آنکھوں کے بجائے دل روتا ہے:

حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ ایک مرتبہ کسی خوشی الحان قاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے، سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ ہوئیں، مگر ان کا دل رو رہا ہے۔"(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 198)

تلاوت کرتے کرتے رونے لگے:

حضرت سیدنا قاسم بن ابوبرّہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سننے والے ایک شخص نے مجھے یہ بات بیان کی کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچے یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلمِیْنِ۔ ترجمہ کنزالایمان:جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔(پارہ 3، سورہ مطففین) تو رونے لگے حتیٰ کہ زمین پر گر گئے اور اس کے بعد تلاوت نہ کر سکے۔

حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی سورہ بقرہ کے آخر سے دو آیتیں(پ3، بقرہ : 284،285)

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا تو جسے چاہے گا، بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ رسول ایمان لایا، اس پر جو اس کے ربّ کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا، تیری معافی ہواے ربّ ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔" تلاوت فرماتے تو رونے لگتے، پھر عرض فرماتے:"بے شک یہ حساب بہت سخت ہے۔" روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں:

حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ آیت مبارکہ، اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہ۔(پ 27، الحدید 16) ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔" تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے روتے آپ رضی اللہ عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔