تلاوت قرآن کرتے ہوئے رونے کے متعلق بزرگانِ دین کے بہت سے واقعات ہیں،  جن میں سے درج ذیل 2 واقعات:

حضرت سیّدنا فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ بہت نامور محدث اور مشہور اولیاء کرام میں سے ہیں، یہ پہلے زبردست ڈاکو تھے، ایک مرتبہ ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے کسی مکان کی دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اس وقت مالکِ مکان قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، اس نے یہ آیتِ کریمہ پڑھی، اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہ۔(پ 27، الحدید: 16) ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔" (پ27،سورۃ الحدید، 16)

جو نہی یہ آیت آپ کی سماعت سے ٹکرائی، گویا تاثیر ربّانی کا تیر بن کر دل میں پیوست ہو گئی، اس کا اتنا اثر ہوا کہ آپ خوفِ خدا سے کانپنے لگے اور بے اختیار آپ کے منہ سے نکلا"کیوں نہیں میرے پروردگار! اب اس کا وقت آگیا ہے" چنانچہ آپ روتے ہوئے دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سُنسان اور بے آباد کھنڈر نُما مکان میں جا کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد وہاں ایک قافلہ پہنچا تو شرکائے قافلہ آپس میں کہنے لگے کہ"رات کو سفر مت کرو، یہاں رک جاؤ کہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اطراف میں رہتا ہے" آپ نے قافلے والوں کی باتیں سنیں، تو اور زیادہ رونے لگے کہ افسوس!میں کتنا گنہگار ہوں کہ میرے خوف سے امت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے رات میں سفر نہیں کرتے اور گھروں میں عورتیں میرا نام لے کر بچوں کو ڈراتی ہیں، آپ مسلسل روتے رہے، یہاں کہ صبح ہوگئی اور آپ نے سچی پکّی توبہ کرکے یہ ارادہ کیا کہ اب ساری زندگی کعبۃاللہ کی مجاوری اور اللہ تعالی کی عبادت میں گزار دوں گا، چنانچہ آپ نے علمِ حدیث پڑھنا شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ایک صاحبِ فضیلت محدث ہوگئے اور حدیث کا درس دینا بھی شروع کر دیا۔(اولیائے رجال الحدیث، صفحہ 196)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَقُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں"، (پ28، التحریم: 6)

پھر فرمایا:"جہنم کی آگ ایک ہزار برس تک جلائی گئی تو وہ سرخ ہو گئی، پھر ایک ہزار سال تک دہکائی گی تو سفید ہو گئی، پھر ایک ہزار سال تک بھڑکائی گئی تو سیاہ ہوگئی اور اب وہ تاریک و سیاہ ہے۔"

یہ سن کر حبشی جو وہاں موجود تھا رونے لگا، مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون رو رہا ہے؟ عرض کی گئی" حبشہ کا رہنے والا ایک شخص ہے"، آپ نے اس کے رونے کو پسند فرمایا، حضرت سیّدنا جبرئیل امین وحی لے کر اترے، کہ ربّ تعالی فرماتا ہے" مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! میرا جو بندہ دنیا میں میرے خوف سے روئے گا، میں ضرور اسے جنت میں زیادہ ہنساؤں گا۔"


آنکھوں کے بجائے دل روتا ہے:

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ ایک مرتبہ کسی خوشی الحان قاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں، مگر ان کا دل رو رہا ہے۔"(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 198)

تلاوت کرتے کرتے رونے لگے:

حضرت سیدنا قاسم بن ابوبرّہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سننے والے ایک شخص نے مجھے یہ بات بیان کی کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچے یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلمِیْنِ۔ ترجمہ کنزالایمان:جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔(پارہ 3، سورہ مطففین) تو رونے لگے حتیٰ کہ زمین پر گر گئے اور اس کے بعد تلاوت نہ کر سکے۔

حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی سورہ بقرہ کے آخر سے دو آیتیں(پ3، بقرہ : 284،285)

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا تو جسے چاہے گا، بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ رسول ایمان لایا، اس پر جو اس کے ربّ کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا، تیری معافی ہواے ربّ ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔" تلاوت فرماتے تو رونے لگتے، پھر عرض فرماتے:"بے شک یہ حساب بہت سخت ہے۔" روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں:

حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ آیت مبارکہ، اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہ۔(پ 27، الحدید 16) ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔" تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے روتے آپ رضی اللہ عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔


مدرسۃ المدینہ دعوتِ اسلامی  کے زیر اہتمام 20 مئی 2021ء کو کنزالایمان مدرستہ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس کی تربیت کیسے کریں کے موضوع پر رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے گفتگو کی۔

دوران تلاوت قرآن اشکباری کرنا مستحب عمل ہے جس کی مثالیں ہمیں نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور سلف و صالحین کی حیات سے بھی ملتی ہیں جن میں سے چند پیش ِخدمت ہیں:

خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دورانِ تلاوتِ قرآن اشکباری فرمانا:

”حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا! فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اسے دوسروں سے سنوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: فَکَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَ جِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيْدًا (تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔(پ5، النساء: 41)تو مجھ سے فرمایا: رک جاؤ! جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس سے آنسو رواں تھے۔۔( اخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: البکاء عند قراءة القرآن، 4 / 1927)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت سے سردار مشرکین کا مضطرب ہونا:

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:فَيَقِفُ عَلَيْه نِسَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إلَيْهِ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ رَجُلًا بَکَّاءً لاَ يَمْلِکُ عَيْنَيْهِ إذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِکَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ.

" مشرکین کی عورتیں اور بچے کھڑے ہوکر ان کی طرف دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو (بے تحاشا روتے) اور انہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہتا۔ ان کا (اس سوز سے) قرآن مجید پڑھنا قریش کے مشرک سرداروں کو مضطرب کر دیتا۔“

(رواہ البخاری فی الصحيح، کتاب الصلاة، باب المسجد يکون فی الطريق من غير ضرر بالناس، 1 / 181)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرأت کے وقت اشکباری کرنا:

”حضرت عبد اﷲ بن شداد بیان کرتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی اور میں اس وقت آخری صف میں آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہا تھا۔ اور آپ سورہ یوسف کی یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: إنَّمَا أَشْکُو بَثِّي وَحُزْنِي إلَی اﷲِ (بے شک میں اپنے دکھ اور غم کا شکوہ صرف اﷲ تعالیٰ سے کرتا ہوں)۔“

(الحديث رقم: اخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب صفۃ الصلاة، باب: إذا بکى الإمام فی الصلاة)

قرآن پاک غم کے ساتھ نازل ہوا ہے:

حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)

مختصر وضاحت:

امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غم ظاہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے پھر سوچے کہ اِس نے اُس کے احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور روئے گا اور اگر غم اور رونا ظاہر نہ ہو جس طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔(احیاء العلوم، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثانی فی ظاہر آداب التلاوۃ، ۱ / ۳۶۸)

کاش! قرآن پڑھ کر اشکباری کریں میری آنکھیں

کاش! سنت کو اسلاف کی ادا کریں میری آنکھیں


ڈونیشن سیل ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  20 مئی 2021ء بروز جمعرات ریجن لاہور، زون حافظ آباد میں مدنی مشورہ ہوا جس میں مدنی بستہ ذمہ داران سمیت رکن زون سپر وائزر ڈونیشن سیل نے شرکت کی۔

شکیل عطاری رکن ریجن لاہور ڈونیشن سیل نے وقت کی پابندی، لوگوں سے میل جول اور عید الاضحیٰ پر کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔ مزید اس موقع پر شرکا کو عطیات بڑھانے کے حوالے سے تربیتی مدنی پھول دئیے۔(رپورٹ: حافظ رضوان علی مدنی سپر وائزر ڈونیشن سیل ڈیپارٹمنٹ حافظ آباد زون)

قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے،  اللہ عزوجل(تلاوت کا حق ادا کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے )ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنز الایمان:" وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔( پ 9، الانفال:2)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(مجمع الزوائد، کتاب التفسیر، باب القراءۃ بالحزن، الحدیث 11694، جلد 7، صفحہ 351، مفہوماً)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بند ھ جاتی اور کئی دن آپ گھر میں پڑے رہتے، آپ کی عیادت کی جاتی، لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔(اخراجہ الامام احمد بن حنبل فی الزہد:2176)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تفسیر"در منثور" میں نقل کرتے ہیں، ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے، وہ نوجوان یہ آیت

فَاِذَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37)پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے، وہ روتا ہوا یہی کہتا رہا"اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا۔"

سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔"(درمنثور الرحمٰن، تحت الآیۃ:38، 703/7)

حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میں لوگوں کے سو جانے کے بعد نکلا اور حضرت سیدنا مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ (سورہ فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھاکم التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے، اس کو بار بار پڑھتے اور جو کچھ میں نے آپ رضی اللہ عنہ سے سنا اور دیکھا، اس نے مجھے اپنی حاجت سے مشغول کر دیا، جس کے لئے میں نکلا تھا، لہذا میں ادھر ہی کھڑا رہا اور آپ طلوعِ فجر تک اسی کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے، جب آپ رضی اللہ عنہ پر وہ آیت ظاہر ہوگئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے رُکوع کیا، میں اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا، وضو کیا اور پھر مسجد میں گیا، جب کہ حضرت مالک رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں تھے اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ انور سے حسین نور بلند ہو رہا ہے۔(تدریب المدارک، باب فی ذکر عبادۃ مالک وورعۃ وخوفہ۔۔الخ، 50/2، المملکۃ الفریبۃ الرباط)

حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک رات امام الآئمہ، حضرت سیّد نا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان"بلکہ ان کا وعدہ قیامت نہایت کڑوی اور سخت کڑوی" کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔(سیر اعلام البناء، الطبقہ الخامسۃ من التابعین، 163، ابو حنیفہ401/6، موسسۃ الرسالۃ بیروت)

حضرت سیّدنا ابو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک دن حضرت سیّدنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا مدنی منا زور زور سے رونے لگا، اس کی امّی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا"مدنی منا آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو (حضرت سیّدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ القوی)اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے۔

شیخ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت سیدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ القوی نیکیاں چھپانے کی اس قدر سعی فرماتے تھے کہ اپنے اس کمرہ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہر نکلنے سے پہلے اپنا منہ دھو کر آنکھوں میں سُرمہ لگا لیتے، تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ ہونے پائے کہ یہ روئے تھے۔(حلیۃ الاولیاء، جلد 9، صفحہ 254)

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"میں تمہارے سامنے سورت"الھکم التکاثر" پڑھنے لگا ہوں، تو (اسے سن کر) جو رو پڑا تو اس کے لئے جنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورت پڑھی تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روپڑے اور بعض کو رونا نہیں آیا، جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رونا نہیں آیا تو انہوں نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے بہت کوشش کی، لیکن رونے پر قادر نہیں ہوسکے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں دوبارہ تمھارے سامنے وہ سورت پڑھتا ہوں تو جو رو پڑا اس کے لئے جنت ہے اور جسے رونا نہ آئے تو وہ رونے جیسی صورت بنا لے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔الخ، 363/2، الھدیث 2054)

ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: میرے سامنے تلاوت کرو، عرض کی، میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں؟ آپ پر ہی تو قرآن اترا ہے، ارشاد فرمایا؛ میں چاہتا ہوں کہ دوسروں سے سنو ں، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عنہ قراءۃ القران، الحدیث5055، ج3، ص418، مفھوماً)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی"پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو" تو اہلِ صفہ اس قدر روئے کہ ان کے آنسو ان کے رخساروں پر بہہ پڑے، جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے رونے کی آواز سنی تو آپ بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رونے لگے۔( اخرجہ البہیقی فی شعب الایمان، 489/1، الرقم:798، والدیلمی فی مسند الفردوس، 44713، الرقم:5373، والمنذری فی الترغیب والترھیب 11414، الرقم 5068، وابن ابی عاصم فی الزھد 178/1)

اگر ہم تنبیہات و وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد کریں، پھر اس کے اوامر و نواہی کے معاملے میں اپنی کوتاہیوں میں غور و فکر کریں تو بالیقین غمگین ہوں گے۔اللہ عزوجل اپنے پیاروں کے طفیل ہمیں بھی اس مقدّس قرآن مجید کی دائمی محبت عطا فرمائے اور اس کی تلاوت کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قراٰنِ پاک اللہ کا کلام ہے، یقیناً تلاوتِ قراٰن کی بےشمار برکتیں ہیں۔ قراٰنِ کریم انتہائی اثر انگیز کلام ہےجسے سُن کرخوف و خشیت کے پیکر لوگوں کے دِل دَہل جاتے ہیں اور وہ عذابِ الٰہی پر مشتمل آیات سُن کر خوب گریہ و زاری کرتے ہیں۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا: قراٰن غم کے ساتھ نازل ہوا ، لہٰذا جب تم اس کی قرأت کرو تو غم ظاہر کرو۔(معجم اوسط ،2/166،حدیث:2902)

چند بزرگ ہستیوں کے واقعات ملاحظہ کیجئے:

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰنِ پاک کی تلاوت میں خوب رویا کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر موجود تھے کہ آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: میرے سامنے تلاوت کرو۔میں نے عرض کی: میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں؟ آپ پر ہی تو قراٰن نازل ہوا ہے۔ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے سنوں۔(یہ حکم سُن کر) میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی،جب میں اس آیت پر پہنچا:﴿فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)ترجمۂ کنزالایمان: تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پرگواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔(پ5،النساء:41) تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بس اتنا کافی ہے۔ میں نے چہرۂ انور کی طرف دیکھا تو مقدس آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(مشکاة المصابیح، 1/411، حدیث:2195)

امیرُ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ جب قر اٰنِ پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا یعنی زار و قطار رویا کرتے۔(شعب الایمان ،1/493، رقم:806)

حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی: ﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷)مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸)﴾ ترجمۂ کنزُ الایمان: بےشک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے ۔اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔27، الطور : 7 ، 8) ان آیات کو سن کرآپ پر خوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ کی سانسیں ہی اُکھڑ گئیں اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔

(فیضانِ فاروق اعظم ، 1/151)

حضرت زُرارہ بن ابی اَوفی رحمۃُ اللہِ علیہ نہایت عابد و زاہد اور خوفِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے عالمِ باعمل تھے۔ تلاوت ِقراٰن کے وقت وعید و عذاب کی آیات پڑھ کر لَرزہ بَراَندام بلکہ کبھی کبھی خوفِ خدا سے بے ہوش ہوجاتے تھے۔ ایک دن فجرکی نماز میں جیسے ہی آپ نے یہ آیات تلاوت کیں:﴿فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ(۸)فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ(۹)ترجمۂ کنزُ الایمان: پھر جب صور پھونکا جائے گاتو وہ دن کرّا (سخت) دن ہے۔29، المدثر: 8 ،9) تو آپ پرنماز کی حالت میں ہی خوفِ الٰہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گرپڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔(اولیائے رجال الحدیث، ص110)

عطا کر مجھے ایسی رقت خدایا

کروں روتے روتے تلاوت خدایا

اللہ پاک ہمیں قراٰنِ پاک کے معانی کو سمجھتے ہوئے اور خوب گریہ و زاری کرتے ہوئے تلاوتِ قراٰن کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


عطا کر مجھے ایسی رقت خدایا

کروں روتے روتے تلاوت خدایا

قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے اور یہ اللہ تعالی کے جلیل القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجود بھی ان کی دلی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الہی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سُن کر وہ اللہ تعالی کے خوف سے رونے لگتے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، 129/2، الحدیث1337)

روایت ہے کہ حضرت ابنِ عباس عباس سے، فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ بوڑھے ہو گئے، فرمایا: مجھے سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورۃ المرسلات اور عَمَّ یَتَسَاءَلُوْنَ اور اِذَالشّمسُ کُوِّرَتْ نے بوڑھا کر دیا۔یعنی ان صورتوں میں عذابِ الہی کا ذکر ہے، جن سے مجھے اپنی اُمّت کی فکر ہے، ( مرقات) اُمّت کی استقامت بڑی مشکل چیز ہے، جس کی فکر حضور کو ہے۔

ترجمہ کنزالایمان:"اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے ابل رہی ہیں۔"

جب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے عرض کی، کیا آپ رضی اللہ عنہ کی کتاب میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے؟ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قرآن پاک میں ایک مکمل سورت حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف منسوب ہے، پھر سورہ مریم اور سورۃ طٰہ کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو نجاشی کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو گیا۔

اس طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں ستر آدمی تھے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورہ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگے، اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔(مدارک، المائدہ، تحت الآیۃ، 83، ص299)

انہی سب کے متعلق فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ اس کو سنتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے اُبل پڑتی ہیں، کیونکہ وہ حق کو پہچان گئے اور وہ کہتے ہیں، اے ہمارے ربّ عزوجل! ہم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے برحق ہونے کی شہادت دی، پس تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے اور ہمیں اس حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل فرما، جو روزِ قیامت تمام اُمّتوں کے گواہ ہوں گے(اور یہ بات انہیں انجیل سے معلوم ہو چکی تھی۔)

ذکرِ الہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ عبادت ہے۔

اس طرح عذابِ الہی کے خوف اور رحمتِ الہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے، بہت سے عاشقانِ قرآن قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھو متے ہیں، یہ قرآن کریم سے لذّت و سُرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، صبح کی خوشگوار ہوا سے نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الہی کی نسیم سے ہلتا ہے۔

ہمیں بھی چاہیئے کہ جب خاموش رہیں تو ربّ کی نعمتیں، اس کی قدرتیں سوچوں اور جب بولوں تو اللہ کی حمد، تلاوت، قرآن تبلیغ لوگوں کی رہبری کروں، کوئی نا جائز بات منہ سے نہ نکالوں، ہر دنیاوی گفتگو میں اللہ کا ذکر شامل رکھوں، گنہگار کو اللہ کے عذاب کا خوف ہو، خواہ نیکوکار کو اللہ تعالی کی ہیبت ہو، دوزخ سے نجات، ذوق و شوق کا رونا، اس سے افضل ہے، اس کی جزا ان شاءاللہ جنت کی عطا ہوگی۔

الہی خوب دے دے شوق قرآن کی

شرف دے گنبدِ خضرا کے سائے میں شہادت کا


حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا،  جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن 2/129، الحدیث1337)

تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے۔(صراط الجنان، ج3 ص10)

ہمارے بزرگان دین علیہم الرحمۃ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے وقت رویا کرتے تھے، آئیے ان میں سے چند کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والدِ ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسو پر اختیار نہ رہتا یعنی زاروقطار رویا کرتے ۔ (شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالی، 1/493)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ(پ27، الطور: 7،8)

ترجمہ کنزالایمان : بے شک تیرے ربّ کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔

آپ پرخوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی سانس اکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔( فیضان فاروق اعظم ، 1/151)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:

حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب اس آیت مبارکہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ (پ27، الحدید:16)

ترجمہ کنزالایمان: کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد( کے لئے)کی تلاوت کرتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ بے حال ہو جاتے۔( ابن عساکر، عبداللہ بن عمر بن الخطاب الخ، 31/127)

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ:

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے دعوتِ محاسبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! وہ وقت یاد کرو جب سورج جو آج کروڑوں میل دور ہے، صرف سوا میل دور ہو گا، آج اس کی پشت ہماری جانب ہے، اس دن اس کا اگلا حصّہ ہماری طرف ہوگا ، زمین تانبے کی ہوگی اس دہکتی ہوئی زمین کا تصور کرو اور اس گرم توے کو دیکھو کہ یہ تو دنیا کی آگ سے گرم ہوا ہے، اس کی تپش تو انگارے کی مانند دہکتی ہوئی، تانبے کی زمین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، پھر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک ضرور اس دن تم سے نعمتوں سے پُرسش (پوچھ گچھ) ہوگی، یہ سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ (تذکرۃ الاولیاء،1/222بتصرف ما)

حضرت سیّدناحسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ :

حضرت سیدناابوعبداللہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت طوسی علیہ الرحمہ کابچہ زورزور سے رونے لگا، اس کی امی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا بچہ آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو حضرت طوسی علیہ الرحمہ اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں، تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء، 9/245)


1۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ کے ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے، آپ کے چہرہ مبارک پر کثرت سے آنسو بہانے کے سبب دولکیریں بن گئی تھیں، آپ فرمایا کرتے تھے ''کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا''، ایک دن آپ کہیں سے گزر رہے تھے کہ یہ آیت سنی۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(پ27، الطور: 7،8)

ترجمہ کنزالایمان :بے شک تیرے ربّ کا عذاب ضرور ہونا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔

تو آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ سواری سے گر پڑے، لوگ آپ کو گھر لے آئے پھر آپ ایک مہینہ تک گھر سے باہر نہ نکل سکے ۔ (خوف خدا ، ص50، 51)

2۔حضرت عبید بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز پڑھائی اور سورہ یوسف کی قراءَت کی جب اس آیت پر پہنچے: وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ۔

ترجمہ کنزالایمان:اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں تو وہ غصہ کھاتا رہا۔ ( پ 13، یوسف 84)

تو وہ رونے لگے اور خوفِ خدا کے غلبہ کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے اور رکوع کر دیا تھا۔ (خوفِ خدا، ص 52)

3۔حضرت سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ محترمہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رونے لگے ان کو روتا دیکھ کر زوجہ بھی رونے لگی، آپ نے ز وجہ سے پوچھا تم کیوں روتی ہو ؟انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر مجھے بھی روناآگیا، انہوں نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالی کا یہ قول یاد آ گیا تھا وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۚ

ترجمہ کنزالایمان:اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ تمہارے رب کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے ( پ 16، مریم: 71)

اور میں نہیں جانتا کہ اس سے بہ عافیت گزر جاؤں گا یا نہیں۔


 قرآن پاک اللہ ربّ الانام کا مبارک کلام ہے، اس کی تلاوت کرنا، سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن پاک کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔

تلاوت کی توفیق دے دے الہی

گناہوں کی ہو دور دل سے سیاہی

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو آپ نے حکم فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ جب وہ قرآن کی تلاوت کریں گے، تو لوگوں کو ان کے رونے کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہیں دے گا۔

ایک مرتبہ حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز نے ممبر پر آیت پڑھی،

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ (پ 17، الانبیاء: 47)

ترجمہ کنزالایمان: ''اور ہم عدل کے ترازو رکھیں گے، قیامت کے دن''۔

تو خوف سے ایک طرف کو جھک گئے، گویا زمین پر گر رہے ہیں۔

حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ آیت مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ۔(پ27، الحدید: 16)

ترجمہ کنزالایمان:"کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔

تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے ہوئے آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

تلاوت میں رونا اس قدر پسندیدہ عمل ہے، حضرت سیّدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" میں تمہارے سامنے سورۃالتکاثر پڑھتا ہوں، تم میں سے جو روئے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"

چنانچہ سرکارَ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا، ہم میں سے کچھ تو روئے اور کچھ نہ روئے، جو نہیں رو سکے، انہوں نے عرض کی"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے رونے کی کوشش کی مگر نہ رو سکے، آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا" میں تمہارے سامنے دوبارہ پڑھتا ہوں، جو روئے گا اس کے لئے جنت ہوگی اور جو نہ رو سکے وہ رونے کی سی شکل بنا لے۔"

عبادت میں ریاضت میں تلاوت میں لگادے دل

رجب کا واسطہ دیتا ہوں، فرما دے کرم مولا

حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی وجہ سے چولہے پر رکھی ہوئی ہنڈیا جیسی آواز نکل رہی تھی۔


قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور  روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

 اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلمقرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم