سورۃ الدہر میں اِرشادِ ربّانی ہے کہ، وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ
یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)
ترجمہ کنزالایمان:" اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو۔"(پ 29، الدھر:آیت 8)
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضراتِ حسنینِ
کریمین ایک بار بچپن میں بیمار ہوگئے تو حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بی بی فاطمہ اور حضرت سیّدتنا فضہ رضی اللہ
عنہما نے ان کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی منت مانی، اللہ تعالی نے صحت دی، نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، خا تونِ جنت رضی اللہ عنہانے ایک ایک صاع(یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) تینوں دن پکایا، لیکن جب افطار کا وقت آیا، روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک دن مسکین، ایک دن یتیم اور ایک دن قیدی دروازے پر حاضر ہو گئے اور روٹیوں
کا سوال کیا تو تینوں دن روٹیاں ان سائلوں کو دے دیں اور صرف پانی سے افطار کر کے
اگلا روزہ رکھ لیا۔( خزائن العرفان، پ29 ، الدھر:8، ص1073)
خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں سخاوت
کا درس ملتا ہے، اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کو پسند
کرتے ہوئے اس کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا، فقط اللہ کی رضا کے لئے ضرورت مندوں کی حاجت
روائی کرنا، دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث ہے، بندوں پر کرم کرنے والے پر اللہ کا کرم ہوتا ہے۔
خاتونِ جنت سے محبت ایمان کی سلامتی کی ضامن:
فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے
محبت کرنا ہمارے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"فاطمہ
میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"( مشکوٰۃ المصابیح، ج2، ص436 ، حدیث6139)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
خوش کرنے والی چیز بی بی فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا سے محبت و عقیدت ہے۔
دُخترِ مصطفی، بانوئےمرتضی، ام الحسنین، بی بی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا شرم و حیا کی
پیکر ، حق وصداقت کی علمبردار، فکرِ آخرت سے سرشار، عبادت، معاملات اور امورِ خانہ داری میں اپنی مثال آپ تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہا باکمال عاشقہ
رسول تھیں، آپ رضی اللہ عنہا نے خود کو ہر
اعتبار سے سنتِ رسول کے ڈھانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات واطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کا انداز، گفتگو ، صداقت و کلام میں آپ رضی اللہ عنہا سیرتِ
مصطفی کا عکس ونمونہ تھیں۔
خاتونِ جنت ، شرم و حیا کی پیکر:
حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا
نے خود کو غیر مردوں کی نظر وں سے بچائے رکھا تھا، ان کی حیا فضیلت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ معظم
ہے:"جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ
بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گزریں۔(جامع الصغیر مع فیض القدیر، ج 1، ص549، حدیث 822)
کہاوت مشہور ہے:حیا حسن سے زیادہ
پُرکشش ہے، ہمیں چاہئے کہ خاتونِ جنت کے راستے پر چلتے ہوئے فیشن کو چھوڑ کر پردے
داری کی راہ اختیار کریں۔
شوقِ عبادت:حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو
دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں،
یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"(مدارج
النبوہ، ج 2، ص 623)
حضراتِ حسنین کریمین سو رہے
ہوتے، آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل
رہی ہوتی اور زبان سے تلاوتِ قرآن جاری ہوتی۔(سفید نوح، حصہ
دوم، ص 35)
ہمیں بھی چاہئے کہ گھریلو مصروفیت
کے دوران ذکرُ اللہ سے غافل نہ ہو۔
گھریلو کام کاج:
حضرت سیّدنا فاطمہ الزہرا رضی
اللہ عنہا اُمورِ خانہ داری کے تمام کام (چکّی پیسنا، پانی کی مشک بھر کر لانا، جھاڑو وغیرہ دینا) خود کیا کرتی تھیں۔( سنن ابی
داؤد، ص790: حدیث5023)
ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے گھر کے
کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں، حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی
بہت سادہ زندگی تھی، آپ رضی اللہ عنہا نے فاقہ کشی کے دن بھی گزارے، آپ رضی اللہ عنہا کی
سیرت سے ہمیں حوصلہ ملتا ہےکہ مصیبت کے وقت ان مقدس ہستی کی فاقہ کشی کو یاد کریں،
معاشی بدحالی ہو تو گھر والوں یا شوہر کو
لعن طعن کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں۔اللہ تبارک و تعالی بی بی فاطمۃالزہرا رضی
اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمين