شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ڈی ایس پی DSP پنڈی بھٹیاں قاسم محمود، سی او میونسپل کارپوریشن پنڈی بھٹیاں عنصر چیمہ عطاری سے پنڈی بھٹیاں کے ذمہ داران نے شرکت کی۔

ذمہ دار اسلامی بھائی نے شخصیات کو دعوتِ اسلامی کا تعارف پیش کرتے ہوئے 12 دینی کاموں سے آگاہ کیا۔ ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے اور فیضان مدینہ وزٹ کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی۔ آخر میں ماہنامہ فیضان مدینہ و عطر تحفہ میں پیش کی۔(رپورٹ: محمد ابرار عطاری تحصیل ذمہ دار شعبہ رابطہ برائے شخصیات پنڈی بھٹیاں ڈسٹرکٹ حافظ آباد لاہور ریجن)

گزشتہ دنوں بلوچستان میں ضلع نصیر آباد کے رکن ڈیرہ مراد جمالی میں غلام مصطفیٰ عطاری ڈومکی اور غلام مرتضی عطاری ڈومکی کے والد مرحوم وڈیرہ خداداد ڈومکی اور والدہ کے انتقال کی خبر ملنے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے اہل خانہ سے تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔

دوسری جانب گوٹھ آدم خان پہنور ضلع جیکب آباد میں سابق صوبائی وزیر سندھ قبائلی معروف سیاسی و سماجی شخصیت سردار منظور خان پہنور سے ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت و دعا کے ساتھ فاتحہ خوانی کی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان ریجن)


گزشتہ دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے زیر اہتمام اوتھل بلوچستان  میں سات دن کا فیضانِ نماز کورس کے اختتام پر اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ تقریب میں مولانا شاہد رضا مدنی عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا ۔ اجتماع میں چیف ٹرائیل سردار غلام فاروق شیخ سمیت کئی عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔ مولانا شاہد رضا مدنی عطاری نے اجتماع کے اختتام پر شرکا کو فیضان نماز کتاب تحفے میں دی۔

گزشتہ دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے مختلف شخصیات( قبائلی رہنما وائس پریذیڈنٹ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ نصیر آباد حاجی میر سرور رند، نائب تحصیلدار ریونیو ڈیپارٹمنٹ ضلع ہرنائی میر غلام مرتضیٰ رند ،سینیٹر سرفراز بگٹی ، قبائلی شخصیت ، مرکزی رہنما تحریک انصاف اور بلوچستان ریجن کے جنرل سیکٹری میر عطاء اللہ کلپر بگٹی ، جمہوری وطن پارٹی کے ترجمان در محمد بگٹی ، عاشق رسول سابق وزیر اعظم پاکستان مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی کے صاحبزادے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ بلوچستان قبائلی رہنما میر عمر خان جمالی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے محنت و افرادی قوت قبائلی رہنما میر حاجی محمد خان لہڑی، ایس ایس پی جعفر آباد افتخار احمد اور آر پی او سی ٹی ڈی فورس عطاء الرحمن ترین) سے ملاقات کی۔

دورانِ ملاقات ان شخصیات کو دعوتِ اسلامی کا تعارف پیش کیاگیا اور دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کے بارے میں معلومات دی گئیں مزید فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن کے فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی بریف کیا گیا۔

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں سرگودھا میں  رکن شوریٰ حاجی رفیع العطاری نے ذمہ داران کے ہمراہ مکتبۃ المدینہ کی نئی برانچ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر رکن شوریٰ نے شرکا کو کتب خریدنے اور اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کےلئے دوسروں میں رسائل تقسیم کرنے کا ذہن دیا جس پر شرکا نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں،  جس نے خائفین کی آنکھوں کو خوف و وعید سے رُلایا تو ان کی آنکھوں سے چشموں کی مانند آنسو جاری ہوگئے اور ان ہستیوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے بادل برسائے، جن کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں، ص129)

رونے کی فضیلت:

ربّ تعالی نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:جب ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں، گرپڑتے، سجدہ کرتے اور روتے۔( پ16، مریم: 58)(آیت سجدہ ہے) شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:اللہ عزوجل کو کوئی شے دو قطروں سے زیادہ پسند نہیں(1) خوفِ الہی عزوجل سے بہنے والا آنسو کا قطرہ اور(2)اللہ کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ ۔(جامع ترمذی الحدیث1449، ص1823)

منقول ہے ایک دن حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی ترجمہ کنزالایمان: (اور تم کسی کام میں ہواوراس کی طرف سے کچھ قرآن پڑھو اور تم لوگ کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو) (پ11، یونس:61)

تو اس شدت سے گریہ وزاری کرنے لگےکہ گھر والوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی آواز سن لی، آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حاضر ہوئیں اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے رونے کے سبب بیٹھ کر خود بھی رونے لگیں اور پھر ان دونوں کے رونے کی وجہ سے تمام گھر والے بھی رونے لگے۔( کتاب حکایتیں اور نصیحتیں، صفحہ381)

ایک دن کسی نے حضرت سیّدنا امام شافعی کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی،

ترجمہ کنزالایمان:یہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے اور نہ انہیں اجازت ہے کہ عذرکریں۔ ( پ 29، المرسلت36، 35)

تو آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ متغیر ہو گیا، رونگٹے کھڑے ہوگئے اور جسم کے جوڑ کپکپانے لگے اور آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے، جب افاقہ ہوا تو عرض کی، یا الہی میں جھوٹوں کے ٹھکانے اور غافل لوگوں کے منہ پھیرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یااللہ اہلِ معرفت کے دل تیرے لئے جھک گئے اور مشتاق لوگوں کی گردنیں تیری ہیبت کے سامنے جھک گئیں۔ ( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص399)

کتاب حکایتیں اور نصیحتیں کے صفحہ 492 پر ایک بہت خوبصورت دلچسپ واقعہ بیان کیا گیا ہے حضرت سیّدنا ربیع بن خثیم کے متعلق منقول ہے جو کہ (مکمل وہاں سے مطالعہ فرمائیے، میں اس اللہ والی کے چند الفاظ، ان کا قرآن سن کر رونا اور تڑپنے کے متعلق تحریر نقل کئے دیتی ہوں)اےربیع! مجھے میرے مالک کا کلام تو سنائیے، مجھے اس کے سننے کا بہت شوق ہے تو میں نے تلاوتِ قرآن شروع کردی،

ترجمہ کنزالایمان: (اے جھرمٹ مارنے والے! رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔(پ۲۹، المزمل۱۔۲)'')

وہ سنتی رہیں اور وہ تڑپتی رہیں، یہاں تک کہ جب میں اللہ تعالی کے اس فرمان پر پہنچا،

ترجمہ کنزالایمان: بے شک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ اور گلے میں پھنستا کھانااور درد ناک عذاب۔(پ29،مزمل:12تا13)

تو اس نے چیخ ماری اور نیچے گر گئی اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، میں اس کی اس حالت پر پریشان تھا کہ اچانک خواتین کا ایک قافلہ آیا۔(Continue)

حضرت سیدناحسن کرابیسی فرماتےہیں میں نےکئی بارحضرت سیدناامام شافعی کی معیت میں رات گزاردی، میں نے دیکھاکہ آپ رضی اللہ عنہ ایک تہائی رات نمازپڑھتےاورکبھی پچاس(50) آیات سےزیادہ تلاوت نہ کرتے، اگرکبھی زیادہ پڑھتےتوبھی سو(100)آیات تک پہنچتے۔( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص395)

حضرت سیّدناحبان فرماتےہیں میں نے حضرت سیّدناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کےپیچھےصبح کی نمازاداکی، آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی،

ترجمہ کنزالایمان: اور انہیں ٹھہراؤ ان سے پوچھنا ہے۔''(پ۲۳،الصّٰفّٰت:۲۴)

پھراس کودہراتےرہےیہاں تک کہ بہت زیادہ رونے کی وجہ سے تجاوزنہ فرمایئنگے۔ ( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص381)

پیارے پیارےمسلمانو! جب اللہ بندوں کےدلوں کی زمین سنوارتا ہے تواسےخشیت کےہل سے الٹتاپلٹتاہےاوراس میں محبت کابیج بوکرآنسؤوں کے پانی سے سیراب کرتاہے، توجوفصل اگتی ہےوہ یہ ہے،

ترجمہ کنزالایمان: وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا۔(پ6،المائدۃ:54)

اللہ تعالیٰ سے دعاگوہوں کہ ہمیں بھی خوفِ خدا، عشقِ مصطفیٰ اورتلاوت قرآن میں رونےکی اورسمجھنےکی توفیق عطافرمائے۔آمین


وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ

ترجمہ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے! ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔"(پ7، المائدہ:83)

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: جب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے عرض کی:

کیا آپ کی کتاب میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے؟

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" قرآن پاک میں ایک مکمل سورت حضرت مریم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، پھر سورۃ مریم اور سورۃ طٰہ کی چند آیات تلاوت فرمائیں، تو نجاشی کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہوگیا، اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورۃ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگے، اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، سورۃ المائدہ، تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 11)

تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے:

حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن ، 129/2 ، الحدیث 1337)

اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن میں رونا ایک مستحب عمل ہے، ہمارے بزرگانِ دین

رحمھم اللہ کا بھی یہ انداز رہا ہے، وہ بزرگ ہستیاں قرآن پاک سے بے پناہ محبت اور لگاؤ رکھتے، تلاوتِ قرآن کی کثرت کرتے اور اس کے معنی و مفاہم میں غورو فکر کرتے ہوئے خوب گریہ وزاری فرماتے، رحمتِ الہی کی آیات پر رحمت کی امید اور عذابِ الہی کی آیات پر ربّ کریم کے عذاب سے پناہ مانگتے، کچھ واقعات ملاحظہ کیجئے۔

تلاوت قرآن میں رونے والوں کے واقعات:

حضرت سیّدنا عکرمہ ابن ابو جہل رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کھولتے، تو آپ پر غشی طاری ہوجاتی اور فرماتے یہ میرے ربّ عزوجل کا کلام ہے۔( دین و دنیا کی انوکھی باتیں، جلد1، صفحہ 63)

امام اعظم علیہ الرحمہ اور تلاوتِ قرآن:

حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک رات میں امام الائمہ، سراج الاُمّۃ، حضرت سیدنا امام اعظم علیہ الرحمۃ نے قیام فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ۔(پ 27، القمر: 46)

ترجمہ کنزالایمان:بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑوی۔

کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔( سیرت اعلام الانبیاء، الطبقۃ الخامسۃ من التابعین 163، ابو حنیفہ 401/6، موسۃ الرمالۃ بیروت)

امام شافعی علیہ الرحمہ کا اندازِ تلاوت:

فقہ کے مشہور امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمۃ تلاوتِ قرآن میں خوب گریہ و زاری فرماتے اور جب کبھی تلاوتِ قرآن سنائی دیتی تو آپ علیہ الرحمۃ پر بسااوقات بے ہوشی طاری ہوجاتی، جیسا کہ حضرت سیدنا ملّا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں، حضرت سیّدنا امام شافعی علیہ الرحمہ نے کسی قاری صاحب کو سنا، جو یہ تلاوت کر رہا تھا، هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَۙ وَ لَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان:یہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے اور نہ انہیں اجازت ملے کہ عذر کریں۔ 29 ، المرسلات: 35، 36)

تو آپ علیہ الرحمۃ کا رنگ متغیر ہو گیا، کپکپانے لگے اور بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے، جب افاقہ ہوا تو عرض کی:اے اللہ پاک! میں جھوٹوں کے ٹھکانے اور جاہل لوگوں کے منہ پھیرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، مجھے اپنی رحمت عطا فرما اور اپنے پردہ بخشش میں چھپا لے اور اپنے کرم سے میری کوتاہیاں معاف فرما دے اور مجھے اپنے علاوہ کسی غیر کا محتاج نہ کر اور اپنی بھلائی سے مجھے مایوس نہ کر۔( مرقاۃ المفاتح، خطبۃ الکتاب، والی عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی، 69/1، دار الکتب العلمیہ)

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ

میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الہی

امام مالک علیہ الرحمہ کی گریہ زاری:

حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لوگوں کے سو جانے کے بعد میں نکلا اور حضرت سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ بن انس کے پاس سے گزرا، تو کیا دیکھتا ہوں کے آپ کھڑے ہو کر نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ(سورہ فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھکم التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠(پ30، التکاثر: 8) پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے اور اس کو بار بار پڑھتے اور روتے، پھر فرماتے ہیں کہ آپ طلوعِ فجر تک اس کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے۔ (تدریب المدارک،باب فی ذکر عبادت)

سبحان اللہ! یہ اللہ والوں کا ہی شیوہ ہے کہ بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود بھی ان کی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ پاک کا کلام پڑھا جاتا، تو خوفِ خدا کے سبب کانپ اٹھتے، خوب گریہ و زاری کرتے، یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر پڑتے، یقیناً یہی لوگ اس آیت کے مصداق ہیں، ربّ کریم سورہ زمر کی آیت نمبر 23 میں فرماتا ہے: اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳)

ترجمہ کنز الایمان: اللہ نے اُتاری سب سے اچھی کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اسے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔

اللہ پاک ان نیک ہستیوں کے صدقے میں ہمیں بھی تلاوتِ قرآن میں آہ و زاری کرنے اور غور و فکر کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


تمھید:

سب خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے، جس نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے بندوں پر احسان فرمایا، قرآن مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان عربی میں نازل کیا گیا، تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں، یہ وہ کتاب ہے جس نے اوّلین اورآخرین کی رہنمائی فرمائی، اس مبارک کلام کی شان یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے سے اُکتاہٹ نہیں ہوتی، بلکہ لذّت ملتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ قرآن کو قرآن کہتے ہی اس لئے ہیں کہ قرآن کا معنیٰ ہے بار بار پڑھی جانے والی کتاب، یعنی یہ کتاب بار بار پڑھی جاتی ہے، لیکن پھر بھی اس سے اُکتا ہٹ نہیں ہوتی، جیسا کہ باقی کتب ہیں کہ ایک آدھ دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کا جی نہیں کرتا، احادیثِ مبارکہ میں تلاوت قرآن کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں:

ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:اَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِیْ تِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ۔ یعنی میری امت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔(احیاءُ العلوم، جلد 1، صفحہ 823)

تلاوت کرنے والے پر لازم ہے کہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے، تلاوت سے مقصود صرف رِضائے الٰہی کا حصول ہو، کسی دنیاوی مقصد کے پیشِ نظر نہ ہو، با ادب انداز میں تلاوت کرے اور اِس بات کو ذہن میں رکھے کہ اپنے ربّ عزوجل سے مناجات کر رہا ہے اور اُس کی کتاب پڑھ رہا ہے، تلاوت کے وقت ایسی کیفیت طاری ہو کہ گویا وہ اللہ عزوجل کو دیکھ رہا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ خیال جمائے کہ اللہ عزوجل اسے دیکھ رہا ہے، قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے،

اس کے متعلق تین فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔مصطفٰی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"

2۔حضرت سیّدنا صالح مری علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:"میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی تو آپ نے اِستفسار فرمایا"اے صالح!یہ تلاوتِ قرآن ہے تو رونا کہاں ہے؟

3۔حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قرءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(احیاء العلوم، جلد ، 1 صفحہ 836)

غم کی کیفیت پیدا کرنے کا طریقہ:

یہ کہ اس میں وارد تنبیہات وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد کرے، پھر اس کے اوامرو نواہی کے معاملے میں اپنی کوتاہیوں میں غور و فکر کرے تو بالیقین وہ غمگین ہو گا اور رونے لگے گا، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے کہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:"میرے سامنے تلاوت کرو، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، پس میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی ، جب اس آیت پر پہنچا:

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(پارہ 5، سورہ نساء 41)

ترجمہ کنزالایمان:"تو کیسی ہوگی جب ہم پر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔"تو میں نے آپ کی آنکھیں اشکبار دیکھیں، آپ نے ارشاد فرمایا:" اب بس کرو "یہ کیفیت اس وجہ سے تھی کہ اس حالت کے مشاہدے نے آپ کے دل کو مکمل طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔(احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 864)

خشیتِ الہی رکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے کہ وعید کی آیاتِ تلاوت کے وقت ان پر غشی طاری ہوجاتی اور بعض کا تووصال بھی ہوجاتا، تلاوت میں رونے والوں کے واقعات ملاحظہ فرمائیں: چار واقعات

1۔امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کی کوئی آیتِ کریمہ تلاوت کرتے، تو آپ رضی اللہ عنہ کا سانس رُک جاتا، اس قدر روتے کہ زمین پر تشریف لے آتے، پھر گھر سے باہر تشریف نہ لاتے، یہاں تک لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو مریض سمجھ کر عیادت کے لئے آتے۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 123)

2۔ حضرت سیّدنا قاسم بن ابو بُزہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سُننے والے ایک شخص نے مجھے یہ بات بیان کی، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیتِ مبارکہ پر پہنچے:یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان: "جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔"

تو رونے لگے، حتٰی کہ زمین پر گئے اور اس کے بعد قراءت نہ کر سکے۔

4۔حضرت سیّدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب یہ آیتِ مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہِ۔

(پارہ 27، الحدید14)

ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔"تلاوت کرتے تو روتے، یہاں تک روتے روتے آپ رضی اللہ عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 535،537)

4۔حضرت سیّدنا ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نجاشی نے حضرت سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بُلوایا اور نصاریٰ کو جمع کیا، پھر آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں قرآن سنائیں، حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے سورہ مریم کی تلاوت کی، جسے سن کر وہ رونے لگے اور حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 229)

تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ

(پارہ 7، المائدہ 83)

ترجمہ کنزالایمان:تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے۔"

اللہ اللہ اللہ! کیسی تلاوت کرتے تھے یہ اللہ والے، کیسا خوفِ خدا تھا ان حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین کا اور ایک ہم ہیں کہ تلاوت کرتے ہیں تو بھی ذہن کہیں اور گھوم رہا ہوتا ہے، اے کاش!اللہ تعالی ہمیں بھی دلجمعی کے ساتھ خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن پاک زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 18 مئی 2021ء بروز منگل فیضان مدینہ  گوجرانوالہ، شیخوپورہ موڑ بس اسٹاپ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں رکن زون ، اراکین کابینہ اور ڈویژن ذمہ داران نے شرکت کی۔

نگران مجلس شاہ نواز عطاری و رکن ریجن رضا عطاری نے احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کے فضائل اور نہ پڑھنے کے عذابات پر بیان کیا نیز اس موقع پر شعبے کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے پر مدنی پھول دئیے۔(رپورٹ: محمد دلشاد عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ و کارکردگی ذمہ دار)

تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے،  حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن ، 129/2 ، الحدیث 1337)(نقل از تفسیر صراط الجنان تحت المائدہ، ایت 83، پ7)

تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں حُزن و ملال کو حاضر کرے، کیونکہ اس سے رونا پیدا ہوتا ہے۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت لآیۃ 58، 7/551)

قرآن کلامِ الہی ہے، اس کی تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے آنکھوں سے اشکوں کا جاری ہونا عین سعادت اور خوش نصیبوں کا حصّہ ہے۔

اللہ عزوجل کے نیک بندے تو دن رات عبادت و اطاعتِ الہی میں گزارنے کے باوجود ہر وقت خوفِ خدا عزوجل سے لرزاں و ترساں رہتے، تلاوتِ قرآن کے وقت آیا ت و وعیدوعذاب پڑھ کر اور سُن کر خوفِ خدا سے اس قدر آنسو بہاتے کہ بعض اوقات اُن کی روح پرواز کر جاتی۔

مگر آہ!ہماری غفلتوں کے کیا کہنے، ہمارے دل کی سختی کا عالم یہ ہے کہ دن رات اپنے خالق و مالک عزوجل کی نافرمانی میں گزار دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اولاً تو تلاوتِ قرآن کی توفیق ہی نہیں مل پاتی اور اگر مل بھی جائے تو حال یہ ہوتا ہے کہ دل و دماغ میں دُنیاوی خیالات ہی چھائے رہتے ہیں، رونا تو دور کی بات ہماری توجّہ اس طرف بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا ربّ عزوجل ہم سے کیا فرما رہا ہے، آئیے! حصولِ ترغیب کے لئے اسلافِ کرام کے چند واقعات سنتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، (یعنی زاروقطار رویا کرتے)۔(شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی، جلد 1، صفحہ 493 ، ح 806)(نقل از ہفتہ وار اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")

حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ کے ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے۔(درۃ الناصحین، المجلس الخامس والستون، ص293)(نقل از کتاب خوفِ خدا مکتبۃ المدینہ، ص50، 51)

حضرت زرارہ بن اوفی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن فجر کی نماز میں یہ آیات تلاوت کیں،

فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ۔( پ 29، المدثر: 8، 9)

ترجمہ کنزالایمان:پھر جب صُور پھونکا جائے گا تو وہ دن کرّا(یعنی سخت) دن ہے۔ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ پر نماز کی حالت میں ہی خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گر پڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔(اولیائے رجال الحدیث، صفحہ 123)(نقل از ہفتہ وار اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")

ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابو ورّاق رحمۃ اللہ علیہ کے مدنی منے قران پاک کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے، اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاۗ(پ29 ، المزمل: 17) ترجمہ کنزالایمان:اگر کفر کرو اس دن سے، جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔"

تو خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ دم توڑ دیا۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 87)(نقل از خوف خدا، مکتبۃالمدینہ صفحہ 113)

الحمدللہ عزوجل اس پُر فتن دور میں دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول تلاوتِ قرآن کرنے، سننے اور خوفِ خدا کے باعث رونے کی سعادت عطا کرتا ہے۔

الہی خو ب دے دے شوق قرآں کی تلاوت کا

شرف دے گنبد ِخضرا کے سائے میں شہادت کا


شعبہ مدنی چینل عام کریں دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام زون  پاکپتن شریف میں نگران شعبہ انجم رضا عطاری اور محمد یار عطاری زون ذمہ دار نے مدنی مشورہ لیا جس میں ذمہ داران نے شرکت کی۔

دعوت اسلامی کے سوشل میڈیااور موبائل ایپلی کیشن کی پروموشن پر گفتگو ہوئی۔کیبل آپر یٹر سے رابطے اور موبائل مارکیٹ میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے حوالے سے مدنی پھول دئیے۔یاد رمضان امیر اہل سنت مدنی مذاکرے کی ایپلی کیشن کو عام کرنے اور ہفتہ وار اجتماع میں مدنی چینل کااسٹال لگانے پر خصوصی کلام ہوا۔ 

ذکرِ الہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلٰی عبادت ہے،  اسی طرح عذابِ الہی کے خوف اور رحمتِ الہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے، بہت سے عاشقانِ قرآن قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں، یہ قرآن کریم سے لذّت و سرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، صبح کے خوشگوار ہو اسے نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الٰہی کی نسیم سے ہلتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے، ترجمہ کنزالایمان:" اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے ۔"( پ 7، مائدہ:83)

کاش کہ ہمیں یہ جذبہ نصیب ہوجائے کہ جب کبھی اکٹھا ہونے کا موقع ملے، تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے تلاوت کرنے میں مصروف ہو جائیں، یوں صحابہ کرام کے مبارک دور کی یادیں تازہ ہوتی رہیں اور اے کاش!کہ انداز ایسا ہو کہ تلاوت کرنے والا اور سننے والے اشکبار ہوں، تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔" ،

ہمارے اسلاف کرام رحمھم اللہ کے تلاوت میں گریہ وزاری کرنے کے واقعات ملاحظہ فرمائیے: تلاوتِ صدیق اکبر اور گریہ و زاری:

حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، یعنی زار و قطار رونے لگتے۔"(فیضان صدیق اکبر، ص57)

تلاوتِ فاروق اعظم اور گریہ و زاری:

حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی، ترجمہ کنزالایمان:"بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔"(پارہ 27، الطور 7،8)آپ پر خوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔(فیضان فاروق اعظم،جلد1، صفحہ151)

تلاوتِ عمر بن عبدالعزیز اور گریہ وزاری:

ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سورہ والیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے، ترجمہ کنزالایمان:" تو میں تمہیں ڈراتا ہوں اس آگ سے، جو بھڑک رہی ہے ۔"(پ 30، الیل:14)

تو روتے روتے ہچکی بندھ گئی، آگے نہیں پڑھ سکے، نئے سرے سے تلاوت شروع کی، جب اس آیت پر پہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور آگے نہیں پڑھ سکے، بالآخر یہ سورت چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔"(عمر بن عبدالعزیز کی 425 حکایات، صفحہ287)

حبشہ کا وفد رونے لگا:

حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں ستر آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورہ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سُن کر وہ لوگ بھی زار و قطار رونے لگے۔(پارہ7، مائدہ: 83 کی تفسیر، تفسیر صراط الجنان)

عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا

کروں روتے روتے تلاوت خدایا