
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں شمالی
لاہور زون اطراف ڈیفنس کابینہ میں شخصیات
اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی
شخصیات خواتین نے شر کت کی۔
کابینہ
سطح کی ذمہ دار اسلامی بہن نے سنتوں بھرا
بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے دعوتِ
اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے، ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے اور دینی
کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
الٰہ آباد کابینہ کی ڈویژن چونیاں میں
ذمہ دار اسلامی بہنوں کا ماہانہ مدنی
مشورہ

دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں الٰہ آباد کابینہ کی ڈویژن چونیاں میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس
میں کابینہ نگران اور کابینہ مشاورت ذمہ داراسلامی بہنوں سمیت ڈویژن تا ذیلی تمام
شعبہ جات کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
زون ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک
اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور ذیلی سطح پر ون ڈے سیشن
کے اہداف کے ساتھ ساتھ سالانہ ڈونیشن اور
رسالہ کارکردگی بڑھانے کی ترغیب دلائی۔

دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں لاہور
جوہر ٹاؤن میں ایک برسی کے موقع پر محفل نعت کا انعقاد کیا گیا جس میں شخصیات خواتین
سمیت دیگر اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
لاہور ریجن نگران اسلامی بہن نے رمضان المبارک کی آمد کے بارے میں بیان کیا
اور محفلِ نعت میں شریک اسلامی بہنوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو راضی کرنے
اور خوب عبادت کا ذہن دیا ۔
حافظ آباد کابینہ
کی شرقی ڈویژن ہاؤسنگ کالونی میں فرض علوم
پر مشتمل ”کورس فیضانِ زکوٰۃ“ کا انعقاد

دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ
اہتمام گزشتہ دنوں حافظ آباد کابینہ کی شرقی ڈویژن ہاؤسنگ کالونی میں فرض علوم پر مشتمل ”کورس
فیضانِ زکوٰۃ“ کا انعقاد کیا گیا جس میں 3 ذمہ دار اسلامی بہنوں سمیت 28 شخصیات اسلامی بہنوں نےشرکت کی۔
مدرسہ
اسلامی بہن نے زکوٰۃ کے حوالے سے شرعی مسائل بتائے، عشر کے حوالے سے احکام سمجھائے
اور آخر میں اسلامی بہنوں کو مزید شارٹ
کورسز کرنے اور ہر ہفتے مدنی مذاکرہ دیکھنے کی ترغیب دلائی۔
لکی مروت کابینہ
کے رحمانی خیل ڈویژن میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد

دعوتِ اسلامی کے شعبہ فنانس ڈیپارٹمنٹ للبنات کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں لکی مروت کابینہ
کے رحمانی خیل ڈویژن میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اسلامی بہنوں نے
شرکت کی۔
شعبہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کی زون
نگران اسلامی بہن نے سنتوں بھرا بیان کیا
اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے دعوتِ
اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے، ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے اور دینی
کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
اس اجتماعِ پاک میں شعبہ ڈونیشن
بکس کی کابینہ ذمہ دار اسلامی بہن نے بھی شرکت کی
اور اسلامی بہنوں کو سالانہ عطیات مہم میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔

دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں عرب شریف حجازی زون کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس
میں زون نگران و کابینہ نگران اسلامی
بہنوں نے بھی شرکت کی ۔
عرب شریف کی ملک نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک
اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور تقرری کرنے کے حوالے سے مدنی
پھول سمجھائے نیز رمضان ڈونیشن کےلئے کوششوں
کو تیز کرنے کی ترغیب دلائی۔

عبادت
کی نیت سے صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک
کھانے پینے وغیرہ سے باز رہنا، روزہ
کہلاتا ہے، روزہ رکھنا فرض ہے اور بعض صورتوں میں واجب اور نفل بھی ہے، ماہِ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہے، اگر کسی نے نذرمانی ہو تو نذر پوری ہونے کے بعد روزہ رکھنا واجب ہے، فرض اور واجب روزوں کے علاوہ باقی ہر طرح کا روزہ نفلی ہوتا ہے، اگرچہ ان میں سے بعض روزے سنت اور مستحب بھی ہیں، جیسے عاشورا( یعنی دسویں محرم الحرام کا روزہ
اور اس کے ساتھ نویں کا بھی)، 01شوال المکرم اور
10،11،12،13ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہیں۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"ہر شے کا ایک د روازہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔"(
الجامع الصغیر، ص126، الحدیث 2415)
حقیقی روزہ دار کون؟
حضرت
سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور
رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو
شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم
کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ"
ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے
گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔( کشف
المحجوب، 353، 354ملتقظاً)
قرآن
مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم سورۃ بقرہ کی آیت نمبر183 میں ہے ، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! تم
پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے، کہیں
تمہیں پرہیزگاری ملے ۔"
روزہ
داروں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف بھوکے پیاسے
رہنے پر اکتفا کریں، بلکہ اعمال کا جائزہ
لیتے ہوئے حقیقی روزہ دار بنیں، افسوس صد
کڑوڑ افسوس! ہمارے اکثر روزہ دار روزہ کے
آداب کا بالکل ہی لحاظ نہیں کرتے، اسی طرح
فقہی اعتبار سے روزہ ہو تو جائے گا، لیکن
ایسا روزہ رکھنے سے روحانی کیف وسُرور حاصل نہ ہو سکے گا۔
امیرالمؤمنین،
حضرت مولائے کائنات، علی المرتضی، شیر ِخدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے
ہیں:""اگر اللہ عزوجل
کو اُمّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
پر عذاب کرنا مقصود ہوتا تو ان کو رمضان
اور سورہ قل ھو اللہ شریف ہر
گز عنایت نہ فرماتا۔"(نزهۃ المجالس، ج 1، ص216)
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا
دی اُن کی رَحمت نے صَدا یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں
روزہ
ایک ایسی اِنتہائی عُمدہ عبادت ہے کہ اسے "عبادت کا دروازہ" بھی کہا گیا
ہے اور یہ ایسی خالص عبادت ہے، جو دوسروں
کو بتائے بغیر کسی پر ظاہر بھی نہیں ہوتی، روزہ دار کو اس کی جزا بے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:" ہر نیکی
کا ثواب 10سے 700 گُنا تک ہے سوائے روزے
کے، بے شک یہ میرے لے ہے اور میں
ہی اس کی جزا دوں گا۔" (احیاء العلوم،
جلد1، ص700)
پیارے
اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً(یعنی ارادۃً) کھانے پینے اور جماع سے باز
رہے، لیکن روزے کے کُچھ باطنی آداب بھی ہیں، جن کا پایا جانا روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری
ہے تا کہ ہم صحیح معنوں میں روزے کی قبولیت کا درجہ حاصل کر سکیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے
وغیرہ سے روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے اور یہ روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور روزے کا
مقصد تب ہی حاصل ہو گا، جب تقوٰی اور پرہیزگاری
حاصل ہو گی۔
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:
حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی
حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو
کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا
اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضانِ رمضان، ص91)
بقیہ
اعضاء کا روزہ یعنی ہاتھ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کو گناہوں اورناپسندیدہ اُمور سے بچانا،
مثلاً ہاتھ کو ظلم اور قتلِ ناحق سے
بچانا، سود، چوری، رشوت وغیرہ گناہ سے
بچانا، پاؤں کو ناجائز راستوں کی طرف چلنے سے بچانا، شراب خانے جانا، فلمیں ڈرامے
دیکھنے جانے سے بچانا ہے۔
حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:
پیٹ کا روزہ اِفطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا، کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال
کھانے سے رُکا جائے، پھر حرام پر اِفطار
کر لیا جائے، ایسے روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے "جو محل بناتا ہے اور شہر کو
گِرا دیتا ہے" کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی
اور وجہ سے، نیز روزے کا مقصد کھانے میں
کمی کرنا ہے، زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے، "حرام" دین کو ہلاک کرنے والا زہر
جبکہ"حلال" دوا ہے، جس کا قلیل
نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے چنانچہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا:"کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے کے، سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"
شرح حدیث:اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں:
1۔
اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر اِفطار کرتا ہے۔
2۔
اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تو رُکتا ہے، لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے اِفطار کر
لیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے۔
3۔
اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔(احیاء العلوم، جلد
1، ص 715)
بعض
علماء نے فرمایا ہے کہ کتنے ہی روزہ دار بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے، جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے
باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو (گناہوں
کی) کُھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 718)
گناہوں میں ملوث رہنے والے روزے دار کی مثال:جو
شخص کھانے پینے اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں سے ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے
تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی
اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی۔
جو
کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں، لیکن ا عضاء
کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک
ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجلقبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل
کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد چھوڑ دیا اور جس
نے دونوں کو جمع کیا وہ اس طرح ہے جوہر
عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے
اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی
کمال ہے۔(احیاء العلوم، جلد 1، جلد719)
اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کے ظاہری
و باطنی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
لہذا
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم روزے میں کھانے پینے کے رُکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء کو بھی
گناہوں سے بچا کر روزے رکھیں، تاکہ روزے کا جو مقصد ہے اُسے صحیح طور پر ہم
حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

روزہ
شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت اپنے
آپ کو قصداً کھا نے پینے اور عمل ِزوجیت سے روکے رکھے۔
اِسلامی
روزے کی غرض و غایت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ روزے "خدا ترسی"
کی طاقت انسان کے اندر مستحکم کر دیتے ہیں، تقوی، پر ہیز گاری، نفس پر قابو اور خوفِ خدا جیسی خاصیتیں اُجاگر ہوتی ہیں اور یہی وہ
صفات ہیں جو روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں، یہی روزے کی اصل روح ہے، غور کریں کہ یہ گرمی کا موسم ہے، روزہ دار کو سخت پیاس لگی ہے، اِنسان تنہا ہے، کوئی ٹوکنے والا اور ہاتھ روکنے والا نہیں، کوری
صراحی میں صاف ستھرا نکھرا ہوا ٹھنڈا پانی
اس کے سامنے موجود ہے مگر پانی نہیں پیتا۔
روزے
دار کو سخت بھوک لگی ہوئی ہے، بھوک کی وجہ
سے جسم میں ضعف بھی محسوس کرتا ہے،
نفیس
خوش ذائقہ مرغن غذا میسر ہے، کوئی شخص اسے دیکھ بھی نہیں سکتا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی، مگر وہ کھانا نہیں کھاتا۔
پیاری
دل پسند بیوی گھر میں موجود ہے جہاں نہ خویش
ہے نہ بیگانہ، نہ اپنا ہے نہ پرایا، محبت کے جذبات اسے اُبھارتے ہیں، اُلفت نے دونوں کو ایک دوسرے کاشیدا بنا رکھا ہے، لیکن روزہ دار اس سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے، وجہ یہ ہے کہ خدا کے حکم کی عزت و عظمت اس کے دل میں اس قدر جاگزیں ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آسکتا اور
روزہ ہی اس عظمت و جلال الہی کے دل میں
قائم ہونے کے باعث ہوا ہے، یہ ظاہر ہے کہ جب ایک ایمان دار آدمی خدا کے حکم کی وجہ سے جائز، حلال و پاکیزہ خواہشوں کو چھوڑ دینے کی عادت کر
لیتا ہے تو وہ بالضرور خدا کے حکم کی وجہ سےحرام، ناجائز اور گندی عادتوں اور خواہشوں کو چھوڑ دے گا، یہی وہ صفات و اخلاقی برتری ہے ، جس کا روزے دار کے اندر پیدا کرنا
مقصود ہے اور یہی روزے کی قبولیت کا ضامن ہے۔
اس لئے غیبت،
فحش زبانی، بد نگاہی، بری باتوں اور تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے
کی سخت تا کیدیں احادیث میں آئی ہیں، چنانچہ
ارشاد ہے :"کہ جو روزہ دار جھوٹ کہنا، لغو بکنا اور فضول کاموں کو کرنا نہیں
چھوڑتا تو خدا کو کچھ پرواہ نہیں، اگر وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ۔"
مندرجہ
بالا اِرشاد میں بھی روزے کی قبولیت کا ذریعہ
بتایا گیا ہے ، روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے
کا نام نہیں، بلکہ ہر طرح کے گناہوں سے
بچنے اور جسمانی اورذہنی فضولیات سے بھی بچنے کا نام ہے۔
اللہ پاک عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کی اصل
روح کے مطابق فرض و نفلی روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور
بطفیلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
روزوں کو قبول فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم

رمضان میں پانچ حروف ہیں، ر، م، ض ، ا ، ن:
ر
سے مراد رحمت الٰہی، م سے مراد محبتِ الہی، ض سے مراد ضمان الٰہی، الف سے مراد اَمانِ الہی، ن سے مراد نورِ الہی اور رمضان میں پانچ عبادات
خصوصی ہوتی ہیں، روزہ، تراویح، تلاوتِ قرآن، اعتکاف، شب قدر میں عبادات، تو جو کوئی صدقِ دل سے یہ پانچ عبادات کرے، وہ اُن 5انعاموں کا مستحق ہے۔( تفسیرِ نعیمی، ج 2، ص 208)
روزہ کی تعریف:
اسلام
کا تیسرا رکن "روزہ" ہے، تمام
عبادات کی طرح روزہ بھی فرض کا بہترین اظہار ہے، روزہ تمام مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، روزہ ہمیں برائیوں سے بچاتا ہے اور گناہوں سے
بچاتا ہے ۔
وقت سحری کا ہوگیا جاگو:
وقت سحری کا ہوگیا جاگو نور ہر سمت
چھا گیا جاگو
اٹھو سحری کی کر لو تیاری روزہ رکھنا ہے آج کا جاگو
ماہِ رمضان کے فرض ہیں روزے ایک بھی تم نہ چھوڑنا جاگو
اٹھو اٹھو وضو بھی کرلو اور تم
تہجد کرو ادا جاگو
چسکیاں گرم چائے کی بھر لو کھا لو ہلکی سی کچھ غذا جاگو
ہو گی مقبول فضلِ مولی سے کھا کے سحری کرو دُعا جاگو
ماہِ رمضان کی برکتیں لوٹو لوٹ لو رحمتِ خدا جاگو
کھا کے سحری اُٹھو ادا کرلو سنتِ شاہ انبیاءجاگو
تم کو مولا مدینہ دکھلائے اور حج بھی کرو ادا جاگو
تم کو رمضان کے صدقے مولا دے اُلفت و عشقِ مصطفی جاگو
تم کو رمضان کا مدینے میں دے شرف ربِّ مصطفی جاگو
کیسی پیاری فضا ہے رمضان کی دیکھ لو کر کے
آنکھ وا جاگو
رحمتوں کی جھڑی
برستی ہے جلد اُٹھ کر کے لونہا جاگو
تم کو دیدارِ
مصطفی ہو جائے ہے یہ عطار
کی دعا جاگو
فضائلِ رمضان شریف:
شیطان
لاکھ سُستی دلائے مگر آپ ہمت کرکے فیضانِ رمضان کی برکتیں خود ہی دیکھ لیں، اسلامی بہنو!خدائے رحمان عزوجل کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیمُ الشان نعمت سے سرفراز فرمایا، ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر
گھڑی رحمت بھری ہے، رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب 70 گُنا یا اس سے بھی زیادہ ہے، فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق:"رمضان
کے روزہ دار کے لئے مچھلیاں اِفطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔"
عبادت کا دروازہ :
اللہ عزوجل
کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن
العیوب صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ عالیشان ہے:"روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔" اِس ماہ مبارک میں
قرآن پاک نازل فرمایا۔
حضرت
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، مکی مدنی سلطان کا فرمانِ رحمتِ نشان ہے:" جب ماہِ رمضان کی پہلی
رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، آخری رات تک بند نہیں ہوتے، ہر سجدے کے عوض اس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے، اس
کے لئے جنت میں سُرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے ، اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار
فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، اُس کے ہر سجدے کے بدلے اسے جنت میں ایک ایسا
درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔"
پانچ خصوصی کرم:
حضرت
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ ذیشان ہے:"میری
اُمت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں، جو مجھ سے پہلے کبھی نبی کو نہ ملیں۔
(1)
جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ
عزوجل ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے، جس کی طرف اللہ عزوجل رحمت فرمائے ، اسے کبھی بھی عذاب
نہ دے گا۔
(2)
شام کے وقت ان کی منہ کی بو( جوبھوک کی
وجہ سے ہوتی ہے) اللہ عزوجل کے نزدیک
مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔
(3)
فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
(4)
اللہ تعالی جنت کو حکم فرماتا ہے میرے
نیک بندوں کے لیے مزین ہو جا، عنقریب وہ
دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم راحت پائیں گے ۔
(5)
جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے، تو اللہ عزوجل سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، قوم میں ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا وو لیلۃ القدر ہے ؟ارشاد فرمایا: نہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اُنہیں اُجرت
دی جاتی ہے ۔
اس مہینے میں چار باتوں کی کثرت کرو:
ان
میں دو ایسی ہیں جن کے ذریعے تم اپنے ربّ عزوجل
کو راضی کرو گے، وہ یہ ہیں:
(1) لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا۔
(2)
اِستغفار کرنا۔
جبکہ وہ دو باتیں جن سے تمہیں غنا( یعنی بے نیازی) نہیں،
وہ یہ ہیں:
اللہ تعالی سے جنت طلب کرنا۔جہنم سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگنا۔
پیاری
اسلامی بہنو!
اِس
ماہ رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں
کا خو ب خو ب لُطف لوٹو، اِس ماہ مبارک میں
کلمہ شریف زیادہ تعداد میں پڑھ کر اور بار بار استغفار یعنی خوب توبہ کے ذریعے اللہ تعالی کو راضی کرنے کی سعی( کوشش) کریں
او اللہ تعالی سے جنت
میں داخلے اور جہنم سے پناہ کی بہت زیادہ
التجائیں کرنی ہیں۔
رمضان
میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گناہ ملتا ہے ۔
سوالاتِ قبر:
بعض
علماء فرماتے ہیں کہ جو رمضان میں مر جائے اس سے سوالاتِ قبر بھی نہیں ہوتے، قیامت
میں رمضان اور قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رمضان تو کہے گا: مولی عزوجل میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے
روکا اور قرآن عرض کرے گا :کہ یا ربّ عزوجل میں نے اسے رات میں تلاوت و ترا
ویح کے ذریعے سونے سے روکا۔
لاکھ رمضان کا ثواب:
حضرت
سیدنا عبد اللہ ابن
عباس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمانِ خوشگوار ہے:"جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور روزہ رکھا اور رات میں جتنا میسر
آیا قیام کیا، تو اللہ عزوجل اس کے لئے اور جگہ کے ایک لاکھ
رمضان کا ثواب لکھے گا اور ہر دن ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر رات ایک غلام
آزاد کرنے کا ثواب اور ہر روز جہاد میں گھوڑے پر سوار کر دینے کا ثواب اور ہر دن میں
نیکی اور ہر رات میں نیکی لکھے گا۔
( ابن ِماجہ، ج 3، ص523 ، حدیث3117)

روزہ
بہت ہی پیاری عبادت ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا:" روزہ میرے لئے
ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔"اللہ
عزوجل کا مزید ارشاد ہے:" بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو
صرف میری وجہ سے ترک کرتا ہے۔" روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے ربّ عزوجلسے ملاقات کے وقت، روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کے نزدیک مُشک سے زیادہ پاکیزہ
ہے، کتنی پیاری بشارت ہے اُس روزہ دار کے لئے
جس نے اس طرح روزہ رکھا، جس طرح روزہ
رکھنے کا حق ہے، یعنی اپنے تمام اعضاء کو
گناہوں سے بچا کر رکھا، جُھو ٹ، غیبت،
چغلی وغیرہ گناہوں سے روزے کی نو رانیت چلی جاتی ہے، اس لئے ہمیں ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں جس سے
ہمارے روزے قبول ہوں، بھوک کا روزہ رکھنے
کے ساتھ اعضاء کا روزہ بھی رکھئے اور اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچائیے، اگر ہم اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچائیں گے
تو شاید ہم ان پیاری پیاری روایات جس میں
روزہ داروں کے لئے بشارت ہے ہم اس کے مصداق نہ بن پائیں، اعضاء میں
آنکھ کاروزہ ، کان کا روزہ، زبان کا روزہ، ہاتھوں کا روزہ، پاؤں کا روزہ وغیرہ ان کی کچھ تفصیل عرض کی جارہی ہے :
آنکھ کا روزہ:
آنکھ
کا روزہ اس طرح رکھنا چاہیئے کہ آنکھ جب
بھی اٹھے تو صرف اور صرف جائز اُمور (کاموں) کی طرف اُٹھے، ہماری آنکھ حرام نہ دیکھے، ہماری آنکھ اُس طرف اُٹھے،
جس کے دیکھنے سے ہمیں ثواب ملے نہ کہ گناہ،
مثال کے طور پر علماء کرام کی زیارت کیجئے
کہ علماء کی زیارت بہت زیادہ اجر و ثواب
کا باعث ہے، قرآن مجید کی زیارت کیجئے کہ قرآن پاک کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اللہ عزوجل
کی عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فلمیں، ڈرامے نہ دیکھئے۔
کان کا روزہ:
کانوں
کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف جائز باتیں سنیں، مثلاً کانوں سے تلاوت سنیں، نعتیں، بیانات
اور اچھی اچھی باتیں سنیں، کان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس سے ہرگز ہرگز کسی کی چغلی نہ سنیں، غیبت نہ سُنیں، گانے باجے نہ سنیں، اگر کوئی چُھپ کر بات کر رہا ہو تو کان لگا کر
نہ سنیں کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:" کہ جو شخص کسی کی باتیں کان لگا کر سنے،
جو وہ اس بات کو پسند نہ کرتے ہوں ، تو قیامت
کے روز اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ
ڈالا جائے گا۔"
زبان کا روزہ:
زبان
کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف نیک باتوں کے لئے ہی زبان کو حرکت میں لائیں، تلاوت کریں، ذکر و دُرود کیجئے، نعت شریف پڑھئے اور اچھی اچھی باتیں کیجئے، جھوٹ غیبت، چغلی وغیرہ قبیح گناہوں سے زبان نا پاک نہ ہونے پائے۔
ہاتھوں کا روزہ:
ہاتھوں
کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں تو وہ صرف اور صرف نیک کاموں کے لیے اٹھیں، مثلاً قرآن مجید کو ہاتھ لگائیے کہ قرآن پاک کو چھونا
بھی عبادت ہے، نیک لوگوں سے مصافحہ کیجئے، ہو سکے تو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرئیے، ان ہاتھوں
کی نعمت سے کسی پر ظلماً ہاتھ نہ اٹھائیں،
نہ کسی کا مال چُرائیں۔
پاؤں کا روزہ:
پاؤں
کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تو صرف نیک کاموں کے لئے، مثلاً پاؤں چلیں تو سنتوں بھرے اجتماع کی طرف چلیں، کاش! مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرف چلیں ، ہرگز
ہرگز سینما گھر کی طرف نہ چلیں، بُرے دوستوں کی مجلس کی طرف نہ چلیں۔
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو اور پیاری پیاری اسلامی بہنو!واقعی حقیقی معنوں میں روزے کی
برکتیں تو اُسی وقت نصیب ہوں گی، جب ہم تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے، ا عضاء کا روزہ رکھنا قبولیت کے سب سے بڑے ذرائع ہیں، ہمیں
انہیں اختیار کرنا چاہئے تاکہ ہمیں قبولیت کی سند نصیب ہو ۔
اللہ پاک ہمیں احسن طریقے سے روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم

روزہ
ایک ایسی اِنتہائی عُمدہ عبادت ہے کہ اسے "عبادت کا دروازہ" بھی کہا گیا
ہے اور یہ ایسی خالص عبادت ہے، جو دوسروں
کو بتائے بغیر کسی پر ظاہر بھی نہیں ہوتی، روزہ دار کو اس کی جزابے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:" ہر نیکی
کا ثواب 10سے 700 گُنا تک ہے سوائے روزے
کے، بے شک یہ میرے لے ہے اور میں
ہی اس کی جزا دوں گا۔" (احیاء العلوم،
جلد1، ص700)
پیارے
اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً(یعنی ارادۃً) کھانے پینے اور جماع سے باز
رہے، لیکن روزے کے کُچھ باطنی آداب بھی ہیں، جن کا پایا جانا روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری
ہے تا کہ ہم صحیح معنوں میں روزے کی قبولیت کا درجہ حاصل کر سکیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے
وغیرہ سے روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے اور یہ روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور روزے کا
مقصد تب ہی حاصل ہو گا، جب تقوٰی اور پرہیزگاری
حاصل ہو گی۔
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:
حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی
حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو
کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا
اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضانِ رمضان، ص91)
بقیہ
اعضاء کا روزہ یعنی ہاتھ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کو گناہوں اورناپسندیدہ اُمور سے بچانا،
مثلاً ہاتھ کو ظلم اور قتلِ ناحق سے
بچانا، سود، چوری، رشوت وغیرہ گناہ سے
بچانا، پاؤں کو ناجائز راستوں کی طرف چلنے سے بچانا، شراب خانے جانا، فلمیں ڈرامے
دیکھنے جانے سے بچانا ہے۔
حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:
پیٹ کا روزہ اِفطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا، کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال
کھانے سے رُکا جائے، پھر حرام پر اِفطار
کر لیا جائے، ایسے روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے "جو محل بناتا ہے اور شہر کو
گِرا دیتا ہے" کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی
اور وجہ سے، نیز روزے کا مقصد کھانے میں
کمی کرنا ہے، زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے، "حرام" دین کو ہلاک کرنے والا زہر
جبکہ"حلال" دوا ہے، جس کا قلیل
نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے چنانچہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا:"کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے کے، سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"
شرح حدیث:اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں:
1۔
اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر اِفطار کرتا ہے۔
2۔
اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تو رُکتا ہے، لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے اِفطار کر
لیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے۔
3۔
اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔ (احیاء العلوم، جلد
1، ص 715)
بعض
علماء نے فرمایا ہے کہ کتنے ہی روزہ دار بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے، جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے
باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو (گناہوں
کی) کُھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 718)
گناہوں میں ملوث رہنے والے روزے دار کی مثال:جو
شخص کھانے پینے اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں سے ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے
تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی
اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی۔
جو
کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں، لیکن ا عضاء
کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک
ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجلقبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل
کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد چھوڑ دیا اور جس
نے دونوں کو جمع کیا وہ اس طرح ہے جوہر
عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے
اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی
کمال ہے۔(احیاء العلوم، جلد 1، جلد719)
اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کے ظاہری
و باطنی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
لہذا
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم روزے میں کھانے پینے کے رُکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء کو بھی
گناہوں سے بچا کر روزے رکھیں، تاکہ روزے کا جو مقصد ہے اُسے صحیح طور پر ہم
حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پیاری
میٹھی اسلامی بہنو!ہم روزہ تو رکھتی ہیں مگر اب یہ کیسے معلوم ہو کہ ہمارا روزہ ربّ
تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوا بھی یا کہ نہیں ؟آیئے درج ذیل بیان کئے گئے مدنی
پھولوں سے روزے کے قبول ہونے کے ذرائع سنتی ہیں:
داتا صاحب کا اِرشاد:حضرت سیّدنا
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور
رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو
بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سُننے،
زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے
اور جسم کو حُکمِ الٰہی عزوجل
کی مُخالفت سے روکے رکھنا "روزہ"
ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے
گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(کشف
الحجوب، ص353، 354)
آپ
رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فرمان مبارک سے ظاہر ہوتا ہے کہ" جب وہ حقیقتاً
روزہ دار ہو گا" تو ان شاء
اللہ عزوجل اس کا روزہ بھی مقبول ہو گا۔
آپ
رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فرمان پاک میں آنکھ، کان اور زبان کے روزے کے حوالے سے بیان کیا گیا،
آئیے آنکھ، کان اور زبان کے روزے کی مزید اَہم تفصیل سنتی ہیں:
٭آنکھ
کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی آنکھ اُٹھے تو صرف اور صرف جائز اُمور ہی کی طرف اُٹھے، آنکھ سے قرآن پاک دیکھئے، مسجد دیکھئے، مَزاراتِ اولیاء کی زِیارت کیجئے، عُلمائے کِرام، مشائخِ عظام اور اللہ پاک کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے،
تاجدارِ اہلِ سُنَّت حضور مفتی اعظم ہند سیّدنا
محمد مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:
کچھ ایسا کر دے میرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
٭کان
کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف جائز باتیں سُنیں، مثلاً کانوں سے تلاوت و نعت سنئے، سُنتوں بھرے بیانات سُنیں، اچھی بات سُنیں، ہر گز، ہرگز، ہرگز گانے بجانے اور موسیقی نہ سنئے، جُھوٹے چُٹکلے نہ سنئے، کسی کی غیبت نہ سنئے، کسی کی چُغلی نہ سنئے، جب دو آدمی چُھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ
سنئے، پیارے میٹھے آقا صلی اللہ علیہ و سلم
کا فرمان ہے:"جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سُنے، حالانکہ وہ اس بات کو نا پسند کرتے ہوں یا اُس
بات کو چھپانا چاہتے ہوں تو قیامت کے دِن اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا
جائے گا۔"
(بخاری،ج4، ص423، حدیث 7042)
سُنوں نہ فُحش کلامی، نہ غیبت و چغلی
تیری پسند کی باتیں فقط سنُا یا ربّ
٭
زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان صرف اور صرف نیک و جائز باتوں کے لئے ہی حرکت کرے، مثلاً زبان سے تلاوتِ قرآن کیجئے، نعت شریف پڑھئے،
درس دیجئے، سنتوں بھرا بیان سنئے، اچھی اور پیاری دینداری والی باتیں کیجئے، فضول بَک بَک سے بچئے، خبردار !گالی گلوچ، جُھوٹ، غیبت، چُغلی
وغیرہ سے زَبان ناپاک نہ ہونے پائے۔
مری زبان پہ قفلِ مدینہ لگ جائے
فضول گوئی سے بچتا رہوں سدا یا ربّ
سابقہ گناہوں کا کفّارہ :"جس
نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حُدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیئے، اُس سے بچا تو (جو کُچھ گُناہ) پہلے کر چکا ہے، اُس کا کفّارہ ہو گیا۔" (الحسان بترتیب صحیح
ابن حبان)
"جس
نے ایک دن کا روزہ اللہ عزوجل
کی رِضا حاصل کرنے کے لئے رکھا، اللہ پاک اسے جہنم سے اِتنا دور کر دے
گا، جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے، یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مَر جائے۔"(ابو یعلی،
ج1، ص383، حدیث 917)
مذکور
بالا باتوں سے معلوم ہوا کہ اگر ہم اِن بیان
کردہ فرامین کے مطابق روزہ رکھیں گے تو اللہ
پاک کی رحمت سے اُمید ہے کہ روزے کی قبولیّت کاسامان ہو جائے گا۔ان شاء اللہ
(ماخوذ
فیضان رمضان)