قرآن پاک اللہ ربّ الانام کا مبارک کلام
ہے، اس کی تلاوت کرنا، سننا سنانا سب ثواب
کا کام ہے، قرآن پاک کا ایک حرف پڑھنے پر
دس نیکیاں ملتی ہیں۔
تلاوت کی توفیق دے دے الہی
گناہوں کی ہو دور دل سے سیاہی
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے آخری وقت آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو آپ نے حکم فرمایا کہ حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ جب وہ قرآن
کی تلاوت کریں گے، تو لوگوں کو ان کے رونے
کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہیں دے گا۔
ایک مرتبہ حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز
علیہ رحمۃاللہ العزیز نے ممبر پر آیت پڑھی،
وَنَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ (پ 17، الانبیاء: 47)
ترجمہ
کنزالایمان: ''اور ہم عدل کے ترازو رکھیں
گے، قیامت کے دن''۔
تو خوف سے ایک طرف کو جھک گئے، گویا زمین پر گر رہے ہیں۔
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ
آیت مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ۔(پ27، الحدید: 16)
ترجمہ
کنزالایمان:"کیا ایمان والوں کو
ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں،
اللہ کی یاد کے لئے۔
تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے ہوئے آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
تلاوت میں رونا اس قدر پسندیدہ عمل ہے، حضرت سیّدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" میں تمہارے سامنے
سورۃالتکاثر پڑھتا ہوں، تم میں سے جو روئے
گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"
چنانچہ سرکارَ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
پڑھا، ہم میں سے کچھ تو روئے اور کچھ نہ
روئے، جو نہیں رو سکے، انہوں نے عرض کی"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم! ہم نے رونے کی کوشش کی مگر نہ رو سکے، آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا" میں تمہارے
سامنے دوبارہ پڑھتا ہوں، جو روئے گا اس کے
لئے جنت ہوگی اور جو نہ رو سکے وہ رونے کی سی شکل بنا لے۔"
عبادت میں ریاضت میں تلاوت میں
لگادے دل
رجب کا واسطہ دیتا ہوں، فرما دے کرم مولا
حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے
تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی وجہ سے چولہے پر رکھی ہوئی
ہنڈیا جیسی آواز نکل رہی تھی۔