اللہ پاک نے مقامات وامکنہ میں سے بھی بعض مخصوص ومقدس مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان ہی مخصوص ومقدس مقامات میں سے دار ہجرتِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    بھی ہے، کیوں کہ اس مقدس سرزمین کے ساتھ بہت سے امتیازات جڑے ہوئے ہیں اور یہ مبارک زمین بہت سے فضائل ومناقب کی حامل ہے، یہ وہ سرزمین ہے جس کی طرف خاتم الرسل آقائے دو جہاں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہجرت فرمائی اور اپنی زندگی کے آخری دس سال یہیں گذارے، یہی وہ سرزمین ہے جس کی طرف اپنی جان اور اسلام کی حفاظت کی خاطر کفارِ مکہ کے ظلم وستم سے پریشان وتنگ آکر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہجرت کی اور ا من واطمینان کے ساتھ زندگی گزاری یہی وہ سر زمین ہے، جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا اور قوت وشوکت حاصل ہوئی۔

((1 مدینہ میں برکت ہے: مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرمائیاَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ اے اللہ!جتنی تونےمکہ میں برکت عطافرمائی ہے ، مدینہ میں اُس سے دو گُنا برکت عطافرما۔ )بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885( ((2 مدینہ کی مٹی میں شفاء ہے:خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان ملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے۔)جامع الاصول ، 9 / 297 ، حدیث : 6962(

(3) مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی  :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينہ، 3 / 524، حدیث : 3112)(4) مدینہ منورہ کی حفاظت فرشتے کرتے ہیں:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم ، ص548 ، حدیث : 1374) امام نَوَوی  رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : اس روایت میں مدینۂ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کوسرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عِزَّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔(شرح  مسلم للنووی ، 5 / 148)

(5) دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ دجال مدینہ کی طرف آئے گا پس وہ فرشتوں کو پائے گا جو اس کی حفاظت کر رہے ہوں گے، انشاءاللہ مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا۔ (ترمذی)(6) مسجد النبوی میں نماز کی فضیلت:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :صَلَاةٌ فِی مَسْجِدِی هٰذَا خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ یعنی میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔(بخاری، کتاب التطوع،1/ 398، حدیث: 21133((7) مدینہ تمام بستیوں پر غالب ہے:حضرت ابو ہر یرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ مجھے ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ملا ہے جو تمام بستیوں پر غالب ہے اور لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے جو کہ لوگوں کو صاف کرتی یعنی شرپسند لوگوں کو جدا کرتی ہے۔ جیسے کہ لوہار کی پھونکنی لوہے کو گندگی سے صاف کرتی ہے۔(بخاری و مسلم)

(8) مدینہ حرم ہے: عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نےاس کے لئے اس کےمد اور صاع میں برکت کی دعا کی ہے یعنی ہر چیز میں برکت کی دعا کی ہے۔جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کیلئے دعا کی تھی ۔(بخاری)(9) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدینہ سے محبت: عن أنس رضی اللہ عنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا قدم من سفر فنظر إلی جدرات المدینة أوضع راحلتہ وإن کان علی دابة حرکھا من حبھا ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   جب کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کو تیز کر دیتے اور اگر دوسری سواری پر ہوتے اس کو تیز کر دیتے اور یہ سب مدینہ سے محبت کی وجہ سے تھا۔(بخاری،1/253)

(10)عن علي رضی اللہ عنہ قال ما کتبنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا القرآن ومافي ھذہ الصحیفة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینة حرام ما بین عیر إلی ثور فمن أحدث فیھا حدثا أو آوی محدثا فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین لا یقبل منہ صرف ولا عدل ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوائے قرآن اور جو کچھ اس صحیفے میں کچھ نہیں لکھا، انھوں نے فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمان ہے، مدینہ محترم ومکرم ہے عیر اور ثور(مدینہ کی دو پہاڑیاں) کے درمیان سو جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی کوئی فرض اور نفل نماز قبول نہیں ہوگی۔( بخاری،1/251)


مدینہ منورہ وہ عظیم شہر ہے جسے نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صدقے میں وہ عظمتیں عطا ہوئی، جو کسی اور شہر کو نہ ہوئی اور اس کو اللہ پاک نے بے شمار وہ فضائل عطا فرمائے جو کسی اور شہر کو نہ فرمائے، چند فضائل ِ مدینہ منورہ ملاحظہ کیجئے!

پہلی فضیلت:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی طاقت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ میں اُس کی شَفاعت کروں گا اور اُس کے حق میں گواہی دوں گا۔( شعب الایمان،باب فی المناسک،فضل الحج والعمرۃ،3 /497،حدیث:1482)دوسری فضیلت :سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ خوشگوار ہے: مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں ،اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)تیسری فضیلت: نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ہے:اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُ س پر دوفِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں ۔(صحیح مسلم ،کتاب الحج ،باب الترغیب فی سکنی الخ ،ص 548 ، حدیث:1374ملتقطاً)

چوتھی فضیلت: سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ منورہ کے لئے اس طرح دُعا فرماتے: الٰہی! ہمارے لئے ہمارے مدینے میں بَرَکت عطاکر ، یا اللہ ! بے شک ابراہیم تیرے بندے ،خلیل ور نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انھوں نے مکّے کے لئے تجھ سے دُعا کی اور میں مدینے کے لئے تجھ سے دُعا کرتا ہوں ، اُسی کی مثْل جس کی دعا مکّے کے لئے انھوں نے کی اور اتنی ہی اور (یعنی مدینے کی برکتیں مکے سے دُگنی ہوں )۔ (صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ...الخ، ص713،حدیث: 1373)پانچویں فضیلت:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ دلپذیرہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرتچ کا حکم ہوا جو سب پر غالِب آئے گی، لوگ اسے”یثرب“کہتے ہیں،وہ مدینہ ہے،یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ ...الخ، 1/617،حدیث:1871)علّامہ عبدالرؤف مَناوی فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔( التیسیر شرح الجامع الصَّغیر ،2/ 424)

چھٹی فضیلت:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضَرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چَراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کُشادَگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تومدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔(مسنداحمدبن حنبل ،5/ 106، حدیث: 14686)ساتھویں فضیلت:رسولِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، 1 / 618 ،حدیث: 1877)آٹھویں فضیلت:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اےاللہ ! مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اُس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اُس کے صاع و مُد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکےجحفہ میں بھیج دے۔(صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ...الخ،ص715،حدیث:1376)

نویں فضیلت:حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :یا اللہ! جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔(معجم الاوسط،2 /379، الحدیث: 3589) دسویں فضیلت:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ پاک اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، 3 / 659، حدیث: 5826)


محمد طیب جہانگیر (درجہ رابعہ ، مرکزی جامعہ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور،پاکستان)

Tue, 28 Jun , 2022
2 years ago

الحمدللہ مدینہ منورہ کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اور جب بھی مدینہ منورہ کا ذکر مبارک ہو تا ہے تو عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دل تڑپ جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ دل تڑپ گا اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔           مدینہ منورہ کو" یثرب" کہنا منع ہے۔ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:یقولون یثرب وھی المدینہ"' منافقین مدینہ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔ پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : بیشک اللہ پاک نے مدینہ کا نام " طابہ " رکھا ۔ ( بخاری کتاب فضائل المدینہ 1/ 617)

مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔ ( مسند احمد )

فضائل مدینہ: (1) سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر( Patience) کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔ (مسلم کتاب الحج۔ حدیث 483)۔ (2) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ فریب Deception) )کرے گا وہ ایسے گھل جاے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ ( بخاری 1/ 618) ۔ (3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ کہ فرشتے مدینہ منورہ کی حفاظت security) )پر مقرر ہیں اس میں نہ طاعون ( بیماری) اور نہ دجال داخل ہوگا ۔ ( فضائل مدینہ) ۔

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری اس مسجد میں (مسجد نبوی) نماز پڑھنا اس کے علاوہ مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے مگر مسجد حرام ۔( فضائل مدینہ)۔(5) حضرت خارجہ بن یزید ، اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی بنیاد تقویٰ پر ہے پہلے دن سے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مسجد ہے۔(6) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جبل احد کے پاس تشریف لائے، پھر فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (7) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے( death) تو مدینہ میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔(8) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اللہ پاک اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، 4/20 ،حدیث: 3730)

(9) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یا اللہ پاک جو اہل مدینہ پر ظلمCruelty))کرے اور انہیں ڈراے(Draw) تو اسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت(Curse) ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا ،نہ نفل۔ ( معجم الاوسط ،حدیث 3589) (10) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اہل مدینہ پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں خوشحالی(Prosperity) کے لئے یہاں سے چراگاہوں ( Pastures)کی طرف نکل جائے گے ۔پھر جب وہ خوشحالی حاصل کر لے گے تو واپس آجائیں گے ۔ اور اہل مدینہ کو اس کشادگیکی طرف جانے پر آمادہ کرے گے ۔ حالانکہ اگر وہ جان لئے تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل، حدیث :14686)

اللہ پاک ہم سب کو مدینہ منورہ کی با آدب حاضری نسب فرمائے ۔ اور محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور محبتِ اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنھم نسب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مدینہ مدینہ ہمارا مدینہ

ہمیں جان و دل سے ہے پیارا مدینہ

الحمدللہ ہم فضائلِ مدینہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے جارہے ہیں اور کیوں نہ ذکرِ مدینہ کریں کیونکہ ہم گناہ گاروں کو بخشوانے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو وہاں جلوہ فرما ہیں۔ وہ مدینہ کہ جس کا کانٹا بھی میٹھا لگتا ہے، وہ مدینہ کہ جہاں 70 ہزار صبح اور 70 ہزار شام فرشتے دربارِ رسالت میں حاضری دیتے ہیں جو فرشتے ایک بار آ جائیں پھر وہ دوبارہ نہیں آتے یہ کرم ہے ہم غلاموں پر کہ جب اور جتنی مرتبہ چاہیں ان کے روضۂ مبارک پر حاضری دے سکتے ہیں۔

مدینے منورہ کے بکثرت فضائل احادیث میں موجود ہیں ان میں سے 10 احادیث فضائل مدینہ كے متعلق ملاحظہ ہو:۔(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل المدینۃ،5/483، حدیث:3943)(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمّت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔ الخ، ص716، حدیث: 1378)

(3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا اللہ پاک اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔ الخ، 4 / 20، حدیث: 3730، الجزء السادس)(4) حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ پاک اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے، روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فیہا بالبرکۃ۔ الخ، ص709، حدیث: 1363)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالِب آئے گی) لوگ اسے ’’یَثرِب ‘‘ کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(صحیح البخاری،1/617، حدیث:1871)(6) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مدینہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں اس میں نہ دجال آئے نہ طاعون۔ (صحیح مسلم، ص716،حدیث : 1379)

(7) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مکۂ مکرمہ اور مدينَۂ منورہ کے علاوہ کوئی شہر ايسا نہيں جسے عنقريب دَجّال روندتا ہوا نہ جائے، جبکہ ان شہروں کے ہر راستے پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہوں گے،لہٰذا وہ ایک دلدلی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا پھر شہرِ مدینہ3 مرتبہ لرزے گا تو اللہ پاک کفر و نفاق میں مبتلا ہر شخص کو وہاں سے نکال دے گا۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب لاید خل الدجال المدینۃ ،1/ 619،حدیث: 1881)

(8) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اہل مدینہ کو ایذا دے گا اللہ اسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے، نہ نفل۔ (مجمع الزوائد، كتاب الحج باب فيمن اخاف اهل المدينه..الخ،3/659، حديث :5826)(9) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یا اللہ تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کر کے جحفہ میں بھیج دے ۔( المسلم كتاب الحج باب الترغيب في سكنى المدينه ..الخ ،ص715 ،حدیث: 1376) (10) حضرت علی و انس و سعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینہ طیبہ کے واسطے دعا کی کہ مکے سے دو چند یہاں برکتیں ہوں۔(مسلم كتاب الحج باب الترغيب في سكنى المدينه.. الخ، حديث 1374، ص713)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی بار بار میٹھا مدینہ دیکھنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہے

جس کا دیدار مؤمن کی معراج ہے

زندگی میں خدا ہر مسلمان کو

وہ مدینہ دکھا دے تو کیا بات ہے 


مدینہ منورہ کو مدینہ اس لئے کہتے ہیں کہ مدینہ کے معنی اجتماع کے ہیں، اور شہر کو بھی عربی میں مدینہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہاں ہر قسم کے  لوگ جمع ہو تے ہیں، اور مدینہ منورہ کو لوگ ھجرت سے پہلے یثرب کہا کرتے لیکن اب اسے یثرب کہنا سخت منع ہے، کیوں کہ یثرب ثرب سے مشتق ہے جس کا معنی ہے سزا،مصیبت،بلا اور چونکہ مدینہ منورہ سزا،مصیبت،وبلا کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ تو پاک و صاف جگہ ہے، امام بخاری تو یہاں تک فرماتے ہیں: جو کوئی مدینہ منورہ کو ایک بار یثرب کہے وہ بطور کفارہ دس بار مدینہ کہےسبحان اللہ! کیا بات ہے مدینہ پاک کی۔ احادیث میں تو مدینہ منورہ کے بہت فضائل ہیں لیکن دس فضائل احادیث کی روشنی میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہوں :( 1) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ والوں کو ڈرایا تو اللہ اسے ڈرائے گا۔(فضائل مدینہ للجندی،ص30،حدیث:31)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ برے لوگوں کو یوں نکال دے گا جیسے بھٹی لوہے کا میل نکال دیتی ہے۔( اس سے مراد ظہور دجال کے زمانہ کا واقعہ ہےدجال تو مدینہ پاک میں نہ داخل ہوسکے گا مگر مدینہ منورہ میں اس وقت ایسا زلزلہ آئے گا جس سے منافقین یہاں سے بھاگ جائیں گے اور دجال کے جال میں پھنس جائیں گیں۔(مرأۃ المناجیح ،4/239) (3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے ہیں یہاں نہ طاعون آسکتی ہے نہ دجال)۔(فضائل مدینہ للجندی،ص24،حدیث:15)

(4)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :کہ ایمان مدینہ میں ایسے سمٹ جائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ تا ہے۔(یعنی قرب قیامت میں ایمان مدینہ میں سمٹ جائے گا)۔(صحیح بخاری، حدیث:1876) (5) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ کوئی شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث:1877 ) (6)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے۔(صحیح بخاری،حدیث:1886)(7)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث:1869)

(8)حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دست اقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: بیشک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔(معجم الکبیر، حدیث:5611) (9)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرمائی: کہ اے اللہ جتنی برکتیں مکہ پاک میں نازل کی ہیں اس سے دگنی برکتیں مدینہ پاک میں نازل فرما۔(مرأۃ المناجیح ،4/245)(10)حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے اور طابہ کے معنی پاک و صاف کے ہیں۔(مرأۃ المناجیح،4/238) سبحان اللہ!مدینہ پاک کیسی پیاری جگہ ہے کاش ہمیں بھی مدینہ پاک کی با ادب حاضری نصیب ہوجائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


الحمدلله لا شريك له والصلاة والسلام على اشرف العالمين خاتم النبيين و على اله و اصحابه و ازواجه و بلده  اما بعد فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم قال الله تعالى في شان حبيبه اكمل مخبرا و أمرا إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وبارک وسلم

مدینہ پاک کے فضائل و مناقب کو احاطہ بیان میں لانا ممکن نہیں بہت سے فضائل ہیں۔اس شہرِ مدینہ منور کو پہلے پثرِب کہا جاتا تھا لیکن خاتم المعصومین، خاتم المرسلین، خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کہ بعد سے اس کو طیبہ اور مدینہ کہا گیا۔

شرعی مسئلہ: ہجرت سے پیشتر لوگ یثرب کہتے تھے مگر اس نام سے پکارنا جائز نہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی، بعض شاعر اپنے اشعار میں مدینہ طیبہ کو یثرب لکھا کرتے ہیں انہیں اس سے احتراز لازم اور ایسے شعرکو پڑھیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رکھا ہے، بلکہ صحیح مسلم شریف میں ہے، کہ اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔

مدینہ منورہ دارِ ہجرت ہے، مہاجرین اور انصار کا سنگم ہے، یہ دار الجہاد ہے کیونکہ یہاں سے ہی جہادی لشکر روانہ ہوتے تھے، اسی شہر سے غزوات اور سرایا ت کیلئے فوجی مہمیں روانہ ہوتی تھیں، جس کے نتیجے میں علاقے فتح ہوئے، دین اسلام پھیلا اور پھولا، شرک اور مشرکوں کی بیخ کنی ممکن ہوئی۔ مزید یہ کہ مال غنیمت، جو کہ فتح میں حاصل ہوتے اس شہر میں لائے جاتے تھے۔ یہی ہے وہ شہر ہے جو اسلام کا ایسا قلعہ بنا اور دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوئی اور یہی قلعہ دارالخلافہ بنا اور اسی شہر میں احکام پر مشتمل آیات اور شرعی آداب نازل ہوئے، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس وقت مکہ فتح کیا، تو مکہ میں نہیں ٹھہرے بلکہ دارِ ہجرت مدینہ واپس آ گئے اور اپنی تمام ظاہری طور پر پردہ فرمانے تک کی زندگی مبارک یہیں پر رہے اور اسی شہر میں میرے آقا و مولا، سید المعصومین، سید المرسلین ،سید النبیین، شافع روز جزا، دافع جملہ بلا، ماہ خوباں، رب جلیل کے محبوب، دانائے غیوب ،منزہ عن العیوب، رب العالمین کے پیارے، امت کے سہارے، ہم گناہ گاروں کے سہارے، نبی رحمت ،رسول اکرم، جان کائینات، جان جہان کائینات، مرکز کائینات، نور کائینات، اصل کائینات، رحمت کائینات، راحت کائینات، باعث وجہ تخلیق کائینات، جناب محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا روضہ اقدس بھی اس شہر مدینہ منورہ زیدہ شرفه و تعظيما میں ہے۔ مزید اس کہ فضائل و مناقب بذریعہ احادیث طیبہ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ اگر اس تحریر میں کوئی بھلائی دیکھیں تو رب جلیل القدر کی عطا کردہ توفیق پر محمول فرمائیں اور اگر خطا دیکھیں تو طالب علم سمجھ کر معاف فرما کر میری اصلاح فرمائیں۔

احادیث طیبہ قارئین کی نظر کرتا ہوں: حدیث 1: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالِب آئے گی) لوگ اسے ’’یَثرِب ‘‘ کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(صحیح البخاری،1/617، حدیث:1871)

حدیث 2: صحیح مسلم میں اُم المؤ منین صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یا اللہ ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اُس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اُس کے صاع و مُد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ، ص715،حدیث : 1376) (یہ دعا اُس وقت کی تھی، جب ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے اور یہاں کی آب و ہوا صحابہ کرام کو ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں ) یہ مضمون کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے مدینہ طیبہ کے واسطے دعا کی کہ مکہ سے دوچند یہاں برکتیں ہوں۔ مولیٰ علی و ابو سعید و انس رضی اللہ عنہم سے مروی۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ،ص713، حدیث : 1374)

حدیث 3: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے (پہرا دیتے ہیں ) اس میں نہ دجال آئے، نہ طاعون۔(’’ صحیح مسلم ‘‘ ، کتاب الحج، باب صیانۃ المدینۃ من دخول الطاعون ۔۔۔ إلخ،حدیث : 1379 ، ص 716)حدیث 4: صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مکۂ مکرمہ اور مدينَۂ منورہ کے علاوہ کوئی شہر ايسا نہيں جسے عنقريب دَجّال روندتا ہوا نہ جائے، جبکہ ان شہروں کے ہر راستے پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہوں گے،لہٰذا وہ ایک دلدلی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا پھر شہرِ مدینہ3 مرتبہ لرزے گا تو اللہ پاک کفر و نفاق میں مبتلا ہر شخص کو وہاں سے نکال دے گا۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب لاید خل الدجال المدینۃ ،1/ 619،حدیث: 1881)

حدیث 5: طبرانی عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یا اللہ !جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انھیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے، نہ نفل۔ ( المعجم الأوسط للطبرانی، 2/379،حدیث : 3589)اسی کی مثل نسائی و طبرانی نے سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔حدیث 6: صحیح مسلم وغیرہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ لوگ جب شروع شروع پھل دیکھتے، اُسے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر لاتے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے لے کر یہ کہتے: الٰہی! تو ہمارے لئے ہماری کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت کر اور ہمارے صاع و مُد میں برکت کر، یا اللہ ! بے شک ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انھوں نے مکہ کے لئےتجھ سے دُعا کی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے دُعا کرتا ہوں ، اُسی کی مثل جس کی دعا مکہ کے لئے انھوں نے کی اور اتنی ہی اور (یعنی مدینہ کی برکتیں مکہ سے دوچند ہوں )۔ پھر جو چھوٹا بچہ سا منے ہوتا اُسے بلا کر وہ کھجور عطا فرما دیتے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ۔۔۔ إلخ، حدیث : 1373 ، ص 713)

حدیث 7: صحیح مسلم و تر مذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مدینہ کی تکلیف و شدّت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ۔۔۔ إلخ، حدیث : 1378 ، ص 716)حدیث 8: بیہقی نے حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں زیارت کی اور جو حرمین میں مرے گا، قیامت کے دن امن والوں میں اُٹھے گا۔( شعب الإیمان، باب فی المناسک، فضل الحج و العمرۃ، 3/488،حدیث : 4151)

حدیث 9: صحیح بخاری و مسلم میں سعد رضی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا، ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، 1 / 618 ،حدیث: 1877) حدیث 10: ترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان و بیہقی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل المدینۃ،5/483، حدیث:3943)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے سینوں کو عشق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے مشرف فرمائے اس کے صدقے ہمیں مدینہ منورہ سے محبت اور اس کا ادب کرنا نصیب کرے۔ اے میرے رب جلیل ہمیں مدینہ منورہ کی محبت میں رونے والی آنکھیں عطا فرما اور محبتِ مدینہ منورہ میں تڑپنے والا دل عطا فرما دے۔ اے کاش! اے کاش! اے کاش کہ مجھ گناہگار کو بھی مدینے پاک کی حاضری اس انداز میں نصیب ہو کہ جب شہر اقدس تک پہنچوں، جلال و جمال محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تصور میں غرق ہو جاؤں اور دروازۂ شہر میں داخل ہوتے وقت پہلے دہنا قدم رکھوں اور پڑھوں : بِسْمِ اللہِ مَاشَآءَ اللہ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَارْزُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَزَقْتَ اَوْلِیَآ ئَکَ وَاَھْلَ طَاعَـتِکَ وَانْقِذْنِیْ مِنَ النَّارِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا خَیْرَ مَسْئوْلٍ

جب حرم مدینہ آئے تو میں پیادہ ہو لوں، روتے، سر جھکائے، آنکھیں نیچی کیے، درود شریف کی کثرت کروں اور اے رب جلیل تو توفیق عطا فرمائے تو ننگے پاؤں چلوں۔ آستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشوع و خضو ع سے متوجہ ہوکر رو پڑوں اگر تیری توفیق ہو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کا مونھ بناؤں اور دل کو بزور رونے پر لاؤں اس کی توفیق عطا فرما دے اوراس وقت جو ادب و تعظیم فرض ہے ہر مسلمان کا دل جانتا ہے آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں ، دل سب خیالِ غیر سے پاک کروں، جب روضۂ انور پر نگاہ پڑے، درود سلام کی خوب کثرت کروں اور نگاہ پڑتے اپنی سنگ دلی سے رسولﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف التجا کرو يا رسول الله انظر حالنا بس یہ التجاء کرتے اور آنکھوں سے مودت میں آنسو بہاتے مجھے موت آجائے،میری اس دنیا میں جنت البقیع میں تدفین ہو اور کل قیامت میں مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ وازواجہ وبارک وسلم کا پڑوس نصیب ہوجائے ۔اے میرے رب جلیل القدر اس تحریر لکھنے والے کے والدین عزیز واقارب اور جس نے بھی معاونت کی اس کارخیر میں اور اس تحریر پڑھنے والے تمام احباب کے حق میں یہ دعا بدرجہ اولیٰ قبول فرما اور انکے والدین و عزیز و اقارب کے حق میں بھی قبول فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


مدینہ منورہ بہت ہی بابرکت اور با عزت شہر ہے۔ کیونکہ اس شہر میں آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قیام فرمایا۔ ہر عاشقِ رسول کا دل مدینہ پاک کی حاضری کے لئے مچلتا ہے۔ اس کی یہی تمنّا ہوتی ہے کہ گنبد خضرا کے سایہ ہی میں موت آئے۔

دجال قربِ قیامت میں پورے جہان کی سیر کر کے فتنہ پھیلائے گا مگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں وہ نہیں آسکے گا۔ یہ خصوصیت صرف ان دو شہروں کو حاصل ہے۔

اس شہر کے کئی فضائل ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر عشاقان رسول کے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ انہیں فضائل میں س یہاں پر فضائلِ مدینہ کے دس حروف کی نسبت سے 10 فضائل احادیثِ کریمہ کی روشنی میں پیش کیے جاتے ہیں۔

چنانچہ مکی مدنی سلطان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ:(1) مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمّت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔ الخ، ص716، حدیث: 1378)(2) جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)(3) جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، 1 / 618 ،حدیث: 1877)

(4) مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللہ پاک اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص709، حدیث: 1363((5) حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ ( بخاری کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ۔ باب فضل مابین القبر والمنبر، 1 /402 ، حدیث :1195)

(6) جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ پاک اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، 3 / 659، حدیث: 5826)(7) مدینہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں اس میں نہ دجال آئے نہ طاعون۔ (صحیح مسلم، ص716،حدیث : 1379)(8) حضرت سہل بن حنیف رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں ،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6/ 92، حدیث: 5611)

(9) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ!، جتنی برکتیں  مکہ میں  نازل کی ہیں  ا س سے دگنی برکتیں  مدینہ میں  نازل فرما۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ ، 1/ 620، حدیث: 1885)(10) مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالِب آئے گی) لوگ اسے ’’یَثرِب ‘‘ کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(صحیح البخاری،1/617، حدیث:1871) ( ہجرت سے پہلے لوگ مدینہ کو یثرب کہتے تھے، مگر اب یثرب پکارنا جائز نہیں بلکہ مدینہ پکارا جائے کہ حدیث پاک میں مدینہ کہا گیا ہے۔)


پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سرزمین مدینہ کو جو اپنے قدموں کے بوسے لینے کا شرف عطا فرمایا، تو اس شرف سے مستفیض ہو کر شہرِ مدینہ کی مٹی نے بھی بیماروں کو شفایاب فرمایا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مدینہ منوّرہ میں قدم رنجا فرمانے سے مدینہ منوّرہ کو اتنا بلند رتبہ میسر آیا کہ مدینہ میں رہنا سعادتِ دارین اور مرنا شفاعت مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ضمانت قرار پایا۔ اس شہر بے مثال کے 10 بے نظیر فضائل ملاحَظہ ہوں۔

(1) سب بستیوں پر غالب آنے والی بستی:  نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آجائے گی)، لوگ اسے ”یثرب“کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے۔ (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (فیضان نماز، ص 161)(2)مدینہ طیبہ کی ہوا صحت بخش ہے: ایک موقع پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینہ منورہ کے لئے یوں دعا فرمائی: یا اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی ایسی مَحَبَّت ڈال دے جیسے مکہ کی مَحَبَّت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنادے۔ (سیرت مصطفی ،ص 190) (3)مدینہ منورہ میں مرنے کی فضیلت: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان شفاعت نشان ہے: جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔ (امام مالک کا عشق مدینہ، ص 13)

(4) مدینہ منورہ کی خاک شفا ہے: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔ (جامع الاصول، حدیث: 6962)(5) مدینہ منورہ کی حفاظت فرشتوں کے ذمہ پر:نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔ (بخاری، حدیث: 1880)(6) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُحَافَظَت: چنانچہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ارادۃً میری زیارت کو آیا وہ قیامت کے دن میری حفاظت میں رہے گا ۔(مشکاۃ المصابيح، حدیث: 2755)  (7) مدینہ طیبہ کی تکالیف پر صبر کی فضیلت: اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بشارت نشان ہے:جو شخص مدینے میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔(مشکاۃ المصابيح، حدیث: 2755)

(8) قیامت کے خوف سے امن:رسول بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مکے یا مدینے میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابيح، حدیث: 2755)(9) مکہ مکرمہ سے دوگنا برکت:نبی مکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک موقع پر یوں فرمایا: اے اللہ! جتنی تو نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ میں اس سے دوگناہ عطا فرما۔ (بخاری، حدیث: 1885)(10) مدینہ منورہ بہتر ہے:نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اہل مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہل مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ (عاشقان رسول کی 130 حکایات،ص 255)


ابو حامد عمران رضا عطاری المدنی (جامعۃُ المدينہ فیضان عطّار نیپال)

Tue, 28 Jun , 2022
2 years ago

مدینہ طیبہ وہ مبارک شہر ہے جس میں  سید المرسلین، خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما ہیں۔ جہاں جانے کے لئے عشاق کے دل بے چین و بے قرار رہتے ہیں۔ عشاق یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے کاش کوئی ایسی حاضری ہو جائے کہ وہیں موت آجائے ۔ شاعر نے کہا:

موت لے کے آجائے زندگی مدینے میں

موت سے گلے مل کر زندگی سے مل جاتا

‏خود فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دعا مانگتے تھے اللھم ارزقنا شھادۃ فی سبیلك وجعل موتی فی بلد رسولك صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی: اے اللہ مجھے اپنے راہ میں شہادت اور اپنے رسول کے شہر میں موت نصیب فرما۔ آمین

احادیث میں مدینے کے بے شمار فضائل ہیں 10 احادیث درج ذیل ہیں:(1) المَدِينَةُ مُشَبَّكَةٌ بِالمَلائِكَةِ، عَلى كُلِّ نَقْبٍ مِنها مَلَكٌ يَحْرُسُها ترجمہ: مدینے کو فرشتوں نے گھیر رکھا ہے اس کے ہر راستے پر ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے ۔(مسند أحمد مخرجا، 3/‏151، مؤسسۃالرسالۃ)(2) المَدِينَةُ أفْضَلُ مِن مَكَّةَ ترجمہ: مدینہ مکہ سے افضل ہے۔ (معجم ابن المقرئ 1/‏43، مكتبة الرشد، الرياض) ‏(3) لا يَدْخُلُها، يَعْنِي المَدِينَةَ، الطّاعُونُ ولا الدَّجّالُ» ترجمہ: مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوگا ۔(مسند أحمد مخرجا، 3/‏151، مؤسسۃالرسالۃ) (4) إنَّ الإيمانَ لَيَأْرِزُ إلى المَدِينَةِ كَما تَأْرِزُ الحَيَّةُ إلى جُحْرِها» ترجمہ: بیشک ایمان مدینے کی طرف ایسے سمٹ جائے گا جیساکہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ جاتا ہے۔ (صحيح ابن حبان مخرجا ،9/‏46، مؤسسۃالرسالۃ)

(5) أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ القُرى، وهِيَ المَدِينَةُ، تَنْفِي النّاسَ كَما يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ» ترجمہ: مجھے اسے قریہ کی طرف سفر کا حکم دیا گیا ہے جو دیگر قریوں کو کھا جائے گا(یعنی: اس پر غالب آجائے گا) اور وہ یہ مدینہ ہے مدینہ لوگوں کو ایسے پاک و صاف کردے گا جیساکہ کہ آگ لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔(شرح مشكل الآثار، 5/‏81، مؤسسۃالرسالۃ) (6) مَن أخافَ أهْلَ المَدِينَةِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ والمَلائِكَةِ والنّاسِ أجْمَعِينَ، ترجمہ: جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(مسند الحارث بغيۃ الباحث عن زوائد ،1/‏467) (7) مَن حَجَّ فَزارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي كانَ كَمَن زارَنِي فِي حَياتِي» ترجمہ: جس نے حج کیا اور میرے وصال کے بعد میرے قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے گویا کہ میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (فضائل المدینہ ،ص39، دار الفكر دمشق)

(8) ما بَيْنَ بَيْتِي ومِنبَرِي رَوْضَةٌ مِن رِياضِ الجَنَّةِ ترجمہ: میرے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔( صحیح بخاری، 2/ 61، دار طوق النجاة) (9) مَن زارَ قَبْرِي وجَبَتْ لَهُ شَفاعَتِي ترجمہ: جس نے میرے قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہے۔ (سنن الدارقطني، 3/‏334، مؤسسۃ الرسالۃ)(10) أرادَها بِسُوءٍ أذابَهُ اللَّهُ كَما يَذُوبُ المِلْحُ فِي الماءِ ترجمہ: جس نے اہل مدینہ سے برائی کا قصد کیا اللہ پاک اس کو ایسے پگھلادے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسند أبي يعلى الموصلي، 2/‏129، دار المأمون للتراث دمشق) 


مدینہ پاک کی فضیلت بے شمار ہے۔ سب سے بڑی فضیلت کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اس کو اپنے قدم انور کا بوسہ لینے کا شرف میسر عطا فرمایا ۔ جس کی وجہ سے مدینہ منورہ کو وہ عظمت و رفعت عطا ہوئی جو کسی اور شہر کو نہیں ملی ۔ خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینہ کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔ اور اس میں آنے والے کو عافیت و آرام گاہ بنا دیا ہے۔  اور اس میں مرنے والے کے لئے شفاعت کا شرف بخشا ہے۔چنانچہ(1) حدیث میں ہے : مَن اسْتَطَاعَ اَنْ يَّمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا تم میں سے جس سے ہو سکےکہ وہ مدینےمیں مرے تو مدینے ہی میں مرے۔ فَاِنِّي اَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوْتُ بِهَا کیونکہ میں مدینےمیں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔ (ترمذی ،کتاب المناقب،باب فی فضل المدینۃ،5/483، حدیث: 3943)

جگہ کی نسبت بھی کیا چیز ہوتی ہے اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے، جیسے (2)سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا :مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔ الخ، ص715، حدیث: 1377)(3)حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ پاک اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے، روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ پاک اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فیہا بالبرکۃ۔ الخ، ص709، حدیث: 1363)

(4)حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہوگا ، اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، 1 / 618، حدیث: 1875)(5)حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، 1 / 618، حدیث: 1877)

(6)حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا:جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا اللہ پاک اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ، 4 / 20، حدیث: 3730، الجزء السادس)(7)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سےروایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یا اللہ !پاک، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، 2 / 379، حدیث: 3589)(8)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ پاک اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، 3 / 659، حدیث: 5826)

(9)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)(بحوالہ صراط الجنان)(10) ایک اور مقام پراِرشاد فرمایا:(قِیامت میں جب سب کو قَبْروں سے اُٹھایا جائے گا) سب سے پہلے میری، پھر ابُو بَکْر و عُمَر (رضی اللہُ عنہما) کی قَبْریں کھلیں گی، پھر میں جنّتُ البقیع والوں کے پاس جاؤں گا، تو وہ میرے ساتھ اِکٹھے ہوں گے، پھر میں اَہل ِ مکہ کا اِنتظار کروں گا حتّٰی کہ حَرَمَینِ شَرِیْفَیْن کے درمیان اُنہیں بھی اپنے ساتھ کرلوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب،5/388، حدیث: 3712)

میرے پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ عشق مدینہ دل میں لئے اور اسی میں مدفن ہونے کا شوق جذبہ میں تڑپ کر ”وسائلِ بخشش “ میں لکھتے ہیں :

میں ہوں سُنّی، رہوں سُنّی، مروں سُنّی مدینے میں

بقیعِ پاک میں بن جا ئے تُربت یارسولَ اللہ

(وسائل بخشش مرمم،ص331)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بھی مدینے پاک سے سچی پکی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور روضۂ انور کی زیارت سے مشرف فرمائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


مدینۂ منوَّرہ وہ مبارک شہر ہے جو تمام شہروں سے بہتر ہے۔ یہ شہر مرکزِ عشق و محبت ہے۔ یہ شہر امن کا گہوارہ ہے اور سب سے بڑی نعمت سیّدالسادات، افضلُ الانبیاء حضرت محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہیں آرام فرما ہیں۔ جن کی اطاعت ربِّ کریم کی اطاعت ہے اور جن کے روضۂ مقدس کی زیارت حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِی كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي یعنی جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔(شعب الایمان،3/489،حدیث:4154)

صدیوں سے عُشّاقِ مدینہ اپنے ملکوں، شہروں سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کیلئے چلے آ رہے ہیں اور عاشقوں کی اصل حاضری اس پاک در کی ہے۔

مدینۂ منوّرہ وہ بابرکت شہر ہے جو تمام روئے زمین سے افضل ہے۔سیّدی ومرشدی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:

مکے سے اس لئے بھی افضل ہوا مدینہ

حصے میں اس کے آیا میٹھے نبی کا روضہ

سیّدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زَمیں سے

سُن ہم پہ مَدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

مدینۂ منوّرہ کے فضائل و برکات قراٰنِ پاک اور احادیثِ طیبہ و اقوالِ سلف صالحین میں کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے 10 احادیثِ طیبہ آپ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں۔

(1)مدینۂ منوّرہ کا پہلا نام یثرب (بیماریوں وباؤں کی بستی) تھا لیکن جب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس شہر کی طرف ہجرت فرما کر گئے تو وہ طیبہ (پاکیزہ زمین) ہوا۔ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔ (بخاری،1/617، حدیث: 1871)

(2)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ نے مدینہ شریف کا نام طابہ (پاکیزہ زمین)رکھا ہے۔ (مسلم،ص 550، حدیث: 3357)

(3)سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے مدینہ شریف کو یثرب کہا اسے چاہئے وہ اللہ سے استغفار کرے (یہ یثرب نہیں بلکہ) طیبہ ہے، طیبہ ہے۔(مسند احمد،6/409، حدیث:18544)

کیوں طیبہ کو یثرب کہو ممنوع ہے قطعاً

موجود ہیں جب سینکڑوں اسمائے مدینہ

(4)حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مدینہ شریف مکہ سے افضل ہے۔(معجم کبیر،4/288،حدیث:4450)

(5)مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے اللہ جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دگنی عطا فرما۔(بخاری،1/620،حدیث: 1885)

طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد

ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

(6)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مدینۂ منوّرہ کی غبار (مٹی مبارک)جُذام سے شفا دیتی ہے۔(جامع صغیر،ص355،حدیث:5753)

خاکِ طیبہ میں رکّھی ہے رب نے شِفا

ساری بیماریوں کی ہے اس میں دَوا

اِس کی بَرکت سے ہر اِک مَرَض دُور ہے

میرے میٹھے مدینے کی کیا بات ہے

(7)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو حصّہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان میں ہے وہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ (بخاری،1/ 403، حدیث:1196)

اِس طرف رَوضہ کا نور اُس سَمْت منبر کی بہار

بیچ میں جنّت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ

(8)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے اہلِ مدینہ کو ڈرایا،اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی۔(معجم کبیر،7/143،حدیث:6632)

(9)حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(شعب الایمان،3/490،حدیث:4159)

(10)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور مدینہ میں مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا بروزِ قیامت میں اس کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،5/483،حدیث:3943)

ایمان پہ دے موت مدینے کی گلی میں

مدفن مِرا محبوب کے قدموں میں بنا دے

اللہ پاک ہمیں بھی سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اقدس کی بار بار بااَدب حاضری نصیب کرے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں میں شہادت کی موت، بروزِ قیامت حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت اور جنّتُ الفردوس میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس نصیب کرے۔ اٰمین بجاہِ خاتمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔(پ4 ، اٰلِ عمران : 96) اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: یہودیوں نے کہا تھا کہ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کا قبلہ رہا ہے، نیز یہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری۔(صراط الجنان بحوالہ خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 96 ، 1 / 274)اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، 2 / 427 ، حدیث: 3366)

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔(پ2،البقرۃ:144) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔( پ1،البقرۃ:125)اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(اٰلِ عمرٰن:97) اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔( پ1،البقرۃ:125)اور سورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: 2، 11 / 164)

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : علما فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’ لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ‘‘ اس میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللہ پاک نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس مبارک شہر میں نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللہ پاک کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘ یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، 1 / 65 ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں ،

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

مدینہ کے فضائل : وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔(پ14،النحل : 41)تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللہ پاک اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص709، حدیث: 1363(

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دگنی برکت عطا فرما۔(بخاری ، حدیث : 1885)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ( قیامت کے قریب ) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آ جایا کرتا ہے۔(بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885)

عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں شہادت کی یوں دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور میری موت اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شہر میں مقدر کر دے۔(بخاری ، حدیث : 1876)