4/387،حدیث: 4993)(3)نیکوں کی صحبت اختیار کرے ۔(4)دل
کا محاسبہ کرتے رہے ۔ دل کے محاسبے کا بہترین ذریعہ امیرِ اہلسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم
العالیہ کا عطا کردہ ′نیک اعمال′ نامی رسالہ بھی ہے اس کے مطابق عمل کرکے دل کے محاسبے میں کئی حد تک آسانی
ہوگی۔ (5)اپنی اصلاح
کی کوشش کرتے رہیں کیونکہ جو خود نیک ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی اچھا گمان
رکھے گا اور جو خود برا ہوگا وہ دوسروں کے بارے میں بھی برا ہی گمان رکھے گا عربی کا مقولہ ہے : إذا ساءَ
فِعلُ المرءِ ساءتْ ظنونُهُ ( یعنی جب کسی
کے کام برے ہو جاتے ہیں تو اس کے گمان بھی برے ہو جاتے ہیں )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!
جب بھی کسی کے بارے میں بد گُمانی دل میں آئے تو اسے جھٹکیں اور اس کے بارے میں
حسنِ ظن رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر وہ صحیح ہوگا تو آپ کو حسنِ ظن کا ثواب مل جائے گا اور اگر وہ غلط بھی ہوا تو آپ اس پر
حسنِ ظن رکھنے کی برکت سے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے ۔
امامِ اہل سنت مجدد دین و ملت
الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے
ہیں : مسلمان کا حال حتی الامکان صلاح (یعنی اچھائی) پر حمل کرنا ( یعنی گمان
کرنا) واجب ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ شریف، 9/691)
امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ
مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں :حسنِ ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بد گُمانی میں
کوئی فائدہ نہیں۔
اللہ پاک ہمیں بد گُمانی جیسی
خطرناک بیماری سے نجات عطا فرمائے اور حسن ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ
طٰہٰ و يٰسٓ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم