تمھید:

سب خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے، جس نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے بندوں پر احسان فرمایا، قرآن مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان عربی میں نازل کیا گیا، تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں، یہ وہ کتاب ہے جس نے اوّلین اورآخرین کی رہنمائی فرمائی، اس مبارک کلام کی شان یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے سے اُکتاہٹ نہیں ہوتی، بلکہ لذّت ملتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ قرآن کو قرآن کہتے ہی اس لئے ہیں کہ قرآن کا معنیٰ ہے بار بار پڑھی جانے والی کتاب، یعنی یہ کتاب بار بار پڑھی جاتی ہے، لیکن پھر بھی اس سے اُکتا ہٹ نہیں ہوتی، جیسا کہ باقی کتب ہیں کہ ایک آدھ دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کا جی نہیں کرتا، احادیثِ مبارکہ میں تلاوت قرآن کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں:

ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:اَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِیْ تِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ۔ یعنی میری امت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔(احیاءُ العلوم، جلد 1، صفحہ 823)

تلاوت کرنے والے پر لازم ہے کہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے، تلاوت سے مقصود صرف رِضائے الٰہی کا حصول ہو، کسی دنیاوی مقصد کے پیشِ نظر نہ ہو، با ادب انداز میں تلاوت کرے اور اِس بات کو ذہن میں رکھے کہ اپنے ربّ عزوجل سے مناجات کر رہا ہے اور اُس کی کتاب پڑھ رہا ہے، تلاوت کے وقت ایسی کیفیت طاری ہو کہ گویا وہ اللہ عزوجل کو دیکھ رہا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ خیال جمائے کہ اللہ عزوجل اسے دیکھ رہا ہے، قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے،

اس کے متعلق تین فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔مصطفٰی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"

2۔حضرت سیّدنا صالح مری علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:"میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی تو آپ نے اِستفسار فرمایا"اے صالح!یہ تلاوتِ قرآن ہے تو رونا کہاں ہے؟

3۔حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قرءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(احیاء العلوم، جلد ، 1 صفحہ 836)

غم کی کیفیت پیدا کرنے کا طریقہ:

یہ کہ اس میں وارد تنبیہات وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد کرے، پھر اس کے اوامرو نواہی کے معاملے میں اپنی کوتاہیوں میں غور و فکر کرے تو بالیقین وہ غمگین ہو گا اور رونے لگے گا، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے کہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:"میرے سامنے تلاوت کرو، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، پس میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی ، جب اس آیت پر پہنچا:

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(پارہ 5، سورہ نساء 41)

ترجمہ کنزالایمان:"تو کیسی ہوگی جب ہم پر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔"تو میں نے آپ کی آنکھیں اشکبار دیکھیں، آپ نے ارشاد فرمایا:" اب بس کرو "یہ کیفیت اس وجہ سے تھی کہ اس حالت کے مشاہدے نے آپ کے دل کو مکمل طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔(احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 864)

خشیتِ الہی رکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے کہ وعید کی آیاتِ تلاوت کے وقت ان پر غشی طاری ہوجاتی اور بعض کا تووصال بھی ہوجاتا، تلاوت میں رونے والوں کے واقعات ملاحظہ فرمائیں: چار واقعات

1۔امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کی کوئی آیتِ کریمہ تلاوت کرتے، تو آپ رضی اللہ عنہ کا سانس رُک جاتا، اس قدر روتے کہ زمین پر تشریف لے آتے، پھر گھر سے باہر تشریف نہ لاتے، یہاں تک لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو مریض سمجھ کر عیادت کے لئے آتے۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 123)

2۔ حضرت سیّدنا قاسم بن ابو بُزہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سُننے والے ایک شخص نے مجھے یہ بات بیان کی، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیتِ مبارکہ پر پہنچے:یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان: "جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔"

تو رونے لگے، حتٰی کہ زمین پر گئے اور اس کے بعد قراءت نہ کر سکے۔

4۔حضرت سیّدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب یہ آیتِ مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہِ۔

(پارہ 27، الحدید14)

ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔"تلاوت کرتے تو روتے، یہاں تک روتے روتے آپ رضی اللہ عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 535،537)

4۔حضرت سیّدنا ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نجاشی نے حضرت سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بُلوایا اور نصاریٰ کو جمع کیا، پھر آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں قرآن سنائیں، حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے سورہ مریم کی تلاوت کی، جسے سن کر وہ رونے لگے اور حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 229)

تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ

(پارہ 7، المائدہ 83)

ترجمہ کنزالایمان:تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے۔"

اللہ اللہ اللہ! کیسی تلاوت کرتے تھے یہ اللہ والے، کیسا خوفِ خدا تھا ان حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین کا اور ایک ہم ہیں کہ تلاوت کرتے ہیں تو بھی ذہن کہیں اور گھوم رہا ہوتا ہے، اے کاش!اللہ تعالی ہمیں بھی دلجمعی کے ساتھ خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن پاک زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم