تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے،
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضور
پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا
تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن
، 129/2 ، الحدیث 1337)(نقل از تفسیر صراط الجنان تحت المائدہ، ایت 83، پ7)
تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے
کہ دل میں حُزن و ملال کو حاضر کرے، کیونکہ اس سے رونا پیدا ہوتا ہے۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت لآیۃ 58، 7/551)
قرآن کلامِ الہی ہے، اس کی تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے آنکھوں سے اشکوں
کا جاری ہونا عین سعادت اور خوش نصیبوں کا حصّہ ہے۔
اللہ عزوجل کے نیک بندے تو دن رات عبادت و اطاعتِ الہی میں
گزارنے کے باوجود ہر وقت خوفِ خدا عزوجل سے لرزاں و ترساں رہتے، تلاوتِ قرآن کے وقت آیا ت و وعیدوعذاب پڑھ کر
اور سُن کر خوفِ خدا سے اس قدر آنسو بہاتے کہ بعض اوقات اُن کی روح پرواز کر جاتی۔
مگر آہ!ہماری غفلتوں کے کیا کہنے،
ہمارے دل کی سختی کا عالم یہ ہے کہ دن رات
اپنے خالق و مالک عزوجل کی نافرمانی میں گزار دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اولاً تو
تلاوتِ قرآن کی توفیق ہی نہیں مل پاتی اور اگر مل بھی جائے تو حال یہ ہوتا ہے کہ دل و دماغ میں دُنیاوی خیالات ہی چھائے رہتے ہیں،
رونا تو دور کی بات ہماری توجّہ اس طرف
بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا ربّ عزوجل ہم سے کیا فرما رہا ہے، آئیے! حصولِ ترغیب کے لئے اسلافِ کرام کے چند
واقعات سنتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، (یعنی
زاروقطار رویا کرتے)۔(شعب الایمان، باب فی
الخوف من اللہ تعالی، جلد 1، صفحہ 493 ، ح
806)(نقل از ہفتہ وار اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")
حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ
عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ
کے ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے۔(درۃ الناصحین، المجلس الخامس والستون،
ص293)(نقل از کتاب خوفِ خدا مکتبۃ المدینہ، ص50، 51)
حضرت زرارہ بن اوفی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن
فجر کی نماز میں یہ آیات تلاوت کیں،
فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ فَذٰلِكَ
یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ۔( پ 29، المدثر: 8، 9)
ترجمہ کنزالایمان:پھر جب صُور پھونکا جائے گا تو وہ دن کرّا(یعنی سخت) دن ہے۔
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ پر نماز کی حالت میں
ہی خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گر پڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔(اولیائے
رجال الحدیث، صفحہ 123)(نقل از ہفتہ وار
اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")
ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابو ورّاق
رحمۃ اللہ علیہ کے مدنی منے قران پاک کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے، اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ
شِیْبَاۗ(پ29 ، المزمل: 17)
ترجمہ کنزالایمان:اگر کفر کرو اس دن سے، جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔"
تو خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا
کہ دم توڑ دیا۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 87)(نقل از خوف خدا، مکتبۃالمدینہ صفحہ 113)
الحمدللہ عزوجل اس پُر فتن دور
میں دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول تلاوتِ قرآن کرنے، سننے اور خوفِ خدا کے باعث رونے کی سعادت عطا کرتا ہے۔
الہی خو ب دے دے شوق قرآں کی تلاوت کا
شرف دے گنبد ِخضرا کے سائے میں
شہادت کا