کتابوں کا ادب

Sat, 22 May , 2021
4 years ago

کتابوں سے ہم مختلف علوم حاصل کرتے ہیں کتابیں انسان کی قیمتی دولت ہوتی ہیں، اور ہماری تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں۔ ایک اچھی اور بہترین کتاب ہمیں نیک، بااخلاق اور اچھا انسان بناتی ہے۔

ہمارے ہاں کتابوں اور بالخصوص دینی کتابوں سے دوستی کا اس قدر فقدان ہے کہ یہاں لوگ ہر قسم کی چیزوں پر بے بہا رقم خرچ کرتے ہیں مگر کتابیں نہیں خریدتے جس کی وجہ صرف مطالعے کے ذوق کی کمی ہے۔ وہیں کچھ لوگ مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے ہم بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں یا ہم کچھ یاد نہیں رکھ پاتے وغیرہ وغیرہ، ان سب کے پیچھے دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ایک اہم وجہ کتابوں کا ادب نا کرنا ہے کیونکہ کتابوں سے فوائد تبھی حاصل ہوتے ہیں جب ہم ان کا ادب کرتے ہیں۔ اور یہیں جب دینی کتابوں کی بات ہوتی ہے تو ادب کے تقاضے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے "باادب بانصیب بے ادب بد نصیب"

حضرت سیدنا شیخ شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمةاللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ: "میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا" .. (راہ علم صفحہ ٣٣)

اگر آپ بھی زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کتابوں کا ادب کیجیے۔

ان کو صاف ستھرا رکھیے۔ ان پر پلاسٹک شیٹ لگا کر ان کی حفاظت کریں۔ کتاب پر میلے ہاتھ نا لگاٸیں۔ اگر آپ کے ہاتھوں میں زیادہ پسینہ آتا ہو تو ٹشو پیپر کا استعمال کیجیے اس طرح آپ کی کتابیں خراب نہیں ہوں گی۔ کتاب میں نشانی رکھنے کے لیے صفحات کو فولڈ نہ کریں، ہمیشہ ربن یا کوئی دوسرا صفحہ رکھیں۔ کتاب پر اگر لکھنے کی ضرورت ہوتو پینسل استعمال کریں پین سے نہ لکھیں۔ کتابوں کی طرف پاؤں نہ پھیلائیں۔ کتابوں کو ہمیشہ اونچی جگہ رکھیں، کتابیں نیچے رکھی ہوں تو خود اونچی جگہ نا بیٹھیں۔ کتابوں پر قلم یا گلاس وغیرہ نہ رکھیں۔ کتاب ہمیشہ سیدھی رکھیں۔ کتابوں کو اٹھاتے اور رکھتے ہوئے احتیاط کریں کہ انکی جلد خراب نہ ہوں۔ کبھی بھی کسی کو کتاب پھینک کر یا کھسکا کر نا دیں بلکہ ہمیشہ ادب سے ہاتھ میں دیں۔

طلبائے علم دین چونکہ دینی کتابیں پڑھتے ہیں اس لیے ان کو خاص طور پر ادب کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیشہ باوضو دوزانوں بیٹھ کر مطالعہ کریں۔ دینی کتابوں کو رکھتے ہوئے ان کی ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھیے یعنی سب سے اوپر سادہ قرآن پاک پھر کتب تفاسیر رکھیں اس کے بعد کتب احادیث رکھیں ان کے نیچے کتب فقہ اور ان کے بعد صرف و نحو اور دیگر کتب رکھیں، اپنی کتابوں کے ساتھ ٹیک نا لگائیں۔ کتابوں کو پھلانگ کر نہ گزریں کہ یہ ادب کے سخت خلاف ہے۔

اللہ پاک ہمیں کتابوں کا ادب کرنا نصیب فرمائے۔ آمین


Under the supervision of Majlis Islah-e-A’maal, Islah-e-A’maal Ijtima’at were conducted in Sandwell and Black Country, UK in previous days. 22 Islamic sisters had the privilege of attending these great Ijtima’at.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Sunnah-inspiring Bayans, provided the attendees (Islamic sisters) the information about the booklet, ‘Nayk A’maal’ and gave the mindset of analyzing their deeds daily and becoming the practicing individuals of Nayk A’maal.


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  21، مئی 2021ء کو نگران حافظ آباد زون نے حافظ آباد کابینہ کا مدنی مشورہ لیا جس میں نگران کابینہ حافظ آباد، ڈویژن نگران، اراکین کابینہ، علاقائی نگران ، مدرسین و ناظمین جامعہ المدینہ و مدرسہ المدینہ، عطیات بکس ذمہ داران اور مدنی بستہ ذمہ دران نے شرکت کی۔

نگران حافظ آباد زون نے آپس میں محبتیں بڑھائیں کے موضوع پر بیان فرمایا۔ اسلامی بھائیوں کی مدنی عطیات کارکردگی پر تحائف و عیدی سے نوازا۔ مزید اسلامی بھائیوں کو نئے جذبے سے 12 دینی کام کرنے کا ذہن دیا۔27 مئی رکن شوری و نگران لاہور ریجن حاجی یعفور رضا عطاری صاحب کی حافظ آباد آمد کے حوالے سے کلام ہوا۔ (رپورٹ: محمد دانش عطاری حافظ آباد کابینہ کارکردگی ذمہ دار)

شوہر کا احترام:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے الفاظ کے ذریعے اظہار کیا مولا علی رضی اللہ عنہ سے کہ "آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں"، اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے دل میں اپنے" بچوں کے ابو" کا احترام ہونا چاہئے اور ان کی رضا کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

مسلمانوں کے لئے دعا:

ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے کہ مسلمان کی دعا اُس کی غیر موجودگی میں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔(شانِ خاتون جنت، ص91)

شوقِ تلاوت:

سیّدہ زہرا رضی اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، ہمیں بھی تلاوت کرتے رہنا چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص 92)

پڑوسیوں کی خیرخواہی:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ایک مدنی پھول یہ بھی چننے کو ملا کہ آپ ہمسایوں کے لئے زیادہ دُعا فرماتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص101)

صداقت:

سیّدہ کا ئنات رضی اللہ عنہا خود سچی اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ہیں، ہمیں بھی ان کی اس عادت کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار نی چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص131)

والدِ محترم کا اِستقبال :

جب آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی سیّدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں، ان کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں، ہمیں بھی اپنے والدین کا ادب کرنا چاہئے۔

مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں مزید بھی بہت سے مدنی پھول سیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے

(1) نذر

(2) سخاوت

(3) ایثار

(4) کھانا کھلانا

(5) سادگی

(6) عاجزی وغیرھا

آپ رضی اللہ عنہا غربت پر صبر کرتیں، فاقے کرتیں اور پھر بھی ہر حال میں ربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص148)

زُہد:

آپ رضی اللہ عنہا دنیا سے بے رغبت تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا ایک لقب "زاہدہ"دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی" بھی ہے۔

پردہ:

آپ رضی اللہ عنہا کا ایک بال بھی آسمان نے نہ دیکھا، آپ نے دنیا میں ہی نہیں بلکہ بعداَز وِصال بھی پردے کا اہتمام رکھا۔

وہ رِدا جس کی تطہیر اللہ دے

آسماں کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہوا چُھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

کسی نے کیا ہی پیارا شعر کہا ہے :

چُو زھراباش از مخلوق رُوپوش

کہ در آغوش شبیر بہ بینی

"یعنی فاطمہ کی طرح پرہیزگار، پردہ دار بنو تا کہ گود میں شبّیرِ نامدار اِمامِ حسین رضی اللہ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔"

خاتونِ جنت اور امورِ خانہ داری:

سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے امور میں کسی رشتے داریا ہمسائی کو مدد کے لئے نہ بلا تیں، نہ کام کی کثرت اور کسی قسم کی مشقت سے گھبرا تیں، چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص273)

اللہ پاک ہمیں خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت کے ان گوشوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

خاتونِ جنت کی سیرت کو پڑھنے اور سمجھنے کےلئے مکتبہ المدینہ کی کتاب"شانِ خاتون جنت" کا مطالعہ فرمائیے ۔


فنانس ڈیپارٹمنٹ  دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 22،مئی 2021ء کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں جامعات و مدارس میں فنانس کے نظام پر مدنی مشورہ ہوا جس میں جامعات و مدارس کے ریجن سطح کے تمام ذمہ داران سمیت اراکین زون ۔اراکین ریجن فنانس اور دیگر اکاؤنٹنٹ اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

ریجنل ہیڈ فنانس ڈیپارٹمنٹ پاکستان محمد عدیل عطاری نے جامعات و مدارس میں فنانس کے نظام پر گفتگو کرتے ہوئے گوشوارہ (SMR)، پیشگی و عملی جدول، واجب الوصول اور دیگر موضوعات پر مدنی پھول دئیے۔ای رسید اہداف پر ورکنگ،طے شدہ شیڈول کے مطابق جدول پر عمل،گوشوارے کی چیکنگ پر کلام کیا۔(رپورٹ: آصف عطاری دفتر ذمہ دار معاون نگران فنانس ڈیپارٹمنٹ پاکستان )

فنانس ڈیپارٹمنٹ  دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 21،مئی 2021ء کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مشورہ ہوا جس میں جامعات و مدارس کے ریجن سطح کے تمام ذمہ داران سمیت اراکین زون ،اراکین ریجن فنانس اور دیگر اکاؤنٹنٹ اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

معاون نگران فنانس ڈیپارٹمنٹ ابو محمد محمد مزمل عطاری نے جامعات و مدارس میں فنانس کے نظام پر گفتگو کرتے ہوئے گوشوارہ (SMR)، پیشگی و عملی جدول، واجب الوصول اور دیگر موضوعات پر مدنی پھول دئیے۔ای رسید اہداف پر ورکنگ،طے شدہ شیڈول کے مطابق جدول پر عمل،گوشوارے کی چیکنگ پر کلام کیا۔(رپورٹ: آصف عطاری دفتر ذمہ دار معاون نگران فنانس ڈیپارٹمنٹ پاکستان )

تفصیلات کے مطابق 22  مئی 2021ء کی صبح 9 بجے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں افتتاحِ بخاری شریف کی پُر وقار تقریب کا سلسلہ ہوا جس میں خصوصی طور شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادر ی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ، نگرانِ مرکزی مجلسِ شوریٰ دعوتِ اسلامی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی،نگرانِ پاکستان حاجی محمد شاہد عطاری ، دیگر اراکینِ شوریٰ اور 1ہزار 443طلبہ و (اپنے للبنات مدارس میں موجود) 2ہزار 158 طالبات نے شرکت کی۔

تقریب میں امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے پہلی حدیث پاک پڑھ کر بخاری شریف کے درس کا افتتاح کیا اور تفصیلاً اس کی تشریح بیان کی۔

اجتماع ِافتتاحِ بخاری شریف کے چند مدنی پھول

٭حضرت سیدنا امام شافعی و دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث پاک(انما الاعمال بالنیات) یہ حدیث پاک ثُلُثِ اسلام یعنی دین کا تہائی حصہ ہے۔

٭حضرت شیخ الاسلام علامہ عابد انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اپنے عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھی نیت کے سبب ہمیشہ جنت میں رہے گا کیونکہ اگر عمل کی وجہ سے جنت میں رہتا تو جتنا عمل کیا اتنا یااس سے چند گنا زیادہ ٹھہرتا، لیکن چونکہ مسلمان کی یہ نیت ہوتی ہے کہ اگر وہ ہمیشہ زندہ رہا تو ہمیشہ اسلام پر قائم رہے گا لہذا اس اچھی نیت کےسبب اللہ پاک اسے ہمیشہ کے لئے جنت عطا فرمائے گا۔

٭اساتذۂ کرام بھی سبق پڑھانے سے قبل اچھی نیتیں کریں کہ فیض القدیر کی جلد دو صفحہ نمبر 286میں لکھا ہے کہ حضرت علامہ شریف سمہودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ فقیہ العصر شرف مناوی رحمۃ اللہ علیہ جب درس کےلئے تشریف لے جاتے تو پہلےاپنےگھر کےصحن میں کھڑے رہتے اور صحن میں کھڑےہوکر ریاکاری سے بچنے اور اخلاص پانےکے لئے نیت کو دل میں دہراتے۔

٭نِیَّات نیت کی جمع ہے،نیت دل کے پختہ یعنی پکےارادے کو نیت کہتے ہیں۔

٭شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اعمال کا ثواب نیت ہی پر ہے، نیت کے بغیر کسی عمل پر ثواب کا استحقاق نہیں ہے ۔

٭عبادت اور نیت کا گہرا تعلق ہے چنانچہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: (01) عبادتِ مقصودہ جیسے نماز ، روزہ کہ ان سے مقصود ثواب حاصل کرنا ہے، انہیں اگر بغیر نیت اداکیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے۔ اس میں نیت شرط ہے۔ (02)غیر مقصودہ:وہ عبادات جوکسی دوسری عبادت کے لئے ذریعہ ہو۔ جیسے نماز کے لئے چلنا،وضو، غسل وغیرہ ۔ ان عباداتِ غیرِمقصودہ کو اگر کوئی نیتِ عبادت کے ساتھ کرے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بلا نیت کرے گا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کاذریعہ یا وسیلہ بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز صحیح ہوجائے گا۔ مثلاً اگر زید بےوضو تھاکہ اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس کے تمام اعضائے وضو بارش کےپانی سےدھل گئے تو ایسی صورت میں زید کی نیت وضو کی نہیں تھی لیکن چونکہ اعضائےوضو اس کے دھل چکے، اس لئےاسکا وضو ہوجائے گا لیکن ثواب نہیں ملے گا۔

٭نیت کی فضیلت پر 3 فرامینِ مصطفیٰ: (01)مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (02)اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کرے گی۔ (03)جس نے نیکی کا ارادہ کیا پھر اُسے نہ کیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی۔

٭کسی نے سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ ایک صاحب نے چندہ دے کر مسجد بنوانے کی کوشش کی اسی وجہ سے اپنا نام بھی پتھر میں کندہ یعنی نقش کرانا چاہتے ہیں۔آیا نام کا کندہ کرانا شرعاًدرست ہے یا نہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئےآپ نےفر مایا کہ نام کندہ کروانے کا حکم اختلافِ نیت سے مختلف ہوتاہے ۔ اگر ریا و نمود کی نیت ہے کہ میرا نام ہوتو یہ ریا کاری ہوئی اوروہ گناہ گار ہوگا۔ ہاں اگر یہ نیت ہے کہ جب تک میرا نام لکھا رہے گا مسلمان میرا نام لے کر میرےلئے دعا کریں گے تویہ نیت درست ہے۔

٭کنگھی کرتے اور آئینہ دیکھتے وقت بھی اچھی نیت کرنی چاہیئے۔

٭ہمارے بزرگانِ دین عمل کے لئے باقاعدہ نیت سیکھتے تھے،حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے کے لوگ عمل کے لئے نیت کا علم ایسے سیکھتے تھے جیسے عمل کرنا سیکھتے ہیں۔

٭صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں درسِ نظامی 16 سال کا تھا ۔ اب یہ کم ہوتے ہوتے 6 سال کا رہ گیا ہے۔ اب جو طلبہ اس میں آگئے ہیں وہ اس میں دل لگاکر پڑھیں۔ 5 ویں سال ہی سوچ لیں کہ آگے چل کر کیا کرنا ہے۔ میں تو تخصص فی الفقہ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ تخصص میں نیت یہ نہ ہو کہ میں مفتی بن جاوں گا، مفتی کہلاؤں گا، میرا نام ہوگاوغیرہ۔ آپ کو تخصص سے کم از کم یہ فائدہ تو ہوگا کہ اپنی عبادت کی اغلاط دور ہوں گی، مطالعہ وسیع ہوجائے گا،شرعی قواعد و ضوابط اور بہت معلومات حاصل ہوں گی۔

٭درسِ نظامی کی تعلیم کے ساتھ دعوتِ اسلامی کا دینی کام بھی کرتے رہیں۔ جس کا دورِ طالب علمی ہوتا ہے اسکے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ دینی کام زیادہ کر سکتا ہے ،طلبہ 92 نیک اعمال اور طالبات 82 نیک اعمال کا رسالہ پُر کرکے ذمہ دار کو جمع کروائیں۔ اِنْ شَآءَ اللہ بیڑا پار ہوگا۔

٭ آپ نیتوں کے متعلق مزید معلومات جاننے کے لئے رسالہ” ثواب بڑھانے کے نسخے (صفحات44)“ اس میں 72 اعمال کی نیتیں موجود ہیں۔ اس کو لیں اور مطالعہ کریں۔ کتاب بہارِ نیت بھی مدینہ مدینہ کتاب ہے۔ اس کو بھی لیں اورمطالعہ کریں ۔

٭مباح کام پر روزِ قیامت حساب ہوگا جبکہ عبادت پرحساب نہیں ہوگا۔ اس لئے کئی مباح کام نیت کرکے ثواب بنائےجاسکتے ہیں ۔ مثلاً کھانا، پینا مباح ہے لیکن اگر اچھی نیت کریں تو عبادت بن جائے گا۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے پہلا سوال : اولیٰ کے طالب علم کے متعلق کہاجاتاہے کہ یہ آتے ہیں اور دوسری کلاس میں جانے قبل کئی طلبہ چھوڑ جاتے ہیں تو ایک اولیٰ کا طالب علم چھوڑ کر نہ جائے اس میں طالب علم کو کیا کرنا چاہیئے اور استاد صاحب کو کیاکردار ادا کرنا چاہئے؟ اس کے متعلق مدنی پھول ارشاد فرمادیجئے۔

امیرِ اہلِ سنت کا جواب: پہلی کلاس بنیادی ہوتی ہےاور اس میں گردانیں خوب رٹوائی جاتی ہیں تو شاید یہ طالب علم سوچتا ہوگا کہ گردانیں رٹ رٹ کر میں کب عالم بنوں گا۔ شروع میں بیج بونا ہوتا ہے، زمین کو ہموار کرنا ہوتا ہے اور ہموار کرنے میں محنت ہوتی ہے۔ کھدائی ہوگی، پانی کا چھڑکاؤ ہوگا،بیچ ڈالےجائیں گے، پھر اس کا خیال رکھنا ہوگاکہ کیڑا نہ لگ جائے، پرندےنہ چُگ جائیں۔ تو شروعات میں ذرا محنت لگتی ہے تو اولیٰ کے طلبہ یہ تسلی رکھیں کہ آپ کو 6 سال تک صرف گردانیں ہی نہیں پڑھائی جائیں گی۔

استاد صاحب کا کرداربھی بڑا اہم ہے۔ اگر استاد ماہر ہوگا تو اس کا ایک طالب علم چھوڑ کر جانہیں سکتا۔ طالب علم کےساتھ نرمی کامعاملہ رکھا جائے۔مارپیٹ اور بہت زیادہ سختی نہ کی جائے۔ پھر بھی کوئی جانے کا کہےتو اس کے استادصاحب کو اس کومحبت سے سمجھانا چاہیئے ، کڑھن ہوگی تو کام ہوجائےگا۔ ایسےاستادوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے،انہیں انعام ملنا چاہیئے جن کے طلبہ 100 فیصد اگلی کلاس میں چلےجائیں اور چھوڑ کرنہ جائیں۔ اساتذہ کو میرا یہ پیغام ہے کہ ایک بھی طالب علم اولیٰ سے دورہ حدیث تک چھوڑ کرجانا نہ چاہیئے اس کے لئے خوب کوشش کریں اور محنت کرکےطلبہ کو دین کی تعلیم فراہم کریں۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے دوسرا سوال : مفتی کیسا ہوتا ہے آپ کیا فرماتے ہیں؟

امیرِ اہلِ سنت کا جواب: مفتی دن یا مہینےیا سال گزارنے سے نہیں بنتا، بلکہ وہ ذہین ہو اور فقہ کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت اس میں ہو اور یہ اس کا استاد فیصلہ کرے گا کہ ہاں اب یہ واقعی مفتی بن گیا ہے۔ سند کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بندہ عالم یا مفتی بن گیا۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ سند کوئی شئی نہیں، علم ہونا چاہیے ۔ پہلے سندیں نہیں تھیں مگربڑے بڑے علما موجود تھے، اعلیٰ حضرت 13 سال کی عمر میں عالم بن گئے تھے اور پہلا فتویٰ دیا اس لئے کہ آپ ذہین تھے، خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آپ احتیاطوں کا مجموعہ تھے۔ جب تک آپ کے والد صاحب حیات رہے خود سے فتوی جاری نہ کیا بلکہ ان سے چیک کرواتے ، 7سال تک اپنے لکھے ہرفتوےکو چیک کروایا۔ جو عالم دین برسوں فتوے لکھے اور استاد اس کو اجازت دے دے تو وہ مفتی بنیں گے اور فتوے جاری کرسکیں گےاور جب تک ان کی درستگی زیادہ اور غلطیاں کم ہوں گی وہ مفتی رہیں گے، جب ان کی غلطیاں زیادہ ہوجائیں تو پھر وہ مفتی نہیں رہیں گے۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے تیسرا سوال : طالب علم امامت کریں تو اس سے خود انہیں اور عوام کو کیا فوائد ہوں گے؟

امیرِ اہلِ سنت کا جواب:اس دور میں امامت جیسی حلال روزی بہت کم ہے۔ امام کو لوگ معزز رکھتے ہیں، امام صاحب کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، امام کی لوگ سنتے ہیں۔ اس لئے ان کے پاس نیکی کی دعوت دینے کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔ امام صاحب چاہیں تو دینی کام بہت زیادہ کرسکتے ہیں۔ امام صاحب علاقائی دورے میں خالی اگر ذمہ داران کے ساتھ جائیں گے تو لوگ توجہ سے نیکی کی دعوت سنیں گے کہ امام صاحب آئے ہیں، دوسرا کوئی جائے تو شاید اس کو کہہ دیں کہ ابھی وقت نہیں یا کوئی مصروفیت ہے وغیرہ۔ امام صاحب ساتھ ہوں گے تو کوئی ڈگڈگی نہیں دکھائے گا۔ امام صاحب کےلئے نیکی کی دعوت دینا آسان ہوتا ہے، اس لئے وہ طالب علم جو امامت کے اہل ہوں انہیں امامت کرنی چاہیئے۔

٭امام صاحب کو نصیحت: پیسوں کے پیچھے کبھی نہ جائیں پیسہ آپ کےپیچھے خود آئے گا۔ طمع نہ رکھیں، کوئی پیسہ دے تو منع کرنے کی عادت بنائیں ،غریب امیر سب کے ساتھ برابر سلوک رکھیں ، اللہ آپ کو بہت نوازےگا۔

اعلان: 01٭اس سال سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تخصص فی الفقہ (مفتیہ کورس)اسلامی بہنوں میں بھی شروع ہورہا ہے۔

اعلان:02٭نیپال میں اس سال سے اسلامی بھائیوں میں تخصص فی الفقہ (مفتی کورس) کے درجے کا آغاز ہورہا ہے۔

اختتام پر امیر اہل سنت نے طلبہ و طالبات ، مبلغین و مبلغات اور امّتِ مسلمہ کے لئے دعا کروائی ۔ 


Under the supervision of Dawat-e-Islami the Kabina Nigran Islamic sister of Lesotho Kabina had a Madani Mashwara (meeting) via WhatsApp calling on Friday 7th May 2021with the Kabina level zimidar of Neki Ki Dawat /Mefhil e Naat (Call towards righteousness) Madani pearls were discussed to increase the call towards righteousness as well as to encourage more Islamic sisters to attend the weekly gathering (Ijtma) of Islamic Sisters. 


Under the Supervision of Dawat-e-Islami the Region Nigran Islamic Sister of South Africa has a Madani Mashwara (Meeting) via WhatsApp calls with the Islamic Sister of Short Courses for South Africa Region on Friday 7th May 2021 Madani pearls were given to increase short courses and make more minds of Islamic Sisters and Madani Children to join the courses. Both the region nigran Islamic sister and short course zimidar were giving points on how to go about increasing short courses in South Africa Region. Hadafs (Targets) were given to the short course zimidar of country level.


سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ نماز:

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

پیاری اسلامی بہنو!خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔( شان ِخاتون جنت، ص76)

نئی دلہن عبادت میں مگن:

حضرت سیدتنا فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کی جب رخصتی ہوئی اور آپ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے گھر تشریف لے گئیں تو حضرت علی آپ سے محبت بھری گفتگو کرنے لگے، یہاں تک کہ جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو آپ رونے لگیں، حضرت علی نے کہا"اےتمام عورتوں کی سردار! کیا آپ خوش نہیں کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور آپ میری بیوی ہیں؟" کہنے لگیں" میں کیونکر راضی نہ ہوں گی"آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں" میں تو اپنی حالت و معاملہ متعلق سوچ رہی ہوں کہ جب میری عمر پوری ہو جائے گی اور مجھے قبر میں داخل کر دیا جائے گا، آج میرا عزت و فخر کے بستر میں داخل ہونا کل قبر میں داخل ہونے کی مانند ہے، آج رات ہم اپنے ربّ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر عبادت کریں گے کہ وہی عبادت کا زیادہ حق رکھتا ہے، اس کے بعد وہ دونوں کھڑے ہو کر عبادت کرنے لگے۔( حکایتیں اور نصیحتیں، ص 548)

پیاری پیاری اسلامی بہنو!اس حدیث مبارک کے الفاظ"آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں" بہت اہمیت کے حامل ہیں، اس پر اسلامی بہنوں کو غور کرنا چاہئے کہ ان کے دل میں اپنے "بچّوں کے ابو" کا کتنا احترام ہے اور وہ بچوں کے ابو کے کتنے حقوق ادا کرتی ہیں اور ان کی رِضا کے لئے کیا کوششیں کرتی ہیں۔(شانِ خاتون جنت، ص 89، 91)

امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے حق میں بہت زیادہ دعائیں کرتے دیکھا، میں نے عرض کیا: اے مادرِ مہربان!کیا بات ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگتیں"، فرمایا:اے فرزند"یعنی پہلے ہمسائے ہیں، پھر گھر۔"(مدارج النبوہ مترجم، قسم پنجم، باب اوّل، ج4، ص 435)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت کی سیرت سے ہمیں یہ مدنی پھول چننے کو ملا کہ آپ رضی اللہ عنہا ہمسایوں کے لئے زیادہ دعا فرمایا کرتیں اور فرماتیں" پہلے ہمسایہ ہے، پھر گھر "ایک ہم نادان ہیں کہ ہمسایوں کا ہمیں خیال تک نہیں، ہم اپنے گھر میں طرح طرح کے کھانے کھاتے ہیں، عمدہ عمدہ ملبوسات پہنتے ہیں اور ہم میں سے بعض کے ہمسایوں کو یہ چیزیں میسّر نہیں ہوتیں اور ہمیں ان کا خیال تک نہیں ہوتا اور اگر وہ کسی چیز کا سوال کریں تو ہم پھر بھی نہیں کرتے۔( شان خاتونِ جنت، ص101)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خواتینِ جنت کی سردار، جگرگوشہ سرکار، حضرت سیّدۃ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی اور محبت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر ادا پنانے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ حضرت سیدنا فاطمہ نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقت و کلام میں آپ سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص114)

ہم چونکہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کرتی ہیں، تو ہمیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔


شوہر کا احترام:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے الفاظ کے ذریعے اظہار کیا مولا علی رضی اللہ عنہ سے کہ "آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں"، اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے دل میں اپنے" بچوں کے ابو" کا احترام ہونا چاہئے اور ان کی رضا کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

مسلمانوں کے لئے دعا:

ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے کہ مسلمان کی دعا اُس کی غیر موجودگی میں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔(شانِ خاتون جنت، ص91)

شوقِ تلاوت:

سیّدہ زہرا رضی اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، ہمیں بھی تلاوت کرتے رہنا چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص 92)

پڑوسیوں کی خیرخواہی:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ایک مدنی پھول یہ بھی چننے کو ملا کہ آپ ہمسایوں کے لئے زیادہ دُعا فرماتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص101)

صداقت:

سیّدہ کا ئنات رضی اللہ عنہا خود سچی اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ہیں، ہمیں بھی ان کی اس عادت کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار نی چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص131)

والدِ محترم کا اِستقبال :

جب آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی سیّدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں، ان کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں، ہمیں بھی اپنے والدین کا ادب کرنا چاہئے۔

مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں مزید بھی بہت سے مدنی پھول سیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے

(1) نذر

(2) سخاوت

(3) ایثار

(4) کھانا کھلانا

(5) سادگی

(6) عاجزی وغیرھا

آپ رضی اللہ عنہا غربت پر صبر کرتیں، فاقے کرتیں اور پھر بھی ہر حال میں ربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص148)

زُہد:

آپ رضی اللہ عنہا دنیا سے بے رغبت تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا ایک لقب "زاہدہ"دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی" بھی ہے۔

پردہ:

آپ رضی اللہ عنہا کا ایک بال بھی آسمان نے نہ دیکھا، آپ نے دنیا میں ہی نہیں بلکہ بعداَز وِصال بھی پردے کا اہتمام رکھا۔

وہ رِدا جس کی تطہیر اللہ دے

آسماں کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہوا چُھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

کسی نے کیا ہی پیارا شعر کہا ہے :

چُو زھراباش از مخلوق رُوپوش

کہ در آغوش شبیر بہ بینی

"یعنی فاطمہ کی طرح پرہیزگار، پردہ دار بنو تا کہ گود میں شبّیرِ نامدار اِمامِ حسین رضی اللہ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔"

خاتونِ جنت اور امورِ خانہ داری:

سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے امور میں کسی رشتے داریا ہمسائی کو مدد کے لئے نہ بلا تیں، نہ کام کی کثرت اور کسی قسم کی مشقت سے گھبرا تیں، چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص273)

اللہ پاک ہمیں خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت کے ان گوشوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

خاتونِ جنت کی سیرت کو پڑھنے اور سمجھنے کےلئے مکتبہ المدینہ کی کتاب"شانِ خاتون جنت" کا مطالعہ فرمائیے ۔


حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا  ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی والدہ محترمہ ہیں اور جنتی عورتوں کی سردار ہیں، ہم سب کو ان کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے، ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں بہت کچھ درس حاصل ہوتا ہے۔

کثرتِ عبادت کا درس:

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، ان کی کثرتِ عبادت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم بھی زیادہ سے زیادہ اپنے ربّ عزوجل کی عبادت کریں، آپ رضی اللہ عنہا تو خاتونِ جنت ہو کر بھی اس قدر عبادت کرتی تھیں اور ہمیں تو معلوم بھی نہیں، نجانے ہمارے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہوگا، ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اپنے ربّ عزوجل کو خوش کرنا چاہئے کہ اگر ربّ عزوجل ہم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوگیا، تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔

ایثارو سخاوت کا درس:

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بہت زیادہ سخی تھیں، کسی سائل کو خالی نہ لوٹاتیں، حتٰی کہ اگر گھر میں کوئی چیز بظاہر موجود نہ ہو تی تو قرض لے کر سائل کی حاجت پوری کرتیں، اس سے ہمیں بھی سخاوت کا درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی حاجت مندوں کی مدد کرنی چاہئے کہ جس چیز کی سامنے والے کو ضرورت ہو وہی دینی چاہئے، لیکن ہم تو ایسا کرتے ہیں کہ جس چیز کی ہمیں حاجت نہیں ہوتی وہ ہم دوسروں کو دے دیتے ہیں، یہ تو سخاوت ہی نہیں ہے کہ حضرت سیّدنا ابو سلمان عبدالرحمٰن بن احمد بن عطیہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"بہترین سخاوت وہ ہے جو حاجت کے مطابق و موافق ہو (کہ سامنے والے کو جس چیز کی حاجت ہو وہ دی جائے)( شعب الایمان، الرابع والسبعون من شعب الایمان باب فی الجود و السخا، ج 7، ص447، الرقم 10938)

تمام کام اپنے ہاتھ کرنے کا درس:

خاتونِ جنت اپنے تمام گھریلو کام اپنے ہاتھ سے کرتیں، حتٰی کہ اپنی مبارک کمر پر پانی لے کر آئیں، اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے گھر کے کام کاج خود کرنے چاہیئں کہ اس سے بھی اللہ عزوجل کا قرب حاصل ہوتا ہے، چنانچہ دعوتِ اسلامی کے ادارے مکتبہ المدینہ کی کتاب سیرتِ ابودرداء کے صفحہ 62 پر ہے:حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مکتوب روانہ فرمایا، جس میں یہ بھی تھا کہ اے میرے بھائی مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے ایک خادم خریدا ہے، میں نے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ "بندہ جب تک کسی خادم سے مدد نہیں لیتا، اللہ عزوجل کے قریب ہوتا رہتا ہے اور جب وہ کسی خادم سے خدمت لیتا ہے تو اس پر اس کا حساب لازم ہو جاتا ہے۔"

میری زوجہ نے مجھ سے ایک خادم رکھنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن حساب کے خوف سے میں نے اسے نا پسند جانا، حالانکہ میں ان دنوں مالدار تھا۔

اس سے ہمیں بھی یہ درس ملا کہ ہمیں بھی خود گھر کے کام کاج کرنے چاہئیں کہ اس سے بھائی بہنوں اور ماں باپ کی منظورِ نظر بن جائیں گی، شادی شدہ ہیں تو شوہر، نند اور ساس کے دلوں میں جگہ بن جائے گی اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

پردے کا درس:

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پردے کا اس قدر اہتمام فرماتیں کہ ان کے مبارک جنازہ کا بھی پردہ تھا کہ انہوں نے وصیت فرمائی تھی کہ رات کو ان کا جنازہ پڑھاجائے تو اس سے ہمیں بھی پردہ کرنے کا درس ملتا ہے کہ جو آج کل اسلامی بہنیں بے پردہ پھر رہی ہوتی ہیں، انہیں اس سے درس حاصل کرنا چاہئے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع!اپنی نگاہیں جھکا لو تا کہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد مصطفی رضی اللہ عنہا پل صراط سے گزریں۔

وہ ردا جس کی تطہیر اللہ دے

آسمان کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہو اسکے چھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

اللہ ربّ العزت نے آپ کو پردہ دار رہنے کا ایک صلہ یہ دیا کہ روزِ محشر آپ رضی اللہ عنہا کی خاطر اہلِ محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم صادر کیا جائے گا تو ہمیں بھی پردہ کرنا چاہئے اور اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم گھر سے نہ نکلیں اور اگر حاجت ہو تو ایسا برقع پہن کر نکلیں، جس سے ہمارا پورا بدن چھپ جائے اور کوئی ہمیں پہچان نہ سکے اور کسی کو یہ معلوم بھی نہ ہو سکے کہ یہ بوڑھی ہے یا کوئی جوان، ہمیں بھی حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت عمل کرنا چاہئے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے صدقے ہمارے اسلامی بہنوں کو شرم و حیاء کی چادر نصیب فرمائے، اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم