عالمی مدنی مرکز میں افتتاحِ بخاری کی پُروقار تقریب کا انعقاد، امیر اہلِ
سنت نےطلبہ کو پہلی حدیثِ پاک پڑھائی
تفصیلات کے مطابق 22 مئی 2021ء کی صبح 9 بجے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں افتتاحِ بخاری شریف کی
پُر وقار تقریب کا سلسلہ ہوا جس میں خصوصی طور شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت
علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادر ی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ، نگرانِ مرکزی
مجلسِ شوریٰ دعوتِ اسلامی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی،نگرانِ پاکستان حاجی محمد شاہد عطاری ، دیگر
اراکینِ شوریٰ اور 1ہزار
443طلبہ و (اپنے للبنات مدارس میں
موجود) 2ہزار 158 طالبات نے شرکت کی۔
تقریب میں امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے پہلی
حدیث پاک پڑھ کر بخاری شریف کے درس کا
افتتاح کیا اور تفصیلاً اس کی تشریح بیان کی۔
اجتماع ِافتتاحِ بخاری شریف کے چند مدنی پھول
٭حضرت
سیدنا امام شافعی و دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث پاک(انما الاعمال بالنیات) یہ حدیث پاک ثُلُثِ اسلام یعنی دین کا تہائی حصہ ہے۔
٭حضرت شیخ
الاسلام علامہ عابد انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اپنے عمل کی
وجہ سے نہیں بلکہ اچھی نیت کے سبب ہمیشہ
جنت میں رہے گا کیونکہ اگر عمل کی وجہ سے جنت میں رہتا تو جتنا عمل کیا اتنا یااس
سے چند گنا زیادہ ٹھہرتا، لیکن چونکہ مسلمان کی یہ نیت ہوتی ہے کہ اگر وہ ہمیشہ
زندہ رہا تو ہمیشہ اسلام پر قائم رہے گا لہذا اس اچھی نیت کےسبب اللہ پاک اسے ہمیشہ کے لئے جنت عطا فرمائے گا۔
٭اساتذۂ
کرام بھی سبق پڑھانے سے قبل اچھی نیتیں کریں کہ فیض القدیر کی جلد دو صفحہ نمبر
286میں لکھا ہے کہ حضرت علامہ شریف سمہودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ فقیہ
العصر شرف مناوی رحمۃ اللہ علیہ جب درس کےلئے تشریف لے جاتے تو پہلےاپنےگھر کےصحن میں کھڑے رہتے اور صحن
میں کھڑےہوکر ریاکاری سے بچنے اور اخلاص پانےکے لئے نیت کو دل میں دہراتے۔
٭نِیَّات
نیت کی جمع ہے،نیت دل کے پختہ یعنی پکےارادے
کو نیت کہتے ہیں۔
٭شارح
بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اعمال کا ثواب نیت ہی پر ہے، نیت کے بغیر کسی عمل پر ثواب کا استحقاق نہیں ہے ۔
٭عبادت
اور نیت کا گہرا تعلق ہے چنانچہ عبادت کی دو
قسمیں ہیں: (01) عبادتِ مقصودہ جیسے نماز ، روزہ کہ ان سے مقصود ثواب حاصل کرنا ہے، انہیں اگر بغیر نیت
اداکیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے۔ اس میں نیت شرط ہے۔ (02)غیر مقصودہ:وہ عبادات جوکسی دوسری عبادت کے لئے ذریعہ ہو۔ جیسے نماز کے لئے چلنا،وضو،
غسل وغیرہ ۔ ان عباداتِ غیرِمقصودہ کو اگر کوئی نیتِ عبادت کے ساتھ کرے گا تو اسے
ثواب ملے گا اور اگر بلا نیت کرے گا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کاذریعہ یا وسیلہ
بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز
صحیح ہوجائے گا۔ مثلاً اگر زید بےوضو تھاکہ اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس کے تمام
اعضائے وضو بارش کےپانی سےدھل گئے تو ایسی صورت میں زید کی نیت وضو کی نہیں تھی لیکن چونکہ اعضائےوضو اس کے دھل
چکے، اس لئےاسکا وضو ہوجائے گا لیکن ثواب نہیں ملے گا۔
٭نیت کی
فضیلت پر 3 فرامینِ مصطفیٰ: (01)مسلمان کی
نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (02)اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کرے گی۔ (03)جس نے
نیکی کا ارادہ کیا پھر اُسے نہ کیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی۔
٭کسی نے سرکارِ
اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ سے سوال کیا کہ ایک صاحب نے چندہ
دے کر مسجد بنوانے کی کوشش کی اسی وجہ سے
اپنا نام بھی پتھر میں کندہ یعنی نقش کرانا چاہتے ہیں۔آیا نام کا کندہ کرانا شرعاًدرست ہے یا نہیں؟
اس کا جواب دیتے ہوئےآپ نےفر مایا کہ نام
کندہ کروانے کا حکم اختلافِ نیت سے مختلف ہوتاہے ۔ اگر ریا و نمود کی نیت ہے کہ میرا نام ہوتو یہ ریا کاری ہوئی اوروہ گناہ گار ہوگا۔ ہاں
اگر یہ نیت ہے کہ جب تک میرا نام لکھا رہے گا مسلمان میرا نام لے کر میرےلئے دعا کریں گے تویہ نیت درست ہے۔
٭کنگھی
کرتے اور آئینہ دیکھتے وقت بھی اچھی نیت کرنی
چاہیئے۔
٭ہمارے
بزرگانِ دین عمل کے لئے باقاعدہ نیت سیکھتے تھے،حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے کے لوگ عمل کے لئے نیت کا علم ایسے سیکھتے تھے جیسے عمل کرنا
سیکھتے ہیں۔
٭صدر
الشریعہ رحمۃ
اللہ علیہ کے زمانے میں درسِ نظامی 16 سال کا تھا ۔ اب یہ کم ہوتے ہوتے 6 سال کا
رہ گیا ہے۔ اب جو طلبہ اس میں آگئے ہیں وہ اس میں دل لگاکر پڑھیں۔ 5 ویں سال ہی
سوچ لیں کہ آگے چل کر کیا کرنا ہے۔ میں تو تخصص فی الفقہ کو بہت پسند کرتا ہوں۔
تخصص میں نیت یہ نہ ہو کہ میں مفتی بن جاوں گا، مفتی کہلاؤں گا، میرا نام
ہوگاوغیرہ۔ آپ کو تخصص سے کم از کم یہ فائدہ تو ہوگا کہ اپنی عبادت کی اغلاط دور ہوں
گی، مطالعہ وسیع ہوجائے گا،شرعی قواعد و ضوابط اور بہت معلومات حاصل ہوں گی۔
٭درسِ
نظامی کی تعلیم کے ساتھ دعوتِ اسلامی کا دینی کام بھی کرتے رہیں۔ جس کا دورِ
طالب علمی ہوتا ہے اسکے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ دینی کام زیادہ کر سکتا ہے ،طلبہ 92 نیک
اعمال اور طالبات 82 نیک اعمال کا رسالہ پُر کرکے ذمہ دار کو جمع کروائیں۔ اِنْ شَآءَ اللہ بیڑا
پار ہوگا۔
٭ آپ نیتوں
کے متعلق مزید معلومات جاننے کے لئے رسالہ” ثواب بڑھانے کے نسخے (صفحات44)“
اس میں 72 اعمال کی نیتیں موجود ہیں۔ اس کو لیں اور مطالعہ کریں۔ کتاب بہارِ
نیت بھی مدینہ مدینہ کتاب ہے۔ اس کو بھی
لیں اورمطالعہ کریں ۔
٭مباح کام
پر روزِ قیامت حساب ہوگا جبکہ عبادت
پرحساب نہیں ہوگا۔ اس لئے کئی مباح کام نیت کرکے ثواب بنائےجاسکتے ہیں ۔ مثلاً
کھانا، پینا مباح ہے لیکن اگر اچھی نیت کریں تو عبادت بن جائے گا۔
٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے پہلا سوال : اولیٰ کے طالب
علم کے متعلق کہاجاتاہے کہ یہ آتے ہیں اور
دوسری کلاس میں جانے قبل کئی طلبہ چھوڑ جاتے ہیں تو ایک اولیٰ کا طالب علم چھوڑ کر نہ جائے اس میں طالب علم کو کیا کرنا چاہیئے اور استاد
صاحب کو کیاکردار ادا کرنا چاہئے؟ اس کے
متعلق مدنی پھول ارشاد فرمادیجئے۔
امیرِ اہلِ سنت کا
جواب: پہلی
کلاس بنیادی ہوتی ہےاور اس میں گردانیں خوب رٹوائی جاتی ہیں تو شاید یہ طالب علم
سوچتا ہوگا کہ گردانیں رٹ رٹ کر میں کب عالم بنوں گا۔ شروع میں بیج بونا ہوتا ہے،
زمین کو ہموار کرنا ہوتا ہے اور ہموار کرنے میں محنت ہوتی ہے۔ کھدائی ہوگی، پانی کا چھڑکاؤ ہوگا،بیچ
ڈالےجائیں گے، پھر اس کا خیال رکھنا ہوگاکہ کیڑا نہ لگ جائے، پرندےنہ چُگ جائیں۔
تو شروعات میں ذرا محنت لگتی ہے تو اولیٰ کے طلبہ یہ تسلی رکھیں کہ آپ کو 6 سال تک
صرف گردانیں ہی نہیں پڑھائی جائیں گی۔
استاد صاحب کا کرداربھی بڑا اہم ہے۔ اگر استاد ماہر
ہوگا تو اس کا ایک طالب علم چھوڑ کر جانہیں
سکتا۔ طالب علم کےساتھ نرمی کامعاملہ رکھا
جائے۔مارپیٹ اور بہت زیادہ سختی نہ کی جائے۔ پھر بھی کوئی جانے کا کہےتو اس کے استادصاحب کو اس کومحبت سے سمجھانا چاہیئے ،
کڑھن ہوگی تو کام ہوجائےگا۔ ایسےاستادوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے،انہیں انعام ملنا چاہیئے جن کے طلبہ 100
فیصد اگلی کلاس میں چلےجائیں اور چھوڑ
کرنہ جائیں۔ اساتذہ کو میرا یہ پیغام ہے کہ ایک بھی طالب علم اولیٰ سے دورہ حدیث تک چھوڑ کرجانا نہ چاہیئے اس کے لئے خوب
کوشش کریں اور محنت کرکےطلبہ کو دین کی تعلیم فراہم کریں۔
٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے دوسرا سوال : مفتی کیسا ہوتا ہے آپ کیا فرماتے ہیں؟
امیرِ اہلِ سنت کا
جواب: مفتی دن یا مہینےیا سال گزارنے سے نہیں بنتا، بلکہ وہ ذہین ہو اور فقہ
کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت اس میں ہو اور یہ اس کا استاد فیصلہ کرے گا کہ ہاں اب
یہ واقعی مفتی بن گیا ہے۔ سند کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بندہ عالم یا مفتی بن گیا۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ سند
کوئی شئی نہیں، علم ہونا چاہیے ۔ پہلے سندیں نہیں تھیں مگربڑے بڑے علما موجود تھے، اعلیٰ حضرت 13 سال کی عمر میں عالم بن گئے
تھے اور پہلا فتویٰ دیا اس لئے کہ آپ ذہین
تھے، خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آپ احتیاطوں کا مجموعہ تھے۔ جب تک آپ کے والد صاحب حیات رہے خود سے فتوی جاری نہ کیا بلکہ ان سے چیک کرواتے ، 7سال
تک اپنے لکھے ہرفتوےکو چیک کروایا۔ جو
عالم دین برسوں فتوے لکھے اور استاد اس کو اجازت دے دے تو وہ مفتی بنیں گے اور
فتوے جاری کرسکیں گےاور جب تک ان کی درستگی زیادہ اور غلطیاں کم ہوں گی وہ مفتی
رہیں گے، جب ان کی غلطیاں زیادہ ہوجائیں تو پھر وہ مفتی نہیں رہیں
گے۔
٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے تیسرا سوال : طالب علم امامت کریں تو اس سے خود انہیں اور عوام کو
کیا فوائد ہوں گے؟
امیرِ اہلِ سنت کا
جواب:اس دور میں امامت جیسی حلال روزی بہت کم ہے۔ امام کو لوگ
معزز رکھتے ہیں، امام صاحب کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، امام کی
لوگ سنتے ہیں۔ اس لئے ان کے پاس نیکی کی
دعوت دینے کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔ امام
صاحب چاہیں تو دینی کام بہت زیادہ کرسکتے ہیں۔ امام صاحب علاقائی دورے میں خالی
اگر ذمہ داران کے ساتھ جائیں گے تو لوگ توجہ سے نیکی کی دعوت سنیں گے کہ امام صاحب آئے ہیں، دوسرا کوئی جائے تو شاید اس کو کہہ دیں کہ ابھی
وقت نہیں یا کوئی مصروفیت ہے وغیرہ۔ امام صاحب ساتھ ہوں گے تو کوئی ڈگڈگی نہیں
دکھائے گا۔ امام صاحب کےلئے نیکی کی دعوت دینا آسان ہوتا ہے، اس لئے وہ طالب علم جو
امامت کے اہل ہوں انہیں امامت کرنی چاہیئے۔
٭امام
صاحب کو نصیحت: پیسوں کے پیچھے کبھی نہ جائیں پیسہ آپ کےپیچھے خود آئے گا۔ طمع نہ رکھیں، کوئی پیسہ دے
تو منع کرنے کی عادت بنائیں ،غریب امیر سب کے ساتھ برابر سلوک رکھیں ، اللہ آپ کو
بہت نوازےگا۔
اعلان: 01٭اس
سال سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تخصص فی الفقہ (مفتیہ کورس)اسلامی بہنوں میں بھی شروع ہورہا ہے۔
اعلان:02٭نیپال
میں اس سال سے اسلامی بھائیوں میں تخصص فی الفقہ (مفتی کورس) کے درجے کا آغاز
ہورہا ہے۔
اختتام پر امیر اہل سنت نے طلبہ و طالبات ،
مبلغین و مبلغات اور امّتِ مسلمہ کے لئے دعا کروائی ۔