سیدہ فاطمہ کا مختصر تعارف:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سرکارِ دوعالم کی سب سے چھوٹی، مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام"فاطمہ" اور لقب" زہرا بتول، ام السادات، طیبہ، طاہرہ، سیدہ، عابدہ، ذاکیہ، محدثہ، خاتونِ جنت، دخترِمصطفی، بانوئے مرتضی، ام الحسنین وغیرہ ہیں، یہ عظیم کنیتیں اور کثیر القابات آپ کی شخصیت کو ہی موزوں ہو سکتے ہیں۔

عبادت ہو تو ایسی:

امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کے محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا، میں نے آپ رضی اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں، میں نے عرض کی، پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا" پہلے پڑوس ہے پھر گھر ۔"

نصیحت آموز مدنی پھول:

اس واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت آموز مدنی پھول ہیں، جو نوافل تو درکنار فرائض سے بھی غفلت برتتی ہیں، سرکارِ دو عالم کی پیاری شہزادی نے تو راتیں عبادتِ الہی میں گزاریں، مگر ان کی راتیں غفلت میں گزرتی ہیں، کبھی گناہوں بھرے چینلز کے سامنے فلمیں ڈرامے دیکھنے میں، کبھی مہندی کی تقریب میں بے حیائی کرتے اور کبھی شادی کے موقع پر ڈھول پیٹتے، باجے بجاتے اور ڈانس کرتے گزرتی ہیں، بے حیائی کو عار نہیں سمجھتی ہیں، نہ بے پردگی سے خار کھاتی ہیں۔ حالانکہ بی بی فاطمہ کے پردے کا اس قدر ذہن تھا کہ جیتے جی ہی نہیں بلکہ سفرِ آخرت پر گامزن ہوتے وقت بھی اس کے بارے میں متفکر تھیں اور اس کی پابندی کی تاکید فرمائی، چنانچہ

بی بی فاطمہ کے جنازے کا پردہ:

مولا مشکل کشا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے موت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ جب دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔

اللہ اکبر پیاری اسلامی بہنو!یہاں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ بی بی فاطمہ کا اتنا بڑا مرتبہ ہونے کے باوجود، سرکارِ دو عالم کی شہزادی ہونے کے باوجود ، شیرِخداکی زوجہ ہونے کے باوجود، اور جنتی عورتوں کی سردار ہونے کے باوجود بھی آپ نے اپنی زندگی میں بھی اور وفات کے وقت بھی پردے کا ایسا اہتمام فرمایا کہ اپنے بعد آنے والی تمام عورتوں کے لئے مثال قائم کر دی۔

ہے مرتبہ اس لئے کونین میں عصمت کا عفت کا

شرف حاصل ہے ان کو دامنِ زہرا سے نسبت کا

جو جانا خلد میں ہوپائے زہرہ سے لپٹ جاؤ

جسے کہتے ہیں جنت مُلک ہے خاتونِ جنت کا

رسول کریم کے وصال کے چھ ماہ بعد تین رمضان المبارک، سن11 ہجری، منگل رات سیْدہ فاطمہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔آمین(شان خاتون جنت)


اسلامی بہنوں میں نیکی کی دعوت عام کرنے میں صحابیات و صالحات کا کردار مشعلِ راہ ہے،  ان صحابیات کی زندگی ایک مثالی زندگی ہے، جو کہ دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہونے کا باعث ہے، تبلیغِ اسلام اور خدمتِ دین کے معاملے میں ان کی زندگی سے چنداں انکار نہیں کیا جا سکتا، انہیں صالحات و نیک خواتین میں سے ایک خاتون خاتونِ جنت، حضرت فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ہیں جو کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی، مگر سب سے لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کی حیاتِ مبارکہ قابلِ ذکر ہیں، آپ کی سیرت مبارکہ سے زندگی کے کئیں حالات کا درس ملتا ہے، مگر اسلامی بہنوں کے لئے خاص کر، وہ آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے گھر کا کام کاج خود کرنا، حیاء و پردہ کرنا، دنیا سے بے رغبتی اور پڑوسیوں پر شفقت اور ذوقِ عبادت و نماز و تلاوت کا درس ملتا ہے، جو کہ باالتفصیل درج ذیل ہیں:

گھر کا کام کاج کرنا:

آپ رضی اللہ عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ بااختیار ہیں، ان کی لاڈلی بیٹی ہونے کے باوجود اپنے گھر کا سارا کام خود کرتیں تھیں، کنویں سے پانی بھر کر پیٹھ پر مشک لاد کر لایا کرتیں، خود چکّی چلا کر آٹا بھی پیسا کرتیں اور یہ عورت کا فرض بھی ہے کہ شوہر کی گنجائش نہ ہونے پر گھریلو کام کاج خود کرلیا کریں۔(شان خاتون جنت، ص36)

حیاءو پردہ کرنا :

آپ بہت باحیاء اور با پردہ تھیں اور پردہ کو پسند کرتی تھیں، یہاں تک کہ آپ یہ بھی پسند نہ فرماتیں کہ آپ کے جنازہ مبارکہ پر بھی کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے۔(شان خاتون جنت، ص322)

دنیا سے بے رغبتی:

آپ رضی اللہ عنہانے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی ہوئی تھی اور اکثر فاقے کرتیں اور خوب صدقہ فرماتیں، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سونے کا ہار تحفہ دیا تو آپ نے اس کے بدلے غلام خریدا اور اس کو آزاد کر دیا۔(شان خاتون جنت، ص386)

پڑوسیوں پر شفقت:

آپ رضی اللہ عنہا پڑوسیوں پر نہایت ہی شفیق تھیں کہ آپ جب دعا فرماتیں تو پہلے پڑوسیوں کے لئے کرتیں اور فرماتیں کہ" پہلے پڑوس ہے، پھر گھر۔"(فیضان نماز، صفحہ 485)

شوقِ تلاوت:

آپ رضی اللہ عنہا کو بہت زیادہ تلاوت کا شوق تھا کہ آپ گھر کے کام کاج کرتے وقت بھی تلاوت فرماتی تھیں،یہاں تک کہ آپ کو ایک بار اپنے بچوں کو پنکھا جھلتے ہوئے تلاوت کرتے ہوئے سنا گیا۔

ذوقِ نماز:آپ کو اس قدرعبادت کا ذوق تھا کہ آپ رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی، کسی بیماری، تکلیف میں بھی نماز میں مشغول رہتیں۔(شان خاتون جنت، ص76)

آپ کی زندگی ایک کامل زندگی ہے کہ اس پر اگر چلا جائے تو دونوں جہانوں کی فلاح و کامیابی بھی ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خاتونِ جنت کی حیاتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اس دور حاضر میں جہاں مسلمان دن بدن پستی کا شکار ہو رہے ہیں وہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک سبب بے پردہ عورت ہیں وہم پرستی ،  غم و شادی کے مواقع پر ہندوانہ اور جاہلانہ رسم و رواج وغیرہ جہاں یہ تمام خرافات بد قسمتی سے اسلامی معاشرہ میں عروج پذیر ہیں وہیں مسلمان خواتین میں حیا اور پردہ کا ذہن(concept)جاتا نظر آرہا ہے آج مسلمان خواتین نے اپنا آئیڈیل غیر مسلم اور آزادانہ خیال کی حامل خواتین کو بنا لیا ہے جبکہ ہماری پسندیدہ شخصیت وہ ہستی ہونی چاہئے تھیں جو دنیا میں رہ کر فکر آخرت کرنے والی ہوں اسلامی قوانین کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے والی اور عبادت کو دل و جان سے محبوب رکھنے والی اور با حیا ہوں ، ان تمام خصوصیات کو اگر ہم سیرت حضرت فاطمہ الزھراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھا کے آئینہ میں دیکھیں تو صاف طور پر یہ نظر آئے گا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیا ہونی چاہئے ۔

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پردہ کی نہایت پابند تھیں اور حد درجہ حیا دار تھیں ایک بار سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کون سی ہے ؟حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کی عورت کی سب سے اعلی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔

( سیرت فاطمۃ الزہراء ، باب شرم و حیا صفحہ نمبر 110)

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

حضرت فاطمۃ الزہراء کی شرم و حیا کا اندازہ اس واقعہ سے لگائے کے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 397پر شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نقل فرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد خاتون جنت شہزادی کونین حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پر غم مصطفی کا اس قدر غلبہ ہواکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے لبوں پر مسکراہٹ ختم ہوگی اپنے وصال سے قبل ایک ہی بار مسکرائی دیکھی گئی ۔

اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ شرم و حیاء کی پیکر حضرت سیدتنا خاتون جنت کو یہ تشویش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعد وفات میرے کفن پوش، لاش پر لوگوں کی نظر نہ پڑ جائے ۔ایک موقع پر حضرت سیدتنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا میں نے حبشہ میں دیکھا کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولی جیسی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اس پر کپڑا تان کر سیدہ خاتون جنت کو دکھایا آپ بہت خوش ہوئی اور لبوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔

(جذب القلوب مترجم ،ص 231)

سبحان اللہ سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنھا کے پردے اور حیا کی بھی کیا بات ہے کسی نے کتنا پیارا شعر کہا ہے ۔

چوزھرا باش از مخلوق رو پوش

کہ در آغوش شبیرے بہ بینی

(یعنی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء کی طرح پرہیزگار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرت سیدنا شبیر نامدار امام حسین جیسی اولاد دیکھو)

حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا بہت زیادہ پیکر شرم و حیا اور باپردہ تھیں پیاری اسلامی بہنوں ہمیں بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کی مبارک سیرت سے جہاں دیگر درس حاصل ہوتے ہیں وہی ہمیں باپردہ اور باحیا رہنے کا درس حاصل ہوتا ہے کہ آپ کو دنیا تو دنیا لیکن دنیا سے وصال فرما جانے کے بعد بھی اگر کوئی فکر لاحق تھی تو اپنے پردے کی تھی ۔

اللہ رب العزت ہم تمام اسلامی بہنوں کو خاتون جنت کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین....

اس بتول جگر پارۂ مصطفی

حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام


خاتونِ جنت حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا عنہ کی زندگی ہر خصوصیت کی جامع ہے اور ان کی زندگی ہماری خواتین کے لئے بہترین مشعلِ راہ ہے،  جس کو فالو(follow) کرکے ہم اپنی دنیا کو بھی سنوار سکتے ہیں اور آخرت میں بھی سُرخرو کرسکتے ہیں۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان کی زندگی کا ہر پہلو لا تعدادخصائص کا جامع ہے، ان کی عبادت، ان کی ریاضت، گھریلو کام کاج، بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت ہر پہلو ہی لاجواب ہے۔

حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نہایت ہی عبادت گزار خاتون تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا لقب عابدہ بنا، آپ کو نماز انتہائی محبوب تھی، آپ پوری پوری رات اللہ عزوجل کی عبادت میں گزار دیتیں۔

چنانچہ حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں:حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"( شانِ خا تونِ جنت، ص 77)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہم اپنی زندگی کو اگر دیکھیں تو نوافل کہاں، ہم تو فرائض بھی ادا نہیں کرتی۔

سوال: کیا ہم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے عشق نہیں رکھتیں؟

بالکل رکھتی ہیں، تو کیا ان کی زندگی کو ہمیں فالو نہیں کرنا چاہئے، آپ بھی بچوں والی تھیں، بچوں کو آپ نے ایک عظیم ماں بن کر پالا اور اپنے ربّ کو ہمیشہ یاد رکھا، آج کل کی مائیں یوں کہتی ہیں کہ بچے پڑھنے نہیں دیتے تو یاد رکھئے!نماز کسی صورت معاف نہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو مشعلِ راہ بنائیں، اپنی اولادکی بھی تربیت کیجئے اور عبادت کو بھی ذوق و شوق کے ساتھ کیجئے۔اللہ پاک ہم سب کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو اپنانے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن پاک کی سورۃ الذٰریٰت  کی آیت نمبر 56 میں ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُونِ۔

ترجمۂ کنزالایمان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

مذکورہ آیت میں جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور انہیں اللہ کی معرفت حاصل ہو۔

لیکن آج کے زمانے کا انسان اس مقصد کو بھول کر دنیا طلب کرنے اور اس طلب میں مُنہمک ہے،

اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے سلف صالحین و صالحات کی سیرتیں مشعلِ راہ ہیں۔

انہی میں سے ایک سیرتِ طیبہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت ہے، آپ رضی اللہ عنہا کی مبارک سیرت کے چند پہلو ملاحظہ فرمائیں۔

سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ عبادت:

آپ رضی اللہ عنہا کی طبیعتِ عالیہ ہمہ وقت عبادتِ الہی کی طرف متوجّہ رہتی تھی، اپنے گھریلو کام کاج کی انجام دہی کے ساتھ یادِ الٰہی میں مشغول رہتیں، تلاوتِ قرآن کا ورد بھی جاری رکھتیں، پوری پوری رات اللہ عزوجل عبادت میں گزار دیتی تھیں، چنانچہ مکتبۃ المدینہ کی کتاب"خاتونِ جنت"کے صفحہ نمبر76تا77 میں لکھا ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدتنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

اور صفحہ نمبر83 پر ہے:حضرت سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور پر نور، شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما سو رہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جا ری تھی، یہ دیکھ کر مجھ پر ایک خاص رقت طاری ہوئی۔

ازدواجی زندگی:آپ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دولت خانہ میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری کو بڑے احسن انداز میں نبھایا۔چنانچہ

"خاتونِ جنت" کتاب کے صفحہ272 پر ہے" حضرت سیّدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(مثلاً چکی پیسنے، جھاڑو دینے، کھانا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام )مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ)حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ذمّہ لگا دئیے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی:" فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت اور گھر کے کام کاج کیا کریں گے۔"

آپ رضی اللہ عنہا خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی الفت و محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی پیروی کر کے ربّ کو راضی کریں۔


سورۃ الدہر میں اِرشادِ ربّانی ہے کہ، وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)

ترجمہ کنزالایمان:" اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو۔"(پ 29، الدھر:آیت 8)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضراتِ حسنینِ کریمین ایک بار بچپن میں بیمار ہوگئے تو حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بی بی فاطمہ اور حضرت سیّدتنا فضہ رضی اللہ عنہما نے ان کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی منت مانی، اللہ تعالی نے صحت دی، نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، خا تونِ جنت رضی اللہ عنہانے ایک ایک صاع(یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) تینوں دن پکایا، لیکن جب افطار کا وقت آیا، روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک دن مسکین، ایک دن یتیم اور ایک دن قیدی دروازے پر حاضر ہو گئے اور روٹیوں کا سوال کیا تو تینوں دن روٹیاں ان سائلوں کو دے دیں اور صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا۔( خزائن العرفان، پ29 ، الدھر:8، ص1073)

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں سخاوت کا درس ملتا ہے، اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کو پسند کرتے ہوئے اس کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا، فقط اللہ کی رضا کے لئے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث ہے، بندوں پر کرم کرنے والے پر اللہ کا کرم ہوتا ہے۔

خاتونِ جنت سے محبت ایمان کی سلامتی کی ضامن:

فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کرنا ہمارے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"( مشکوٰۃ المصابیح، ج2، ص436 ، حدیث6139)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے والی چیز بی بی فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا سے محبت و عقیدت ہے۔

دُخترِ مصطفی، بانوئےمرتضی، ام الحسنین، بی بی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا شرم و حیا کی پیکر ، حق وصداقت کی علمبردار، فکرِ آخرت سے سرشار، عبادت، معاملات اور امورِ خانہ داری میں اپنی مثال آپ تھیں۔

آپ رضی اللہ عنہا باکمال عاشقہ رسول تھیں، آپ رضی اللہ عنہا نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے ڈھانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات واطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کا انداز، گفتگو ، صداقت و کلام میں آپ رضی اللہ عنہا سیرتِ مصطفی کا عکس ونمونہ تھیں۔

خاتونِ جنت ، شرم و حیا کی پیکر:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خود کو غیر مردوں کی نظر وں سے بچائے رکھا تھا، ان کی حیا فضیلت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ معظم ہے:"جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گزریں۔(جامع الصغیر مع فیض القدیر، ج 1، ص549، حدیث 822)

کہاوت مشہور ہے:حیا حسن سے زیادہ پُرکشش ہے، ہمیں چاہئے کہ خاتونِ جنت کے راستے پر چلتے ہوئے فیشن کو چھوڑ کر پردے داری کی راہ اختیار کریں۔

شوقِ عبادت:حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"(مدارج النبوہ، ج 2، ص 623)

حضراتِ حسنین کریمین سو رہے ہوتے، آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی ہوتی اور زبان سے تلاوتِ قرآن جاری ہوتی۔(سفید نوح، حصہ دوم، ص 35)

ہمیں بھی چاہئے کہ گھریلو مصروفیت کے دوران ذکرُ اللہ سے غافل نہ ہو۔

گھریلو کام کاج:

حضرت سیّدنا فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا اُمورِ خانہ داری کے تمام کام (چکّی پیسنا، پانی کی مشک بھر کر لانا، جھاڑو وغیرہ دینا) خود کیا کرتی تھیں۔( سنن ابی داؤد، ص790: حدیث5023)

ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے گھر کے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں، حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی بہت سادہ زندگی تھی، آپ رضی اللہ عنہا نے فاقہ کشی کے دن بھی گزارے، آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں حوصلہ ملتا ہےکہ مصیبت کے وقت ان مقدس ہستی کی فاقہ کشی کو یاد کریں، معاشی بدحالی ہو تو گھر والوں یا شوہر کو لعن طعن کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں۔اللہ تبارک و تعالی بی بی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمين


حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی"مدارج النبوۃ" میں نقل فرماتے  ہیں:حضرت سیّدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"(مدارج النبوۃ( مترجم) قسم پنجم، درذ کر اولاد کرام، سیدہ فاطمۃ الزھراء، ج2 ، صفحہ نمبر623)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، لہذا آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی الفت و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں، نماز کو خوب شوق ومحبت سے پڑھیں۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا خود سچی اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادی ہیں، سچ کی بہت برکات ہیں اور جھوٹ ایسی بُری چیز ہے جو تمام اَدیان میں حرام ہے اور ہرمذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ سچ بولیں اور جھوٹ سے بچیں۔

اس کے علاوہ ہمیں آپ کی سیرت سے سخاوت، ایثار، گھر کے کام کاج کرنا، شوہر کی اطاعت کرنا، سادگی، حسنِ اخلاق، پڑوسیوں کے لئے دعائیں کرنا، باپردہ رہنا، خوفِ خدا، زہدو تقوی وغیرہ یہ سب درس سیکھنے کو ملتے ہیں، لہذا ہر اسلامی بہن کو چاہئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے درس حاصل کر کے اپنی زندگیوں کو سنتوں کو بجالاتے ہوئے گزاریں۔

اللہ عزوجل ہمیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کر کے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا فیضان ہم پر جاری فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت سیّدنا علاؤ الدّین علی متقی ہندی  علیہ الرحمۃ اللہ الغنی خاتونِ جنت کی شان و عظمت میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ شاہِ ہر دوسرا، مکی مدنی آقا، والدِماجدِ زہرا صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا:"میری بیٹی فاطمہ اِنسانی شکل میں حوروں کی طرح حیض و نفاس سے پاک ہے۔"

صادقہ، صالحہ، صائمہ، صابرہ،

صاف دل، نیک خُو، پارسا، شاکرہ،

عابدہ، زاہدہ، ساجدہ، ذاکرہ،

سیدہ، زہرا، طیبہ، طاہرہ،

جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام۔۔

عبادت ہو تو ایسی:

نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی، خاتونِ جنت، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پر ہمارے دل و جان قربان، آپ رضی اللہ عنہا کو اُمّتِ مسلمہ کا بے حد دردتھا، پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی دُکھیاری اُمت کے لئے بعض اوقات ساری ساری رات دعائیں مانگتی رہتیں، اپنی سہولت و آسائش کے لئے ربِّ کائنات کی بارگاہ میں کبھی التجا نہ کرتیں، آپ رضی اللہ عنہا سارا دن گھر کا کام کاج کرتیں اور جب رات آتی تو عبادتِ الہی کے لئے کھڑی ہوجاتیں۔

امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قران پاک کی تلاوت جاری رکھتیں۔

درس:

اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو کئیں نادان مصروفیت کے دوران کانوں میں ہینڈ فری لگا کر بڑے انہما ک سے گانے سنتے ہوئے اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں، گویا گانے باجوں کے بغیر ان کے کام ہی نہیں ہوتے، اے کاش! ہمارا کوئی لمحہ فضول کاموں میں بسر نہ ہو اور ہر دم ہمارے لبوں پر ذکر و درود اور نعتِ رسول جاری رہے۔

شادی کی پہلی رات بھی عبادت:

حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا کی رخصتی کے بعد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا دونوں نے اپنے بستر کو چھوڑ دیا اور اللہ پاک کی عبادت میں مصروف ہو گئے، رات قیام میں، تو دن روزے کی حالت میں بسر ہوتے رہے، حتی کہ تین دن اسی طرح گزر گئے، چوتھے روز جبرائیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ اللہ پاک تمہاری وجہ سے ملائکہ پر فخر فرما رہا ہے، تم دونوں روزِقیامت گناہ گاروں کی شفاعت کرو گے۔(الروض الفائق)

درس: ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کی سیرت پر چلتے ہوئے خوب خوب عبادت کرنی چاہئے، علاوہ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے، سیدتنا خاتونِ جنت کے ذوقِ تلاوت اور آپ کے شوقِ عبادت میں باالخصوص ہمارے گھر کی اسلامی بہنوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ اللہ پاک کی عبادت کا ذوق و شوق ہونا چاہئے، نیکی کی دعوت عام کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے۔

خاتونِ جنت اور غریبوں کی غم خواری:

سیدہ خاتون جنت کی شان و عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ہمیشہ سادگی اختیار فرماتیں، غریبوں کے ساتھ غمخواری اور ملنساری سے پیش آتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے دروازے پر آنے والے سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔

اے عاشقانِ اہل بیت! دیکھا آپ نے خاتونِ جنت حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ایثارو سخاوت کا جذبہ ایسا زبردست تھا کہ خود فاقےسے رہتیں اور ایک نو مسلم کی حاجت روائی کے لئے قرض کی خاطر مبارک چادر گِروی رکھوا دی۔

درس:

سبحان اللہ ایک طرف خاتونِ جنت کا پاکیزہ عمل اور دوسری طرف ہماری حالت کہ اگر ہمارے پاس کوئی حاجت مند آجائے تو اسے دیتے وقت ایسی باتیں سناتے ہیں کہ اس کی دل آزاری ہو یا اس کی ذلت و رسوائی ہو، ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔

ایک اور نمایاں پہلو جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت کو نمایاں مقام حاصل ہے اور وہ ہے پردہ،

پردہ کی پابندی:حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہانے موت کے وقت وصیت فرمائی کہ جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔( مدارج النبوۃ مترجم، جلد 2)

تمام اسلامی بہنیں اس روایت سے درس حاصل کریں اور پردہ کی پابندی کی نیت کر لیں، نیز دنیا و آخرت میں کامیابی پانے، باپردہ و با عزت زندگی گزارنےاور شرم وحیا کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھنے کے لئے تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے سے ہردم وابستہ رہیں اور سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کا معمول بنائیں۔


پیاری محترم اسلامی بہنو! آج کل ہر گھر میں ایک رواج بن چکا ہے،  کام والی رکھوانے کا یعنی جس گھر میں کام والی( ماسی) نہ ہو، اس گھر کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے، جیسے کوئی گناہ کر لیا ہو۔

آس پڑوس کی عورتیں طعن کرتی ہیں کہ اتنے کام آپ اکیلی کیسے کرتی ہیں، تھکان نہیں ہوتی تو میری محترم بہنو! سیّدِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری لاڈلی صاحبزادی، خاتونِ جنت، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا خود اپنے ہاتھ مبارک سے تنور میں روٹیاں لگایا کرتی تھیں، جھاڑو دیتیں، چکی پیستیں، جس سے آپ کے مبارک ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے، رنگ متغیر اور کپڑے گرد آلود ہو جاتے۔

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں طلبِ خادمہ کی غرض سے گئیں اور سُوال عرض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیحِ فاطمہ کا تحفہ عطا فرمایا کہ جب بستر پر جاؤ، 33بار سبحان اللہ، 33بارالحمدللہ اور 34بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔

تو ہمیں خاتونِ جنت کی سیرت سے یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ کام پہاڑ جتنا ہی کیوں نہ ہو، ہمیں اللہ کے ذکر سے ہمت اور مدد مل سکتی ہے۔(شانِ خاتون جنت)


کام کاج:

جگر گوشہ رسول حضرت سیّدنا فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے دولت خانے میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری کو بڑے احسن انداز میں نبھایا اور ہر طرح کے حالات میں اپنے عظیم المرتبت شوہر کا ساتھ دیا۔

چنانچہ حضرت سیدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(مثلاً چکی پیسنے، جھاڑو دینے، کھا نا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام(مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت سیّدنا علی المرتضی کے ذمّہ لگادئیے۔(المصنف لا بن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام علی بن ابی طالب)

ایک روایت:

ایک روایت میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی "فاطمۃ الزہرا آپ کی خدمت اورگھر کے کام کاج کیا کریں گی۔"

حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور محنت و مشقت سے گھبراتیں، ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی، کھانے کا اصول یہ تھا کہ چاہے خودفا قے سے ہوں، جب تک شوہر اور بچے نہ کھا لیتے، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔

پیاری اسلامی بہنو!معلوم ہوا کہ حیدرِ کرار، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور شہزادی رسول، حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نے گھر میں کام کے لئے خادم نہیں رکھا، بلکہ اپنے گھر کے کام خود کیا کرتی تھیں، ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں آئے وہ دور اور تھا، اب اور زمانہ ہے تو سنئے کہ اس دور کی عظیم روحانی شخصیت شیخ طریقت، امیر اہلِ سنت محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ کے گھر میں کبھی کوئی کام کرنے والی نہیں رکھی گئی، اس میں ہر اسلامی بہن بالخصوص امیر اہلسنت کی مریدنی، طالبہ یا محبّ اسلامی بہنوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

یادرہے:

فارغ دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے تو زیادہ مناسب یہی ہے کہ گھر کے کام کاج میں لگی رہیں۔

امیر اہلسنت فرماتے ہیں:" کرنے کے کام کرو ، ورنہ نہ کرنے کے کاموں میں پڑ جاؤ گے۔"

یاد رکھئے!خا تو نِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا کا گھر کا کام خود کرنا شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و منشا کے مطابق تھا، یقیناً جو کا م شاہِ خیر الانام، محبوبِ ربّ الانام صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں، وہ ربّ کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ اور محبوب ہے، اب ذرا غور فرمائیں کہ جس کام میں خدا و مصطفی عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی ہو اس سے جی چرانا، جان چھڑانا، سستی کرنا کیسا؟ گھر میں کام کاج کی برکت سے بھائی بہنوں اور والدین کی منظورِ نظر بن جائیں گی، اگر شادی شدہ ہیں تو شوہر، نند اور ساس کے دلوں میں جگہ بن جائے گی، اگر پہلے سے ہی کام کرنے کی عادت پڑے گی تو شادی کے بعد گھر سنبھالنا آسان ہو گا اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

کئیں نادان والدین بچیوں کو کام نہیں کرنے دیتے، نتیجتاً انہیں کھانا پکانے، برتن دھونے، کپڑے دھونے، کپڑے سینے کی تربیت نہیں ہوتی، شادی کے بعد ان کے لئے آزمائش ہوتی ہے ۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا میرے پاس اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں، جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کرلاتی تھیں، جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھے اور گھرمیں جھاڑو وغیرہ خود ہی دیتی تھیں، جس کی وجہ سے تمام کپڑے میلے ہو جایا کرتے تھے۔(سنن ابی داؤد، کتاب باب فی التسبیح عندالنوم، ص790، حدیث5063)

پیاری اسلامی بہنو! گھر کا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا جگر گوشہ تاجدارِ رسالت، خاتونِ جنت، اُم الحسنین رضی اللہ عنہا کی سنتِ مبارکہ ہے، اسلامی بہنیں اپنے کام خود کریں گی تو ان کاگھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔ 


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے  بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، جن میں اپ کا ذوقِ عبادت بھی ہے:

حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

درس:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔( شان ِخاتون جنت، ص76)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتی تھیں کہ آپ کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں۔(شان ِخاتون جنت، ص92)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں۔

حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقت و کلام میں آپ سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 113،114)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کریں، آپ کی سنت کو اپنائیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سچا ان کے والد کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا۔(شان خاتونِ جنت، ص 131)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ جھوٹ سے بچ کر ہمیشہ سچ بولیں کہ اس کی بہت برکتیں بھی ہیں۔

سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی بے حد صابرو شاکر، متوکل، متین اور اطاعت شعار تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 143)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر چیز میں سبر صبر اور صبر کریں اور توکل کو اختیار کریں اور اپنے والدین کی اطاعت کریں۔

حضرت فاطمہ نے کبھی پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا نہ کھایا، جو ملتا اس کو دوسروں پر نچھاور کر دیتیں اور خود فقرو فاقہ سے زندگی بسر کرتیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 158)

درس:

مال کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں سخاوت کرنی چاہئے اور بخل نہیں کرنا چاہئے کہ سچے مسلمان سخی اور پیکرِ ایثار ہوتے ہیں اور مسلمانون کی تکالیف دور کرنے کی خاطر اپنی مشکلات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔

درس: حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں، نہ آپ نے کام کے لئے خادم رکھا، بلکہ اپنے گھر کے کام خود کر لیا کرتی تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 273)

درس:ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے کام اور گھر کےکام خود کریں اور نہ اس سے گھبرائیں، ہمیں چاہئے کہ ہم خاتونِ جنت کی سیرت کے پہلو پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔

اے اللہ ہمیں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین 


پیارے آقا سرور کونین علیہ افضل الصلوة والتسليم کی لاڈلی اور چہیتی شہزادی  خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی زندگی اسلامی بہنوں کیلئے نمونہ حیات ہے، ان کے اسوۂ زندگی پر چل کر اور اسی کے مطابق زندگی گزار کر ربّ عزوجل اور مصطفی کریم علیہ افضل الصلوہ والتسلیم کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے، آئیے ان کی مبارک زندگی سے کچھ درس حاصل کرتی ہیں۔

خاتونِ جنت اور ذوقِ عبادت:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی طبیعت یہ تھی کہ ہر وقت عبادت الہیہ میں مشغول رہتیں، اپنی زبان مبارکہ سے ہمیشہ ذکرِ الہی میں مصروف رہتیں، گھریلو کام کاج کے ساتھ زبان ذکرِ الہی سے تَررہتی، ایک لمحہ بھی یادِ الہی سے غافل نہیں رہتیں۔محبتِ الہی کا تقاضہ ہے کہ زبان ہمیشہ ذکرِ الہی میں مصروف رہے، نیز ساتھ ہی دل یادِ الہی میں مشغول ہو۔

خاتونِ جنت اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی کہ آپ کی ہر ہر ادا سنتِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتی تھیں، ہر کام میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتیں، ہر عمل اس طرح انجام دیتیں جس طرح پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم انجام دیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصا لِ ظاہری سے آپ رضی اللہ عنہا کے قلب کو اتنا صدمہ پہنچا کہ اس کے بعد سے قبل از وفات آپ رضی اللہ عنہا کے مبارک چہرے پر صرف ایک بار ہی مسکراہٹ دیکھی گئی۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل محبت یہی ہے کہ ہم ان کی ہر ہر سنت پر عمل کریں اور ان کی محبت و یاد سے دل کو بسائے رکھیں۔

خاتونِ جنت اور قناعت:

خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا اس عظیم والد کی لختِ جگر ہیں، جن کے قدموں میں زمانے بھر کے خزانے بچھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود قناعت ایسی کہ زندگی اس حال میں گزاری کہ پوری زندگی میں کبھی دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا (اور یہ اختیاری تھا) اور اس پر اپنے ربّ عزوجل کا شکر بجا لاتی رہیں۔

آج ہم اتنی نعمتیں ملنے کے باوجود بھی اپنے ربّ عزوجل کی نا شکری کرتی نظر آتی ہیں، حالانکہ ہمیں بھی چاہئے ہم بھی خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی عطا کردہ تھوڑی نعمت پر بھی راضی رہیں اور ہر حال میں شکر خداوندی بجا لائیں۔

خاتونِ جنت اور پردہ:

شہزادی کونین، جگر گوشئہ مصطفی، خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا انتہائی پردہ دار خاتون تھیں، آپ کے پردے کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں نکالا جائے تاکہ کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے۔

آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : عورت کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اسے دیکھے، آپ کی چادر کے کسی حصّے پر بھی کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑی، عظیم عاشقِ اھل بیت، اعلٰی حضرت، امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اپنے کلام کے ایک شعر میں لکھتے ہیں:

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

( حدائقِ بخشش)

شرح کلامِ رضا : یعنی سیدتنا فاطمۃ الزهرا ء رضی اللہ عنہا کی چادرِ انور کا پلّو کبھی چاند اور سورج نے بھی نہیں دیکھا ، اس پاکیزہ چادر کی طہارت و پاکیزگی پہ لاکھوں سلام ہو۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی مبارک چادر کے پلّو کے صدقے ہم تمام کو پردہ کرنے کی توفیق دے اور ان کی مبارک زندگی کے مطابق اپنی زندگی سنوارنے کی توفیق دے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)