قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور  روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

 اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلمقرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، الحدیث 1337، جلد 2 ، صفحہ 129، بتغیراً)

ایک روایت میں ہے:"دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، عرض کی گئی؟یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جلا کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا:تلاوتِ قرآن پاک اور موت کی یاد سے۔"( شعب الایمان للبہیقی، باب ‏فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان تلاوتہ، الحدیث 202، جلد 2 ، صفحہ 353)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان:"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔"( پ9، الانفال:2)

دو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔"(احیاءالعلوم، جلد 1، صفحہ 827)

مسلمان قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے ضرور غمگین ہوں گے، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے، کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔"

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی خوش الحان قاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں مگر ان کا دل رو رہا ہے۔(المطالب العالبۃ بن حجر العسقلانی، کتاب المناقب، الحدیث 3978، ج8، ص 406)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سجدہ سبحان پڑھو تو سجدے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ رو لو، اگر کسی کی آنکھ نہ روئے تو اس کا دل رونا چاہئے۔"( التفسیر الکبیر للرازی، مریم، تحت الآیۃ 58، جلد 7 ، صفحہ 551)

اور دل کے رونے سے مراد اس کا غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔

اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان:"اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں"(پ1، البقرہ 74)کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں زیادہ رونے والی آنکھ مراد ہے۔

حضرت سیّدنا ثابت بنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہوں، جب میں پڑھنے سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:"یہ تو محض قرآن کریم کی تلاوت تھی، رونا کہاں ہے؟(تاریخَ مدینہ دمشق، الرقم 8235، یزید بن ابان الرقاشی جلد 65، صفحہ 84، قول یزید الرقاشی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت"اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعُ"(پ27، الطور: 7)تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور اس کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفیت بنتی رہی۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ 264/6 ، الجزء الحا دی عشر ، الحدیث 35827)

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو جو ان کے پاس سے گزرے ، وہ نوجوان یہ آیت فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37) پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند کر دیا، وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا، اس دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے گا، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔( درمنثور، الرحمن، تحت الآیۃ37، 7/703)

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عذاب کا ذکر ہے، ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر جانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے، لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں اللہ تعالی کے عذاب کا خوف پیدا کریں اور خود کو عذابِ الہی سے ڈرائیں۔

اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم