ادب ایسے وصف کا نام
ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتاہے، یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیر ی علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الہی
میں حضوری کا خیال رکھے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا ترجمہ کنزالایمان ۔ اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ
سے بچاؤ۔(پارہ ۲۸، سورہ التحریم آیت۶)
اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کو دین اور آداب
سکھاؤ۔
مزید فرماتے ہیں
حقیقت ادب یہ ہے کہ انسان میں اچھی عادات جمع ہوجائیں اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مبار ک علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :ہمیں زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضر ورت ہے۔(رسالہ قشیریہ باب الادب ص ۳۱۵)
شریعت مطہرہ میں ادب
کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اخلاق و آداب کو استوار
کرنے کی کوشش کرے، ہر مسلمان اپنی زندگی میں ایسے عمدہ و بہترین نمونے کا محتاج
ہے، جس کے سانچے میں زندگی ڈھال كر اپنے اخلاق و آداب کو شریعت کے مطابق بناسکے۔
حضور صلی
اللہ تعالٰیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے رب
نے اچھا ادب سکھایا۔‘‘ (الجامع الصغیر سیوطی ، باب الھمزہ الحدیث، ۳۱۰)
حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ادب سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا، اور ہمیں چاہیے
کہ خود بھی اخلاق و ادب سیکھیں اور اپنے
بچوں کو بھی اس کی تعلیم دیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ادب لازمی ہے وہ چاہے علم حاصل
کرنا ہو یا دنیا یا دین کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اخلاق و آداب لازمی ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں،:ولادین
لمن لا ادب لہ ترجمہ : یعنی جو
باادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں، (فتاویٰ رضویہ ج ۲۸،ص ۱۵۹)
دین کے آداب کا بہت
بڑا حصہ ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
آداب کے متعلق امام
محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمۃ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی
الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے
المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے کی توفیق دے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اسلامی بہنوں کی مجلس رابطہ کے زیراہتمام 19
ستمبر 2020ء کو ریجن فیصل آباد، زون ساہیوال، سمندری اطراف کابینہ
کی مجلس رابطہ کابینہ سطح ذمہ دار اسلامی
بہنوں نے شخصیات سے ملاقات کی اور انہیں نیکی
کی دعوت پیش کرتے ہوئے دعوت اسلامی کے مدنی کاموں سے آگاہی فراہم کی۔
فیصل آباد ریجن نگران کا مکتوبات و اوراد عطاریہ کی ذمہ
داراسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
اسلامی بہنوں کی مجلس مکتوبات و اورادِ عطاریہ زیراہتمام 21 ستمبر
2020ء کو فیصل آباد ریجن نگران اسلامی بہن نے مجلس مکتوبات و اوراد عطاریہ کی
ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ سکائپ مدنی مشورہ لیا جس میں رکن ریجن اور زون ذمہ دار اسلامی
بہنوں نے شرکت کی ۔
ریجن نگران اسلامی بہن نے کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داراسلامی بہنوں کی تربیت فرمائی اورگاؤں گوٹھوں میں دعوت اسلامی کے مدنی کام بڑھانے، دعائے صحت اجتماعات کروانے کا ذہن دیا نیز شعبے کے مدنی کام بڑھانے کے لیے اوراد ِعطاریہ کے بستے لگانے کی ترغیب دلائی ۔
ہمارا
پیارا مذہب، دینِ اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم مقدس ہستیوں، متبرک
مقامات اور با برکت چیزوں کا احترام کریں اور بے اَدَبی اور بے اَدَبوں کی صحبت سے
اپنے آپ کو دور رکھیں۔ جیسا کہ منقول ہے کہ :
” مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ إلِّا بالحُرْمَۃ وَمَا سَقَطَ مَنْ
سَقَطَ إلَّا بِتَرْکِ الحرمۃ والتَعْظَیْمِ“ یعنی جس نے
جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب سے پایا اور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے
کی وجہ سے ہی کھویا۔۔ ( تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص42) شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ " با
ادب با نصیب، بے اَدَب بے نصیب "
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے.
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو۔
( وسائل بخشش)
الحمد للّٰہ ہم
مسلمان ہیں اور مسلمان کیلئے بنیادی طور پر (Basically) اللّٰہ
اسکے رسولوں اسکی کتابوں، فرشتوں، قرآنِ کریم، علماءِ کرام وغیرہم کی تعظیم و تکریم
اور ان کا ادب کرنا لازم ہے۔ آئیں اسی
ضمن میں نامِ خدا، انبیاء کرام وغیرہم کی تعظیم کے متعلق روایات ملاحظہ کرتے ہیں۔
نامِ خدا کے ادب کی برکت:
چنانچہ حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو
نامِ خداوندی کا ادب کرنے سے کیسا عظیم مقام حاصل ہوا کہ آپ خود فرمایا کرتے
کہ" مجھے وہ مقام حاصل ہوا کہ 100 سال کی عبادت و ریاضت سے بھی وہ مقام حاصل
نہ ہو سکتا تھا۔
(حضرات القدس، مکاشفہ،35، جز،2، ص،113)
انبیاء کرام کا ادب و
احترام: اللّٰہ پاک
کے بعد تمام مخلوق میں انبیاء کرام علیہم السلام
افضل و اعلیٰ ہیں، ان کی تعظیم و ادب ضروری اور ان کی شان میں ادنی سی توہین یعنی
گستاخی و بے اَدَبی کفر ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: کسی نبی کی ادنی توہین یا
تکذیب (یعنی جھٹلانا) کفر ہے۔۔ (بہار شریعت، حصہ،1، 1 /47)۔
علماء کرام کا ادب
و احترام: انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ علمائے کرام رحمہم
اللّٰہ السلام کا ادب بھی ضروری ہے۔ یاد رکھئے! علماء وارثِ انبیاء ہیں کیونکہ
یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی میراث یعنی
علمِ دین حاصل کرتے اور اس کی ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ پاک
میں ہے: زمین پر علماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں
رہنمائی حاصل کے جاتی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند انس بن مالک، 4/ 314،حدیث،
12600)۔
قرآنِ کریم کا ادب و
احترام: قرآنِ کریم کا سب سے
بڑا ادب جو ہر مسلمان پر انتہائی واجب ہے وہ یہ کہ طہارت و پاکی کے بغیر (Without
Cleanliness & Purity) اسے ہر گز ہر گز نہ چھوئے جیسا کہ نور الٕایضاح
میں ہے " اگر وضو نہ ہو تو قرآن عظیم چھونے کیلئے وضو کرنا فرض ہے۔ (نور الإیضاح،ص،59)
مذکورہ صرف چند امور بنیادی طور پر جن کا ادب
ضروری ہے وہ بیان کیے گئے۔ جبکہ مسلمان پر
ہر وہ چیز جس کا دینِ اسلام سے تعلق ہو اس کا ادب کرنا چاہیے۔
اللّٰہ پاک
ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی اور بے اَدَبوں کی صحبت سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو
بھی محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللّٰہ علیہ وسلم۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
دعوتِ اسلامی کے زیراہتمام 20 ستمبر 2020ء کو فیصل
آباد ریجن ، میانوالی زون کی نورپور کابینہ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں ذیلی سطح تک کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے
شرکت کی ۔
انسان اور جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے ادب ہے ۔ یہ وہ
تحفۂ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ
نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔
ادب وآداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے گو کہ دیگر
اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت
جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن
اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بات
کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسنِ اخلاق اور
ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے
پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت
کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا
ہے۔ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد
ہوتا ہے۔ سید ابو بکر غزنوی زندگی بھر خلوص اور گرم جوشی سے سیرت طیبہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان شفاف چشموں سے لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے
کوشاں رہے۔ ان کے لیکچرز، خطبات اور تحریریں اسلامی آداب، شائستگی اور قرینوں کی
تعلیم کے پاکیزہ اور جانفزا جھونکوں سے بھر پور ہوتے۔ ۔ یہی آداب ہیں جنہیں اخلاق
بھی کہا جاتاہے اور اخلاق ہی میزان عمل کاسب سے وزنی اثاثہ ہے
ادب کی مثالوں میں مشہور ترین مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم
کے حکم پر اپنی جان کا تحفہ موت کی طشتری میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ بقولِ شاعر:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
ہاں اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ بھوک اور مفلسی انسان کی نفیس حسوں کی قاتل ہے۔’’
چنانچہ اگر کوئی قوم دنیا میں عزت پانا چاہتی ہے تو پہلے وہ
اپنے لیے بانصیب افراد ڈھونڈ کے لائے۔ اگر بانصیب لوگ چاہییں تو پہلے باادب لوگ
لاؤ ! اگر باادب لوگ چاہییں تو پہلے قوم سے بھوک ، افلاس اور غربت کو دور کرو۔
آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ
ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی
ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اسلامی بہنوں کی مجلس شعبہ تعلیم کے زیراہتمام 21ستمبر 2020ء کو فیصل
آباد، پاکپتن زون، پاکپتن کابینہ کی ڈویژن پاکپتن میں شعبہ تعلیم کی ذمہ داراسلامی
بہنوں کے ساتھ مدنی مشورہ ہوا جس میں بنگہ حیات کابینہ اور پاکپتن کی ذمہ دار
اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ ادب کے سبب انسان ترقی وعروج پاتا ہے ،اسی ادب کی بدولت انسان
دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو تا او ر بے ادبی کے سبب ذلت و رسوائی کے عمیق گھڑے میں گر سکتا ہے ۔ ،اسی ادب کی بدولت موسی علیہ السلام کے مقابلے
میں آنے والے جادوگروں کو کلمہ نصیب
ہوا۔اسی لئے کہا جاتاہے ”با ادب با نصیب
“مزید چند واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔
بسم اللہ
شریف کے ادب کی برکت:
حضرتِ سیِّدُنا مَنْصُور بن عَماّر رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ آپ نے بسم اللہ
الرحمن الرحیم لکھا ہواکاغذ رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی تو نگل گئے
۔رات کو خواب میں کسی نے کہا: مُقَدَّس کاغذ کے اِحتِرام کی بَرَکت سے اﷲ پاک نےتجھ پر حِکمت کے دروازے کھول
دیئے۔(الرسالۃ القشیریۃ ص48)
منقول ہے کہ ایک نیک شخص کے شَرابی بھائی کا انتقال نشے کی حالت میں ہوا خواب میں اسے دکھا گیا اور پوچھا تجھے جنت
کیسے ملی ؟کہا کہ ایک کاغذدیکھاجس پر بِسْمِ
اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم تَحریرتھا،میں نے اُسے اُٹھایا اورنِگل
لیا۔(پھر انتقال ہو گیا )جب قَبْرمیں پہنچا تو مُنْکَرنکَیرکے سُوالات پرمیں نے
عرض کیا : آپ مُجھ سے سُوالات فر ما رہے ہیں، حالانکہ میرے پیارے پَروَرْدگار کاپاک نام میرے پیٹ میں موجودہے ۔ کسی نِدادینے
والے نے نِدا دی: صَدَق عَبْدِی قَدْغَفَرْتُ لَہٗ یعنی میرابندہ سچ
کہتاہے بے شک مَیں نے اِسے بخش دیا۔''
(نزہۃ المجالس1/41)
اساتذہ کا ادب:
جو اپنے اساتذہ کا ادب کرتا ہے اور ان کی چاہت کو
پورا کرتا ہےوہ کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے اور جو ان کا دِل دکھاتا ہے، ان کی
غیبت کرتا ، ان کی بیٹھنے کی جگہ کی بےادبی کرتا یا بلاوجہ ان سے بغض رکھتا ہےوہ
نہ صرف علم کی مٹھاس سے محروم رہتا ہےبلکہ اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا
پڑتاہے۔ہمارے بڑے بڑے اَئمہ و فقہاء جن کا چہار سو شہرہ ہے،جن کا کلام بطورِ دلیل
پیش کیا جاتا ہےاور جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہےان کی سیرت میں استاد کے ادب کا پہلو بہت نمایاں نظر آتا
ہے۔
جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی،وہ علم کی
برکات سے محروم رہے گا۔
(فتاویٰ رضویہ،10/96،97)
اپنے اُستاذ کا ادب کریں:
کسی عربی
شاعر نے کہا ہے : مَاوَصَلَ
مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَۃِ وَمَاسَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ، یعنی
جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ
اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔
حضرت سہل بن
عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ
سےکوئی سوال کیا جاتا، تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو،مجھ سے پوچھ
لو۔''لوگوں نے عرض کی، ''حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں
دیا کرتے تھے؟'' فرمایا،''جب تک میرے اُستاد حضرت ذوالنون مصری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حیات تھے،ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے
سے گریز کیاکرتا تھا۔''
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے آگے بڑھ کر زید بن ثابت رضی اللہ
عنہ کی سواری کی رکاب تھام لی۔یہ دیکھ کر حضرت زیدرَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا،''اے رسول اللہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ کے چچا کے
بیٹے!آپ ہٹ جائیں۔'' اس پر حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا،''علما
واکابرکی اسی طرح عزت کرنی چاہیئے۔''(جامع بیان العلم وفضلہ،ص 116)
کتابوں کا ادب:
شيخ امام حلوانی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ميں نے علم کے خزانوں کو
تعظيم و تکريم کرنے کے سبب حاصل کيا وہ اس طرح کہ ميں نے کبھی بھی بغيروضو کاغذ کو
ہاتھ نہيں لگايا۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص 52)
ایک مرتبہ شيخ شمس الائمہ امام سرخسی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیٹ خراب ہو گيا۔ آپ کی عادت تھی کہ
رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کيا کرتے تھے ۔ ایک رات پيٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو17 بار وضو
کرنا پڑا کیونکہ آپ بغير وضو تکرار نہيں کيا کرتے تھے۔(تعلیم المتعلم طریق
التعلم،ص52)
“باادب با نصیب ”کے مقولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی
کتابوں ، قلم، اور کاپیوں کی تعظیم کریں ۔ انہیں اونچی جگہ پر رکھئے ۔ دورانِ
مطالعہ ان کا تقدس برقرار رکھئے۔ کتابیں اُوپر تلے رکھنے کی حاجت ہوتو ترتیب کچھ
یوں ہونی چاہے ، سب سے اُوپر قرآنِ حکیم ، اس کے نیچے تفاسیر ، پھر کتبِ حدیث ،
پھر کتبِ فقہ ، پھر دیگر کتب ِ صرف ونحو وغیرہ ۔ کتاب کے اوپر بلاضرورت کوئی دوسری
چیز مثلاً پتھر اور موبائل وغیرہ نہ رکھیں ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی
ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اسلامی بہنوں کی مجلس شعبہ تعلیم کے زیراہتمام 21ستمبر 2020ء بروز پیر
فیصل آباد ریجن، اوکاڑہ زون کی بصیر پور کابینہ میں شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام مدنی
مشورہ ہوا جس میں شعبہ تعلیم زون ذمہ دار،
کابینہ، ڈویژن اور علاقہ سطح کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
زون ذمہ دار اسلامی بہن نے کارکردگی فارم، شیڈول اور شعبے کے
مدنی پھول سمجھائے ۔وقت پر کارکردگی دینے کا ذہن دیا نیز مدنی کام بڑھانے کے لیے
اہداف بھی طے کئے ۔
دعوت اسلامی کے زیراہتمام 19 ستمبر 2020ء کو
فیصل آباد ریجن نگران اسلامی بہن نے جھنگ
زون کی چینوٹ کابینہ کے شہر چینوٹ میں مدنی مشورہ لیا جس میں زون تا ڈویژن سطح ذمہ داراسلامی بہنوں نے
شرکت کی ۔
شرفِ انسانیت یہ ہے
کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب کا جوہر نہ ہو وہ انسان نما
حیوان ہوا کرتا ہے۔ اصلاحی تعلیمات مکمل طور پر ادب ہی پر مبنی ہیں او رادب ہی کی
تعلیم و تلقین کرتی ہیں۔
اس کارخانہ قدرت میں
جس کسی کو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتا
ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے، شاید اسی لیے کسی دانش مند نے کہا ہے کہ ”باادب
بانصیب اور بے ادب بے نصیب “
عرض یہ کہ ادب ہی ایک
ایسی نعمت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔
جس طرح ریت کے ذروں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مودب شخص
انسانوں کے جم غفیر میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ
اصحابِ کہف اللہ والوں سے محبت کرنے
کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کتے کو
انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا اب دیکھیں اللہ والوں سے محبت کرے، اگر نجس جانور وہ تو وہ جنت میں داخل
ہوجائے اور بلعم بن باعورا جس نے نبی کی بے ادبی کی حضرتِ موسیٰ علیہ
السلام کی شان میں گستاخی کی ، انسان ہونے کے باوجود فرمایا کہ
گستاخی کی وجہ سے یہ جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔
انسان اگر بے ادب ہو
جہنمی ہوجائے اگر کتے جیسا نجس جانور با ادب ہو اور اللہ کے نیک بندوں کا ادب کرنے والا ہو ان سے محبت کرنے والا ہو
تو اللہ تعالیٰ اسے جنتی
بنادے ۔
حضرت سیدنا موسیٰ کلیم
اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام جب اللہ
تعالیٰ کے حکم سے فرعون کو دعوتِ ایمان دینے کے لئے تشریف لے گئے
تو فرعون نے آپ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ
کر آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے
بجائے آپ کے مقابلے کے لیے اپنی سلطنت کے جادو گروں کو جمع کیا، جب مقابلےکا وقت
ہوا تو ان کے جادوگروں نے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا اے موسی یا تو آپ اپنا اعصا ڈالیں یا ہم اپنے جادو کی
لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکیں، ان کا یہ کہنا حضرت سیدنا موسیٰ علیہ
السلام کے ادب کے لیے تھا کہ وہ بغیر آپ کی اجازت کے اپنے عمل میں
مشغول نہ ہوئے، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، تم پہلے ڈالو جب انہوں نے
اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدھے نظر آنے لگے اور
میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا، پھر اللہ کے حکم سے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا Stap ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدھا
بن گیا، اور جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا، پھر جب موسیٰ علیہ
السلام نے اپنے دست مبارک میں لیا تو ہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ یہ
معجزہ دیکھ کر ان جادوگروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’اٰمنا برب العالمین ‘‘ یعنی ہم
تمام جہانوں کے ر ب پر ایمان لائے کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے، جادو گروں نے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کا ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر
اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان او رہدایت کی دولت سے سرفراز فرمادیا۔
گہرا بہت ہے رشتہ ادب
اور نصیب کا
جس طرح بھوک پر ہے حق
غریب کا
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں