ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، اس کو ظن بھی کہتے ہیں۔(بد گمانی،ص13)

بنیادی طور پر گمان کی دو اقسام ہیں:(1)حسنِ ظن (یعنی اچھا گمان) (2)سوئے ظن(یعنی برا گمان)۔اسے بد گُمانی بھی کہتے ہیں۔

پھر ان میں سے ہر ایک دو قسمیں ہیں۔ حسنِ ظن کی اقسام: (1)واجب ،جیسے اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔ (2)مُستحَب، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا۔

سوئے ظن (بدگمانی)کی اقسام: (1)ممنوع حرام ۔جیسے اللہ پاک کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا۔ (2)جائز ،جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا۔ جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں ۔ (صراط الجنان،ص433،444)بدگمانی ایسی مذموم باطنی بیماری ہے جس کی مذمت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

آئیے بدگمانی کے بارے میں حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات سنتے ہیں:

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُو گَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ۔(صراط الجنان،ص435)

بد گمانی کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو۔( صراط الجنان،ص434)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( صراط الجنان،ص434)

(2) ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بےشک اس نے اپنے ربّ سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘) ترجمۂ کنزالایمان: بہت گمانوں سے بچو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص142)

(3) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم بدگمانی کر بیٹھو تو اس پر جمے نہ رہو۔ یعنی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دو ،نہ کسی عمل کے ذریعے اس کا اظہار کرو اور نہ اعضاء کے ذریعے اس بدگمانی کو پختہ کرو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص144)

بدگمانی کی مذمت جو احادیث میں بیان ہوئی وہ ایک طرف اس کے کئی دینی و دنیاوی نقصانات بھی ہیں، جیسے:

(1)جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔

(2)اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔

(3)بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کار ان میں طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔(صراط الجنان،ص435،436)

اللہ پاک ہمیں بد گمانی جیسی مہلک باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمین