قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب
ہے، اللہ عزوجل(تلاوت کا حق ادا کرنے
والوں کی تعریف کرتے ہوئے )ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنز الایمان:" وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں
پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور
اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔( پ 9، الانفال:2)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:"قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(مجمع
الزوائد، کتاب التفسیر، باب القراءۃ بالحزن، الحدیث 11694، جلد 7، صفحہ 351، مفہوماً)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت
فرماتے تو آپ کی ہچکی بند ھ جاتی اور کئی
دن آپ گھر میں پڑے رہتے، آپ کی عیادت کی
جاتی، لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔(اخراجہ
الامام احمد بن حنبل فی الزہد:2176)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ
علیہ اپنی مشہور تفسیر"در منثور" میں نقل کرتے ہیں، ایک مرتبہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے، وہ نوجوان یہ آیت
فَاِذَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37)پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی
طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند
کر دیا ہے، وہ روتا ہوا یہی کہتا رہا"اس
دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے
گا۔"
سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان
سے فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔"(درمنثور
الرحمٰن، تحت الآیۃ:38، 703/7)
حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"میں لوگوں کے سو جانے کے بعد نکلا اور حضرت سیدنا مالک بن انس
رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر
نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ (سورہ
فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھاکم التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے، اس کو بار بار پڑھتے اور جو کچھ میں نے آپ رضی
اللہ عنہ سے سنا اور دیکھا، اس نے مجھے
اپنی حاجت سے مشغول کر دیا، جس کے لئے میں
نکلا تھا، لہذا میں ادھر ہی کھڑا رہا اور
آپ طلوعِ فجر تک اسی کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے، جب آپ رضی اللہ عنہ پر وہ آیت ظاہر ہوگئی تو آپ
رضی اللہ عنہ نے رُکوع کیا، میں اپنے گھر
کی طرف لوٹ آیا، وضو کیا اور پھر مسجد میں گیا، جب کہ حضرت مالک رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں تھے
اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ انور
سے حسین نور بلند ہو رہا ہے۔(تدریب
المدارک، باب فی ذکر عبادۃ مالک وورعۃ وخوفہ۔۔الخ، 50/2، المملکۃ الفریبۃ
الرباط)
حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک رات امام الآئمہ، حضرت سیّد نا امام اعظم ابوحنیفہ
نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان"بلکہ
ان کا وعدہ قیامت نہایت کڑوی اور سخت کڑوی" کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔(سیر اعلام البناء،
الطبقہ الخامسۃ من التابعین، 163، ابو حنیفہ401/6، موسسۃ الرسالۃ بیروت)
حضرت سیّدنا ابو عبداللہ رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک دن حضرت سیّدنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی علیہ رحمۃ
اللہ القوی کا مدنی منا زور زور سے رونے لگا، اس کی امّی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا"مدنی منا آخر اس قدر کیوں رو
رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو (حضرت سیّدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ
القوی)اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی
آواز سن کر رونے لگتا ہے۔
شیخ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں، حضرت سیدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ القوی نیکیاں چھپانے کی اس قدر
سعی فرماتے تھے کہ اپنے اس کمرہ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہر نکلنے سے پہلے اپنا
منہ دھو کر آنکھوں میں سُرمہ لگا لیتے، تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ
ہونے پائے کہ یہ روئے تھے۔(حلیۃ الاولیاء،
جلد 9، صفحہ 254)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"میں تمہارے
سامنے سورت"الھکم التکاثر" پڑھنے لگا ہوں، تو (اسے سن کر) جو رو پڑا تو اس کے لئے جنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورت پڑھی تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روپڑے اور بعض کو رونا
نہیں آیا، جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو
رونا نہیں آیا تو انہوں نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے بہت
کوشش کی، لیکن رونے پر قادر نہیں ہوسکے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں دوبارہ تمھارے سامنے وہ سورت پڑھتا ہوں تو جو رو پڑا اس کے لئے جنت ہے اور جسے رونا نہ آئے تو وہ رونے جیسی صورت بنا لے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔الخ، 363/2، الھدیث
2054)
ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: میرے سامنے تلاوت کرو،
عرض کی، میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں؟ آپ پر
ہی تو قرآن اترا ہے، ارشاد فرمایا؛ میں
چاہتا ہوں کہ دوسروں سے سنو ں، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عنہ قراءۃ القران، الحدیث5055، ج3،
ص418، مفھوماً)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب
یہ آیت نازل ہوئی"پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور تم ہنستے ہو اور
روتے نہیں ہو" تو اہلِ صفہ اس قدر روئے کہ ان کے آنسو ان کے رخساروں پر بہہ
پڑے، جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان
کے رونے کی آواز سنی تو آپ بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ کے رونے کی وجہ سے ہم
بھی رونے لگے۔( اخرجہ البہیقی فی شعب الایمان، 489/1، الرقم:798، والدیلمی فی مسند الفردوس، 44713، الرقم:5373، والمنذری فی
الترغیب والترھیب 11414، الرقم 5068، وابن ابی عاصم فی الزھد 178/1)
اگر ہم تنبیہات و وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد
کریں، پھر اس کے اوامر و نواہی کے معاملے
میں اپنی کوتاہیوں میں غور و فکر کریں تو بالیقین غمگین ہوں گے۔اللہ عزوجل اپنے
پیاروں کے طفیل ہمیں بھی اس مقدّس قرآن مجید کی دائمی محبت عطا فرمائے اور اس کی
تلاوت کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم