وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ
تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
ترجمہ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی
ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے! ہم ایمان لائے تو ہمیں
حق کے گواہوں میں لکھ لے۔"(پ7، المائدہ:83)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: جب
حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے عرض کی:
کیا آپ کی کتاب میں حضرت مریم رضی
اللہ عنہا کا ذکر ہے؟
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" قرآن پاک میں ایک مکمل سورت
حضرت مریم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، پھر سورۃ مریم اور سورۃ طٰہ کی چند
آیات تلاوت فرمائیں، تو نجاشی کی آنکھوں
سے سیلِ اشک رواں ہوگیا، اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس
میں70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورۃ یٰسین
کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگے، اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، سورۃ المائدہ،
تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 11)
تلاوت قرآن کے وقت
رونا مستحب ہے:
حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم
کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن
، 129/2 ، الحدیث 1337)
اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن
میں رونا ایک مستحب عمل ہے، ہمارے بزرگانِ
دین
رحمھم اللہ کا بھی یہ انداز رہا ہے، وہ بزرگ ہستیاں قرآن پاک سے بے پناہ محبت اور
لگاؤ رکھتے، تلاوتِ قرآن کی کثرت کرتے اور
اس کے معنی و مفاہم میں غورو فکر
کرتے ہوئے خوب گریہ وزاری فرماتے، رحمتِ الہی کی آیات پر رحمت کی امید اور عذابِ الہی کی آیات پر ربّ کریم کے عذاب سے پناہ
مانگتے، کچھ واقعات ملاحظہ کیجئے۔
تلاوت قرآن میں
رونے والوں کے واقعات:
حضرت سیّدنا عکرمہ ابن ابو جہل رضی اللہ عنہ جب
قرآن پاک کھولتے، تو آپ پر غشی طاری
ہوجاتی اور فرماتے یہ میرے ربّ عزوجل کا کلام ہے۔( دین و دنیا کی انوکھی باتیں، جلد1، صفحہ 63)
امام اعظم علیہ الرحمہ اور تلاوتِ قرآن:
حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں، ایک رات میں امام الائمہ، سراج الاُمّۃ، حضرت سیدنا امام اعظم علیہ الرحمۃ نے قیام
فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ
اَمَرُّ۔(پ 27، القمر: 46)
ترجمہ کنزالایمان:بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت
کڑوی۔
کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔( سیرت اعلام
الانبیاء، الطبقۃ الخامسۃ من التابعین
163، ابو حنیفہ 401/6، موسۃ الرمالۃ بیروت)
امام شافعی علیہ
الرحمہ کا اندازِ تلاوت:
فقہ کے مشہور امام محمد بن ادریس شافعی علیہ
الرحمۃ تلاوتِ قرآن میں خوب گریہ و زاری فرماتے اور جب کبھی تلاوتِ قرآن سنائی
دیتی تو آپ علیہ الرحمۃ پر بسااوقات بے
ہوشی طاری ہوجاتی، جیسا کہ حضرت سیدنا ملّا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں، حضرت سیّدنا امام شافعی علیہ الرحمہ نے کسی قاری
صاحب کو سنا، جو یہ تلاوت کر رہا تھا، هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَۙ وَ لَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:یہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے اور نہ انہیں اجازت ملے کہ عذر
کریں۔(پ 29 ، المرسلات: 35، 36)
تو آپ علیہ الرحمۃ کا رنگ متغیر ہو گیا، کپکپانے لگے اور بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے
آئے، جب افاقہ ہوا تو عرض کی:اے اللہ پاک!
میں جھوٹوں کے ٹھکانے اور جاہل لوگوں کے
منہ پھیرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، مجھے
اپنی رحمت عطا فرما اور اپنے پردہ بخشش میں چھپا لے اور اپنے کرم سے میری کوتاہیاں
معاف فرما دے اور مجھے اپنے علاوہ کسی غیر کا محتاج نہ کر اور اپنی بھلائی سے مجھے
مایوس نہ کر۔( مرقاۃ المفاتح، خطبۃ الکتاب،
والی عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی،
69/1، دار الکتب العلمیہ)
تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ
میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الہی
امام مالک علیہ الرحمہ
کی گریہ زاری:
حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:لوگوں کے سو جانے کے بعد میں نکلا اور حضرت سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ
بن انس کے پاس سے گزرا، تو کیا دیکھتا ہوں
کے آپ کھڑے ہو کر نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ(سورہ فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھکم
التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ
النَّعِیْمِ۠(پ30، التکاثر: 8) پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے اور اس کو بار بار پڑھتے
اور روتے، پھر فرماتے ہیں کہ آپ طلوعِ فجر
تک اس کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے۔ (تدریب المدارک،باب فی ذکر عبادت)
سبحان اللہ! یہ اللہ والوں کا ہی شیوہ ہے کہ بلند مقام پر
فائز ہونے کے باوجود بھی ان کی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ پاک کا
کلام پڑھا جاتا، تو خوفِ خدا کے سبب کانپ اٹھتے، خوب گریہ و زاری کرتے، یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر پڑتے، یقیناً یہی لوگ اس آیت کے مصداق ہیں، ربّ
کریم سورہ زمر کی آیت نمبر 23 میں فرماتا ہے: اَللّٰهُ
نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ
مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ
قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ
یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ نے اُتاری سب سے اچھی
کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے
بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے
بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی
طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ
دکھائے اسے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔
اللہ پاک ان نیک ہستیوں کے صدقے میں ہمیں بھی تلاوتِ قرآن میں آہ و زاری
کرنے اور غور و فکر کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم