محمد ذیشان علی عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان مدينہ اڈیالہ روڈ راولپنڈی پاکستان)
﴿هُنَالِكَ
دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً
طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہاں پکارا زکریا
اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے
والا۔ (پ3،اٰلِ عمرٰن:38)
﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی
الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ
اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ
آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
تشريح: حضرت زکریا علیہ السّلام بڑے عالم تھے، بارگاہِ الٰہی میں قربانیاں آپ علیہ السّلام ہی پیش کیا کرتے
تھے اور مسجد شریف میں آپ علیہ السّلام کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا
تھا، جس وقت محراب میں آپ علیہ السّلام نماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے، دروازہ
بند تھا، اچانک آپ علیہ السّلام نے ایک سفید پوش جوان کو دیکھا، وہ حضرتِ جبریل
علیہ السّلام تھے انہوں نے آپ علیہ
السّلام کو فرزند کی بشارت دی جو ’’ اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔ (خازن،1/246، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:39)
ہماری پیدائش کا مقصد: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ پاک میرے
بھائی حضرت یحیٰ علیہ السّلام پر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ علیہ السّلام نے (ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ہیں
؟ (ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی ہم سے
مطلوب ہے۔ جب نابالغ بچہ اس طرح کہہ رہا ہے تو )اس بندے کا قول کیسا ہونا چاہئے جو
بالغ ہو چکا ہے۔( ابن عساکر، حرف الیاء، ذکر من اسمہ یحییٰ، یحییٰ بن زکریا بن نشوی۔۔۔
الخ، 64 / 183)
یہ غیب
کی خبر حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا علیہما السّلام دونوں کو معلوم ہو گئی۔ آپ
علیہ السّلام کو بشارت ملی کہ آپ علیہ السّلام کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس
کا نام’’ یحییٰ‘‘ ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی
تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کَلِمَۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ فرما
کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے اور
ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے
عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ
عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے
فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ
کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
﴿یٰیَحْیٰى خُذِ
الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ
تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) تفسیر صراط الجنان: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی
ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب
توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے
اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب
کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول
ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور
عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( تفسير صراط الجنان تحت
الآيۃ، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص254)
﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16،
مریم:13)
﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ
جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)
﴿وَ سَلٰمٌ
عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(۱۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا
ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ
اٹھایا جائے گا۔ (پ16،مریم:15)
محمد ثقلین عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان میلاد
کامرہ، اٹک پاکستان )
(1) یحییٰ علیہ السّلام کی ولادت کی بشارت، نیز اللہ پاک نے یحیٰ
نام رکھا: حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی آپ کے والد یعنی
حضرت زکریا علیہ السّلام کو رب نے آپ کی بشارت (خوشخبری) دے دی تھی اور ان کا نام
"یحییٰ" خود اللہ پاک نے رکھا ہے۔ جس کو قراٰنِ مجید میں بیان بھی فرمایا
گیا ہے۔ چنانچہ پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 07 میں رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ
اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ
سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی
خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس
سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)
یحییٰ
علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی اپنے والد حضرت زکریا
علیہ السّلام کی طرح رب کے برگزیدہ نبی تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک
نے بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا تا کہ بنی اسرائیل کو راہِ راست پر لایا
جائے۔ آپ علیہ السّلام کا نامِ پاک یحییٰ
ہے۔ آپ علیہ السّلام کا شجرہ نسب کچھ یوں بیان کیا گیا ہے "یحییٰ بن زکریا بن
لدن بن مسلم بن صدوق" اور اسی طرح مزید آگے جاتے ہوئے حضرت سلیمان علیہ
السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے۔
(1) قراٰنِ کریم میں یحییٰ علیہ السّلام کی صفات: آپ علیہ السّلام انتہائی
اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔ جن کو قراٰنِ مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے۔اللہ پاک نے
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا، اہل ایمان
کا سردار، قوت کے باوجود عورت سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔ انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید کے پارہ نمبر
03 سورہ آل عمران آیت نمبر 39 میں بیان فرمایا ہے: ﴿فَنَادَتْهُ
الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ
حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:
تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ
بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق
کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک
نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
(2،
3)نرم دلی اور خوفِ خدا: آپ علیہ السّلام
نرم دل، طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع اور اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے
تھے۔ انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 16 سورہ مریم کی آیت
نمبر 13 میں بیان فرمایا ہے: ﴿وَّ
حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی
اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(4) والدین کے فرمانبردار: آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک
کرنے والے تھے۔ تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔انہی صفات کو اللہ
پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 16 سورہ مریم آیت نمبر 14 میں بیان فرمایا ہے:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ
جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
(5)نیکیوں
میں جلدی کرنے، رب کو پکارنے والے: آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے
والے، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے
جھکنے والے تھے۔انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 17 سورۃُ الانبیآء
آیت نمبر 90 میں بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی
کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر
سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں انبیائے
کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان کی سیرت پڑھ کر اپنی زندگی کو
سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین یارب العالمین ۔
ابو عبید دانیال سہیل عطاری قادری(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ عطار اٹک پاکستان
)
نبی اور رسول کی تعریف : "نبی" اس بشر ( یعنی
انسان ) جس کی طرف رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے وحی بھیجی ہو۔ اور ان نبیوں میں سے جو نئی شریعت "اسلامی
قانون اور رب العالمین کے احکام" لے کر آئے ؛ اسے "رسول" کہتے ہیں۔
رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش 1لاکھ
24ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام بھیجے ، جن میں بعض بعض سے بلند درجے پر فائز
تھے اور ان تمام انبیا کے سردار ہمارے پیارے آخری نبی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔
انہیں انبیا میں رب العالمین کے ایک نبی حضرت سیدنا یحییٰ
علیہ السّلام بھی ہیں۔
آپ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ، آپ
کی ولادت سے پہلے ہی حضرت زکریا علیہ السّلام کو بشارت دے دی گئی تھی اور رب
العالمین نے آپ کا نام رکھا۔ آپ علیہ السّلام کا سلسلہ حضرت داؤد علیہ السّلام تک
جا پہنچتا ہے۔ آپ کا قراٰنِ مجید میں مختصر تذکرہ سورہ انعام آیت نمبر 85 میں کیا
گیا ہے ۔ جبکہ تفصیلی ذکر درجہ ذیل 3 سورتوں میں ہوا۔(1) سورہ آل عمران ،آیت 38تا40 ،(2) سورہ مریم ، آیت 7تا15، (3) سورہ انبیآء ، آیت 89 ،90 چنانچہ قراٰنِ مجید
سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی چند صفات کا ذکرجاتا ہے :
(1) حضرت یحییٰ
علیہ السّلام نرم دل ، طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع تھے اور رب العالمین سے
بہت ڈرنے والے تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔ ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی 3 صفات بیان فرمائی ہیں :(1) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام
لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔(2)
اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص
مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(بغوی، 3/159،مریم،
تحت الآیۃ: 13)(3) وہ اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ علیہ
السّلام اللہ پاک کے خوف سے بہت گریہ و
زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام
کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے
تھے ۔
(2) آپ علیہ السّلام والدین کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک
کرنے والے تھے ۔تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔ قراٰنِ مجید میں
ارشادِ باری ہے:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ
جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
(3) آپ علیہ
السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے تھے۔
(4) آپ علیہ السّلام رب العالمین کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔
(5) آپ علیہ السّلام رب العالمین کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے
پکارنے والے تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشادِ باری ہے:﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی
الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا
خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور
ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)یہ چند صفات جو رب العالمین نے اپنی لاریب
کتاب قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ذکر فرمائیں۔ان صفات سے ہمارے لیے سیکھنے کو بہت
کچھ ہے۔
(1) ہمیں بھی مخلوقِ خدا کے لیے اپنے قلوب کو نرم رکھنا چاہیے
اور رب العالمین کی اطاعت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے اور نیک اعمال میں کثرت کرنی
چاہیے۔(2)والدین کا فرمانبردار بننا چاہیے بیشک والدین کی خدمت انسان کو بہت بلند
مرتبے پر پہنچا دیتی ہے۔ اور جب والدین کی رضا حاصل ہو جائے تو رب العالمین اپنے
اس بندے سے راضی ہو کر اس کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے۔(3) ہمیں تکبر اور
نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ تکبر کرنے والا اپنے اعمال برباد کر دیتا ہے ۔ اور رب
العالمین نافرمانی ہمیں کہیں آگ میں پہنچا دے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ ہر حال میں رب
العالمین کا فرمانبردار رہ کر احکامات الٰہیہ پر عمل کرنا اور تکبر ، حسد ، جھوٹ ،
غیبت ، چغلی ، کینہ ، بدگمانی ، وغیرہ ان باطنی و ظاہری امراض سے اپنے آپ کو بچانا
ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو ہم رب العالمین کی رحمت کے سائے میں رہیں گے ہمیشہ
۔
(4) آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے تھے۔ بیشک
جب بھی نیکی کا ارادہ ہو تو اس کو جلد کر لینا چاہیے کہیں شیطان آپ کو روک نہ دے۔
ہمیں اس صفت سے یہی سیکھنے کو ملا جب بھی نیک کام کا ارادہ بنے تو ہمیں اس میں جلدی
کر کے اپنے اعمال نامۂ کو نیکیوں سے بھرنا چاہیے۔ اگر ہم سستی کریں گے یا نیکی
کو۔ ترک کر دیں گے تو یہ ہمارے لیے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔اس دن کے لیے جس دن
ہر شخص چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا محتاج ہوگا۔اس لیے نیک عمل چھوٹا ہو یا بڑا ہمیں ہر
حال میں نیک کام کرنے ہیں اور ان نیکیوں کی برکت سے رب العالمین ہمیں جنت الفردوس
میں جگہ عطا فرمائے گا
اللہ رب العالمین ہمیں حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السّلام کی ان
صفات پر عمل کرنے والا بنائے اور انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک حالات زندگی
کو پڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
اویس افضل عطاری(درجہ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ فیصل آباد پاکستان)
انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں
اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور
سے روشنی بخشی حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی
وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں یہ وہ
ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک نے بہت سی صفات و کمالات سے نوازا انہیں میں سے ایک ہستی
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہستی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی صفات کو اللہ پاک نے اپنی
سب سے پیاری کتاب قراٰنِ کریم میں ذکر فرمایا آئیے ہم بھی قراٰنِ کریم میں ذکر کی
گی صفات میں سے ان کی چند صفات پڑھتے ہیں:۔
تعارف :حضرت یحییٰ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ولادت سے پہلے
آپ کی بشارت دے دی گئی اور اللہ پاک نے آپ کا نام رکھا، بچپن ہی میں کامل عقل اور
شرف نبوت سے نوازے گئے، آپ علیہ السّلام دنیا سے بے رغبت اور خوف خدا سے بکثرت گریہ
و زاری کرنے والے تھے ۔
نام و نسب :آپ کا نام " یحییٰ " علیہ السّلام اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب
نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ
السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667)
" برہان " کے پانچ حروف کی نسبت سے قراٰنِ کریم میں
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ذکر کردہ صفات میں سے پانچ صفات درج ذیل ہیں۔
نام خود رب تعالی نے یحییٰ علیہ السّلام رکھا
:چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم سورہ مریم آیت نمبر(7) میں
ارشاد فرمایا : ﴿
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ
مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی
خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس
سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)یعنی اس کا نام یحیٰ
ہے اور اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا کہ ا س کا نام یحیٰ رکھا گیا
ہو۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 7، ص254)
بچپن میں ہی تورات کو مضبوطی سے تھامنے کا
حکم :اللہ پاک پارہ : 16 سورہ مریم کی آیت نمبر (12) کے ابتدائی
حصے میں ارشاد فرماتا ہے :﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ
تھامے رکھو ۔(پ16،مریم:12) حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ
السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر
عمل کی بھرپور کوشش کرو ( صراط الجنان ٫مریم تحت الایہ:12)
بچپن میں ہی کامل عقل اور نبوت کا ملنا :اللہ پاک نے پارہ: 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 12 کے اگلے حصے
میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) جب آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ
کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ
عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( صراط الجنان ، مریم، تحت
الآیۃ:12 ، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص669)
آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور
اچھا سلوک کرنے والے ہیں : سورہ مریم کی آیت
نمبر14 میں کچھ اس طرح الفاظ جگمگا رہے ہیں:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)آپ
علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے
والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد
والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی طاعت نہیں اور اس پر اللہ پاک کا یہ قول
دلالت کرتا ہے: ﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔(پ15،بنٓى اسرآءيل :23)
کلمہ ( حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کی تصدیق
کرنے والا سردار اور عورتوں سے بچنے والا: سورہ آل عمران آیت
نمبر (39) میں ارشادِ باری ہے : ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ
هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى
مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا
مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک
اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)نوٹ : ذکر کی گئی صفات کے علاوہ بھی
قراٰنِ کریم و احادیث مبارکہ میں آپ علیہ السّلام کی صفات موجود ہیں اللہ پاک ان
کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: ان کی روشن و جگمگاتی صفات سے دلوں کو منور کرنے کیلئے
مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب سیرت الانبیاء صفحہ 767 تا 778 کا مطالعہ مفید ہے۔
انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین شخصیات اور
انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے
روشنی بخشی ، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی
وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ انبیا
ومرسلین علیہم السّلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ ان پاک نفوس قدسیاں
میں سے ایک ہستی حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ
پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔
(1 تا 3) نرم دل، طاعت و اخلاص، عمل صالح کے جامع، اللہ
پاک سے ڈرنے والے:پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 13 میں اللہ پاک نے حضرت یحییٰ
علیہ السّلام کی 3 صفات بیان فرمائیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے انہیں
اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک
اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔ اور دوسری یہ کہ اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ
عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے(بغوی،3/159،
مریم، تحت الآیۃ: 13) اور تیسری یہ کہ وہ اللہ پاک سے بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔
ان صفات کو الله پاک نے قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمائیں ہیں: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(4 تا 6) والدین کے فرمانبردار ، عاجزی و
انکساری کرنے والے اور رب کی اطاعت کرنے والے: مذکورہ بالا آیت سے اگلی ہی آیت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی مزید تین
صفات بیان فرمائی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ اور دوسری ، تیسری یہ
کہ آپ علیہ السّلام تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہیں بلکہ آپ علیہ السّلام عاجزی و انکساری کرنے والے اور اپنے رب کی
اطاعت کرنے والے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
(7 تا 10) تصدیق کرنے والا ، اہل ایمان کا
سردار ، عورتوں سے بچنے والا ، صالح: قراٰنِ پاک میں
اللہ پاک نے ایک مقام پر ایک ہی آیت میں آپ علیہ السّلام کی چار صفات کو بیان فرمایا
۔
ایک یہ کہ آپ علیہ السّلام تصدیق کرنے والے ہیں جس کے متعلق تفسیر خازن میں ہے کہ ایک مرتبہ جب
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے
حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ
کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
اور دوسرا یہ کہ آپ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم
و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔
اور تیسری یہ کہ آپ علیہ السّلام عورتوں سے بچنے والے۔ قوت
کے باوجود بھی عورت سے رغبت نہ کرتے تھی ۔
اور چوتھی یہ کہ آپ علیہ السّلام صالحین میں سے ایک نبی ہیں
۔جس کو اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں یوں بیان فرمایا: ﴿فَنَادَتْهُ
الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ
حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:
تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ
بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق
کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک
نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
اللہ پاک ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک
صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
معزز قارئین! اللہ
پاک نے انسانوں کی ہدایت کیلئے بہت سے انبیا و رسل علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا
اور انہیں کئی طرح کی صفات سے نوازا انہیں انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے ایک
نبی حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں جنہیں اللہ پاک نے کئی صفات سے متصف فرمایا۔ ان کی
ولادت کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے چنانچہ سورہ آلِ عمران میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
حضرت مریم رضی
اللہ عنہا کی کفالت اللہ پاک کے نبی حضرت زکریا علیہ السّلام کے سپرد تھی۔ حضرت
زکریا علیہ السّلام جب ان کے پاس تشریف
لاتے تو ان کے پاس رزق اور بے موسمی پھل پاتے۔ اس پر حضرت زکریا علیہ السّلام نے
ان سے استفسار کیا (پوچھا) کہ یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور
رب جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ یہاں حضرت زکریا علیہ السّلام نے دعا
مانگی کہ اے اللہ مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔
حضرت زکریا علیہ
السّلام نماز میں مشغول تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام ان کے پاس تشریف لائے
اور انہیں بیٹے کی خوشخبری دی اور اس بیٹے کا نام یحییٰ بتایا۔ ( آل عمران: 37تا39
) حضرت یحییٰ علیہ السّلام وہ نبی ہیں
جنہیں رب نے کئی صفات سے نوازا اور ان صفات کا ذکر رب نے اپنے پاک کلام میں کیا۔
آئیے ہم بھی قراٰنِ پاک میں بیان کردہ چند خصائص کا ذکر کرتے ہیں:
آپ
کا نام (یحییٰ) : اللہ پاک نے حضرت
یحییٰ علیہ السّلام کو یہ خصوصیت عطا فرمائی کہ ان کا نام خود رکھا اور اس نام کا
ان سے پہلے کوئی نہ تھا۔ اس کا ذکر رب نے قراٰنِ پاک میں یوں کیا: ﴿ -ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ
سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ،
مریم : 7)
مصدق : آپ کو ایک اور صفت یہ عطا فرمائی کہ آپ علیہ السّلام اللہ
کے کلمہ کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ اس کا ذکر یوں فرمایا: ﴿ مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ
مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے
گا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) اس آیت میں كَلِمَةٍ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں اور آپ (حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کو كَلِمَةٍ کہنے کی وجہ یہ کہ آپ کو کلمۂ کن سے پیدا کیا گیا۔ (تفسیر
جلالین ،ص 71 )
سید : آپ
کو رب نے سید(سردار) کی صفت سے متصف فرمایا۔ سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و
مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے
سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔( تفسیر صراط الجنان تحت سورۂ آل
عمران: 39)
حصور : آپ کی صفات میں
سے ایک صفت حصور یعنی عورتوں سے بچنے والا بھی ہے۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے
باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔ ( تفسیر صراط الجنان تحت سورۂ آل عمران: 39)
صالحین میں سے نبی: آپ کو رب نے صالحین میں سے نبی بنایا۔ اس کا ذکر رب العالمین نے یوں
کیا: ﴿ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔( تفسیر صراط الجنان تحت سورۂ آل عمران:
39)
بچپن میں نبوت : آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ
بھی ہے جسے قراٰنِ پاک میں بیان کیا گیا کہ آپ کو بچپن ہی میں نبوت عطا کر دی گئی۔
جیسا کہ ذکر ہوا: ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12) اس آیت میں "حکم" سے
"النبوہ" اور " بچپن" سے تین سال کی عمر " مراد ہے۔( تفسیر
جلالین ص:397 )
معزز قارئین! ہم نے
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ان صفات کے بارے میں سنا جو رب العالمین نے قراٰنِ پاک
میں بیان فرمائیں۔ ان پاک ہستیوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان پاک ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
حنین رضا (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ حسن و جمالِ مصطفٰی کراچی پاکستان)
پہلی آیت: ﴿یٰیَحْیٰى خُذِ
الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ
تھامے رکھو۔(پ16،مریم:12)
حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ
السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر
عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب کہ آپ کی عمر شریف تین
سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ
کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی۔ اسی ضمن میں ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ
فرمائیں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ
عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔یہ چند خصوصیات صراط
الجنان میں موجود ہیں اسی سے متصل ایک حدیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ پاک میرے بھائی حضرت یحیٰ
علیہ السّلام پر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ علیہ السّلام نے
(ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا
کئے گئے ہیں۔(صراط الجنان، سورہ مریم) دوسری آیت : ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)اس آیت
میں حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی 3 صفات بیان
کی گئی ہیں۔
(1) آپ علیہ
السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے
والے تھے ۔
(3،2) آپ علیہ السّلام تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہیں بلکہ آپ علیہ السّلام عاجزی و انکساری کرنے
والے اور اپنے رب کی اطاعت کرنے والے تھے۔(صراط الجنان سورہ مریم : 14)
تیسری آیت : ﴿وَّ
حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے
مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ
السّلام کی 3 صفات اور بیان فرمائی ہیں ۔(1) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف
سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں
۔(2)اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی: حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص
مراد ہے اور حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(بغوی، مریم، آیت : 13)(3) وہ اللہ
پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام کے رخسار مبارکہ پر
آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔(صراط الجنان
سورہ مریم ، آیت 13)
چوتھی آیت : ﴿وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ
وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(۱۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور سلامتی
ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا
اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ (پ16،مریم:15) یعنی جس دن حضرت یحیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اس دن ان کے
لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں کی
طرح آپ علیہ السّلام کونہ چھوئے گا اور جس دن آپ علیہ السّلام وفات پائیں گے اس
دن ان کے لئے عذابِ قبر سے امان ہے اور جس دن آپ علیہ السّلام کو زندہ اٹھایا
جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے، وفات پانے اور
زندہ اٹھائے جانے کے یہ تینوں دن بہت وحشت
ناک ہیں کیونکہ ان دنوں میں آدمی وہ دیکھتا ہے جو اِس سے پہلے اُس نے نہیں دیکھا ، اس لئے ان تینوں مَواقع پر انتہائی وحشت ہوتی ہے، تو اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کا اِکرام
فرمایا کہ انہیں ان تینوں مواقع پر امن و
سلامتی عطا فرمائی۔(خازن، 3/ 230-231،مریم،
تحت آیت: 15)
یہ کچھ خصوصیات ہیں جو کہ حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی شان میں
سورہ مریم کی مختلف تفاسیر میں بیان کئے گئے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو انکی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اویس بن محمد رفیق(درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی کراچی پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! مسلمانوں کو انبیائے کرام علیہم
السّلام کی سیرت کی معلومات دینے کے لیے ہر ماہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں ایک
مضمون اللہ پاک کے کسی پیارے نبی علیہ
السّلام کی سیرت پر شائع کیا جاتا ہے اس ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں اللہ پاک کے بہت
پیارے نبی حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی قراٰنی صفات ذکر کی جاری ہیں آپ بھی پڑھئے
اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔
مختصر تعارف: آپ علیہ السّلام کا مبارک نام یحییٰ ہے آپ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ
السّلام کے فرزند (بیٹے) ہیں۔ آپ علیہ السّلام کا نام مبارک خود اللہ پاک نے رکھا ۔ آپ علیہ السّلام حق بات
بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور بالآخر یہی
وصف آپ علیہ السّلام کی شہادت کا سبب بنا
اور آپ علیہ السّلام حالتِ سجدہ میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔
اوصاف:(1)قربِ الہٰی پانے والے: آپ علیہ السّلام
ان انبیا علیہم السّلام میں شامل ہیں جن کو اللہ پاک نے قربِ الہٰی کا مژدہ سنایا
جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ زَكَرِیَّا وَ
یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا
عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زکریا اور یحیی
اور عیسٰی اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔(پ 7 ، الانعام :85)
(2)کثرت سے عبادت کرنے والے: آپ علیہ السّلام بھی
باقی انبیائے کرام علیہم السّلام کی طرح
اللہ پاک کی کثرت سے عبادت کرنے والے اور بہت ڈرنے والے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں
ایک مقام پر اللہ پاک نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16،
مریم:13)
(3) والدین کے فرمانبردار: آپ علیہ السّلام
اپنے ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے تکبر کرنے والے اور
اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔ ﴿وَّ
بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و
نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)
(4) دعاؤں کی کثرت کرنے والے: آپ علیہ السّلام
کی ایک صفت یہ بھی ہے کی آپ نیکیوں میں جلدی کرنے والے اللہ پاک کو بڑی رغبت اور
ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں دل سے جھکنے والے تھے۔ ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا
یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا
لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے
امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ۔ (پ17، الانبیآء:90)
(5)بچپن میں نبوت عطا ہونے والے: آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو بچپن میں ہی نبوت عطا
فرمائی جیسا کہ اس کے متعلق اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12)
اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک صفات کے
صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
اللہ پاک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کو مبعوث
فرمایا جن میں بعض کا صریح ذکر قراٰنِ مجید میں موجود ہے اور بعض کا نہیں ۔ جن کے
اسمائے طیبہ قراٰنِ مجید میں مذکور ہیں ان میں سے ایک عظیم الشان نبی حضرت یحیی علیٰ
نبینا و علیہ الصلوة والسّلام بھی ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو اللہ نے بہت بڑا مقام عطا فرمایا
اور قراٰنِ مجید میں آپ علیہ السّلام کے اوصاف کا ذکر فرمایا ، آئیے ان میں سے چند
اوصاف کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا
بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک
کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی
ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن :
39) اس آیت میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے درج ذیل اوصاف بیان کیے گئے:۔
(1) اللہ پاک کی بشارت: حضرت زکریا علیہ السّلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ "
اے میرے رب ! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما " تو آیت میں اللہ پاک
ان کو ایک بیٹے کی بشارت عطا فرما رہا ہے جن کا نام یحیی ہو گا ۔
(2) حضرت عیسیٰ کی تصدیق کرنے والے: حضرت یحییٰ علیہ السّلام سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام
پر ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے والے ہیں جس کو ﴿مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ
اللّٰهِ﴾ سے بیان کیا گیا۔
(3) مؤمنین کے سردار: اس آیت میں حضرت یحییٰ کا ایک وصف سید یعنی سردار ہونا بھی بیان کیا گیا۔ سید
اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ
علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے ۔
(4) عورتوں سے بچنے والا: آپ کا ایک وصف " حصورا " سے بھی بیان کیا گیا ہے حصور
وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔
(5) صالح نبی: اس آیت میں ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک حضرت زکریا کو جو بیٹا
عطا فرمائے گا یعنی حضرت یحییٰ وہ صالحین میں نبی بھی ہوں گے۔سورہ مریم میں مذکور
اوصاف ذکر کئے جا رہے ہیں:
(6) سب سے پہلے یحییٰ نام والے: آپ کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے شخص آپ ہیں جن کا
نام یحییٰ ہے آپ سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہ ہوا ۔
(7) بچپن میں حکمت دے دی گئی: آپ کا ایک وصف یہ تھا کہ آپ علیہ السّلام کو تین سال کی عمر
میں ہی حکمت ( نبوت ) اور کامل عقل عطا فرما دی گئی تھی۔
( 8) بہت زیادہ متقی: آپ علیہ السّلام اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے ۔ آپ اللہ کے خوف سے بہت گریہ
و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ
السّلام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے
نشان بن گئے تھے ۔
(9) ماں باپ کے فرمانبردار: آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے
بڑھ کر کوئی طاعت نہیں ۔ ( صراط الجنان )
(11،10) متکبر و نافرمان نہیں تھے: آپ کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ متکبر نہیں تھے عاجزی کرنے
والے تھے اور رب کے نافرمان نہیں تھے ۔
اللہ پاک ہم سب کو آپ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین
محمد عریض عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار
ماڈل کالونی ملیر ، پاکستان)
انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور
انسانوں میں ہیروں اور موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی
اور حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو بصیرت، روح
کو روحانیت، دلوں کو چین، عقل کو ہدایت، سوچ کو وسعت، کردار کو حسن، زندگی کو
تعاون، بندوں کو کامیابی اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔
انہی انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے حضرت یحییٰ علیہ
السّلام بھی ہیں جن کے کچھ قراٰنی اوصاف کا ذکر کیا جائے گا ۔
آپ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند (بیٹے) ہیں۔
آپ علیہ السّلام کا نام مبارک خود اللہ
پاک نے رکھا ۔ آپ علیہ السّلام حق بات بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ
نہیں کرتے تھے اور بالآخر یہی وصف آپ علیہ
السّلام کی شہادت کا سبب بنا اور آپ علیہ السّلام حالتِ سجدہ میں مرتبہ شہادت سے
سرفراز ہوئے ۔ ( سیرت الانبیا، ص 767 )
اوصاف :(1) نرم دل اور بہت زیادہ ڈرنے والے :آپ علیہ السّلام نرم دل ، طاعت و اخلاص اور اللہ پاک سے بہت
زیادہ ڈرنے والے تھے ۔﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(2) ماں باپ کے فرمانبردار :آپ علیہ السّلام اپنے ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا
سلوک کرنے والے تھے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
(3)نیکیوں میں جلدی کرنے والے: آپ علیہ السّلام باقی انبیائے کرام علیہم السّلام کی طرح نیکیوں
میں سبقت (جلدی) کرنے والے تھے۔﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی
کرتے تھے ۔ (پ17، الانبیآء:90)
(4) رغبت اور ڈر سے پکارنے والے: آپ علیہ السّلام اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے
پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ ﴿ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ
كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور
ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)
(5)اللہ پاک نے نام رکھا: آپ علیہ السّلام کا نام یحیی خود اللہ پاک نے رکھا۔﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ
اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ
سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی
خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس
سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)
(6)شرف نبوت: آپ علیہ السّلام کو بچپن میں ہی شرف نبوت سے سرفراز فرما دیا۔﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12)
(7) انبیائے کرام کے گروہ میں: آپ علیہ السّلام کو بطور خاص ان انبیائے کرام کے گروہ میں
نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ پاک نے نعمت ہدایت سے نوازا ، صالحین میں شمار
فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں پر فضیلت عطا کی۔﴿وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا
عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنز
العرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب
ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور
ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔(پ 7 ، الانعام : 86،85)
اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے حبیب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور تمام
انبیائے کرام کی سیرت کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین
حسن محمود سعیدی(درجہ دورۂ حدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی پاکستان)
اللہ پاک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم
السّلام مبعوث فرمائے جن میں سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی اللہ پاک کے برگزیدہ
نبی تھے۔
حضرت زکریا علیہ السّلام کو آپ علیہ السّلام
کی پیدائش کی بشارت: حضرت زکریا علیہ السّلام
اللہ پاک کے برگزیدہ نبی تھے آپ علیہ السّلام کے ہاں اولاد نہیں تھی روایت میں آتا
ہے آپ علیہ السّلام کی عمر 120سال اور آپ علیہ السّلام کی زوجہ کی عمر 90سال ہو گئی
تھی لیکن ابھی تک آپ علیہ السّلام کے اولاد نہ تھی لیکن اتنی عمر ہونے کے باوجود
بھی آپ علیہ السّلام کے دل میں خواہش برقرار تھی اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں
ہوئے اور مسلسل اللہ پاک کی بارگاہ میں اولاد کی تمنا لیے دعا کرتے رہے دوسری طرف
حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو بھی تھے اور آپ رضی اللہ عنہا کی پرورش اور دیکھ
بھال آپ علیہ السّلام کے ذمہ تھی ایک دن آپ علیہ السّلام نے حضرت مریم کے محراب میں
بے موسمی پھل دیکھے کہ محراب میں بے موسمی پھل آتے ہیں تو آپ کے دل میں خیال آیا کہ
اگرچہ میری عمر اتنی ہو چکی ہے ، اولاد کے پھل کا موسم ختم ہو چکا۔ مگر وہ خدا جو
حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے محراب میں بے موسمی پھل عطا فرما رہا ہے وہ اس بات پر
بھی قادر ہے کہ مجھے اس ضعیفی کی عمر میں اولاد کا پھل عطا فرما دے۔ آپ علیہ
السّلام نے اسی محراب میں اللہ پاک سے دعا مانگی جو قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ
کو بیٹے کی بشارت عطا فرمائی جس کا ذکر قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا
ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی
الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ
اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے
یحییٰ کا ۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
یحییٰ نام کس نے رکھا: حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ آپ کا نام اللہ پاک نے خود
رکھا جس کا ذکر اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ
اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ
سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی
خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس
سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی صفات مبارکہ: محترم قارئینِ کرام ! اللہ پاک نے جہاں دیگر انبیا علیہم
السّلام کی صفات کا ذکر فرمایا ہے وہاں اللہ پاک نے اپنی فرقان کتاب میں آپ علیہ
السّلام کی صفات بھی ذکر فرمائی ہیں۔ جن میں سے کچھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں: (1)اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی
تھی جس کو اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں یوں بیان فرمایا: ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12)
پھر ارشاد فرمایا: ﴿وَّ
حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی
اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)اس آیت
کی تفسیر میں مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ
السّلام اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خوف سے
گریہ و زاری کرتے یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام کے رخسار مبارک پر آنسوؤں کے نشان بن
گئے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ مریم آیت : 13)
دوسرے مقام پر اللہ پاک آپ کے اوصاف یوں بیان فرماتا ہے۔﴿ مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ
نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا
اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
مفتی قاسم صاحب اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے
فرمایا کہ ایک کلمہ کی تصدیق کرنے والا ہوگا یہاں کلمۃ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ
السّلام ہیں اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے نبوت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے
حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہی نے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے۔
نوٹ: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کلمۃ کیوں کہا جاتا ہے؟ آپ
علیہ السّلام اللہ پاک کے کلمۃ کن سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لیے آپ علیہ
السّلام کو کلمۃ بھی کہا جاتا ہے۔
پھر آیت کے دوسرے حصہ میں فرمایا ''وسید''یعنی سردار: سید
اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مطاع ہو لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں حضرت یحییٰ
علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں انکے رئیس تھے۔
حصوراً: عورتوں سے بچنے والے: حصُور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود بھی عورتوں سے رغبت نہ کرے آپ سردار بھی تھے لیکن اللہ کے
خوف کی وجہ سے ہر گناہ سے بچتے اگرچہ انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ کی توفیق سے
گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں لیکن انبیائے کرام علیہم السّلام خود بھی بچا کرتے امت کی
اپنے بندوں کی اصلاح کے لیے۔(تفسیر صراط الجنان ،اٰل عمرٰن:39)
آپ علیہ السّلام اپنے والدین سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نہ
تکبر کرتے اور نہ کبھی اللہ کی نافرمانی کرتے۔ چنانچہ آپ کے اس وصف کو اللہ پاک نے
قراٰنِ کریم میں یوں بیان فرمایا:﴿وَّ
بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و
نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)
اس آیت میں اللہ پاک نے آپکے مزید 3 اوصاف بیان فرمائے ہیں۔(1)اپنے
والدین سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی
خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت نہیں۔(3،2) آپ علیہ السّلام تکبر کرنے والے اور اپنے رب
کے نافرمان نہیں تھے بلکہ عاجزی و انکساری کرنے والے اور اپنے رب کی اطاعت کرنے
والے تھے۔( صراط الجنان ، مریم : 14)
اور سورۃُ الانبیاء میں فرمایا:﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی
الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا
خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور
ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)
محترم قارئینِ کرام ! یہ کچھ صفات یحییٰ علیہ السّلام کی جو
آپ کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں اس کے علاوہ بھی آپ کی صفات ہیں جن کا ذکر احادیثِ
مبارکہ میں بھی آیا ہے آپ علیہ السّلام کی صفات کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ جہاں
تفاسیر میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی صفات ذکر کی گئی ہیں وہاں آپ علیہ السّلام کی صفات بھی ساتھ ذکر
کرکے موافقت کی گئی ہے۔
دعا ہے اللہ پاک ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم السّلام کی
صفات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی مغفرت فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
سید محمد ارمان عطّاری
(درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ بہار مدینہ اورنگی ٹاؤن ،کراچی)
حضرت زکریا علیہ
السّلام کو اللہ پاک نے بہت ہی پیارے فرزند حضرت یحییٰ علیہ
السّلام سے نوازا ۔آپ دنیا سے بے رغبت اور خوفِ خدا سے بکثرت گر یہ و زاری
کرنے والے تھے ۔آپ حق بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرتے تھے اور
یہی عظیم وصف بالآخر آپ کی شہادت کا سبب بنا اور حالتِ سجدہ میں آپ علیہ السّلام مرتبۂ شہادت پر سرفراز ہوئے۔
(سیرتُ الانبیاء، ص767)آپ کا نام یحییٰ اور آپ کا نسب مبارک حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السّلام تک پہنچتا ہے ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کے اوصاف کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ آئیے آپ علیہ السّلام کے 5 قراٰنی اوصاف پڑھئے:
(1) خوفِ خدا: اللہ پاک کے تمام انبیا بہت زیادہ خوفِ خدا رکھنے والے تھے۔ اسی طرح حضرت یحییٰ علیہ
السّلامبھی اللہ پاک سے بہت ڈرنے والے تھے۔ اللہ پاک ان کے اس وصف کو
قراٰنِ مجید میں اس طرح ذکر فرماتا ہے : ﴿وَ
كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور کمال ڈر والا تھا۔ (پ 16، مریم:13)
(2) والدین کی فرمانبرداری : آپ علیہ السّلام
ماں باپ کے فرمانبرداراور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: ﴿وَ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے
والا تھا ۔( پ 16، مریم:14)
(3) بہت عاجزی و انکسار
والے: آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ آپ بہت ہی عاجزی و انکسار کرنے والے تھے کبھی بھی تکبر کر کے اپنے رب کو ناراض کرنے
والے نہ تھے۔ اللہ پاک آپ کے اس وصف کو قراٰنِ کریم میں یوں بیان فرماتا ہے:﴿وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ متکبر، نافرمان نہیں تھا۔(
پ 16، مریم:14)
(4)نرم دل والے : حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا ایک
وصف قراٰنِ پاک میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آپ علیہ السّلام بہت ہی زیادہ نرم دل والے تھے۔ اللہ پاک آپ کی اس نرم
دلی کے وصف کو قراٰنِ مجید میں بیان فرماتا ہے : ﴿وَحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی۔ (پ 16، مریم:13)
(5)نیکیوں میں جلدی کرنے والے: آپ علیہ السّلام
کا ایک بہت ہی خوبصورت وصف یہ بھی ہے کہ آپ نیکیوں
میں جلدی فرمایا کرتے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے
تھے ۔ (پ17، الانبیآء:90)
محترم قارئین! اللہ
پاک کے نبی حضرت یحییٰ علیہ السّلام
کے اوصاف میں سے چند اوصاف بیان کئے گئے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ
مطالعہ کریں اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہمارے کردار سے انبیائے کرام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔
انبیائے کرام کی سیرت کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ”سیرت الانبیاء“ کا مطالعہ کیجئے۔