محمد مبشر عبدالرزاق (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ
سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ عزوجل
اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا اپنے مقدس انبیاء علیہم السلام
کو مبعوث فرماتا رہا اور سب سے آخر میں اس نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم
کو مبعوث فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکمت و دانائی عقل و فراست قول و
فعل علم و عمل سے مختلف مقامات پر اپنی امت کی تعلیم و تربیت فرمائی جس پر عمل پیرا
ہو کر انسان اپنی زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈال کر دنیا و آخرت میں کامیابی و
کامرانی حاصل کر سکتا ہے ان میں سے ایک پہلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
اشارے سے اصلاح و تربیت فرمانا بھی ہے ان میں سے چند فرامین آپ بھی پڑھیے اور علم
و عمل کی نیت کیجیے
(1)
ایک عمارت کی مثل: عَنْ اَبِیۡ مُوسٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ النَّبِىِّ
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم قَالَ:الْمُؤْمِنُ
لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ
اَصَابِعِهِ ترجمہ: حضرت سیدنا ابو
موسٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ایک مؤمن دوسرے مؤمن
کے لیےعمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصّہ دوسرے حصّے کو تقویت دیتاہے پھر آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےاپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے
ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرکے اشارہ فرمایا ( بخاری شریف کتاب الادب ،باب تعاون
المومنین بعضھم بعضا 106/4الحدیث6026)
اُس حدیث پاک
میں مؤمن کو دوسرے مؤمن کی مدد ونصرت پراُبھاراگیاہےاور ایک دوسرے کی مدد کرنا ایک
پختہ اور ضروری امر ہے جس سے مسلمان تقویت پا سکتے ہیں اور دنیا و آخرت کا نظام
احسن انداز میں چل سکتا ہے
(2)
مسلمان کے حقوق: عَنْ
اَبِيْ هُرَيْرَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُوْنُهُ وَلَا
يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ كُلُّ الْمُسْلِـمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ
وَمَالُهُ وَدَمُهُ التَّقْوَى هَا هُنَا بِحَسْبِ امْرِئٍ مِّنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَاَخَاهُ
الْمُسْلِمَ ترجمہ :حضرت سیدنا ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورنبی رحمت ، شفیعِ اُمت ﷺ نے
ارشاد فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس سے خیانت کرے ، نہ اُس سے جھوٹ
بولے اور نہ اُسےرُسوا کرے ہر مسلمان کی عزت ، مال اور جان دوسرے مسلمان پر حرام
ہے۔ تقویٰ یہاں ہے ۔ (اوریہ فرماتے ہوئےدست اقدس سے اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا۔
پھر فرمایا : )کسی بھی انسان کے بُرا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے
مسلمان بھائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے ۔ ( ترمذی کتاب البرو الصلہ باب ما جاء فی
شفقت 3 /372حدیث 1032 )
اس حدیث پاک میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے چند حقوق بیان فرمائے مثلاً مسلمان کی عزت و
حرمت کا خیال رکھنا اس سے خیانت نہ کرناوغیرہ
(3)
یتیم کی کفالت: وَعَنْ
سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَنَا وَكَافلُ اليَتِيْمِ في الجَنَّةِ هٰكَذا وَاَشَارَ
بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے ، حُسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبر ﷺ نے ارشاد فرمایا
: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی سے
اشارہ کیااور اُن کے درمیان کچھ کشادگی فرمائی ۔ (بخاری شریف، کتاب الطلاق باب
اللعان، 3 /497 حدیث : 8304 )
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! یتیم کی کفالت کرنا ایک عظیم کام ہے اور اِس کی فضیلت اَحادیث
مبارکہ میں بیان فرمائی گئی ہے، یتیم کی کفالت کرنے والے کو قیامت کے دن حضورسَیِدُ
الانبیاء، احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک
رَفاقت نصیب ہو گی۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی احادیث کریمہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے
اشارے سے اپنی امت کی اصلاح فرمائی جس کا مقصد انسان کی دنیاوی و اخروی کا کامیابی
کی طرف رہنمائی کرنا اور اس کو راہ ہدایت پر گامزن کرنا تھا اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کا مطالعہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے
۔ آمین
محمد مدثر رضوی عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ
سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ پاک نے
اس کائنات رنگا رنگ کو تخلیق بخشی پھر حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہادی برحق اور معلم امت بنا کر مبعوث فرمایا
تاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ان کی اصلاح و تربیت فرما کر ان کو راہ ہدایت پر گامزن فرمائیں اس میں سے آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز
مبارک یہ تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اشارے کے ذریعے اصلاح فرماتے تھے ، چنانچہ آ پ بھی اس کے
متعلق چند احادیث مبارکہ پڑھئے اور اپنے قلوب و اذھان کو معطر کیجیے:
(1)
ایک مومن دوسرے مؤمن کیلئے عمارت : عَنْ اَبِیۡ مُوسٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ
النَّبِىِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم قَالَ:الْمُؤْمِنُ
لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ
اَصَابِعِهِ
حضرت سیدنا
ابو موسٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیےعمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصّہ دوسرے حصّے کو
تقویت دیتاہے ۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نےاپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں
داخل کرکے اشارہ فرمایا۔ (فیضان ریاض الصالحین ،حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان ،جلد3
، صفحہ نمبر 229 ،حدیث نمبر:222 مکتبۃ المدینہ )
(2)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہیں : عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ
رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْلِمُ اَخُو
الْمُسْلِمِ لَا يَخُوْنُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ كُلُّ الْمُسْلِـمِ
عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ التَّقْوَى هَا هُنَا بِحَسْبِ
امْرِئٍ مِّنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَاَخَاهُ الْمُسْلِمَ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے کہ حضورنبی رحمت ، شفیعِ اُمت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’مسلمان
مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس سے خیانت کرے ، نہ اُس سے جھوٹ بولے اور نہ اُسےرُسوا
کرے۔ ہر مسلمان کی عزت ، مال اور جان دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ تقویٰ یہاں ہے ۔
(اوریہ فرماتے ہوئےدست اقدس سے اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر فرمایا : )کسی بھی
انسان کے بُرا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی
نگاہ سے دیکھے ۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان ،جلد3 ، صفحہ
272 ،حدیث نمبر:234 مطبوعہ مکتبۃالمدینہ )
(3)
ایک دوسرے سے حسد نہ کرو : وعن ابوہریرۃ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا
تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ
وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللَّهِ اِخْوَانًا اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا
يَظْلِمُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا ، وَيُشِيْرُا
ِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ
اَخَاهُ ،
الْمُسْلِمَ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ
وَعِرْضُهُ ’اَلنَّجَشُ‘‘ اَنْ يَزِيْدَ فِيْ ثَمَنِ سَلْعَةٍ يُنَادٰي عَلَيْهَا
فِيْ السُّوْقِ وَنَحْوِهٖ وَلَا رَغْبَةَ لَهُ فِيْ شَرَائِهَا بَلْ يَقْصِدُاَنْ
يَّغُرَّ غَيْرَهُ وَهٰذَا حَرَامٌ وَالتَّدَابُرُاَنْ يُعْرِضَ عَنِ الْاِنْسَانِ
وَيَهْجُرَهُ وَيَجْعَلَهُ كَالشَّيْءِ الَّذِيْ وَرَاءَ الظَّهْرِ وَالدُّبُرِ
حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ ، قرارِ قلب
و سینہ ﷺ نے ارشادفرمایا : ’’ایک دوسرےسے حسد نہ کرو ، تناجش نہ کرو ، ایک دوسرے
سے بغض نہ رکھو اورقطع تعلقی نہ کرو۔ کسی کی بیع پر بیع نہ کرو ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، وہ اس پر ظلم نہ کرے ،
اُسے حقیر نہ جانے ، اور نہ ہی اُسے بے یارو مددگارچھوڑ ے۔ ‘‘ پھر آپ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین مرتبہ فرمایا :
’’تقویٰ یہاں ہے۔ ‘‘ پھر فرمایا : ’’کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ
اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ، ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی عزت ، اس کا
مال اور اس کا خون حرام ہے ۔ ‘‘
مشکل الفاظ کے
معانی : ’’النَّجَشْ‘‘ کسی سامان کی فروخت کے لئے بازار میں بولی لگائی جا رہی ہو
تو کوئی شخص دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے قیمت میں اضافہ کردےحالانکہ وہ خریدنا نہیں
چاہتا تو یہ نجش ہے اور نجش حرام ہے۔ ’’تَدَابُر‘‘یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے بے رخی
کرے اور اسے اس طرح چھوڑدے جیسے کوئی چیز پیٹھ کے پیچھے ہوتی ہے۔(فیضان ریاض
الصالحین حرمت مسلمین کی تعظیم کا بیان جلد:3 , صفحہ نمبر 280، حدیث نمبر:235، مطبوعہ
مکتبۃالمدینہ )
اللہ پاک ہمیں
حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عاصم اقبال عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور )

حضور نبیِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ معلم
کائنات بھی ہیں۔ حضور علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی مختلف مواقع پرمختلف انداز
میں اصلاح و تربیت کی ہے۔ نبیِ کریم علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی تربیت کبھی
اپنے قول سے کبھی فعل سے اور کبھی اشاروں سے تربیت فرمائی ہے۔ ذیل میں ایسی چند
احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں اشاروں سے تربیت فرمائی ہے:
(1)سواری
تیز چلانے میں کوئی خوبی نہیں ہے: حضرت
ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ آپ عرفہ کے دن نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ واپس ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اپنے پیچھے اونٹوں کو سخت ڈانٹ ڈپٹ اور مار(کی آواز ) سنی ۔فَاَشَارَ بِسَوْطِهٖ
اِلَيْهِمْ وَقَالَ:يَااَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَاِنَّ
الْبِرَّ لَيْسَ بِالاِيضَاعِ یعنی
تو انہیں اپنے کوڑے سے اشارہ فرمایا اور حکم دیا کہ اے لوگو اطمینان اختیار کرو
تیز دوڑنے میں خوبی نہیں ۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/486، حدیث:2605 )
اس حدیث کا
مقصود یہ ہے کہ ہمیں سواری تیز چلانے سے
پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس میں جہاں اپنی جان کی حفاظت ہوتی ہے وہیں دوسرے لوگوں کی
بھی جان محفوظ رہتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ اس تیز رفتاری کی وجہ سے خود کو اور دوسروں
کو موت کی آغوش میں لے جاتے ہیں ۔
(2)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے باریک کپڑوں والی صحابیہ سے منہ موڑ لیا :حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ جناب
اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہما رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں، حضور علیہ السّلام نے ان سے منہ پھیرلیا اور
فرمایا:يَا
اَسْمَاءُ، اِنَّ الْمَرْاَةَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ يُرَى
مِنْهَا اِلَّا هَذَا وَهَذَا وَاَشَارَ اِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ یعنی اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں
کہ اس کا کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اِس کے اور اُس کے۔نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ابوداؤد،4/75، حدیث:4104
)
اس حدیث سے
معلوم ہوا کہ اُس زمانہ میں بھی باریک کپڑے ایجاد ہوچکے تھے، اب تو بہت ہی بُرا
حال ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/121) اس حدیث سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو ماننے والیوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور ہرگز ہرگز ایسے کپڑے استعمال نہیں
کرنے چاہیے جن سے جسم کا کوئی بھی عضو نظر آئے۔دور ِ حاضر میں فتنے کی وجہ سے چہرے
اور ہاتھوں کو بھی چھپانا چاہیے ۔
(3)
شیطان کی طرح بال بکھرے ہوئے نہ رکھو : حضرت عطاء ابن یسار سےروایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں تھے تو ایک شخص سر اور داڑھی بکھیرے آیا ۔فَاشَارَ إِلَيْهِ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ كَاَنَّهُ يَاْمُرُهُ
بِاِصْلَاحِ شَعْرِهِ وَلِحْيَتِهِ فَفَعَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ اَنْ
يَاْتِيَ اَحَدُكُمْ وَهُوَ ثَائِرُ الرَّاْسِ كَاَنَّهُ شَيْطَان تو آپ علیہ السّلام نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے
اشارہ کیا، گویا آپ اسے بال اور داڑھی کی درستی کا حکم دے رہے تھے، چنانچہ (وہ گیا
اور ) اس نے (بال اور داڑھی کو درست)کرلیا ۔ پھر واپس آیاتو رسولِ معظّم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی
شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے ۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/137، حدیث:4486 )
ہمیں شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ایسی حالت بنا كر رکھنی چاہیے جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ
غیر مسلم بھی متأثر ہوں نہ کہ ایسی کہ
جس سے دوسروں کو ہم سے خوف آئے ۔
(4)
دوسروں کو حقیر مت سمجھو : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سےروایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے ذلیل وحقیر جانے۔اَلتَّقْوَى هَاهُنَاوَيُشِيرُ
اِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ
اَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ،
وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ تقویٰ یہاں
ہے اور اپنے سینہ کی طرف تین بار اشارہ فرمایا، مزید فرمایا کہ انسان کے لیے یہ
شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان
کاخون ،مال اور اس کی آبرو حرام ہے ۔
(دیکھیے:مسلم، ص1064، حدیث: 6541 )
یعنی مسلمان
کو نہ تو دل میں حقیر جانو نہ اسے حقارت کے الفاظ سے پکارو یا برے لقب سے یاد کرو
نہ اس کا مذاق اڑاؤ، آج کل بعض لوگ نسب ، پیشہ اور غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے
مسلمان بھائی کو حقیر سمجھتے ہیں حتی کہ صوبجاتی تعصب ہم میں بہت ہو گیا ہے کہ وہ
پنجابی ہے ، وہ بنگالی ہے ، وہ سندھی، اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیے ہیں، جس طرح
شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہو جاتا ہے، اسی
طرح جب حضور کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے حبشی ہو یا رومی۔اسلام میں
عزت تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے اور تقویٰ کا اصلی ٹھکانہ دل ہے۔تمہیں کیا خبر کہ جس
مسکین مسلمان کو تم حقیر سمجھتے ہو اس کا دل تقویٰ کی شمع سے روشن ہو اور وہ
الله کا پیارا ہو تم سے اچھا ہو۔(دیکھیے:مراٰةالمناجیح، 6/552 )
اللہ پاک ہم
سب کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
محمد فہیم عطاری (دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان
بغداد کراچی ، پاکستان)

الحمدللہ قرآن
کریم اللہ پاک کی لاریب کتاب ہے جس میں اللہ پاک نے زندگی کے ہر پہلو میں ہماری
رہنمائی فرمائی ہے ہمیں دنیا میں پیدا فرمایا اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سامان
مہیا فرمائے وہیں دنیا کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے کہ کہیں ہم دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر آخرت کو نہ بھول
جائیں۔
آئیے دنیا کی حقیقت کے بارے خدا رحمن کے فرمان
ملاحظہ فرمائیں۔
دنیا
کی زندگی کی مثال: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنزالعرفان : اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی
کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو
جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی
گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا
ہے۔(سورہ کہف پارہ 15 آیت 45)
اس آیت میں
فرمایا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو
اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے
زمین کی ہریالی اور سر سبزی و شادابی جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے
نکلی لیکن کچھ عرصے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل
ہو جاتا ہے جسے ہوائیں ادھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت
باقی نہیں رہتی یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا
عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللہ پاک کی قدرت سے ہے(تفسیر تعلیم
القرآن جلد1 صفحہ 779)
دنیوی
زندگی دھوکہ کا سامان:
اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ
تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ
الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ
حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ
دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی
چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں
کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا
ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور
اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
ا س آیت میں اللہ پاک نے دنیا کی حقیقت بیان
فرمائی اور اس آیت میں اللہ پاک نے دنیا کے بارے میں پانچ چیزیں اور ایک مثال بیان
فرمائی ہے۔وہ پانچ چیزیں یہ ہیں:
(1، 2)دنیا کی
زندگی توصرف کھیل کود ہے جو کہ بچوں کا کام ہے اور صرف اس کے حصول میں محنت و مشقت
کرتے رہنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
(3)دنیا کی
زندگی زینت و آرائش کا نام ہے جو کہ عورتوں کا شیوہ ہے۔
(4، 5)دنیا کی
زندگی آپس میں فخر و غرور کرنے اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنے
کا نام ہے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے دنیوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی
زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کو اچھا لگتا ہے پھر وہ
سبزہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس جاتے رہنے کے بعد اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ
پامال کیا ہوا بے کار ہو جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کی زندگی کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ
دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(تفسیر تعلیم القرآن جلد2 صفحہ 694)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور آخرت کی فکر کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
سرجانی ٹاؤن، 4k چورنگی کی جامع مسجد ظہیر فاطمہ میں ”کفن دفن سیشن“ کا انعقاد

سرجانی ٹاؤن،
4k چورنگی کے عاشقانِ رسول کو کفن دفن کے مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے
10 اگست 2025ء کو یوسی 4 کی جامع مسجد ظہیر فاطمہ میں دعوتِ اسلامی کے تحت ”کفن دفن سیشن“ کا انعقاد کیا گیا جس میں
نمازی حضرات، یوسی نگران سیّد عامر عطاری اور شعبہ کفن دفن کےٹاؤن ذمہ دار تنویر
عطاری کی شرکت رہی۔
سیشن کی ابتدا میں ڈسٹرکٹ اورنگی کےشعبہ کفن
دفن ذمہ دار مولانا فہیم الدین عطاری مدنی
نے غسلِ میت کی فضیلت و اہمیت بتاتے ہوئے حاضرین کو غسلِ میت دینے اور کفن پہنانے/
کاٹنے کا طریقہ سکھایا۔
دورانِ سیشن ذمہ دار نے دعوتِ اسلامی کے مسلم فیونرل
ایپلیکیشن کے بارے میں بتایا اور شرکا کو 12 دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے
کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔ (رپورٹ: عزیر عطاری ڈسٹرکٹ ذمہ
دار ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

بےشک دنیا کی
زندگی فانی (مٹ جانے والی) ہے ۔ دنیا کی تمام چیزیں دنیا میں ہی رہ جانی ہیں اور
صرف اعمال نے ہی آگے جانا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی کی کئی مثالیں
بیان کی گئی ہے تاکہ انسان دنیا کی زندگی کی رونقوں کے سبب اللہ عزوجل اور اس کی
عبادت سے غافل نہ ہوجائے کیونکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی
اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں قرآن میں دی گئی مثالیں
مندرجہ ذیل ہیں :
دنیا کی زندگی کی مثال ایسے ہے جیسے پانی: اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی
کے بارے میں فرماتا ہے :
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ
مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا
تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی
کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا
سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ
ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (سورہ کہف، پارہ18 آیت 45)
اس آیت میں دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے
اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے
حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں
کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ
دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے
نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ
شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر
جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اِدھر سے اُدھر اڑائے
پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی
مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا
نام و نشان باقی نہیں رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و
شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح
البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳،
ملتقطاً)
دنیا
کی زندگی جیسے کھیل کود: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ
تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ
الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ
حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ
دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی
چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں
کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا
ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور
اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ایک حدیث مذکور ہے جو مندرجہ ذیل ہے : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون
ہے البتہ دنیا میں سے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ملعون نہیں ۔( کنز العمال، کتاب
الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷،
الجزء الثالث، الحدیث: ۶۰۸۰)
دنیا
کی زندگی کی کہاوت : اِنَّمَا
مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ
بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ
اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ
قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا
حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ
لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴) ترجمہ کنزالعرفان:
دنیا
کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے
والی چیزیں گھنی (زیادہ )ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ
جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے
بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی
گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔
(سورہ یونس پارہ ١١ آیت ٢٤)
اس آیت میں
بہت بہترین طریقے سے دل میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ دنیوی زندگانی امیدوں کا سبز
باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل
ہونے کا اطمینان ہوتا ہے اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو
موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت قتادہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر
عذابِ الٰہی آتا ہے اور اس کا تمام سازو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں
غارت ہوجاتا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۰، ملخصاً)
ہمیں ان آیات
سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی فانی ہے اور ابدی زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے۔ ہمیں
ایسے اعمال کرنے چاہیے جس سے ہماری آخرت بہتر ہو ۔
اللہ تعالی ہمیں آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عرفان عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

دعوت اسلامی
کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب "اصلاح اعمال" جلد اول صفحہ نمبر 128 تا 129
پر ہے: دنیا کا لغوی معنی ہے: "قریب" اور دنیا کو دنیا اسی لیے کہتے ہیں
کہ یہ آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے یااس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات ولذات
کے سبب دل کے زیادہ قریب ہے۔
علامہ بدرالدین
عینی بخاری شریف کی شرح "عمدۃالقاری" جلد 1 صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں :
دار آخرت سے پہلے تمام مخلوق دنیا ہے۔
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی صرف آسائشوں سے بھری ہوئی ہے
اور دنیا کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے اللّٰہ پاک نے جہاں قرآن مجید میں
بےشمار چیزوں کی مذمّت بیان فرمائی ہے وہیں دنیا کی زندگی کی مذمّت بیان فرما کر مسلمانوں
کو خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کی اس دھوکہ اور فریب والی زندگی کے قریب بھی نہ جائیں
جو ان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔اب ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کی روشنی سے دنیا
کی مذمّت بیان کرتے ہیں۔ غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔
(1)
سوکھی ہوئی گھاس: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز العرفان:اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی
مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا
سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا
ہے۔(پ15 ،الکھف، آیت نمبر 45)
(2)
آسمان سے اترا ہوا پانی: اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا
كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا
یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا
وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ
اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ
بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)
ترجمہ کنز العرفان:دنیا کی زندگی کی مثال تو اس
پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی
ہو کر نکلیں جن سے انسان اور جانور
کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی خوبصورتی پکڑلی اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس
کے مالک سمجھے کہ (اب) وہ اس فصل پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت ہمارا حکم آیا
تو ہم نے اسے ایسی کٹی ہوئی کھیتی کردیا گویا وہ کل وہاں پر موجود ہی نہ تھی۔ ہم
غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔(پ 11 ، یونس ،آیت
نمبر :24)
(3)
آرائش والی زندگی: اِعْلَمُوْۤا
اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ
وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ
الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ
حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ
دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور
اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش
جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا
لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا
(بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی
رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
مذکورہ تمام آیات
سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی کھیل کود٬آسائشوں٬دھوکے بازیوں اور عارضی و فانی
ہے۔ اس کی محبت آخرت کی بربادی کا سبب ہے۔ اس کے فریب میں آنے والا گناہوں کے دلدل
میں پھنس جاتا ہے۔
اللّٰہ پاک
اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے ہمیں دنیا کے فریب سے بچنے اور اپنی
آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
توصیف رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ
ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

دنیا کا لغوی
معنی ہے قریب اور دنیا کو دنیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان سے زیادہ
قریب ہے یا اس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہشات و لذات کے سبب دل سے زیادہ قریب ہے ۔(
اصلاح اعمال جلد 1، ص 128تا129)
دنیا ایک عارضی ، فانی اور آزمائش کا مقام ہے جس
میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان کی تیاری کے لیے پیدا
فرمایا ہے ۔ دنیا کی خواہشات اور محنت و مشقت سے عزت و دولت کمانا جلد ختم ہونے والی چیزیں ہیں
دنیا کی آخرت کے معاملے میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ دنیا کی زندگی مختصر اور آخرت
کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہیں اس لئے اصل
زندگی آخرت کی ہے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر قرار دیا گیا ہے
تاکہ مسلمان دنیا کی طرف راغب نہ ہو ۔
آئیے اب ہم دنیا
کی حقیقت کے متعلق چند آیات مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :
(1)
سوکھی ہوئی گھاس : وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان
کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں
اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ (پ15، الکہف: 45)
(2)
آسمان سے اترا ہوا پانی : اِنَّمَا
مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ
بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ
اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ
قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا
حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ
لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴) ترجمۂ کنزالایمان: دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے
وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ
)ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور
چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی
اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن
میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل
بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔ (پ11، یونس:24)
(3)
دھوکے کا سامان ہے : اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ
وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ
غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا
ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ
مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ
الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ
کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو
غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی
ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ
کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ
پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے
بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27،
الحدید: 20)
مذکورہ بالا
تمام آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی کوئی حیثیت
نہیں کیونکہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے ایسے ہی دنیا سے نفرت تمام نیکیوں
کی اصل ہے ۔
ہمارے دل سے نکل جائے الفت دنیا
دے دل میں عشق محمد مرے رچا یا رب
( وسائل بخشش ،
ص82)
دعا ہے کہ
اللہ عزوجل ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے تحت
آفندی ٹاؤن، حیدرآباد میں قائم مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ”اشاروں کی زبان
کورس“ مکمل کرنےوالے اسلامی بھائیوں کے لئے تقسیمِ اسناد کی تقریب کا انعقاد
کیا گیا۔
اس موقع پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد
فاروق جیلانی عطاری نے اسلامی بھائیوں کو اسپیشل پرسنز (گونگے،
بہرے اور نابینا اسلامی بھائیوں) میں
دینی کام کرنے، اپنا مطالعہ بڑھانے اور پیر و مرشد کی محبت اپنے دل بسانے کے حوالے
سے مدنی پھول بیان کئے۔
بعدازاں رکنِ شوریٰ نے ”اشاروں کی زبان کورس“
مکمل کرنےوالے اسلامی بھائیوں میں اسناد تقسیم کیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے
ہوئے انہیں تحائف بھی دیئے۔(رپورٹ: محمد عمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ حیدرآباد
، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
فیصل آباد، پنجاب میں ہونے والے دینی و فلاحی کاموں کے سلسلے میں مدنی مشورہ

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کےتحت
فیصل آباد، پنجاب میں ہونے والے دینی و
فلاحی کاموں کا فالو اپ لینےکے لئے مدنی
مرکز فیضانِ مدینہ فیصل آباد میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا۔
تفصیلات
کے مطابق اس مدنی مشورے میں ڈویژن نگران، ڈسٹرکٹ نگران، تحصیل نگران، سب تحصیل
نگران، فیصل آباد سٹی نگران، ٹاؤن نگران، سب ٹاؤن نگران، فیصل آباد کے سٹی یوسی
نگران،جامعۃ المدینہ و مدرسۃالمدینہ کے ناظمین اور شعبہ آئمہ مساجد کے امام صاحبان نے شرکت کی۔
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و
نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے ”1500 واں جشنِ ولادت“ منانے
کی تیاریوں کے حوالے سے کلام کیا اور دھوم دھام سے جشنِ ولادت منانے کی ترغیب
دلائی۔
فخر ایوب (درجہ ثالثہ جامعہ ضیاء العلوم شمسیہ
رضویہ سلانوالی ضلع سرگودھا)

دنیا کا مطلب
ہے قریب کی چیز، دنیا کا متضاد آخرت ہے اور آخرت کا مطلب ہے بعد میں آنے والی چیز
، آخرت کا مقصد دنیاوی اعمال کی جزا اور سزا ہے دنیا کی زندگی عارضی ہے جبکہ
آخرت کی زندگی دائمی ہے لیکن دنیا کی حرص رکھنے والوں نے دنیا کی عارضی زندگی کو
دائمی سمجھ لیا ہے وہ آخرت کی ابدی زندگی کو بھول گئے ہیں عارضی چیز کے حصول کے لیے
دائمی چیز کے حصول کو ترک کر دینا کتنی بڑی نادانی ہے ۔
اللہ پاک نے
قراٰنِ مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی حقیقت کو مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ 3 آیات
ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
(1)
دنیا کی مثال سوکھی گھاس کی طرح ہے: ﴿ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵)﴾ترجَمۂ کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا
تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں
اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ (پ15، الکہف: 45)
اس آیت میں
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرما رہا ہے کہ
اے حبیب (علیہ السّلام ) لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت کو بیان کر دیں اور اس کے
سمجھانے کے لیے اس مثال کو سہارا بنائیں کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا
ہو جاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات
کی ہے اس پر مغرور اور شیدا ہونا عقلمند کا کام نہیں اور یہ سب فنا اور بقا اللہ
کی قدرت سے ہے۔ (دیکھیے: روح البیان، 5/249، 250، الکہف، تحت الآیۃ:45)
(2)دنیا
کی تر و تازگی کا ہلاک ہونے والے سبزے کی مثل ہونا: ﴿ اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ
وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ
غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ
یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ
اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ
الْغُرُوْرِ(۲۰)﴾
ترجَمۂ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں
فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔(دنیا کی
زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا
اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے
ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ
کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان
ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
اللہ پاک نے
دُنْیَوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش
جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگتا ہے ، پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی
آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس کی سبزی(سبز رنگ) جاتے رہنے کے بعد اسے زرد
دیکھتے ہو ،پھر وہ پامال کیا ہوا بے کارہوجاتا ہے۔یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے
جس پر دنیا کا طلبگار بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی امیدیں رکھتا ہے لیکن
وہ انتہائی جلد گزر جاتی ہے ۔ (صراط الجنان، 9/741)
(3)دنیا
کی زندگی امیدوں کے سبز باغ کی مثل: ﴿ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا
كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا
یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا
وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ
اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ
بِالْاَمْسِؕكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: دنیا کی
زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب
زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ) ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین
نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس
میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا
کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔(پ11،
یونس:24)
اس آیت میں
بہترین مثال دے کر دل میں یہ بات بٹھائی گئی کہ دنیاوی زندگی امیدوں کا سبز باغ ہے
اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا
اطمینان ہو اور وہ کامیابی کی نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو موت آ
پہنچتی ہے اور وہ تمام لذتوں اور نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
آخرت کو
فراموش کر کے دنیا کے دھوکے میں آنے والوں کے لیے شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے
جبکہ دنیا کو فراموش کر کے آخرت کی فکر کرنے والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی
بخشش کی خوشخبری دی گئی ہے۔
اللہ پاک ہمیں
دنیا سے بے رغبتی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن

22 جولائی 2025ء کو شعبہ 8 دینی کام دعوتِ
اسلامی کے تحت کوئٹہ ، بلوچستان میں قلات ڈسٹرکٹ کا ماہانہ مدنی مشورہ منعقد ہوا
جس میں نگرانِ صوبہ بلوچستان اور قلات ڈسٹرکٹ کی جملہ ذمہ دار اسلامی بہنوں کی شرکت ہوئی۔
صوبائی نگران اسلامی بہن نےاس مدنی مشورے میں”تلاوتِ قراٰنِ
کریم “ کے موضوع بیان کیا اور اسلامی بہنوں سے شعبے کی حالیہ کارکردگی کا
جائزہ لیا جس میں انہوں نے آئندہ کے اہداف کا تعین کرنے، اسلامی بہنوں سے ملاقات
کرنے اور انہیں دینی کاموں کی ترغیب دلانے کا ذہن دیا۔
صوبائی نگران اسلامی بہن نے 8 دینی کاموں کو
مضبوط کرنے اور فیضانِ میلاد مسجد بنانے میں اپنا حصہ ملانے کے حوالے سے مدنی
مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی ذہن سازی
کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔