کام کاج:

جگر گوشہ رسول حضرت سیّدنا فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے دولت خانے میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری کو بڑے احسن انداز میں نبھایا اور ہر طرح کے حالات میں اپنے عظیم المرتبت شوہر کا ساتھ دیا۔

چنانچہ حضرت سیدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(مثلاً چکی پیسنے، جھاڑو دینے، کھا نا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام(مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت سیّدنا علی المرتضی کے ذمّہ لگادئیے۔(المصنف لا بن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام علی بن ابی طالب)

ایک روایت:

ایک روایت میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی "فاطمۃ الزہرا آپ کی خدمت اورگھر کے کام کاج کیا کریں گی۔"

حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور محنت و مشقت سے گھبراتیں، ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی، کھانے کا اصول یہ تھا کہ چاہے خودفا قے سے ہوں، جب تک شوہر اور بچے نہ کھا لیتے، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔

پیاری اسلامی بہنو!معلوم ہوا کہ حیدرِ کرار، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور شہزادی رسول، حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نے گھر میں کام کے لئے خادم نہیں رکھا، بلکہ اپنے گھر کے کام خود کیا کرتی تھیں، ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں آئے وہ دور اور تھا، اب اور زمانہ ہے تو سنئے کہ اس دور کی عظیم روحانی شخصیت شیخ طریقت، امیر اہلِ سنت محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ کے گھر میں کبھی کوئی کام کرنے والی نہیں رکھی گئی، اس میں ہر اسلامی بہن بالخصوص امیر اہلسنت کی مریدنی، طالبہ یا محبّ اسلامی بہنوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

یادرہے:

فارغ دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے تو زیادہ مناسب یہی ہے کہ گھر کے کام کاج میں لگی رہیں۔

امیر اہلسنت فرماتے ہیں:" کرنے کے کام کرو ، ورنہ نہ کرنے کے کاموں میں پڑ جاؤ گے۔"

یاد رکھئے!خا تو نِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا کا گھر کا کام خود کرنا شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و منشا کے مطابق تھا، یقیناً جو کا م شاہِ خیر الانام، محبوبِ ربّ الانام صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں، وہ ربّ کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ اور محبوب ہے، اب ذرا غور فرمائیں کہ جس کام میں خدا و مصطفی عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی ہو اس سے جی چرانا، جان چھڑانا، سستی کرنا کیسا؟ گھر میں کام کاج کی برکت سے بھائی بہنوں اور والدین کی منظورِ نظر بن جائیں گی، اگر شادی شدہ ہیں تو شوہر، نند اور ساس کے دلوں میں جگہ بن جائے گی، اگر پہلے سے ہی کام کرنے کی عادت پڑے گی تو شادی کے بعد گھر سنبھالنا آسان ہو گا اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

کئیں نادان والدین بچیوں کو کام نہیں کرنے دیتے، نتیجتاً انہیں کھانا پکانے، برتن دھونے، کپڑے دھونے، کپڑے سینے کی تربیت نہیں ہوتی، شادی کے بعد ان کے لئے آزمائش ہوتی ہے ۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا میرے پاس اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں، جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کرلاتی تھیں، جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھے اور گھرمیں جھاڑو وغیرہ خود ہی دیتی تھیں، جس کی وجہ سے تمام کپڑے میلے ہو جایا کرتے تھے۔(سنن ابی داؤد، کتاب باب فی التسبیح عندالنوم، ص790، حدیث5063)

پیاری اسلامی بہنو! گھر کا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا جگر گوشہ تاجدارِ رسالت، خاتونِ جنت، اُم الحسنین رضی اللہ عنہا کی سنتِ مبارکہ ہے، اسلامی بہنیں اپنے کام خود کریں گی تو ان کاگھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔