ذکرِ الہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلٰی عبادت ہے،  اسی طرح عذابِ الہی کے خوف اور رحمتِ الہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے، بہت سے عاشقانِ قرآن قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں، یہ قرآن کریم سے لذّت و سرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، صبح کے خوشگوار ہو اسے نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الٰہی کی نسیم سے ہلتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے، ترجمہ کنزالایمان:" اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے ۔"( پ 7، مائدہ:83)

کاش کہ ہمیں یہ جذبہ نصیب ہوجائے کہ جب کبھی اکٹھا ہونے کا موقع ملے، تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے تلاوت کرنے میں مصروف ہو جائیں، یوں صحابہ کرام کے مبارک دور کی یادیں تازہ ہوتی رہیں اور اے کاش!کہ انداز ایسا ہو کہ تلاوت کرنے والا اور سننے والے اشکبار ہوں، تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔" ،

ہمارے اسلاف کرام رحمھم اللہ کے تلاوت میں گریہ وزاری کرنے کے واقعات ملاحظہ فرمائیے: تلاوتِ صدیق اکبر اور گریہ و زاری:

حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، یعنی زار و قطار رونے لگتے۔"(فیضان صدیق اکبر، ص57)

تلاوتِ فاروق اعظم اور گریہ و زاری:

حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی، ترجمہ کنزالایمان:"بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔"(پارہ 27، الطور 7،8)آپ پر خوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔(فیضان فاروق اعظم،جلد1، صفحہ151)

تلاوتِ عمر بن عبدالعزیز اور گریہ وزاری:

ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سورہ والیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے، ترجمہ کنزالایمان:" تو میں تمہیں ڈراتا ہوں اس آگ سے، جو بھڑک رہی ہے ۔"(پ 30، الیل:14)

تو روتے روتے ہچکی بندھ گئی، آگے نہیں پڑھ سکے، نئے سرے سے تلاوت شروع کی، جب اس آیت پر پہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور آگے نہیں پڑھ سکے، بالآخر یہ سورت چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔"(عمر بن عبدالعزیز کی 425 حکایات، صفحہ287)

حبشہ کا وفد رونے لگا:

حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں ستر آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورہ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سُن کر وہ لوگ بھی زار و قطار رونے لگے۔(پارہ7، مائدہ: 83 کی تفسیر، تفسیر صراط الجنان)

عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا

کروں روتے روتے تلاوت خدایا