روزے کی قبولیت کےذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
4 years ago

معزز قارئین کرام : اللہ عزوجل کی عبادات اور نیکیاں تو پورا سال ہی کی جاتی ہیں مگر رمضان المبارک کو نیکیوں کا سیزن کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں ذوق عبادت اور ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر تمام اعمال چونکہ قبولیت پر ہی موقوف ہیں اس لیے روزے کی قبولیت کےحوالےسے چند مدنی پھول پیش ہیں۔

اخلاص:

روزہ ہو یا کوئی بھی نیکی اسکی قبولیت کے لیے اخلاص شرط اول ہے

امام غزالی علیہ رحمۃُ اللہِ علیہ منھاج العابدین میں تحریر فرماتے ہیں:" اخلاص مفقود ہونے کی صورت میں اعمال مردودہوجاتے ہیں اور انکا ثواب یاتو بالکل ختم یاکچھ نہ کچھ ضائع و برباد ہوجاتا ہے۔

تقوی :

تقوے سے اعمال درجہ قبولیت کو پہنچتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) ترجمہ : اللہ ڈرنے والوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔ (پارہ6 ، سورة المائدہ : 27 )

اس لیےروزہ دار کوچاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں عاجزی سے قبولیت کی دعا اور نامقبول ہونے سے ڈرتارہے۔

روزہ رکھ کر مخلوق خدا کے ساتھ احسان و بھلائی کرنا کہ اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔

طویل قیام و مناجات اور کثرت تلاوت ودیگر صالحات میں کوشش کرنا ۔

کہ یہ سب قبولیت کوبڑھانے والے اور قرب الہی والے اعمال ہیں ۔

روزہ رکھ کر سارا وقت سونے اور غفلت سے بچے، کہ اس طرح روزے کی نورانیت حاصل نہیں ہوتی۔

روزہ رکھ کر حقوق العباد میں کوتاہی نہ کرے۔

روزہ رکھ کر لڑائی جھگڑا کرنے والوں اور گھروالوں پر غصہ اتارنے بچوں کومارنے بڑوں کو ذرا سی غلطی پہ لتھاڑنے والوں کو اس فعل شنیع سے توبہ کرنی چاہیے۔

حدیث پاک میں ارشاد فرمایا: بہت سے روزے دار وہ ہیں کہ جنہیں روزوں سے پیاس کےسوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ! (مراة المناجیح ، جلد3 ، ص180، حدیث : 1917 )

مفتی صاحب مذکورہ بالاحدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ لوگ ہیں جوروزےمیں گالی گلوچ ،جھوٹ ،غیبت ،بہتان وغیرہ گناہوں سے نہیں بچتے کہ یہ لوگ بھوک پیاس کی تکلیف تو اٹھاتے ہیں مگر روزوں کاثواب حاصل نہیں کرتےاسی لیے روزے کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے کےساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے روزہ رکھ کر کرکٹ ،موبائل گیمزکھیلنا،فلمیں ڈرامےدیکھنا،ڈائجسٹ پڑھنا روزے کی قبولیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے لہذابالعموم ہروقت اور بالخصوص روزےکی حالت میں ان افعال سےبچنانہایت ضروری ہے۔

فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ علیہ وَسَلَّم :

صرف کھانے پینے سےبازرہنےکانام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہےکہ لغو اور بےہودہ باتوں سےبچا جائے۔ (المستدرک ، ج2 ، ص67 ، حدیث:1611 )

فرمان سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ:

" معدے کوکھانےپینے سےروکنا ،آنکھ کو بدنگاہی ،کان کوغیبت، زبان کوفضول اورفتنہ انگیزباتوں اورجسم کو حکم الہی کی مخالفت سے روکےرکھناروزہ ہے جب بندہ ان تمام شرائط کی پیروی کرےگا تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضان رمضان)

فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ عَلیہ وَسَلَّم :

" جوبری بات کہنااور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ پاک کوکچھ حا جت نہیں ۔ (البخاری ،ج1 ، ص628 ، حدیث : 1903 )

یاد رہےایسےشخص کافرض اداہوجائےگا مگر قبول نہ ہوگا۔

صبح صادق سےغروب آفتاب تک نیت کےساتھ کھانے پینے اور دیگرشرائط جوازبجالانے سے روزہ ادا ہوجائےگا مگر شرائط قبول میں یہ باتیں چھوڑنا ہے جو روزہ کااصل مقصود ہے

روزے کی حکایات فضائل واحکام اور مزید معلومات حاصل کرنےکےلیے امیراہل سنت کی کتاب فیضان رمضان کا مطالعہ فرمائیے۔ 


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
4 years ago

روزہ بہت قدیم عبادت ہے،  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں، اگرچہ گزشتہ اُمتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے، رمضان کے روزے 10شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے۔ (در مختار، کتاب الصوم، 3/383)

شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری (جماع) سے بچا جائے۔(خازن، البقرہ، تحت الآیۃ، 183، 1/119)

روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، تاہم روزے کے کچھ باطنی آدب بھی ہیں، جن کا جاننا ضروری ہے تا کہ ہم روزے کی برکتیں حاصل کر سکیں اور یہ مقبول بھی ہوں، چنانچہ روزے کے تین درجےہیں:

(1)عوام کا روزہ (2)خواس کا روزہ (3) اخص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ :

روزہ کے لغوی معنی "رکنا"لہذا شریعت کی اصطلاح میں صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہ عام لوگوں کا روزہ ہے۔

خواص کا روزہ:

کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکنا، خو اص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔

اخص الخواص کا روزہ:

اپنے آپ کو تمام ا مور سے روک کر صرف اور صرف اللہ عزوجل کی طرف متوجّہ ہونا یہ اخص الخواص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔(بہار شریعت، ج 1، ص966، ملخصاً)

تفسیر صراط اجنان میں ہے کہ روزے کامقصد تقوی و پرہیز گاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو پانا وہ بنیادی چیز ہے ، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، ج 1، ص290)

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (کشف المحجوب، ص353,354)

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:" روزہ ایک امانت ہے اور ہر ایک کو اپنی امانت کی حفاظت کرنی چاہئے۔" امانت کی حفاظت اعضاء کو گناہوں سے بچانے سے ہوتی ہے۔ (قوت القلوب، ج1، ص369)

حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تو اسی وقت نصیب ہوں گی، جب ہم تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے، ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:"بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(ابن ماجہ، ج2، ص320، حدیث 1690)

اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عزوجل فیضان رمضان سے ہر مسلمان کو مالا مال فرما، ہمیں ماہِ رمضان کی قدر و منزلت نصیب کر اور اسکی بے ادبی سے بچا، یا اللہ پاک ہمیں کھانے پینے وغیرہ سے رُکے رہنےکے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر اعضائے بدن کو بھی گناہوں سے بچا کر حقیقی معنوں میں روزے کا پا بند بنا۔(اٰمین


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
4 years ago

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ۔

ترجمہ کنز الایمان:"اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ۔" (پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت 183)

فقہی طور پر صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کو" روزہ" کہتے ہیں۔(فیضانِ رمضان، ص90)

اِمام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"فقہائے ظاہر وہی پابند یاں بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف متوجّہ ہونے والوں کیلئے آسان ہوں، لیکن علمائے آخرت روزے کی صحت (یعنی صحیح ہونے) سے قبولیت مراد لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے، روزے کا ایک مقصد شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ وہ شہوات سے پاک ہیں۔" (احیا ءالعلوم، جلد01، ص 717، 718 )

حدیث میں فرمایا:"صرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اوربیہودہ باتوں سے بچا جائے۔"(فیضانِ رمضان، ص92)

اِرشاد فرمایا:"بہت سے روزہ دارایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔"(فیضانِ رمضان، ص98)

معلوم ہوا کہ روزے کی قبولیت کا دارومدار فقط اِمتناع ثلثہ( تین چیزوں یعنی کھانے، پینے اور جماع سے رکنے)پر نہیں، بلکہ ان اُمور سے رُکنے کے ساتھ ساتھ مزید بھی کچھ ایسے کام ہیں جو رحمتِ الٰہی سے روزے کی قبولیت کا سبب بنتے ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت "رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں، مثلاً

(1)معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا۔

(2)آنکھ کو بدنگا ہی سے روکے رکھنا۔

(3)کان کو غیبت سننے۔۔

(4)زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور

(5)جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا" روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضانِ رمضان، ص91)

حضور داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ کی تحریر سے واضح ہوا کہ کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا تو روزے کی حقیقت کو پانے کی صرف ایک شرط ہے، روزے کی نورانیت، حقیقت اور قبولیت پانے کیلئےاعضاءکو گناہوں سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔

گناہوں میں ملوّث رہنے والے روزہ دار کی مثال سمجھاتے ہوئے اِمام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"جو شخص کھانے(پینے) اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں میں ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تو وہ اس شخص کی طرح ہے "جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا، لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی"، جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں لیکن ا عضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ قبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس کی طرح ہے جوہر عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے"۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص719)

اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(اٰمین)


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
4 years ago

روزہ اگرچہ ظاہری شرط کے ساتھ ہے کہ روزہ دار قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رہے ، تاہم روزے کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے،  تا کہ حقیقی معنوں میں ہم روزہ کی برکتیں حاصل کر سکیں اور اسے قبولیت کے درجے میں پہنچانے میں کامیاب ہوسکیں، چنانچہ روزہ دار کے تین درجے ہیں:(1) عوام کا روزہ(2) خواص کا روزہ(3) اخص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ :

روزہ کے معنی "رکنے" کے ہیں، تو کھانے پینے اور جماع سے صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب تک رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہی عوام کا روزہ ہے۔

خواص کا روزہ:

مذکورہ بالا ہے احکام بجا لاتے ہوئے اپنے تمام اعضاء کو برائیوں سے بچانا خو اص کا روزہ ہے ۔

اخص الخواص کا روزہ:

اپنی تمام توجّہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی جانب کرنا اخص الخواص کا روزہ ہے اور یہی قبولیت کا راز ہے۔( فیضان رمضان)

الہی خو ب دیدے شوق قرآں کی تلاوت کا

شرف دے گُنبدِ خضرا کے سائے میں شہادت کا

اے عاشقانِ رسول!آپ نے دیکھا کہ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے کتنے فضائل ہیں، اِس کے

علاوہ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے فضائل پر مشتمل اور بھی بہت سی روایات ہیں، اللہ کریم ہم سب کو قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا خوب جزبہ عطا فرمائے اور علمِ دین کی خوب تشہیر کرنے کا بہترین اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تلاوت کی توفیق دیدے الہی

گناہوں کی ہو دور دل سے سیاہی


گزشتہ دنوں عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں واقع اسلامک ریسرچ سینٹر میں شعبہ دعوتِ اسلامی کے شب وروز کا مدنی مشورہ ہوا۔ مدنی مشورے میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی نے ذمہ داران کو مدنی پھول عنایت فرمائے۔

رکنِ شوریٰ نے ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور نگرانِ پاکستان حاجی محمد شاہد عطاری کی جانب سے دیئے گئے   اہداف کا فالو اپ کیا۔ اس موقع پر شعبے میں مزید بہتری اور ترقی کے متعلق مختلف امور  بھی زیرِ غور لائے گئے۔

مدنی مشورے میں H.O.D اسلامک ریسرچ سینٹر مولانا آصف خان عطاری مدنی اور نگران شعبہ دعوتِ اسلامی کے شب وروز محمد عمر فیاض مدنی سمیت دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔ 


قرآن کریم ربّ تعالی کی وہ آخری کتاب ہے، جس کو اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور سب سے بڑھ کر اس کی حفاظت کا ذمّہ اپنے سر پر لیا، جیسا کہ ربّ تعالی کا فرمان ہے:

ترجمہ کنز الایمان:"ہم نے اس ذکر کو نازل کیا، ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔"

اس کی حفاظت پر دلیل یہ ہے کہ آج قرآن کریم لاکھوں، کڑوڑوں حفّاظ کے دلوں میں محفوظ ہے، جس طرح قرآن کریم پڑھنے کے، یاد کرنے کے بہت فضائل ہیں، اِسی طرح اس کو پڑھانے کے بھی بے شمار فضائل ہیں، جن میں چند ایک آج ہم ذکر کریں گے۔۔

ربّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ" تم میں سے بہتر وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"

(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خَیْرُکُمْ مَنْ ۔۔ 3/410، حدیث5028)

اس حدیث پاک کے تحت حضرت علامہ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:"وہ مؤمنین میں سب سے فضیلت والا ہے۔"مزید آگے چل کر فرماتے ہیں"طیبی نے کہا: لوگوں میں سے تعلیم و تعلم کے اعتبار سے بہتر قرآن کی تعلیم دینا اور اس کو سیکھنا ہے۔"

(مرقاۃ المناجیح، شرح مشکاۃ المصابیح، فضائل القرآن، ج4، ص 612، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اسی حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن سیکھنے سکھانے میں بہت وُسعت ہے، بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا، قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا، علماء کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث وفقہ سیکھنا سکھانا، صوفیائے کرام کا اَسرار و رموز بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا سب قرآن ہی کی تعلیم ہے، صرف الفاظِ قرآن کی تعلیم مُراد نہیں۔(مراۃ المناجیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ج3، ص 323)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ نصیحت بنیاد ہے:" جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی ایک سنّت سکھائی، قیامت کے دن اللہ پاک اس کے لیے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔

(جمع الجو امع ، قسم الاقوال، ج 7، ص209، حدیث 22454)

حضرت سیّدنا نویس ابن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکوفرماتے سُنا کہ" قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، یوں بلائے جائیں گے کہ سورۃ بقرہ و آلِ عمران آگے آگے ہوں گے، گویا سفید بادل یا کالے شامیانے جن کے درمیان کُچھ فاصلہ ہو گا گویا وہ صف بستہ پرندوں کی دو ٹولیاں اپنے عاملوں کی طرف سے جھگڑتی ہوں گی۔"

اِس حدیث کے آخری حصّے" دو ٹولیاں اپنے عاملوں کی طرف سے جھگڑتی ہوں گی"، کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یعنی اللہ سے جھگڑ جھگڑ کر اپنے قاری، عاملین و عالمین کو بخشوائیں گی۔"(مرآۃ المناجیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ج3، ص243)

اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے، سیکھنے اور سیکھ کر دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین


قرآن مجید  سب سے مقدس اور سب سے عظیم کتاب ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے کاروانِ انسانیت کے سب سے آخری اور سب سے عظیم راہنما رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی جو ظلمُ وجَہل کی تاریکیوں میں منارہ نور ، کفروشرک کے تابوت کی آخری کِیل اور پوری مخلوقِ انسانی کیلئے اللہ کی طرف سے اتارا ہوا سب سے آخری اور سب سے جامع قانون ہے ۔

قرآن مجید کی عظمتُ و بُزرگی اور اُس کی فضیلت و رِفعت کیلئے اِسی قدر کافی ہے کہ وہ خداوندِعالم،مالکِ ارض وسمااور خالقِ لوح وقلم کا کلام ہے ، تمام عیوب اور تمام نقائص سے بری وپاک ہے، فصاحت و بلاغت کا وہ آخری نقطۂ عروج کہ بڑےبڑے عرب فصیح و بلیغ اِس کے سامنے طفلِ مکتب، علوم و معارف اور فکر و دانش کا وہ کوہِ ہمالہ کہ دنیا کے بڑےبڑے مفکّر،فلسفی،دانشور اور ارباب نظر و فکر اس سے سر ٹکرائیں ۔

قرآن مجید کی تلاوت اور پڑھنےکا ثواب تو محتاجِ بیان نہیں، تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ذکر تلاوتِ قرآن مجید سے زیادہ ثواب نہیں رکھتا ،خصوصاً نماز میں اس کی قراءت کا ثواب اور اس کی فضیلت اتنی ہے کہ وہ دائرہ تحریر سے باہر ہے ۔ لیکن یہاں قرآن مجید پڑھانے کے چند احادیث و فضائل ذکر کئے جاتے ہیں ۔

چناچہ قرآن کریم کی تعلیم و تعلّم کے بارے میں اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حدیث :خیرکم من تعّلم القرآن و علّمہ ۔ترجمہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا ۔)بخاری،کتاب فضائلِ قرآن،حدیث ۵۰۲۷(

حضرت سیدنا ابو عبدالرحمن سلمی رضی ﷲ عنہ مسجد میں قرآن پاک پڑھایا کرتےاور فرماتے اسی حدیث مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے ، )فیض التقریر ،تحت الحدیث۔983 3،ج 3، ص ۲١۸(

حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جہ کچھ قرآن پاک میں ہے اس پر عمل کیا قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت مین لے جائے گا ۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر ، ذکر من اسمہ عقیل، 4734 ،عقیل بن احمد بن محمد ،ج 4 ،ص 3 (

اسی طرح حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی سنت سکھائی قیامت کے دن ﷲ تعالی اس کے لئے ایسا ثواب تیار فرما ئے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کیلئے بھی نہیں ہوگا ،) جمع الجوامع للسیوطی ، حرف المیم ، الحدیث ۲۲۴۵۴ ، ج ۷ ، ص ۲۰۹ (

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی قرآن پاک کی تعلیم کو عام کریں قرآن پاک پڑھائیں اس سے اولاً تو ہمیں خود کو ڈھیروں ثواب اور فضائل حاصل ہونگے اس سے ہماری نسل اور معاشرے میں بہتری کا سامان ہے ۔

اللہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے پڑھانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 بہترین انسان:

نبی مکرّم، نورِمجسم، رسولِ اکرم، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ۔"یعنی تم میں بہترین انسان وہ ہے، جس نے قرآن سیکھااوردوسروں کوسکھایا۔"

اِس حدیث میں مذکورہ قرآن مجید پڑھانے کی فضیلت پانے کے لئے اس حدیث شریف کے راوی حضرت سیّدنا عبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن 38 سال سے زیادہ عرصہ لوگوں کوقرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے۔(فیض القدیر، ج 3 ، ص 618)

اللہ والے:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں، صحابہ کرام نے عرض کی"یارسول اللہ!وہ کون سے لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قرآن پڑھنے، پڑھانے والے ہیں۔" (سنن ابن ماجہ، باب قرآن)

قرآن شفاعت کرے گا:

مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ وَاَخَذَ بِمَا فِیْہِ کَانَ لَہٗ شَفِیْعاً وَّ دَلِیْلاً اِلیٰ الْجَنَّۃِ۔"جس نے قرآن مجید سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن میں ہے، اس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گااور اسے جنت میں لے جائے گا۔"(المؤتلف والمختلف للدارقطبی)

گناہوں کی بخشش کاسبب:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ مغفرت نشان ہے:"جوشخص اپنے بچے کوناظرہ قرآن کریم سکھائے، اس کے سبب اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔" (مجمع الزائد، ج 7 ، ص 344، حدیث11271)

قیامت تک کاثواب:

"جس نے کتاب اللہ سے ایک آیت سکھائی یا علم کاایک باب سکھایاتواللہ عزوجل اس کے ثواب کوقیامت تک کے لئے جاری کر دے گا۔" (کنزالعمال کتاب العلم)

بہترثواب:

حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جس نے قرآن مجیدکی ایک آیت یادین کی کوئی سُنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے لئے ایساثواب تیارفرمائے گاکہ اس سے بہترثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔" (جمع الجوامع للسیوطی)

درسِ قرآن کےفضائل:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'جو لوگ اللہ تعالی کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوتے ہیں اور وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اورایک دوسرے کو اس کا درس دیتے ہیں تو ان پر سکون نازل ہوتا ہے اوررحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالی ان کا ذکر فرشتوں میں فرماتاہے۔"

(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبہ الاستغفار)

اونٹنیوں سے بہتر عمل:

عَنْ مُوْسٰى بِنْ عَلِيٍّ قَالَ سَمِعْتُ اَبِيْ یٰحَدِيْثُ عَنْ عُقْبَۃَ بِنْ عَامِرٍ رضي الله تعالى عنه قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ فِي الضفۃٍ فَقَالَ اَيُّكُمْ يَجِبُ اَن يَّغْدَو َقُلْ يَوْمٍ اِلىٰ بَطْحَانُ اَوْ اِلَى الْعَقِيْقِ فَیَاءِی مِنْهُ بِنَا قَتینِ کَوْماًوَیْنِ فِیْ غَیْرِ اِثْمٍ وَلَا قَطَعَ رحَمْ قُلْنِا يَارَسُولَ الله قُلْنَا یحبُّ ذٰلِكَ قَالَ اَفَلَا ا يَّغْدُوااَحَدُوْكُمْ اِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعَلَّمْ اَوْيَقْرَءُ اٰيَتَيْنِ وَثَلَاثُ خَيْرُ لَهٗ مِنْ ثُلَاثٍ وَ اَرْبَعُ خَيْرُ لَهٗ مِنْ اَربعٍ فمِنْ اعْدَادِ هِنَّ مِنَ الْاِبِلِ

ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، حالانکہ ہم چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ وہ ہر روز صبح بطخان (مدینہ کی پتھریلی زمین)یا عقیق (ایک بازار) جائے اور وہاں سے بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہان والی اونٹنیاں لے آئے!" ہم نے عرض کیا"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کو یہ بات پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "پھر تم میں سے کوئی شخص صبح کو مسجد میں کیوں نہیں جاتا، تاکہ قرآن پاک کی دو آیتیں خود سیکھے اور دوسروں کو سکھائے اور یہ دو آیتوں کی تعلیم دو اونٹنیوں سے بہتر ہے، تین تین سے چار وعلی ھذالقیاس، آیات کی تعداد اونٹنیوں کی تعداد سے بہتر ہے۔ (مسلم شریف2 ، ص 583)

اللہ تعالی قیامت تک اجر بڑھاتا رہے گا: ایک حدیث شریف میں ہے"جس شخص نے کتاب اللہ کی ایک آیت یا علم کا ایک باب سکھا یا، اللہ اس کا اجر قیامت تک بڑھاتا رہے گا۔" ( تاریخ دمشق تاریخ لابن عساکر ، ج 9، ص 290)

ہزار رکعتوں سے بہتر عمل:

"تمہارا کسی کو کتاب اللہ عز وجل کی ایک آیت سکھانے کے لئے جانا، تمہارے لئے سو رکعتیں ادا کرنے سے بہتر ہے اور تمہاراکسی کو علم کاایک باب سکھانے کے لئے جانا، خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے، تمہارے لئے ہزاررکعتیں ادا کرنے سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ کتاب السنہ، الحدیث219 ، ج 1، ص142) 


جو کتاب جس قدر اہم اور فضیلت  والی ہوتی ہے، اسے پڑھانے والے کی اہمیت و فضیلت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب"قرآن پاک "جو کہ آخری آسمانی کتاب ہے، یہ تمام کتابوں سے افضل، اعلٰی، ارفع اور بہترین کتاب ہے، لہذا اسے پڑھانے والے بھی بہترین لوگ ہیں۔

چنانچہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔

ترجمہ:"تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔" ( بخاری3/410 ، حدیث5027)

حضرت ابو عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ لوگوں کو قرآن پاک اِسی حدیث کے پیشِ نظر پڑھایا کرتے تھے، یہ حدیث پاک پڑھ کر ہوسکتا ہے کہ آپ کا قرآن پاک پڑھانے کا جی چاہے، اگر تو آپ اس کے اہل ہیں تو ضرور پڑھائیے، اگر خود صحیح نہیں پڑھ سکتے تو ہرگز ہرگز کسی کو نہ پڑھائیے، بلکہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر مدرسۃ المدینہ بالغان میں قرآن پاک پڑھئے یا مدرسۃ المدینہ آن لائن میں داخلہ لیجئے اور قرآن پاک سیکھ کر دوسروں کو سکھانے میں مشغول ہو جائیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی قرآن پاک سکھائیے۔

حدیث پاک میں اپنے بچوں کو قرآن پاک سکھانے کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے، چنانچہ نبی پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ برکت نشان ہے:"جو شخص اپنے بیٹے کو قرآن کریم

سکھائے، اس کے سب اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔" (مجمع الزوائد، ج1، حدیث11471)

قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی نہایت ضروری ہے، کیونکہ قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کا مکمل فائدہ اسی صورت میں ہوگا، جب اس پر عمل بھی کیا جائے گا، قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہے، لہذا مقصد کو مت بھولئے، آئیے قرآن پاک پڑھنے، پڑھانے اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے حدیث پاک سنتے ہیں:

چنانچہ مکی مدنی رسول، بی بی آمنہ کے پھول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ شفاعت نشان ہے:"جس نے قرآن پاک سیکھا، سکھایا اور جو قرآن پاک میں ہے، اس پر عمل کیا، قرآن پاک اس کی شفاعت کر کے اُسے جنت میں داخل کرے گا۔"( تاریخِ دمشق ابن عساکر، 3/41)

اللہ اکبر !وہ خوفناک دن جس دن چھوٹے چھوٹے سہاروں کو آدمی ترسے گا، قرآن سیکھنے، سکھانے اور اس پر عمل کرنے والوں کو کیسا عظیم سہارا ملے گاکہ جس قرآن کو سیکھتے، سکھاتے اور اس پر عمل کرتے تھے، وہ شفاعت کر کے داخلِ جنت کرلے گا۔

اگر ہمیں قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا ہے تو اللہ ہمیں سیکھنے، اگر آتا ہے تو سکھانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن کو جو لوگ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بلند کر دیتا ہے۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت میں داخل ہو گا۔جو قرآن کی تلاوت اور تعلیمات سے دور ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی اور چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو اللہ ذلیل و خوار کر دیتا ہے ۔ چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس کتاب ) قرآن مجید (کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا “۔ [)مسلم (

بہترین شخص کون : ؟

قرآن مجید کا پڑھنا، پڑھانا، سیکھنا، سکھانا، نہایت ہی محبوب ترین عمل ہے۔ اور یہ کام انجام دینے والے سب سے افضل اور بہتر لوگ ہیں۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”حضرت عثمان بن عفان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن (پڑھنا اور اس کے رموز و اَسرار اور مسائل) سیکھے اور سکھائے۔”اور ایک روایت میں ان ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک تم میں سے افضل شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (رواه البخاری )

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کون لوگ پسند تھے: عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: سَمِعَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه ضَجَّةَ نَاسٍ فِي الْمَسْجِدِ، يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ وَ يُقْرِءُوْنَ، فَقَالَ: طُوبَی لِهَؤُلاَءِ، هَؤُلاَءِ کَانُوا أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم۔ ( رواه الطبراني)

”حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہُ عنہ نے مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی آوازیں سنیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں مبارک ہو، یہ وہ لوگ ہے جو سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند تھے۔“

سکون و اطمینان نزول:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اﷲُ لَهُ بِهِ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اﷲِ يَتْلُونَ کِتَابَ اﷲِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّکِيْنَةُ، وَ غَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِکَةُ، وَذَکَرَهُمُ اﷲُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ۔ (رواه مسلم و ابوداود )

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص طلبِ علم کے لئے کسی راستہ پر چلا، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور جب بھی لوگ اﷲ تعالیٰ کے گھروں (مسجدوں) میں سے کسی گھر (مسجد) میں جمع ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں اسے سیکھتے سکھاتے ہیں تو ان لوگوں پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے، رحمتِ الٰہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے پر باندھ کر ان پر چھائے رہتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ملاءِ اعلی کے فرشتوں میں ان کاذکر کرتا ہے، اور جس شخص کے اعمال اس کو پیچھے کردیں اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔“


قرآنِ مجید فرقانِ حمید وہ بے مثل و لاجواب کتاب ہے جس کے کمالات و اوصاف کما حقہٗ بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں، اس عظیم کلام کو پڑھنے والا، پڑھانے والا اور اس پر عمل کرنے والا دو جہاں میں سرخرو ہوتا ہے اور خالقِ کائنات کی بارگاہِ اقدس سے خصوصی انعامات سے نوازا جاتا ہے ہے۔ قرآن کریم سے بندوں کا تعلق مضبوط کرنے میں اولین حیثیت قرآن پاک پڑھانے والوں کو حاصل ہے۔ اسی لیے قرآن مجید پڑھانے کے فضائل کے سلسلے میں اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے کثیر فرامینِ مبارکہ موجود ہیں جن میں سے چند یہاں بیان کیے جاتے ہیں ہیں ہیں۔

(1) جس نے کِتَابُ اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک ’’باب‘‘ سکھایا تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرما دے گا۔

(کنزالعمال، کتاب العلم ، الباب الاول ، الحدیث :28700، ج10، ص61، ارالکتب العلمیۃ)

(02) خیرکم من تعلم القرآن و علمہٗ یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

(صحیح البخاری، کتاب فضائل القراٰن ، باب خیرکم من۔۔۔الخ، الحدیث:۵۰۲۷، ج۳، ص۴۱۰، دارالکتب العلمیۃ)

اس حدیث شریف میں مذکور قراٰنِ مجید پڑھانے کی فضیلت پانے کے لئے اس حدیث شریف کے راوی حضرت سیدنا ابو عبدالرحمن سلَمی رضی اللہ عنہ 38سال سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کوقرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے۔

(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج۵، ص۲۶۹ملخصًا، فریدبک سٹال)

(3) بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر رحمت بھیجتے ہیں حتی کہ چیونٹیاں اپنے سُوراخوں میں اور مچھلیاں سمندر میں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہیں ۔ ‘‘(المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۹۱۲، ج۸، ص۲۳۴، داراحیاء التراث العربی)

(4) جو قوم اللہ تعالی کے گھروں میں سے کسی گھر میں قرآن پڑھنے اور آپس میں قرآن سیکھنے سکھانے کے لئے جمع ہو تو (۰۱) ان پر سکینہ (یعنی اطمینان و سکون) نازل ہوتا ہے (۰۲) رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے (۰۳) فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں (۰۴) اور اللہ تعالی ان کا ذکر فرشتوں کے سامنے فرماتا ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الذکرو الدعا، باب فضل الاجتماع۔۔۔۔ الحدیث: 2699، ص 1448)

(5) حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی سنت سکھائی قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے لیے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر کسی کے لیے بھی نہیں ہوگا۔(جمع الجوامع للسیوطی، حرف المیم، الحدیث: 22454، ج 07، ص 209)

ان مبارک فرامین سے قراٰنِ کریم پڑھانے کے فضائل معلوم ہوئی ۔ مگریادر ہے کہ یہ فضائل اور اجرو ثواب اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جبکہ پڑھانے والا اہل ہو یعنی قراٰن کریم کو دُرست تلفظ اور صحیح مخارج کے ساتھ پڑھائے کیونکہ غلط طریقے پر پڑھانا بجائے ثواب کے وعید و عذاب کاباعث ہے۔


دو جہاں کے سلطان،  سرورِ ذیشان، محبوبِ رحمٰن عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"مجھ پر دُرود پاک پڑھنا پُل صراط پر نور ہے، جو روزِ جُمعہ مجھ پر 80 بار درود پاک پڑھے، اس کے اسّی سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔"

ایک حرف کی دس نیکیاں:

قرآن مجید، فرقانِ حمید اللہ رب الانام عزوجل کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا، پڑھنا اور سننا، سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن پاک کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، چنانچہ خاتم المرسلین، شفیع المذنبین، رحمۃ اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ دلنشین ہے :"جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑے گا، اس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔"

حضور اکرم نور مجسم رسول اکرم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ۔"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں اٹکتا ہو اور وہ اس کو مشکل لگتا ہو، اس کو دو ثواب ملیں گے۔( ایک پڑھنے کا، ایک اٹکنے کی مشقت کا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قرآن مجید سیکھنے کے لئے جو شخص گھر سے نکلے، اللہ تعالی اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہارا کسی کو کتاب اللہ کی ایک آیت سکھانے کے لئے جانا، تمہارے لئے سو رکعتیں ادا کرنے سے بہتر ہے اور تمہارا کسی کو علم کا ایک باب سکھانے کے لئے جانا، ہزار رکعتیں ادا کرنے سے بہتر ہے۔"

حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں لوگوں کے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی آوازیں سنیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا"انہیں مبارک ہو، یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھے۔"

تلاوت کی توفیق دے دے الٰہی

گناہوں کی ہو دُور دل سے سیاہی

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم، رحمتِ عالم، نورِ مجسم، شاہ ِبنی آدم، رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:"جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔"

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے"کہ جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی سنت سکھائی، قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے لئے ایسا ثواب تیار فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کیا، اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا، اس کے گھر والوں میں سے دس افراد کے حق میں شفاعت قبول کرے گا، جن پر (گناہوں کی وجہ سے) جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔"