1۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ
عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ کے
ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے، آپ کے چہرہ مبارک پر کثرت سے آنسو بہانے
کے سبب دولکیریں بن گئی تھیں، آپ فرمایا کرتے تھے ''کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی
نہ ہوتا''، ایک دن آپ کہیں سے گزر رہے تھے کہ یہ آیت سنی۔
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(پ27، الطور: 7،8)
ترجمہ کنزالایمان :بے شک تیرے ربّ کا
عذاب ضرور ہونا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔
تو آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ سواری
سے گر پڑے، لوگ آپ کو گھر لے آئے پھر آپ
ایک مہینہ تک گھر سے باہر نہ نکل سکے ۔ (خوف خدا ، ص50، 51)
2۔حضرت عبید بن عمر رضی اللہ عنہ
فرماتےہیں کہ ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز پڑھائی اور سورہ
یوسف کی قراءَت کی جب اس آیت پر پہنچے: وَ ابْیَضَّتْ
عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ۔
ترجمہ کنزالایمان:اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں تو وہ غصہ کھاتا رہا۔
( پ 13، یوسف 84)
تو وہ رونے لگے اور خوفِ خدا کے
غلبہ کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے اور رکوع کر دیا تھا۔ (خوفِ خدا، ص 52)
3۔حضرت سیّدنا عبداللہ بن رواحہ
رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ محترمہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رونے
لگے ان کو روتا دیکھ کر زوجہ بھی رونے لگی، آپ نے ز وجہ سے پوچھا تم کیوں روتی ہو
؟انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر مجھے بھی روناآگیا، انہوں نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالی کا یہ قول
یاد آ گیا تھا وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ
حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۚ
ترجمہ کنزالایمان:اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ تمہارے رب کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری
ہوئی بات ہے ( پ 16، مریم: 71)
اور میں نہیں جانتا کہ اس سے بہ
عافیت گزر جاؤں گا یا نہیں۔