
اللہ پاک کے ساتھ محبت تو ہر مسلمان کو ہوتی ہے مگر
جب یہ محبت حد سے تجاوز کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ اس کے بندے کو
جو عشق ہوتا ہے وہ عشق حقیقی کہلاتا ہے۔ اگرکوئی شخص عشق مجازی میں گرفتار ہو جائے
وہ اسی عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور اپنا عشق چھپایا ہو تو وہ شہید ہے۔ لمحۂ
فکریہ ہے کہ وہ جس سے اس نے محبت کی تھی وہ مخلوق ہے تو اس کو شہید کا ثواب ملتا
ہے تو اگر اس مخلوق کے خالق سے عشق کر لیا جائے تو اس کا درجہ کیا ہو گا؟ اللہ
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الہی میں مرنا ان کی
حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، دل کو غیر کی
محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے
نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے
رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ
تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی میں
اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی
تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی
دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔
ایمان کیا ہے؟ حضرت ابو رزین
عقیلی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ایمان کیا
ہے؟ ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ
محبوب ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 4/ 412، حدیث: 13150)
محبت باری تعالیٰ کے لیے دعا: حضور
ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا فرما اور جو تجھ سے محبت
کرتا ہے اس کی محبت اور جو تیری محبت کے قریب کر دے اس کی محبت عطا فرما اور اپنی
محبت کو میرے نزدیک ٹھنڈے پانی سے بھی محبوب بنا۔ (ترمذی، 5/ 692، حدیث: 3501)

آج کل لوگ بہت سے باتوں میں بدشُگونی لیتے ہیں
جیساکہ سفر کے دوران کالی بلی کا سامنے سے گزر جانا اور صفر المظفر میں شادی نہ کرنا ، 13 کے عدد کو منحوس سمجھنا وغیرہ۔
لیکن یاد رہے! دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بدشگونی حرام ہےاور غیر مسلموں کا طریقہ
ہے۔
بدشگونی جیسے گناہوں سے لوگوں کو بچانے اور اُن
کی اصلاح و رہنمائی کرنے کے لئے خلیفۂ
امیرِ اہلِ سنت مولانا حاجی عبید رضا عطاری مدنی مُدظلّہ الْعَالَیْ نے اس ہفتے عاشقانِ رسول کو 14 صفحات کا رسالہ ”امیرِ اہلِ سنت سے بَدشُگونی
کے بارے میں 20 سوال جواب“ پڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازاہے۔
دعائے خلیفۂ عطار
یارب المصطفےٰ! جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ ”امیرِ اہلِ سنت سے بَدشُگونی کے
بارے میں 20 سوال جواب“ پڑھ یا سن لے اُسے بَدشُگونی اور تَوَہُّمات سے
محفوظ فرمااور اس کی ماں باپ سمیت بے حساب مغفرت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ
النّبیّٖن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ رسالہ آڈیو میں
سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:

اسلام میں جہاں بے زبان جانوروں کے حقوق بیان ہوئے
ہیں، پھر اس اسلام میں مسلمانوں کے کتنے زیادہ حقوق ہوں گے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا
مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں،ویسے تو بے شمار حقوق ہیں مگر یہاں مراد وہ حقوق
ہیں جن کی عادت ڈالی جائے یعنی مسلمان کے مسلمان پر حق ہیں ان کی ادا کی عادت
ڈالنی چاہیے۔
(1) سلام کا جواب دینا:سلام
کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض مگر ثواب سلام کا زیادہ ہے،گھر میں ماں باپ یا بیوی
بچے ہوں بہرحال سلام کر کے داخل ہو اس سے گھر میں اتفاق اور روزی میں بڑی برکت
ہوتی ہے۔
(2) بیمار کی عیادت کرنا:
مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو جنت کے باغ میں رہتا ہے حتی کہ لوٹ
آئے،جو کسی مسلمان کی صبح کے وقت بیمار پرسی کرے 70 ہزار فرشتے اسے شام تک دعائیں
دیتے ہیں اور اگر شام کو بیمار پرسی کرے تو صبح تک 70 ہزار فرشتے دعائیں دیتے ہیں
اور اس کے لیے جنت میں باغ ہوگا،بیمار پرسی معمولی سی نیکی معلوم ہوتی ہے مگر یہ
لاتعداد فرشتوں کی دعا ملنے کا ذریعہ ہے اور جنت ملنے کا سبب بشرطیکہ صرف رضا الہی
کے لیے ہو۔
(3) جنازے کے ساتھ جانا:
جنازے کے ساتھ عام حالات میں سنت ہے،جب جنازہ رکھا جاتا ہے پھر اسے لوگ اپنے
گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہو
تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے ہائے اسے کہاں لے جاتے ہو اس کی آواز انسان کے سوا
ہر چیز سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے۔
(4) دعوت قبول کرنا:دعوت
میں شرکت کھانے کے لیے یا وہاں انتظام و کام وکاج کے لیے سنت ہے،کبھی فرض لیکن اگر
خاص دسترخوان پر ناجائز کام ہوں جیسے شراب کا دور یا ناچ گانا تو شرکت ناجائز
ہے،عام دعوت میں انتظام کے لیے ضرور جاؤ کوئی معذوری یا مجبوری نہ ہو تو۔
(5) چھینک کا جواب دینا:
چھینک اللہ تعالی کی نعمت ہے لہذا اس پر اللہ کی حمد کرنی چاہیے،چھینکنے والا
الحمدللہ کہے تو سننے والے سب یا ایک جواب میں کہیں يرحمك الله پھر چھینکنے والا
کہے يہديكم الله و یصلح بالكم اور اگر حمد نہ کرے یا اسے زکام ہے کہ بار بار
چھینکتا ہے تو وہ پھرجواب ضروری نہیں۔
اللہ پاک
ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاه الامين
عام مسلمانوں کے 5 حقوق از بنت محمد جاوید اقبال،جامعۃ
المدینہ چباں فیصل آباد

پیارے قارئین! اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک
ملت اور ایک قوم کی طرح ہیں سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں شریعت اسلامیہ نے
اخوت و ہمدردی کو قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کےدوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد
کیے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ان میں سے پانچ درج ذیل ہیں:
1۔ محبت کرنا: نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: تم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو اس سے تمہارے درمیان بغض و کینہ ختم
ہو جائے گا اور ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے
تمہارے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔(موطا امام 2/407، حدیث: 1731)
2۔ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: 1-جب وہ بیمار
ہو تو عیادت کرے 2-جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے پر حاضر ہو 3-جب دعوت کرے تو اس
کی دعوت کو قبول کرے4-جب وہ ملاقات کرے تو اسے سلام کرے5- جب وہ چھینکے تو جواب دے
6- اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔ (ترمذی، 4/338، حدیث:
2746 )
3۔ غم خواری کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اسے مصیبت زدہ کے
برابر اجر ملے گا۔ (ترمذی، 2/338، حدیث: 1075)
4۔ عیادت کرنا: محمد
عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس
ہونے تک ہمیشہ جنت کے پھل چننے میں رہا۔ (مسلم، ص 1066، حدیث: 6554)
5۔ کسی کی عزت بچانا: جس
نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا اللہ تعالی روز قیامت اسے جہنم کا عذاب دور کر
دے گا۔ (ترغیب و ترہیب، 3/334، حدیث:37)

دین اسلام میں جہاں والدین، اولاد، استاد،رشتہ
داروں، پڑوسیوں، مزدوروں، جانوروں اور دیگر طبقات کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح ایک
مسلمان پر بھی دوسرے مسلمان کے حقوق مقرر فرمائے جن کا ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم
و ضروری ہے۔ انہی حقوق میں سے 5 حقوق ملاحظہ ہوں:
1۔ مسلمان کے حقوق میں سے ہے کہ اپنی زبان اور کسی
فعل سے دوسرے مسلمان کو دکھ نہ پہنچائے۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: مسلمان وہ ہے جس کے
ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم، ص 41،
حدیث: 65)
ایک طویل حدیث مبارکہ ہے جس میں آقا ﷺ نے لوگوں کو
اچھی عادات اپنانے کے متعلق حکم ارشاد فرمایا: اگر تم یہ نہیں کر سکتے ہو تو لوگوں
کو اپنے شر سے محفوظ رکھو یہ تمہارے لیے صدقہ ہے جو تم نے اپنی ذات کے لیے دیا ہے۔(بخاری،
2/150، حدیث: 2518)
2۔ مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ جو
کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنی مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے اور جو چیز اپنے
لیے بری سمجھتا ہے دوسرے مسلمان کے لیے بھی اسے برا سمجھے۔ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: تم
سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی
چیز پسند نا کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (مسلم،ص 47، حدیث: 170)
3۔ مسلمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کی
باتیں ایک دوسرےکو نہ بتلائی جائیں اور کسی کی بات سن کر دوسرے کو نہ سنائی جائے
یعنی کسی مسلمان کی چغلی نہ کھائی جائے۔ چنانچہ آقا جان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: چغل
خور جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/115، حدیث: 6056)
4۔ حقوق مسلم میں سے ہے کہ غصے کی حالت میں اپنے
مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد ترک تعلق نہ رکھا جائے۔ اپنے مسلمان بھائی کی
لغزشوں کو معاف کرنے پر میٹھے میٹھے آقا ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس نے کسی مسلمان
بھائی کو اس کی لغزش کے سبب چھوڑ دیا اللہ پاک قیامت میں اسے چھوڑ دے گا۔ (ابن ماجہ،
3/36، حدیث: 2199)
5۔ ایک مسلمان کے دوسرے پر جو حقوق ہیں ان میں سے
یہ بھی ہے کہ مسلمان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی جائیں اور اخلاص کے ساتھ دوسروں کو
بھی اس کی ترغیب دلائی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کا پردہ رکھا اللہ قیامت کے دن اس کے
عیوب کا پردہ رکھے گا۔(بخاری، 2/126، حدیث:2442)
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ
ساتھ حقوق العباد کی بھی اچھی طرح ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
خاتم النبیین ﷺ

قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان کو
مسلمان کا بھائی قرار دیاہے تمام مسلمان دینی رابطےاوراسلامی محبت کےذریعےآپس میں
جڑےہوئےہیں۔ قدرتی طور پر زمین اور جو کچھ اس کے اندر موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے
تمام بندوں کے استفادے کے لیے ہے اس لیے تمام انسانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ
اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور دوسرے انسانوں کو
بھی فائدہ پہنچائیں دوسرے انسانوں کے مفاد کا، ان کے حصے کا اور ان کی ضرورتوں کا
خیال رکھنا ہی حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔
حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اسلام پہلا اور آخری
دین ہے جس نے انسانوں کے مختلف رشتوں کو فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی
اولیت متعین کر دی ہے۔
امام غزالی
نے کیمیائے سعادت میں مسلمانوں کے 23 حقوق بیان کئے ہیں۔ اگر ان تمام حقوق کو ایک
لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ لفظ محبت ہے یعنی ہر مسلمان پر لازم ہے
کہ وہ دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھے اور اس سے محبت کرے۔ جہاں سچی محبت ہوتی
ہے وہاں باہمی جنگ و جدل اور خون خرابہ نہیں ہوتا۔ وہاں ایک دوسرے کی عصمت و آبرو
اور عزت و عفت کی حفاظت کی جاتی ہے۔ جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہاں نسلی اور لسانی
تعصبات نہیں ہوتے، جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہاں بغض و عناد اور حسد اور کینہ نہیں
ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل
نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسرے مسلمان کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا
ہے۔ (مسلم،ص 47، حدیث: 170)
محبت کے بعد ہر مسلمان کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی
جان کو تحفظ دیا جائے۔
تیسرا حق یہ ہے کہ اس کے مال کی حفاظت کی جائے۔
چوتھا حق یہ ہے کہ بیماری تکلیف، بھوک اور پریشانی
میں اس کی مدد کی جائے۔
مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب اس سے کوئی غلطی
سرزد ہوجائے تو اس کو معاف کردیا جائے کیونکہ اگر آج ہم اس سے درگزر کریں گے تو
قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے گا۔
كوئى
مسلمان یتیم ہوجائے تو اس سے پیار محبت کا برتاؤ کیا جائے، اس کے مال میں خیانت نہ
کی جائے، اسے احساس کمتری کا شکار نہ بنایا جائے، اس کی صحیح تربیت اور پرورش کی
جائے۔
مسلمان پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اسکی خبر گیری کی جائے۔
مسلمان خادم اور نوکر کا حق ہے کہ اسے اچھا کھانا
اور لباس دیا جائے، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام نہ لیا جائے اور اسے معقول
معاوضہ دیا جائے، اسے بھی اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ مسلمان عالم دین کا حق یہ
ہے کہ اس کا ادب و احترام کیا جائے اور دینی مسائل میں اس سے استفادہ کیا جائے۔
مسلمان مزدور کو اس کا معقول معاوضہ جلد سے جلد ادا کیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی
ایسا معاملہ نہ کیا جائے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہو۔
روایت کا مفہوم ہےکہ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں
ہوتا جب تک اپنے بھائی کیلئےوہی چیزپسندنہ کرےجووہ اپنےلئےکرتاہے۔(مسلم،ص 47،
حدیث: 170)
مسلمان کےساتھ خیرخواہی کرنا بھی مسلمان کاایک حق
ہےکہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: اللہ پاک فرماتا ہے کہ میرے نزدیک بندے کی سب سے پسندیدہ
عبادت لوگوں سے خیرخواہی کرنا ہے۔ (کنز العمال، 3/166، حدیث: 7197)
اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق
درست انداز سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

جان لیجئے کہ انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے
ساتھ اور چونکہ انسان کا اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے بغیر زندگی
گزارنا مشکل ہے سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا ہر مسلمان پر اس میل
جول کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان حقوق کو حدیث مبارکہ کی روشنی میں
ملاحظہ فرمائیں:
1۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے تم
پرچار حقوق ہیں: (1)نیکی کرنے والے کی مدد کرو (2) گناہ کرنے والوں کے لئے بخشش
طلب کرو (3) رخصت ہونے والے کے لئے دعا کرو (4) توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھو۔ (فردوس
الاخبار، 1/ 215، حدیث: 1502)
2۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے: مسلمان وہ ہے جس
کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ (مسلم، ص 41،
حدیث: 65)
3۔ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: باہمی محبت اور
رحم دلی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی
ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث:
6011)
4۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس
وقت تک (کامل) ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے (مسلمان)بھائی کے لئے بھی وہی
چیز پسند نہ کرے جووہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (مسلم،ص 47، حدیث: 170)
5۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان، مسلمان کا
بھائی ہے وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو رسوا کرے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری
کرنے میں مشغول رہتا ہے الله تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی
مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مصائب میں سے
کوئی مصیبت دور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن الله
تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا۔ (بخاری، 2/126، حدیث:2442)
مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ذمے ان حقوق و فرائض کا
مقصد یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہیں ہر مسلمان اپنے بھائی کی
خوشی کو اپنی خوشی اور اسکے دکھ کو اپنا دکھ تسلیم کرے اور تمام مسلمان متحد ہو کر
زندگی گزاریں۔
الله پاک ہم سب مسلمانوں کو دوسروں کے حقوق کا خیال
رکھنے اور آپس میں مل جل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
عام مسلمانوں کے 5 حقوق از ہمشیرہ محمد آصف،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اس کا بہت سے لوگوں
کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ ہر کسی کے ایک دوسرے کے ساتھ کچھ نہ کچھ حقوق ہیں۔اگر درست
انداز سے حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے تو معاشرتی نظام تباہو برباد ہو جائے،انسان
چونکہ شریعت کا مکلف(پابند) ہے اور بندوں پر پہلا حق اگر کسی کا واجب ہوتا ہے تو
وہ اللہ کا ہے جس نے تمام چیزوں کو عدم سے وجود بخشا ہے۔
حق اللہ سے مراد وہ حقوق جو بندے پر اللہ کی طرف سے
ہیں، اور انسان کی وہ ذمہ داریاں جنہیں انسان نے خود سرانجام دیناہوتا ہے،انہیں
حقوق العباد کہتے ہیں۔
بندوں کے بندوں پر بہت سے حقوق ہیں اس ضمن میں حدیث
رسول اللہ ﷺ ملاحظہ فرمائیے:
مسلمانوں کے حقوق: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار
کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)
انسان پر اپنے رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں
کے بھی حقوق ہوتے ہیں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حقوق صرف ہمارے رشتہ داروں پر
ہی ہیں بلکہ یہ بات غلط ہے کیوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے حقوق دوسرے
مسلمانوں پر بھی ہیں چند حقوق ملاحظہ ہوں:
1۔ سلام کرنا: ملاقات کے
وقت پہلے سلام کرے اور اگر سلام کرنے والے دونوں مرد ہیں تو آپس میں مصافحہ کریں
اور اگر دونوں عورتیں ہیں تو وہ بھی آپس میں مصافہ کریں کیونکہ مصافحہ کرنا اچھی
عادت ہے اور اس سے مسلمان کے دل میں خوشی داخل ہوگی۔
2۔ سلام کا جواب دینا: جب
کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دے کیونکہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اگر آپ مسلمان
کے سلام کا جواب دیں گے تو اس سے وہ خوش ہوگا اور کسی کے دل میں خوشی داخل کرنا
ثواب کا ذریعہ ہے۔
3۔ چھینک کا جواب دینا:
اگر کسی مسلمان کو چھینک آئے تو وہ الحمدللہ کہے تو سننے والا مسلمان یرحمک اللہ
کہہ کر اس کا جواب دیں۔
4۔ جنازہ پڑھنا:
اگر کسی مسلمان کے ہاں کسی کی وفات ہو جائے تو دوسرا مسلمان اس کے جنازہ اور دفن
میں شریک ہو۔
5۔ صلح کروانا: اگر دو
مسلمانوں کا اپس میں جھگڑا ہو جائے تو کوئی دوسرا مسلمان ان میں صلح کروائے کیونکہ
صلح کروانا سنت ہے۔
6۔ بروں کا ادب واحترام کرنا: مسلمان
اپنے بروں کا ادب و احترام کریں اور اپنے چھوٹوں سے محبت شفقت کرے کیونکہ چھوٹوں
سے محبت اور شفقت کرنا حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔
7۔ تیمارداری کرنا: اگر
کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمارداری کرے اور دوسرے مسلمان اس کی عیادت
کو جائیں۔
8۔ تہمت لگانے سے بچنا:
کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر تہمت یا بہتان نہ لگائے۔
9۔ غیبت سے بچنا:
کسی مسلمان کی غیبت دوسرے مسلمان بھائی سے نہ کرے۔
10۔ اپنے جیسی چیز پسند کرنا: جو
چیز اپنے لیے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان کے لیے پسند کرے۔
یاد رکھئے کہ حقوق العباد (یعنی بندوں کے حقوق) کی
معافی صرف بندے ہی دے سکتے ہیں حقوق العباد کی حق تلفی اللہ پاک بھی معاف نہیں
فرماتا جب تک وہ انسان معاف نہ کرے جسکا حق تلف کیا ہو۔
عام مسلمانوں کے 5 حقوق از بنت متین سرمد،فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت حقوق ہیں قرآن و
احادیث میں بھی اس کے بارے میں بہت تاکید آئی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم مسلمانوں
کے حقوق کا خیال رکھیں آئیے عام مسلمانوں کے چند حقوق ملاحظہ ہوں:
رشتہ داروں سے حسن سلوک: رشتے
داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ان کے ساتھ صلہ رحمی کریں اور قطع تعلقی سے
بچیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی
عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، 4/10، حديث:
4067)
ہمسائیوں سے حسن سلوک: ان
کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئیں ان کی ضروریات
کا خیال رکھیں خوشی اور غم میں ان کے ساتھ شریک ہوں، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل علیہ السلام
مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث
بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حديث: 6014)
مسلمان بھائی کو سلام کرنا: مسلمان
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے، رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لوگوں میں اللہ کریم کے زیادہ قریب وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (ابو
داود، 4/449، حدیث: 5197)
چھینک کا جواب دینا: جب
کوئی مسلمان چھینکے تو دوسروں کو چاہیے کہ اس کی چھینک کا جواب دے اتنی آواز میں
جواب دے کے سامنے والا سن لے، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کو
چھینک آئے تو اس کو الحمدللہ کہنا چاہیے اور اس کا بھائی یا ساتھی کہے یرحمک اللہ
پھر وہ کہے یہدیکم اللہ و یصلح بالکم کہ اللہ کریم تم کو ہدایت عطا فرمائے اور
تمہارے حال کو درست کردے۔ (بخاری، 4/163، حدیث: 6224)
مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے: مسلمانوں
کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو تکلیف پہنچانے سے بچے کیونکہ مسلمانوں کو
دکھ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے
دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(مسلم، ص 41،
حدیث: 65)
اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی
توفیق عطا فرمائے۔

دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان
کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی
قابل عمل صورتیں اپنانی چاہئیں، مثلاً
( 1 ) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو حسب حال خیر
خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے، حدیث پاک میں ہے: جس نے مریض کی عیادت
کی، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو
رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔1
( 2 ) ہم
ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں، ایک شخص کی مدد
کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا تکلیف
زدہ مسلمان کادکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے، حدیث پاک میں ہے: جوکسی مسلمان کی تکلیف
دور کرے اللہ پاک قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف دور فرمائے گا۔ 2
( 3 ) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے، حدیث پاک
میں ہے: جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے ( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی
ہوتی تھی اس نےمنع کیا ) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے
بچائے۔3
( 4 ) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے،
حدیث پاک میں ہے: فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل
خوش کرنا ہے۔ 4
( 5 ) تکلیف میں مبتلا مسلمان دل دکھادے تو اسے
معاف کر دیجئے، حدیث پاک میں ہے: اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت
میں اضافہ فرمادیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے
بلندی عطا فرماتا ہے۔5
( 6 ) کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اس کی مدد کیجئے، حدیث
پاک میں ہے: جس نے کسی غم زدہ مؤمن کی مشکل دورکی یا کسی مظلوم کی مدد کی تواللہ
پاک اس شخص کےلئے73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے۔6
( 7 ) قرض دار سے قرضہ معاف کرکے یا کم از کم اس کے
ساتھ نرمی کرکے اس کی بےچینی کم کرنے کی کوشش کیجئے، حدیث پاک میں ہے: جو تنگدست
کو مہلت دےيا اس کاقرض معاف کر دے اللہ پاک اسے جہنم کی گرمی سےمحفوظ فرمائےگا۔ 7
اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرنےاور ان
کادکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حوالہ جات
(1) مسند احمد، 5 / 30، حدیث: 14264
(2) مسلم، ص1069، حدیث: 6578
(3)شرح السنّۃ، 6 / 494، حدیث: 3422
(4)معجم کبیر، 11 / 59، حدیث: 11079
(5) مسلم، ص 1071، حدیث: 6592
(6)شعب الايمان، 6 / 120، حدیث: 7670
(7) مسنداحمد، 1 / 700، حدیث: 3017
عام مسلمانوں کے 5 حقوق از بنت طاہر راحیلہ،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک
حقوق اللہ دوسرا حقوق العباد اور ان دونوں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے اگر کوئی
حقوق اللہ میں کوتاہی کرے یعنی نمازیں قضا کرتا رہے تو یہ حقوق اللہ میں کوتاہی
ہوگی لیکن اس کی تلافی کی صورت ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بندہ نمازوں کو قضا کرنے
سے سچی توبہ کرے اور جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا کرے مگر یہ حقوق اللہ ہیں
لیکن حقوق العباد کا معاملہ سخت ہے حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ جس کی
حق تلفی کی ہوتی ہے اس سے معافی مانگنا ضروری ہے مثال کے طور پر اگر کسی نے کسی کی
دل آزاری کی تو س سے معافی مانگنا ضروری ہے اگر وہ شخص معاف نہ کرے تو قیامت کے دن
اس کا حساب ہوگا لہذا ہمیں حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور حقوق العباد
میں عام مسلمان کے حقوق بھی شامل ہیں اور حدیث پاک میں مسلمانوں کو ایک جسم قرار
دیا گیا ہے جیسا کہ
اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان والوں کی آپس
میں محبت، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار
ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث:
6011)
رسول اللہ ﷺ کا انتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ
افراد ہوں یا الفاظ۔ اس حدیث پاک میں جن الفاظ کو زبان مصطفےٰ سے ادا ہونے کا
اعزاز ملا ہےان میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً:
( 1 ) تراحم کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر
صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔
( 2 ) توادّ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت
بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسےایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں، ملاقات کی جائے
وغیرہ۔
( 3 ) تعاطف کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ (فتح
الباری، 11 / 372، تحت الحدیث: 6011)
اپنے رشتہ داروں کے علاوہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے
ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھی کچھ حقوق ہیں۔ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان
کو ادا کرے چند یہ ہیں:
(1)ملاقات
کے وقت سلام کرے اور مرد مرد سے اور عورت عورت سے مصافحہ کرے تو بہت ہی اچھا ہے۔
(2) سلام
کا جواب دے۔ یاد رکھیں کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
(3)مسلمان
چھینک کر ''الحمدﷲ'' کہے تو ''یرحمک اﷲ'' کہہ کر اس کا جواب دے۔
(4)بیمار
کی تیمارداری کرے۔
(5)اپنی
حیثیت کے مطابق ہر مسلمان کی خیر خواہی اور اس کی مدد کرے۔
(6)مسلمانوں
کی نماز جنازہ اور ان کے دفن میں شریک ہو۔
(7)ہر
مسلمان کا مسلمان ہونے کی حیثیت سے اعزاز و اکرام کرے۔
(8)کوئی
مسلمان دعوت دے تو کوئی وجہ نہ ہو تواس کی دعوت کو قبول کرے۔
(9)مسلمان
کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور ان کو اخلاص کے ساتھ ان عیبوں سے باز رہنے کی نصیحت
کرے۔
(10)اگر
کسی بات میں کسی مسلمان سے ناراضی ہوجائے تو تین دن سے زیادہ اس سے سلام و کلام
بند نہ رکھے۔
اللہ کریم ہمیں عام و خواص اور ہر مسلمان کے حقوق کا
خیال اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر
پانچ حقوق ہیں: (1) سلام کا جواب دینا۔ (2) مریض کی بیمار پرسی کرنا۔ (3) جنازے کے ساتھ جانا (4) اس کی دعوت قبول کرنا (5) اور چھینک کا جواب یرحمک الله کہہ کر
دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)یہ حدیث
مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں بلکل واضح ہے۔ البتہ مذکورہ حقوق میں چند
باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے:
(1) سلام کا جواب دینے میں بعض جگہ رسمی طور پر
ہاتھ ملا لیتے ہیں یا دعائیں دیتے ہیں مگر وعلیکم السلام کا لفظ نہیں کہتے حالانکہ
یہ ضروری ہے، سلام کا جواب دینا واجب ہے جیتے رہو لمبی عمر پاؤ کہنے سے یہ واجب
ادا نہیں ہوتا۔
سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ بعض سنتوں کا ثواب فرض
سے زیادہ ہے سلام سنت ہے اور جواب سلام فرض ہے مگر ثواب سلام کرنے کا زیادہ ہے۔
(2) مریض
کی مزاج پرسی میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ ایسے وقت میں عیادت کیلئے جائیں جب اس
کو ملاقات کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور اتنی دیر اس کے پاس نہ بیٹھے کہ وہ اکتا
جائے، یا اپنی کسی ضرورت میں تنگی محسوس کرے۔ مثلاً بعض اوقات کوئی مریض پر اس طرح
مسلط ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سونا چاہے تو سو نہیں سکتا یا خاموش رہنا چاہتا ہے تو
لحاظ کی وجہ سے نہیں رہ سکتا۔
مریض کی عیادت کرنے کا ثواب: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ مسلسل جنت کی روش میں رہا۔
آپ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! جنت کی روش کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کے پھل جنہیں وہ چنتا ہے۔ (مسلم، ص 1066،
حدیث: 6554)
جب بھی کوئی بیمار ہو اس کی عیادت ضرور کیا کریں اس
کے پاس نہیں جا سکتے تو کال کر کے پوچھ لیں۔ کوئی پریشانی کی بات اس کے سامنے مت
کریں۔ اللہ رب العزت ہمیں عمل صالحہ کرنے کی توفیق دے آمین یا رب العالمین
(3) جنازے
کے ساتھ جانے میں بھی اس کا خیال رہے کہ کوئی کام خلاف سنت نہ ہو۔ آج کل جنازے میں
بہت سی چیزیں اپنی طرف سے بڑھائی گئی ہیں، ان سے بچنے اور کسی مناسب موقع پر
دوسروں کو بھی ان رسومات و بدعات سے منع کرے۔
نماز جنازه: جس مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس
آدمی شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس میت کے حق
میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے میت کی چار پائی اس طرح
رکھیں کہ میت کا سر شمال کی سمت قبلے کی دائیں جانب اور پاؤں جنوب کی جانب ہوں،
پھر باوضو ہو کر صفیں باندھیں۔ میت اگر مرد ہے تو امام (اس کے ) سر کے سامنے کھڑا
ہو اور اگر عورت ہے تو اس کے درمیان کھڑا ہو۔
پھر دل میں نیت کر کے دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں
تک اٹھائیں اور پہلی تکبیر کہہ کر سورہ فاتحہ پڑھیں۔
(4) دعوت
قبول کرنے میں بھی یہ شرط ہے کہ وہاں جا کر کسی نا جائز کام میں شرکت نہ ہو جیسے
آج کل ولیمہ وغیرہ کی دعوتیں، بے پردگی، غیر محرم مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط
اور فلم سازی اور تصویر بازی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ایسی دعوتوں کا قبول کرنا جائز
نہیں۔ اگر تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو دعوت قبول کر لینی چاہیے۔
(5) چھینکنے
والا جب الحمد لله کہے تو اس وقت اس کو یہ کہ کر دعا دینی چاہئے یرحمک اللہ اللہ
تم پر رحمت کرے۔ البتہ کچھ لوگ دینی یاد نیاوی کاموں میں مشغول ہیں تو وہاں چھینکنے
والے کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ الحمد لله زیر لب کہے تا کہ سننے والوں پر یہ دعائیہ
کلمہ کہنا لازم نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے
یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو کم کرتے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق پورے
کرنے اور پیارے آقا ﷺ کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔