حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا،  جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت بالقرآن 2/129، الحدیث1337)

تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے۔(صراط الجنان، ج3 ص10)

ہمارے بزرگان دین علیہم الرحمۃ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے وقت رویا کرتے تھے، آئیے ان میں سے چند کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والدِ ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسو پر اختیار نہ رہتا یعنی زاروقطار رویا کرتے ۔ (شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالی، 1/493)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ(پ27، الطور: 7،8)

ترجمہ کنزالایمان : بے شک تیرے ربّ کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔

آپ پرخوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی سانس اکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری رہی۔( فیضان فاروق اعظم ، 1/151)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:

حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب اس آیت مبارکہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ (پ27، الحدید:16)

ترجمہ کنزالایمان: کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد( کے لئے)کی تلاوت کرتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ بے حال ہو جاتے۔( ابن عساکر، عبداللہ بن عمر بن الخطاب الخ، 31/127)

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ:

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے دعوتِ محاسبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! وہ وقت یاد کرو جب سورج جو آج کروڑوں میل دور ہے، صرف سوا میل دور ہو گا، آج اس کی پشت ہماری جانب ہے، اس دن اس کا اگلا حصّہ ہماری طرف ہوگا ، زمین تانبے کی ہوگی اس دہکتی ہوئی زمین کا تصور کرو اور اس گرم توے کو دیکھو کہ یہ تو دنیا کی آگ سے گرم ہوا ہے، اس کی تپش تو انگارے کی مانند دہکتی ہوئی، تانبے کی زمین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، پھر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک ضرور اس دن تم سے نعمتوں سے پُرسش (پوچھ گچھ) ہوگی، یہ سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ (تذکرۃ الاولیاء،1/222بتصرف ما)

حضرت سیّدناحسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ :

حضرت سیدناابوعبداللہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت طوسی علیہ الرحمہ کابچہ زورزور سے رونے لگا، اس کی امی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا بچہ آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو حضرت طوسی علیہ الرحمہ اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں، تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء، 9/245)