قرآن
کریم ربّ تعالی کی وہ آخری کتاب ہے، جس کو اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل
فرمایا اور سب سے بڑھ کر اس کی حفاظت کا ذمّہ اپنے سر پر لیا، جیسا کہ ربّ تعالی
کا فرمان ہے:
ترجمہ کنز الایمان:"ہم نے اس ذکر کو
نازل کیا، ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔"
اس
کی حفاظت پر دلیل یہ ہے کہ آج قرآن کریم
لاکھوں، کڑوڑوں حفّاظ کے دلوں میں محفوظ
ہے، جس طرح قرآن کریم پڑھنے کے، یاد کرنے
کے بہت فضائل ہیں، اِسی طرح اس کو پڑھانے کے بھی بے شمار فضائل ہیں، جن میں چند
ایک آج ہم ذکر کریں گے۔۔
ربّ
کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے:"خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ
وَ عَلَّمَہٗ" تم میں سے بہتر وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"
(بخاری،
کتاب فضائل القرآن، باب خَیْرُکُمْ مَنْ ۔۔
3/410، حدیث5028)
اس
حدیث پاک کے تحت حضرت علامہ مُلّا علی قاری رحمۃ
اللہ علیہفرماتے ہیں:"وہ مؤمنین میں سب سے فضیلت والا
ہے۔"مزید آگے چل کر فرماتے ہیں"طیبی نے کہا: لوگوں میں سے تعلیم و تعلم
کے اعتبار سے بہتر قرآن کی تعلیم دینا اور اس کو سیکھنا ہے۔"
(مرقاۃ المناجیح، شرح مشکاۃ المصابیح، فضائل القرآن، ج4، ص
612، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
اسی
حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"قرآن سیکھنے سکھانے میں بہت وُسعت ہے، بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا، قاریوں کا
تجوید سیکھنا سکھانا، علماء کا قرآنی احکام بذریعہ حدیث وفقہ سیکھنا
سکھانا، صوفیائے کرام کا اَسرار و رموز بسلسلہ طریقت سیکھنا سکھانا سب قرآن ہی کی تعلیم
ہے، صرف الفاظِ قرآن کی تعلیم مُراد نہیں۔(مراۃ المناجیح، شرح مشکاۃ
المصابیح، ج3، ص 323)
نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ نصیحت بنیاد ہے:" جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت یا دین کی کوئی
ایک سنّت سکھائی، قیامت کے دن اللہ پاک اس کے لیے ایسا ثواب تیار
فرمائے گا کہ اس سے بہتر ثواب کسی کے لئے بھی نہیں ہوگا۔
(جمع الجو امع ، قسم الاقوال، ج 7، ص209، حدیث 22454)
حضرت سیّدنا نویس ابن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکوفرماتے
سُنا کہ" قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، یوں بلائے جائیں گے کہ سورۃ بقرہ و آلِ عمران آگے
آگے ہوں گے، گویا سفید بادل یا کالے
شامیانے جن کے درمیان کُچھ فاصلہ ہو گا گویا وہ صف بستہ پرندوں کی دو ٹولیاں اپنے
عاملوں کی طرف سے جھگڑتی ہوں گی۔"
اِس
حدیث کے آخری حصّے" دو ٹولیاں اپنے عاملوں کی طرف سے جھگڑتی ہوں گی"، کی
وضاحت کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یعنی اللہ سے جھگڑ جھگڑ کر اپنے قاری، عاملین و عالمین کو بخشوائیں گی۔"(مرآۃ المناجیح، شرح مشکاۃ
المصابیح، ج3، ص243)
اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے،
سیکھنے اور سیکھ کر دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین