اس دور حاضر میں جہاں مسلمان دن بدن پستی کا شکار ہو رہے ہیں وہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک سبب بے پردہ عورت ہیں وہم پرستی ،  غم و شادی کے مواقع پر ہندوانہ اور جاہلانہ رسم و رواج وغیرہ جہاں یہ تمام خرافات بد قسمتی سے اسلامی معاشرہ میں عروج پذیر ہیں وہیں مسلمان خواتین میں حیا اور پردہ کا ذہن(concept)جاتا نظر آرہا ہے آج مسلمان خواتین نے اپنا آئیڈیل غیر مسلم اور آزادانہ خیال کی حامل خواتین کو بنا لیا ہے جبکہ ہماری پسندیدہ شخصیت وہ ہستی ہونی چاہئے تھیں جو دنیا میں رہ کر فکر آخرت کرنے والی ہوں اسلامی قوانین کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے والی اور عبادت کو دل و جان سے محبوب رکھنے والی اور با حیا ہوں ، ان تمام خصوصیات کو اگر ہم سیرت حضرت فاطمہ الزھراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھا کے آئینہ میں دیکھیں تو صاف طور پر یہ نظر آئے گا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیا ہونی چاہئے ۔

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پردہ کی نہایت پابند تھیں اور حد درجہ حیا دار تھیں ایک بار سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کون سی ہے ؟حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کی عورت کی سب سے اعلی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔

( سیرت فاطمۃ الزہراء ، باب شرم و حیا صفحہ نمبر 110)

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

حضرت فاطمۃ الزہراء کی شرم و حیا کا اندازہ اس واقعہ سے لگائے کے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 397پر شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نقل فرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد خاتون جنت شہزادی کونین حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پر غم مصطفی کا اس قدر غلبہ ہواکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے لبوں پر مسکراہٹ ختم ہوگی اپنے وصال سے قبل ایک ہی بار مسکرائی دیکھی گئی ۔

اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ شرم و حیاء کی پیکر حضرت سیدتنا خاتون جنت کو یہ تشویش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعد وفات میرے کفن پوش، لاش پر لوگوں کی نظر نہ پڑ جائے ۔ایک موقع پر حضرت سیدتنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا میں نے حبشہ میں دیکھا کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولی جیسی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اس پر کپڑا تان کر سیدہ خاتون جنت کو دکھایا آپ بہت خوش ہوئی اور لبوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔

(جذب القلوب مترجم ،ص 231)

سبحان اللہ سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنھا کے پردے اور حیا کی بھی کیا بات ہے کسی نے کتنا پیارا شعر کہا ہے ۔

چوزھرا باش از مخلوق رو پوش

کہ در آغوش شبیرے بہ بینی

(یعنی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء کی طرح پرہیزگار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرت سیدنا شبیر نامدار امام حسین جیسی اولاد دیکھو)

حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا بہت زیادہ پیکر شرم و حیا اور باپردہ تھیں پیاری اسلامی بہنوں ہمیں بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کی مبارک سیرت سے جہاں دیگر درس حاصل ہوتے ہیں وہی ہمیں باپردہ اور باحیا رہنے کا درس حاصل ہوتا ہے کہ آپ کو دنیا تو دنیا لیکن دنیا سے وصال فرما جانے کے بعد بھی اگر کوئی فکر لاحق تھی تو اپنے پردے کی تھی ۔

اللہ رب العزت ہم تمام اسلامی بہنوں کو خاتون جنت کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین....

اس بتول جگر پارۂ مصطفی

حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام