محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا اور مال و دولت(یہاں تک کہ جان تک) اس پر قربان کر دیتا ہے۔

عشق و محبت میں فرق: بلاشبہ محبت خدا اور رسول ایک نعمت ہے جن کے دل اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں ان کی روح بھی اس کی مٹھاس محسوس کرتی ہے ان کی زندگیاں جہاں اس پاکیزہ محبت سے سنورتی ہیں وہیں یہ محبت تاریکی میں امید کا چراغ بن کر انہیں راہ حق سے بھٹکنے سے بھی بچاتی ہے مگر یاد رکھیے! محبت اور عشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ اور رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ العشق فرط الحب یعنی محبت میں حد سے تجاوز کرنا عشق ہے اعلی حضرت،مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکّدہ (یعنی بہت زیادہ پکّی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار اس طرح ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)

عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول و ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔

عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

بندے کو اللہ پاک کے بعد سب سے زیادہ محبت اللہ پاک کے رسول ﷺ سے ہونی چاہیے جیسا کہ سیرت مصطفی صفحہ 831 پر ہے: اس آیت مبارکہ کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الہی اور قہرخداوندی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ و رسول کی محبت نہیں یقینا بلاشبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

اللہ ہم سب کو حقیقی معنوں میں عشق رسول ﷺ نصیب فرمائے۔ آمین