قراٰنِ پاک اللہ کا کلام ہے، یقیناً تلاوتِ
قراٰن کی بےشمار برکتیں ہیں۔ قراٰنِ کریم انتہائی اثر انگیز کلام ہےجسے سُن کرخوف
و خشیت کے پیکر لوگوں کے دِل دَہل جاتے ہیں اور وہ عذابِ الٰہی پر مشتمل آیات سُن
کر خوب گریہ و زاری کرتے ہیں۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا: قراٰن غم کے ساتھ
نازل ہوا ، لہٰذا جب تم اس کی قرأت کرو تو غم ظاہر کرو۔(معجم اوسط ،2/166،حدیث:2902)
چند بزرگ ہستیوں کے واقعات ملاحظہ
کیجئے:
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰنِ پاک کی تلاوت میں خوب رویا
کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ
عنہ کا بیان ہے کہ پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر موجود تھے کہ آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
میرے سامنے تلاوت کرو۔میں نے عرض کی: میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں؟ آپ پر ہی تو قراٰن
نازل ہوا ہے۔ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے سنوں۔(یہ حکم سُن کر)
میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی،جب میں اس آیت پر پہنچا:﴿فَكَیْفَ
اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ
شَهِیْدًاﳳ(۴۱)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان
سب پرگواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔(پ5،النساء:41) تو حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بس اتنا کافی ہے۔ میں نے چہرۂ انور کی طرف
دیکھا تو مقدس آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(مشکاة المصابیح، 1/411، حدیث:2195)
امیرُ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ جب قر اٰنِ پاک کی تلاوت
فرماتے تو آپ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا یعنی زار و قطار رویا کرتے۔(شعب
الایمان ،1/493، رقم:806)
حضرت
امام حسن رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے
کہ ایک بار امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی: ﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷)مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸)﴾
ترجمۂ کنزُ الایمان: بےشک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے ۔اسے
کوئی ٹالنے والا نہیں۔(پ27، الطور : 7 ، 8) ان
آیات کو سن کرآپ پر خوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ کی سانسیں
ہی اُکھڑ گئیں اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔
(فیضانِ فاروق اعظم ، 1/151)
حضرت زُرارہ بن ابی اَوفی رحمۃُ اللہِ علیہ نہایت عابد و زاہد اور
خوفِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے عالمِ باعمل تھے۔ تلاوت ِقراٰن کے وقت وعید و عذاب کی
آیات پڑھ کر لَرزہ بَراَندام بلکہ کبھی کبھی خوفِ خدا سے بے ہوش ہوجاتے تھے۔ ایک
دن فجرکی نماز میں جیسے ہی آپ نے یہ آیات تلاوت کیں:﴿فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ(۸)فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ(۹)﴾ترجمۂ
کنزُ الایمان: پھر جب صور پھونکا
جائے گاتو وہ دن کرّا (سخت) دن ہے۔(پ
29، المدثر: 8 ،9) تو آپ پرنماز کی حالت میں ہی خوفِ الٰہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ
لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گرپڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔(اولیائے رجال الحدیث،
ص110)
عطا کر مجھے ایسی رقت خدایا
کروں روتے روتے تلاوت خدایا
اللہ پاک ہمیں قراٰنِ پاک کے معانی کو
سمجھتے ہوئے اور خوب گریہ و زاری کرتے ہوئے تلاوتِ قراٰن کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔