حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت محمد انور، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ نے انسان
کو دنیا میں بھیجا تو ساتھ ہی بہت سے خوب صورت رشتے اس کے ساتھ منسلک کر دیئے،
جیسے والدین، بہن بھائی، زوجین وغیرہ۔ ان ہی رشتوں میں سے ایک انمول رشتہ، باپ اور
بیٹی کا بھی ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا، جب بیٹی کو باپ کے لیے ذلّت و رسوائی کی
علامت سمجھا جاتا، اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ پھر اسلام کی آمد اور نبی
کریم ﷺ کی تعلیمات نے بیٹی کو رحمت کا درجہ عطا کیا،تو آپ ﷺکےاپنی صاحب زادیوں سے
بہترین، اعلیٰ ترین حسن سلوک سے باپ، بیٹی کے رشتے کو تمام تر رشتوں میں ایک بہت
پیارے اور معتبر و محترم رشتے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔
آئیے پیاری
پیاری اسلامی بہنو! ممدوحۂ کائنات رضی اللہ عنہا کے فضائل اور ان سےحضورﷺ کی محبت
ملاحظہ کیجئے:
سیدہ خدیجہ
الکبری کی نور نظر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان والا کےبارے میں حضور
نبی رحمت دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضب الٰہی ہوتا ہے اور تمہاری
رضا سے رضائے الٰہی۔ (مستدرک للحاکم،4/137، حدیث:4783)
ایک حدیث
مبارکہ میں فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار جو
اسے پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے ازدواجی
رشتوں کے تمام نسب منقطع (یعنی ختم) ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144،
حدیث: 4801)
فاطمہ تمام
جہانوں کی عورتوں اور سب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں۔ مزید فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا
ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے: ان کی
پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/436،
حدیث: 6139)
عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے نبی ﷺ کی عادات و اطوار، آپ کے اٹھنے بیٹھنے کی
پروقارکیفیت اور سیرت میں فاطمہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا، جب وہ نبی ﷺ کے پاس
تشریف لاتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے پھر ان کا بوسہ لے کر اپنی جگہ بٹھاتے
تھے اور جب نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ کا بوسہ
لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتی تھیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
نبی کریم ﷺ کی
اپنی لخت جگر سے بہت محبت و شفقت کا عالم یہ تھا کہ جب کہیں سفر کے لئے تشریف لے
جاتے تو آپ ﷺسفر سے واپسی پر سب سے پہلے بی بی فاطمہ کے ہاں تشریف لاتے۔ (مستدرك
للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
سیّدہ
زاہراہ،طیّبہ طاہرہ جان
احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
ام الحسنین
سیدہ فاطمۃ الزہرا کی سیرت وکردار، عبادات وریاضت،ذکر الہی کا ذوق وشوق اور آپ کی
مبارک زندگی کے قابل رشک ایام سے متعلق مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ خوبصورت کتاب
شان خاتون جنت کا مطالعہ آپ کےعلم میں
اضافہ کا باعث بنے گا۔اس کتاب میں آپ کی سیرت کے مختلف گوشوں کو زیر تحریر
لگایاہے۔خصوصا یہ کتاب بنات المسلمین کے لئے ایک نایاب کتا ب ہے۔اس کتاب میں سیرت
فاطمہ سے متعلق بہت کچھ جاننے کےلئے علمی مواد موجود ہے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت محمد اشفاق بھٹی،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

جس طرح سرکار
دوعالم ﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں اور قدرت کی نگاہ میں آپ وہ عبد منیب ہیں جو بشریت
و نورانیت کے حسین امتزاج کے ساتھ ورفعنا لک ذکرک کے مقام پر فائز ہیں ایسے ہی
ممدوح کائنات کی نگاہ ناز میں جس ہستی کا مقام و مرتبہ ہے، جو تسکین ذات مصطفٰی ﷺ ہیں
وہ دختر مصطفیٰ، حضرت سیدہ طیبہ، طاہرہ،زاکیہ، راضیہ،مرضیہ، عابدہ، زاہدہ، ام
الحسنین سیدہ کائنات خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔
روایات میں
آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر انکی دل جوئی فرمائی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! آپکو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ حضور
نے فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22،
حدیث: 38)
حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی گئی: حضور اقدس ﷺ کو کون زیادہ محبوب تھا؟
فرمایا: فاطمہ۔ پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے؟ فرمایا: ان کے شوہر جہاں تک مجھے
معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حدیث: 3900)
اللہ کے محبوب
ﷺ کا ارشاد ہے: فاطمہ تمام اہل جنت یا مومنین کی عورتوں کی سردار ہے۔ مزید فرمایا:
فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم،
ص 1021، حدیث: 6307)
ام المومنین
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے
تو آپ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی تعظیم کے لیے قیام فرماتیں آپ کے مبارک ہاتھوں کو
تھام کر بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں بھی بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنت الفردوس میں داخلہ عطا
فرمائے۔ آمین
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت کاشف شیراز،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

سیرت مصطفیٰ صفحہ
697 پر ہے: حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب فاطمہ سے
زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہا کا نام فاطمہ اور لقب الزہراء
اور بتول ہے۔ اعلان نبوت سے 5سال قبل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش ہوئی۔
(مواہب لدنیہ، 4/331)
نبی پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا:فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار جو اسے
پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرےسبب، میرے ازدواجی رشتوں کے
تمام نسب منقطع (یعنی ختم) ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث: 4801)
حضور
ﷺ کی آپ سے محبت کی جھلکیاں:
حضور ﷺ جب
خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو آتا دیکھتے تو خوشی سے کھڑے ہو جاتے اور
اپنی جگہ بٹھا لیتے۔
جب خاتون جنّت
بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو تمام امّہات المومنین موجود تھیں مگر شاہ بحر وبر،
رسول ا نورﷺ نے راز کی بات صرف اپنی لاڈلی شہزادی سے کی۔
تاجدار رسالت ﷺ
نے اپنی شہزادی کو جنّتی لوگوں کی بیویوں یا مومنوں کی بیویوں کی سردار ہونے کی
بشارت دی۔
خوش نصیب ہیں
وہ لوگ جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرتے ہیں اور اللہ و رسول کی رضا پاتے
ہیں۔
آخر میں اللہ سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرنے، ان کی سیرت کو اپنانے
اور ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم آپ سے ادب واحترام کرنے میں کسی قسم
کی کوئی کمی نہ آنے دیں۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
آپ رضی اللہ
عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے لیے شان خاتون جنت کا مطالعہ ضرور کریں۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت عرفان،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

حضرت فاطمہ،
رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں اور ان کا نکاح حضرت علی سے ہوا تھا۔ حضرت
فاطمہ ایک عظیم خاتون تھیں، جنہوں نے اسلام کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں۔ وہ اپنے
والد رسول اللہ ﷺ سے بے حد محبت کرتی تھیں اور ان کی وفات کے بعد صبر اور استقامت
کا مظاہرہ کیا۔
حضرت محمد ﷺ اپنی
بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کی محبت کی کئی مثالیں ملتی
ہیں۔
ایک روایت کے
مطابق، جب بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ سے ملنے آتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے، ان
کا استقبال کرتے، اور ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے۔ آپ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے تھے۔ آپ
نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیٹی سے کتنا پیار کرتے تھے۔
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ ان تمام عورتوں میں سب
سے افضل ہیں جو جنت میں داخل ہوں گی۔
حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
ایک روایت میں
ہے: وہ چیز مجھے تکلیف دیتی ہے جس سے اسے تکلیف پہنچتی ہے۔
حضرت حذیفہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز
پڑھی، پھر آپ عشا تک (نفل) نماز پڑھتے رہے، پھرجب فارغ ہو کر چلے تو میں (بھی) آپ کے
پیچھے چلا۔ آپ ﷺ نے میری آواز سن کر فرمایا: یہ کون ہے؟ حذیفہ ہے؟ میں نے کہا: جی
ہاں۔ آپ نے فرمایا: تجھے کیا ضرورت ہے؟ اللہ تجھے اور تیری ماں کو بخش دے۔ پھر آپ نے
فرمایا: یہ فرشتہ اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا۔ اس نے اپنے رب سے مجھے
سلام کہنے کی اجازت مانگی اوریہ (فرشتہ) مجھے خوش خبری دیتا ہے کہ فاطمہ جنتی
عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت طاہر راحیلہ،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ کریم نے
اس کائنات میں بہت پیارے اور خوبصورت رشتے بنائے کہیں ماں باپ اور کہیں بہن
بھائیوں وغیرہ کا ان سب رشتوں میں ایک بہت ہی خوبصورت اور نرالہ رشتہ باپ اور بیٹی
کا ہے باپ اس کائنات میں اس ہستی کا نام ہے جو اپنی اولاد کو پالنے کے لیے ان کو
ایک بہترین اور عمدہ زندگی فراہم کرنے کے لیے اپنے پیٹ کو بھوکا رکھ کر اپنی اولاد
کا پیٹ بھرتا ہے۔ ہمیں دور رسالت ﷺ سے ہر ایک چیز کی تعلیم دی گئی جیسے صلہ رحمی
کرنے کے بارے میں تعلیم دی گئی اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی
ہے اس کی تعلیم دی گئی یاد رہے ایک باپ کی اپنی بیٹی کے ساتھ کیسی محبت ہونی چاہئے
اور ایک بیٹی کی اپنے باپ کے ساتھ کیسی محبت ہونی چاہئے اس کی تعلیم بھی ہمیں ملی
اور وہ تعلیم فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حضور ﷺ کی آپس میں محبت اور شفقت کے
ذریعے ملی۔
حضور ﷺ کو
اپنی چاروں صاحب زادیوں سے بے پناہ محبت تھی لیکن سب سے زیادہ حضرت فاطمۃ الزہرا
رضی اللہ عنہا سے محبت تھی اس کا ثبوت اس حدیث مبارکہ سے ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے
فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
مزید حضور ﷺ کی
خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کے نرالے انداز ملاحظہ ہو،
چنانچہ
حضرت خدیجۃ الکبریٰ
رضی اللہ عنہا نے ایک دن نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جنّتی پھل دیکھنےکی خواہش کی تو
حضرت جبرائیل امین علیہ السّلام آپ کی خدمت میں جنت سے دو سیب لے کر حاضر ہو گئے
اور عرض کی:اے محمد! اللہ پاک فرماتا ہے:ایک سیب آپ کھائیں اور دوسرا خدیجہ کو
کھلائیں پھر حق زوجیت ادا کریں،میں تم دونوں سے فاطمۃ الزہراکو پیدا کروں گا۔
چنانچہ حضورﷺ نے حضرت جبریل امین علیہ السّلام کے کہنے کےمطابق عمل کیا۔جب غیر
مسلموں نے آپ ﷺ سےکہا کہ ہمیں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں۔ ان دنوں حضرت فاطمۃ
الزہرا اپنی والدہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے شکم اطہر میں تھیں۔حضرت خدیجۃ
الکبریٰ نے فرمایا: اس کی کتنی رسوائی ہے جس نے ہمارے آقا محمد ﷺ کو
جھٹلایا،حالانکہ آپ سب سے بہتر رسول اور نبی ہیں تو حضرت فاطمہ نے ان کے بطن اطہر
سے ندا دی:اے امی جان!آپ غمزدہ نہ ہوں اور نہ ہی ڈریں،بے شک اللہ پاک میرے والد
محترم کے ساتھ ہے۔جب حضرت فاطمۃ الزہرا کی ولادت ہوئی تو ساری فضا آپ کے چہرے کے
نور سے منور ہو گئی۔
نور کے پیکر ﷺ
کو جب جنت اور اس کی نعمتوں کا اشتیاق ہوتا تو حضرت فاطمہ کا بوسہ لے لیتے اور ان
کی پاکیزہ خوشبو کو سونگھتے اور جب ان کی پاکیزہ مہک سونگھتے تو فرماتے: فاطمہ تو انسانی
شکل میں حور ہے۔ (الروض الفائق، ص 274 ملخصاً)
ام الحسنین
سیدہ فاطمۃ الزہرا کی سیرت وکردار، عبادات وریاضت،ذکر الہی کا ذوق وشوق اور آپ کی
مبارک زندگی کے قابل رشک ایام سے متعلق مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ خوبصورت کتاب ”شانِ
خاتونِ جنت “ کا مطالعہ آپ کےعلم میں اضافہ کا باعث بنے گا۔اس کتاب میں آپ کی سیرت
کے مختلف گوشوں کو زیر تحریر لگایاہے۔خصوصا یہ کتاب بنات المسلمین کے لئے ایک
نایاب کتا ب ہے۔اس کتاب میں سیرت فاطمہ سے متعلق بہت کچھ جاننے کےلئے علمی مواد
موجود ہے۔
اللہ ہم سب کو
اور خصوصی طور پر دختران ملت کو سیدہ پاک کی سیرت سے وافر حصہ عطا فرمائے اورہمیں
بنتِ رسول کے روحانی فیوض وبرکات سے مالامال کرے۔ اللہ کریم اپنے پیاروں کی سچی
محبت نصیب فرمائے ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ
کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت رضا الحق، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

حضرت فاطمہ
الزہرا رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی محبت ایک عظیم الشان مثال ہے جو والدین اور
اولاد کے درمیان مثالی رشتے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس محبت کی بنیاد محض نسبی تعلق نہیں
بلکہ روحانی، اخلاقی اور ایمانی قربت پر مبنی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نہ صرف انہیں اپنی
بیٹی کے طور پر عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے تقویٰ، صبر، عفت و حیا، اور دین کے لیے
قربانیوں کی بھی دل سے قدر فرماتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدۃ نساء اہل
الجنۃ (جنتی عورتوں کی سردار) کا لقب دینا اور ان کے اٹھنے پر کھڑے ہونا، ان کی پیشانی
چومنا، اور ان سے نرمی و محبت کے ساتھ پیش آنا یہ باتیں اس پاکیزہ محبت کا مظہر
ہیں۔
حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا سے محبت کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے اور یہ محبت صرف ایک والد کی
محبت نہیں بلکہ ایک رسول کی محبت ہے جو اپنے خاندان کے اراکین سے بےحد محبت کرتے
تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مقام حضور ﷺ کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا تھا
اور ان سے محبت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کے بارے میں متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں حضرت رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت کا
ذکر ہے۔
حضور جان عالم
ﷺ کے درج ذیل مبارک فرامین حضور جان عالم ﷺ کی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے
محبت کا مظہر ہیں:
سیدہ خدیجہ
الکبری کی نور نظر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان والا کےبارے میں حضور
نبی رحمت دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضبِ الٰہی ہوتا ہے اور تمہاری
رضا سے رضائے الٰہی۔ (مستدرک للحاکم، 4/137، حدیث:4783)
فاطمہ میرے
جسم کا حصّہ(ٹکڑا) ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند،
روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے ازدواجی رشتوں کے تمام نسب منقطع
(یعنی ختم) ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث:4801)
فاطمہ تمام
جہانوں کی عورتوں اور سب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں۔ مزید فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا
ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے: ان کی
پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/436،
حدیث: 6139)
حضور ﷺ نے
اپنی پیاری شہزادی کو پہلے ہی سے باخبر کردیاتھا کہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے
تم (وفات پا کر) مجھ سے ملو گی۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/50، حدیث:1443)
حضور ﷺ کے
وصال ظاہری کے بعد خاتون جنت کی مبارک زندگی میں غم کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ
فراق رسول سے لبوں کی مسکراہٹ بھی ختم ہوگئی اور وصال نبی کے چھ ماہ بعد سب سے
پہلے جنت میں حضور سے ملنے کا شوق لئے 3 رمضان المبارک سنّ 11 ہجری منگل کی رات
سیدہ، طیبہ، طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
حضور اکرم ﷺ کی
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت ایک بے مثال اور بے لوث محبت تھی جس میں والد
اور بیٹی کے رشتہ سے کہیں بڑھ کر روحانی تعلق تھا۔ حضرت فاطمہ کی عظمت اور مقام پر
مختلف احادیث میں روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ محبت ایک نمونہ ہے جو ہمیں اپنے اہل
خانہ کے ساتھ محبت، عزت اور احترام سکھاتی ہے۔
حضور کی
خاتون جنت سے محبت از بنت اشفاق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

نبی کریم ﷺ کی
سیرت طیبہ محبت، شفقت، عفو و درگزر اور حسن اخلاق کا مکمل پیکر ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف
امت کو محبت کا درس دیا، بلکہ اپنے قول و عمل سے اس کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش
فرمایا۔ ان محبتوں میں سے ایک نمایاں محبت، جو تاریخ اسلام کا روشن باب ہے، وہ آپ ﷺ
کی اپنی شہزادی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت ہے۔
حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا، رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں، مگر مرتبے کے لحاظ سے سب سے
بلند مقام پر فائز تھیں۔ آپ کے فضائل و مناقب کثرت سے کتب حدیث و سیرت میں موجود
ہیں۔
احادیث
مبارکہ میں اظہار محبت: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا
ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اسے خوش کیا اس نے
مجھے خوش کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا و ناراضگی، دراصل نبی کریم ﷺ کی رضا و ناراضگی ہے اور
یہی ان کے بلند مقام کی دلیل ہے۔
ایک اور روایت
میں ہے: فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔
ایک موقع پر
فرمایا: اے فاطمہ! کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو جنتی عورتوں کی سردار ہو؟
حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا صرف رسول اللہ ﷺ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ اہل بیت اطہار کا فخر، اہل
ایمان کی ماں اور خاتون جنت ہیں۔
حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کسی کو بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ
شکل و صورت، چال ڈھال اور انداز و اطوار میں رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا۔ جب
وہ آتیں تو آپ ان کا استقبال فرماتے، کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے اور اپنی
جگہ پر بٹھاتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
آپ کی حیات
مبارکہ صبر، حیاء، عبادت، سادگی اور وفاداری کی روشن مثال ہے۔ دنیاوی زینت سے بے
نیاز رہ کر آخرت کی تیاری میں مصروف رہتی تھیں۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عظمت ایسی تھی کہ نبی کریم ﷺ ان کے
احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/462)
قاضی عیاض
رحمہ اللہ لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سفر سے روانگی سے پہلے سب سے آخر میں حضرت فاطمہ
کے گھر جاتے، اور واپسی پر سب سے پہلے ان سے ملاقات کرتے۔ (الشفاء للقاضی عیاض، 1/577)
حضرت فاطمہ
الزہراء رضی اللہ عنہا نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شہزادی تھیں، بلکہ وہ نور نبوت کا
مظہر، طہارت و عفت کا پیکر، زہد و عبادت کی علامت اور قیامت کے دن جنتی عورتوں کی
سردار ہوں گی۔ نبی کریم ﷺ کی ان سے محبت امت کے لیے درس ہے کہ عورت کی عظمت اس کی
دینداری، حیاء، سادگی اور وفا داری میں ہے، نہ کہ دنیاوی زیب و زینت میں۔
ہمیں چاہیے کہ
ہم ان سے محبت کریں، ان کی سیرت کو اپنائیں، ان کی پیروی کریں اور ان کے ادب و
احترام میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں۔ یہی محبت رسول کا عملی ثبوت اور ایمان کی
نشانی ہے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت عارف، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

حضور ﷺ خاتون
جنت حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت کرتے تھے جن کا ذکر احادیث
پاک میں بھی موجود ہے، چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے
جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تمام ازواج جمع تھیں اور
کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھی اتنے میں حضرت فاطمۃ الزہرا آئیں جن کی چال حضور ﷺ کے
چلنے کے مشابہ تھی آپ نے فرمایا مرحباً (خوش آمدید) میری بیٹی پھر انہیں اپنی
دائیں یابائیں جانب بٹھا لیا پھر آپ نے ان سے چپکے سے کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہ رونے لگی پھر آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگی حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کس وجہ سے روئیں انہوں نے
کہا: میں حضور ﷺ کا راز افشاں نہیں کروں گی حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے آج کی
طرح کوئی خوشی غم سے اتنی قریب نہیں دیکھی میں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہمارے بغیر
آپ کے ساتھ کوئی خاص بات کی ہے پھر بھی آپ رو رہی ہیں اور میں نے حضرت فاطمہ سے
پوچھا حضور ﷺ نے کیا فرمایا تھا تو انہوں نے کہا: میرے بابا جان نے پہلی سرگوشی
میں اپنی وفات ظاہری وفات کی خبر دی تو رونے لگی اور دوسری بار سرگوشی میں یہ خبر
دی کہ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ سے ملوں گی، تو میں ہنسنے لگی۔ (شان
خاتون جنت، ص 32)
اس
بتول جگر پارہ مصطفی حجلہ
آرائے عفت پہ لاکھوں سلام
جس
کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے اس
ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
سیدہ
زاہرہ طیبہ طاہرہ جان
احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
حضور ﷺ نے
فرمایا: قیامت کے دن ایک آواز دینے والا پردے کے پیچھے سے آواز دے گا: اے اہل محشر
اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔ (جامع صغیر، ص 57، حدیث: 822)
حضرت علی رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھے براق پر اور
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو میری سواری عضباء پر بٹھایا جائے گا۔ (تاریخ دمشق الکبیر 10/353)
حضرت مسور بن
مخر مہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بےشک فاطمہ میری ٹہنی
ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے جس چیز سے اسے
تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔
حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے بارگاہ رسول ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ آپ کو میرے اور حضرت فاطمہ
میں کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے فاطمہ تم سے زیادہ پیاری ہے اور تم
میرے نزدیک اس سے زیادہ عزیز ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت سید ابرار،جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ

حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا آقا کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی و محبوب شہزادی محترمہ ہیں، آپ
رضی اللہ عنہا کے بچپن میں ہی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا تو آقا کریم ﷺ نے
ہی ان کی پرورش فرمائی، آپ رضی اللہ عنہا شریعت کی پابندی کرنے والی خاتون تھیں، ساری
عمر پردہ کیا، نماز و روزہ کی پابند تھیں، آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت ہمارے لیے
بہترین نمونہ ہے۔
ظاہری وصال
مبارک کے وقت انکو رازدار بنایا یعنی آقا کریم ﷺ نے اپنے (عنقریب) ظاہری وصال
فرماجانے کی خبر دی اور بتایا کہ تم سب سے پہلے میرے گھر والوں میں سےمجھے ملو گی
انہوں نے یہ راز ظاہری وصال فرمانے تک کسی کو بھی نہ بتایا یہ راز بھی انکی اور
آقا کریم ﷺ کی محبت کی علامت ہے۔
آپ رضی اللہ
عنہا چال ڈھال و صورت و گفتار میں سب سے زیادہ پیارے آقا کریم ﷺ کی مشابہ تھیں۔
آئیے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے کہ جن سے آپ سے آقا کریم ﷺ کی محبت کا
اظہار ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے
کسی کو نہیں دیکھا جو رسول الله ﷺ سے ہیئت عادت صورت میں (ایک روایت میں ہے) اور
بات و گفتگو میں پورا پورا مشابہ ہو بمقابلہ جناب فاطمہ کے آپ جب حضور ﷺکی خدمت
میں آتیں تو حضورﷺ ان کے لیے کھڑے ہوجاتے ان کا ہاتھ پکڑتے انہیں چومتے انہیں اپنی
مجلس میں بٹھاتے اور جب حضور انور ﷺان کے پاس تشریف لاتے تو ان کے لیے کھڑی
ہوجاتیں حضورﷺ کا ہاتھ پکڑتیں اسے بوسہ دیتیں اور آپﷺ کو اپنی جگہ بیٹھالیتیں۔ (ابو
داود، 4/454، حدیث: 5217)
رسول الله ﷺ نے
فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور ایک
روایت میں ہے کہ جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو انہیں
تکلیف دے مجھے ستاتا ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
حضرت جمیع بن
عمیر فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا
میں نے پوچھا کون شخص نبی ﷺ کو بہت پیارا تھا آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا فاطمہ
پھر کہا گیا کہ مردوں میں فرمایا ان کے خاوند۔ (ترمذی، 5/ 468، حدیث: 4900)
اس حدیث پاک
کی شرح میں مراۃ المناجیح میں لکھا ہے کہ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہی سوال
پوچھا جاتا تو آپ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ حضرت عائشہ اور انکے والد رضی اللہ عنہما
یہ ان مبارک ہستیوں کے پاک باطن ہونے کی علامت ہے کہ آپس میں بغض وغیرہ نہ رکھتے
تھے۔
آقا کریم ﷺ کو
اولاد میں سب سے زیادہ محبوب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں کہ یہ سب سے چھوٹی اور
لاڈلی تھیں۔ افسوس! ان پر جو ان حضرات کو ایک دوسرے کا دشمن کہتے ہیں۔(اشعہ)خیال
رہے کہ محبت بہت قسم کی ہے اور محبوبیت کی نوعیتیں مختلف ہیں۔اولاد میں سب سے
زیادہ پیاری جناب فاطمہ ہیں،بھائیوں میں سب سے زیادہ پیارے علی مرتضیٰ ہیں،ازواج
پاک میں بہت پیاری جناب عائشہ صدیقہ ہیں۔غرضکہ ایک محبت کے سلسلہ میں جناب فاطمہ
بہت پیاری،دوسرے سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ بہت پیاری رضی الله عنہما،مقابلہ ایک
سلسلہ کے افراد میں ہوتا ہے۔
روایت ہے حضرت
ثوبان سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو آپ کے گھر والوں میں جس شخص
سے آپ کی آخری ملاقات ہوتی وہ فاطمہ تھیں اور پہلے جن کے پاس تشریف لاتے فاطمہ
ہوتیں۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
ان سب احادیث
مبارکہ سے اللہ پاک کے سب سے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اپنی شہزادی محترمہ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اس سے ہمیں بھی درس حاصل کرنا چاہیے
کہ جن کو اللہ پاک نے بیٹیوں سے نوازا ہے وہ انکی اچھی تربیت کریں ان سے پیار و
محبت بھرا شفقت بھراانداز رکھیں اور بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ اپنے والدین و اہل
خانہ سے محبت کریں انکے حقوق ادا کریں شریعت کی پابندی ہر حال میں کریں اور ہمیں
ہر وقت اللہ و رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ پاک ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ پاک ہمیں شہزادی کونین رضی اللہ عنہا کے صدقے
با حیا باپردہ اور ہرحال میں شریعت کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنے اور اس پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو انکے صدقے ہمیں سلامتی
ایمان و بلاحساب مغفرت کا پروانہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ

قابل
رشک آپ کی بے شک ہے قسمت فاطمہ آپ ہیں
بنت شہنشاہ رسالت فاطمہ
حضور ﷺ کو
اپنی چاروں شہزادیوں سے محبت تھی لیکن آپﷺ کواپنی سب سے چھوٹی شہزادی سے بہت زیادہ
محبت تھی۔ حضور پاک ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی حضرت
بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ کا نام مبارک فاطمہ جبکہ زہرا اور بتول آپ کے القابات ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: میری بیٹی کا
نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کو اور اس کے محبّین کو دوزخ
سے آزاد کیا ہے۔ (کنز العمال، جز:6،12 / 50، حدیث: 34222)
اللہ کے پیارے
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا
اس نے مجھے ناراض کیا۔ ایک اور روایت میں
ہے: جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو انہیں تکلیف دے وہ
مجھے ستاتا ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
محبت
بھرا منظر اور محبتوں بھرا جواب: مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کی: یار سول اللہ! آپ کو
وہ (حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا) مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ تو نبی کریم ﷺ
نے بڑا ہی خوبصورت جواب ارشاد فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ
پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)
اے عاشقان
صحابہ واہلبیت! حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور تمام امہات المؤمنین
(یعنی پیارے آقا ﷺ کی پاک بیویاں جو تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں) ایک دوسرے سے
محبت فرماتی تھیں، جیسا کہ ایک واقعہ ہے: حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی
خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے عرض کی گئی: حضور ﷺ کو کون زیادہ محبوب (یعنی پسندیدہ)
تھا؟ فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا، پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے ؟ فرمایا: ان کے
شوہر، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے اور کثرت سے قیام کرنے والے
ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حديث: 3900)
حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ سچے محبِ اہل بیت اور عاشقِ صحابہ تھے آپ نے
اپنی کئی تحریرات میں حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شان و عظمت بیان
کی ہے بلکہ آپ نے سیّدہ رضی اللہ عنہا کی مناقب بھی لکھی ہیں۔ شاید انہی برکتوں کا
نتیجہ تھا کہ حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اور مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال ایک ہی (یعنی 3 رمضان المبارک) ہے۔ حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ ترمذی شریف کی بیان کی گئی حدیث پاک کی شرح
میں لکھتے ہیں: یہ ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی کہ آپ رضی اللہ
عنہا نے یہ نہ فرمایا کہ حضور ﷺ کو سب سے زیادہ پیاری میں تھی اور میرے بعد میرے والد بلکہ جو آپ کے علم میں حق تھاوہ صاف صاف کہہ
دیا اگر یہ ہی سوال حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ہو تا تو آپ فرماتیں کہ
حضور ﷺ کو زیادہ پیاری جناب عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں پھر ان کے والد۔ معلوم ہوا
کہ ان کے دل بالکل پاک و صاف تھے۔ افسوس ان پر جو ان حضرات کو ایک دوسرے کا دشمن
کہتے ہیں۔ خیال رہے کہ محبت بہت قسم کی ہے اور محبوبیت کی نوعیتیں مختلف ہیں،
اولاد میں سب سے زیادہ پیاری جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، بھائیوں میں سب سے
زیادہ پیارے علی المرتضی ہیں اور ازواج پاک میں بہت پیاری جناب عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 8 / 469)
خوش
آمدید میری بیٹی: نانائے
حسنین ﷺ اپنی شہزادی حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے بے حد محبّت
فرماتے تھے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً
بابنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔
(بخاری، 2/507، حدیث: 3623)
تمام مسلمانوں
کی پیاری امی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ، طیبہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے چال ڈھال، شکل و صورت اور بات چیت میں بی بی فاطمہ سے بڑھ کر کسی کو حضور
اکرم ﷺ سے مشابہ(یعنی ملتی جلتی) نہیں
دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو
حضور ﷺ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے، ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور
اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور پرنور ﷺ بی بی فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ
(بھی) حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھ کو
تھام کر چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
کاش! حضرت بی
بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے محبت و عقیدت کا دم بھرنے والے اور والیاں بھی
سنّتوں کو اپنا لیں اور اپنا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا سنت کے مطابق کر لیں۔ اے
کاش! صد کروڑ کاش! ہم سب سنت مصطفٰے ﷺ کی چلتی پھرتی تصویر بن جائیں۔ آمین
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت اسرار حسین شاہ،داتا نگر بادامی باغ لاہور

اللہ تعالیٰ
نے زمین کی زینت میں درختوں کو ایک اہم نعمت بنایا۔ ارشاد ربانی ہے: فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ
بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍۘ-لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ
وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۱۹) (پ 19، المؤمنون:
19) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے اس میں کھجور اور انگور کے باغات بنائے جن میں
بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے ہو۔ یعنی درخت صرف زمین کی خوبصورتی نہیں،
بلکہ ہماری بقا، رزق اور راحت کا ذریعہ ہیں۔
امام ابن جوزی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درختوں کا سایہ مسافروں کے لیے اللہ کی نعمت ہے اور ہر
نعمت پر شکر واجب ہے۔ (صید الخاطر، ص 142)
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا
پرندہ یا جانور کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
مزید فرمایا:
اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور تم اس کے لگانے پر
قادر ہو، تو ضرور اسے لگا دو۔ (مسند امام احمد، 20/251، حدیث: 12902)
سبحان اللہ! یعنی
درخت لگانے کی اہمیت اتنی ہے کہ قیامت کے لمحے میں بھی اسے لگانے کا حکم ہے۔
شیخ عبد الحق
محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درخت کا پھل کھانے والا انسان ہو یا پرندہ،
نفع دینے والی ہر چیز باعث اجر ہے۔ (مدارج النبوة، 1/290)
اکابرین
اہل سنت کا انداز فکر: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ہر وہ کام جو بندگان خدا کی فلاح کا ذریعہ بنے، وہ باعث قرب خدا ہے،
اور ان میں ایک بہترین عمل درخت لگانا بھی ہے، جو مخلوق کو سایا، پھل اور فائدہ
دیتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/417)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: درختوں کا لگانا نفع عام ہے، اور نفع عام کا
انتظام کرنا عبادت ہے۔ جو درخت سے فائدہ اٹھائے گا، وہ لگانے والے کے لیے نیکی کا
باعث بنے گا۔ (مراۃ المناجیح، 2/410)
صدر الشریعہ
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پودا لگانا اور ہریالی پیدا کرنا
مسلمانوں کے لیے باعث صدقہ جاریہ ہے، بشرطیکہ نیت نیک ہو اور اللہ کی رضا مقصود
ہو۔ (بہار شریعت، 6/93، حصہ: 16)
شیخ عبدالغنی
نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درخت لگانا مخلوق کے لیے امان، اور قیامت کے دن
اپنے لگانے والے کے لیے گواہی ہے۔ (حواشی شرح عقائد نسفی، ص 118)
ایک
سبق آموز واقعہ: ایک
مرتبہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور شکایت کی: حضرت!
بارش نہیں ہو رہی، کھیتیاں مرجھا رہی ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: زمین کو ہرا کرو، درخت
لگاؤ، اللہ کی رحمت برسے گی۔ چنانچہ لوگوں نے درخت لگائے، کھیت سنوارے، تو اللہ
تعالیٰ نے آسمان سے خوب باران رحمت نازل فرمائی۔ (البدایہ والنہایہ، 9/310)
ہم اکثر دعا
کرتے ہیں: یا اللہ ہمیں صدقہ جاریہ نصیب فرما! درخت لگانا بہترین صدقہ جاریہ ہے: جب تک وہ درخت زندہ ہے، جب تک اس سے کوئی سایہ
لیتا ہے، جب تک کوئی جانور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، ہر لمحہ لگانے والے کے اعمال
نامے میں نیکی لکھی جاتی ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: دنیا میں
جو زمین کو سنوارتا ہے، قیامت میں اللہ اس کے لیے جنت کو سنوار دیتا ہے۔ (احیاء
علوم الدین، 2/367)
آئیے! ہر سال
کم از کم ایک درخت اپنے نام کا لگائیں۔ ہر بچے کے ہاتھ میں قرآن کے ساتھ ایک ننھا
سا پودا بھی دیں۔ مسجدوں، مدرسوں، گھروں اور قبرستانوں کے اردگرد شجرکاری کریں۔ سایہ
دار، پھل دار اور خوشبو دار درخت زیادہ لگائیں۔
یاد رکھیں! درخت
دنیا میں بھی ٹھنڈی چھاؤں ہے اور آخرت میں بھی ٹھنڈی چھاؤں کا ذریعہ!
درخت
لگانے کے 5 عظیم فائدے: درخت لگانا زمین پر زندگی کو فروغ دینا ہے اور اللہ
تعالیٰ زندہ زمین سے راضی ہوتا ہے۔ جب تک درخت سے کوئی فائدہ اٹھائے گا، لگانے
والے کے لیے نیکیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں، فضا کو صاف
کرتے ہیں اور زمین کو خوبصورت بناتے ہیں۔ پرندے، جانور اور انسان سب درختوں سے
فائدہ اٹھاتے ہیں، اور یہ خدمت عند اللہ مقبول ہے۔ احادیث میں ہے، نیک اعمال قیامت
کے دن سایہ فراہم کریں گے، درخت لگانے کا عمل بھی اس میں شامل ہوگا۔

آج ہمارے
معاشرے میں آکسیجن کی کمی اور فضائی آلودگی پچھلے چند سالوں کی بہ نسبت کئی گنا
پھیل چکی ہے اسی کے ساتھ ساتھ نزلہ، کھانسی، گلے کی خرابی، تنگئی تنفس جیسی کئی
بیماریاں بھی پہلے کے مقابلے میں اب بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں اور اس سب کی وجوہات
میں جگہ جگہ کچروں کے ڈھیر، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، گلی محلوں میں صفائی کے
دوران اڑنے والا گرد و غبار ہے ان وجوہات کے ساتھ سب سے بڑی اور اہم وجہ درختوں
اور پودوں کی شدید کمی ہے یہ اسلئے ہوتا ہے کہ فرنیچر بنانے کے لیے لکڑی کار آمد
ہوتی ہے جس کے لیے درختوں کو کاٹ کر ہمارے اردگرد کے ماحول کو خراب کردیا جاتا ہے
درخت کٹنے سے ماحول میں گرد و غبار اور آلودگی پھیلتی ہے اور یہ آلودگی و غبار
کھانے کی اشیاء اور پینے کے پانی میں شامل ہوکر بیماریاں پھیلنے کی وجہ بنتا ہے اب
غور طلب بات یہ ہے کہ اس فضائی آلودگی اور تیزی سے پھیلنے والی ان بیماریوں کا
خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
اس سوال کا
بہترین جواب اور آلودگی اور بیماریوں کا بہترین حل درخت لگانا ہے درختوں کا یہ
فائدہ ہے کہ فضا میں پھیلنے والا گرد و غبار جو کہ انسانوں کو آکسیجن کی وافر
مقدار ملنے میں تنگی کا باعث بنتا ہے اس گرد و غبار کو درخت اپنے اندر جذب کرلیتے
ہیں اور انسانوں کو آلودگی سے پاک ہوا مہیا کرتے ہیں۔
درخت لگانا بے
حد کار ثواب ہے یہ کام اگرچہ چھوٹا سا ہے لیکن اسکا ثواب بہت بڑا ہے ایک شخص پودا
لگاتا ہے وہ پودا بڑا ہو کر تن آور درخت بنتا ہے مخلوق اس سے فائدہ اٹھاتی ہے یہ
مخلوق کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے اور جو شخص مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے تو
اللہ رب العزت اس کے لیے دنیا و آخرت کے معاملات میں آسانی فرمائے گا۔
الحمدللہ دعوت
اسلامی کے شعبہFGRF
کے تحت چند سالوں سے ہر سال ماہ اگست میں پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے مہم کا آغاز
کیا جاتا ہے اور لاکھوں خوش نصیب لوگ اس کار خیر میں اپنا حصہ شامل کرکے دنیا و
آخرت کی آسانیاں سمیٹتے ہیں۔ درخت ہمارے ماحول میں خوبصورتی پیدا کرنے کا بھی
ذریعہ ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کو شعور سے آراستہ معاشرہ بنانے میں بھی مدد کرتے
ہیں۔ لہذا ہمیں بھی کوشش کرنی ہے کہ ہم بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ شامل کریں اور
دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹیں۔
اللہ پاک دعوت
اسلامی اور امیر اہلسنت کو سلامت رکھے اور ہمیں مخلوق کی مدد کی توفیق دے۔