نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ
کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة
والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی مجاہدانہ وسپاہیانہ
زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ
آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں
پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ نے بچوں
کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جو
چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں اسی طرح آپ نے
فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے (صحیح مسلم)
بچوں
کے ساتھ حسنِ سلوک کے عطر بنیر سیرت کے
چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:
اولاد واحفاد کے ساتھ سلوک :
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
فرزند حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ بڑے غمزدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے
آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے
تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا: آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب دیا، اے ابن عوف یہ رحمت ہے، بلا شبہ
آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس
سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔
پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غم
زدہ ہیں اس صورتِ حال کو دیکھ کر حضرت انس
نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا
زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں
کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انھیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقع
قربت وانسیت سے ممکن ہے ڈانٹ ڈپٹ ، زجرو
توبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا حتی
کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا
بھر پور خیال رکھا ۔چنانچہ اپنے نواسوں سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو
ساتھ لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
نے سجدہ طویل فرمایا: حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں
کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ
کرام نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا! ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش
آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپ نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی؛
بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی
تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں۔
اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت
حسن رضی
اللہ عنہ کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ
حضور میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو
نہیں چوما آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔
ایک
د فعہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت
حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار! کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
غور کیجئے ! آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ
سلوک کے ترک پر ترہیب ارشاد فرمائی کہ وہ
شخص عند اللہ بھی قابلِ
رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے۔
حضرت
ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی
دیر میں وہ آگئے، آپ نے انھیں گلے سے لگایا،
بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے
محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا
انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ
شفقت فرماتے بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ پر حالت
ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام
فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے۔
بعض دفعہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے
ان کے لیے دعا فرماتے، آپ نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ
رہنے کا طریقہ سکھلایا۔
دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل:
ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں صرف اپنے ہی
بچوں سے، دوسروں کے بچوں سے محبت یکسر نا پید ہے، آپ نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا،
جہاں آپ نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا
اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔
ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر
ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کے در پر حاضر ہوا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس
کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے
برکت کی دعافرمائی، یہ ابو موسی اشعری کے
بڑے صاحبزادے تھے۔
حضرات
صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے،
اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے
رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نماز میں تخفیف فرمادیتے۔ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
نے ام خالد کو بلایا بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت
تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے ۔ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے
کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا۔(یعنی پاک کرنے ے طریقہ
پر پاک کیا )
حضرت
انس رضی
اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے
ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر!
مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود
صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں
خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے
جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اللہ سبحان و تعالی نے
ہماری اتنی کوتاہیوں کے باوجودہمیں بےشمار نعمتوں سے نوازا ، اگر ہم جائزہ لیں تو
لگے گا کہ ان سب نعمتوں میں سے سب سے بڑی
نعمت ہماری اولاد ہے ہمارے بچے ہمارے جسم کا ایک حصہ، ہمارے جگر کے ٹکرے ،گھر کے آنگن میں کھیلتے ہوئے اپنی ننھی مُنّی باتوں
اور شرارتوں سے من کو بھاتے ہوئے عزیز از جان بن جاتے ہیں۔ مگر ہم میں سے اکثر ماں
باپ یا تو بہت زیادہ لاڈ پیار سے ان کو بگاڑ دیتے ہیں یا ان پہ اتنی سختی کرتے ہیں
کہ بچے ذہنی مریض بن جاتے ہیں ،پھر یا تو غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں یا پھر چپکے
سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہمیں اگر کہیں سے
رہنمائی لینی ہے تو اس کے لئے ہمارے پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے جب سفر سے واپس آتے
تھے تو بچے انکے استقبال کے لئے دوڑے جاتے اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے لپٹ جاتے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
ان سے پیار کرتے اور اپنے ساتھ سوار کر لیتے۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصی توجہ
فرماتے انکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال رکھتے انکے کھیل کا بھی لحاظ کرتے نماز کی
ادائیگی کے دوران ننھے منُےّ حسن و حسین سجدے کی حالت میں آپکی پیٹھ مبارک پہ
سوار ہو جاتے تو اپ بجائے غصہ کرنے کے اپنے سجدے کو طویل فرما لیتے۔
اقرع بن حابس نے دیکھا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم بچے کو چوم رہے ہیں یہ
دیکھ کر کہنے لگا حضور میرے دس بچے ہیں مگر میں نے کبھی ان سے پیار نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا
اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری:5997)
محبوب خدا نہ صرف مسلمان بچوں بلکہ غیر مسلم بچوں کے ساتھ بھی
نرمی والا معاملہ فرماتے تھے بے حد مصروفیت کے باوجود صحابہ کرام کی اولاد کے ساتھ
بھی محبت و نرمی فرماتے اور ان کے شوق و مشاغل کے بارے میں بات چیت فرماتے آپ صلی علیہ وسلم نے خصوصی طور پر معاشرے کے کمزور
طبقے پر رحم کی تلقین فرمائی اور اپنے عمل سے اسکی مثالیں پیش کیں اپنی امت کو نصیحت
فرمائی ،بچوں کے حقوق اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی سے پرہیز کرو ہمارے نبی پیارے
نبی کی پوری زندگی ہمارے لئے مثال ہے ان کے فرمان پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ایک
نسل کی پروش کریں تو یہی بچے نہ صرف ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے بلکہ محب وطن
بنیں گے اور اخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اولاد اللہ
تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کی پیدائش پر خوشی
اور مسرت کا اظہار کرنا اور اس کے فضل و شکر بجالانا، تقاضائے بندگی میں ہے، لیکن ان كی تربیت کرنا ہماری ایک اہم
ذمہ داری ہے ، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی روشنی میں والدین كو بچوں کے ساتھ اچھا
رویہ اختیار کرنا چاہیے۔آئیے آپ علیہ السلام کی بچوں کی تربیت کے بارے میں سنتے ہیں۔
حدیث
پاک:
حضرت ابورافع فرماتے
ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سیدہ فاطمہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں حضرت حسن بن علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہما پیدا ہوئے تو آپ علیہ السلام نے ان کے کان میں اذان کہی۔(حوالہ ، ہیثمی مجمع الزوائد ،۴۔59)
حدیث
مبارکہ :
ام المومنین سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس نومولود بچے
لائے جاتے تو آپ علیہ السلام ان کے لیے برکت کی
دعا فرماتے اور انہیں گھٹی دیتے۔تحنیک
کرنا سنت رسول صلی اللہ تعالٰ علیہ وسلم ہے۔(مسلم ، الصحیح، کتاب الادب ۳،۱۹۹)
بچے پیدا ہونے کے بعد
اس کا اچھا اسلامی نام رکھے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراہیم کا نام رکھا تھااور فرمایا کہ میں نے اپنے باپ ابراہیم
کے نام پر ابراہیم رکھا۔
حدیث
مبارکہ:
سیدہ عائشہ بیان کرتی
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین کا عقیقہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن کیا ، اسی دن ان کے نام رکھے اور ان دونوں کے
سروں سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کا حکم فرمایا۔(ابن حبان ۱۲، ۲۷)
حدیث مبارکہ سے یہ
بھی ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بچوں کو سب سے پہلے کلمہ طیبہ سکھانے کی تلقین فرمائی۔
حدیث
مبارکہ:
اللہ عزوجل کے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے اور وہ اس
کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے۔(حوالہ ترمذی ج ۳، ص۲۸۲)
آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچوں سے پیار کرتے تھے
انہیں چومتے تھے ایک روز آپ علیہ السلام حضرت حسن بن علی کو چوم رہے تھے اقرع بن جانبین تیمی آپ علیہ
السلام کے پاس بیٹھے تھے دیکھ کر کہنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو نہیں
چوما آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو رحم
نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
( صحیح بخاری
کتاب الادب )
آدمی کا اپنے
بچوں پرخرچ کرنے کی تلقین حدیث مبارکہ میں
جا بجا آئی ہے اور اس کی فضیلت بھی ہے،آپ علیہ السلام نے فرمایا: آدمی
کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔(ترمذی ، شریف کتاب البروالصلۃ)
آپ علیہ
السلام نے فرمایا: اولاد کی خوشبو جنت کی خوشبو ہے۔(حوالہ احیائے
علوم جلد ۲)
آپ علیہ
السلام نے فرمایا اپنی اولاد کو عطا کرنے میں برابرکرو(حوالہ
احیائے العلوم جلد۲)
آپ علیہ
السلام بچوں کی تربیت کا خاص اہتمام فرماتے ان سے محبت سے پیش آتے،
انہیں گود میں بٹھاتے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے الغرض آپ علیہ السلام
تو اپنی بچی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ
عنہا سے بے حد محبت فرماتے ان کے لیے کھڑے ہوجاتے، کسی پر غصہ
نہیں ہوئے، اللہ عزوجل سے دعا ہےکہ اللہ
عزوجل ہمیں اپنے بچوں کی بہتر تربیت اور انہیں دینی تعلیم دینے
کی توفیق عطا فرمائےآمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم بچوں پرنہایت شفقت فرماتے تھے، بچے آپ کی خدمت میں بغرض دعا و تحنیک لائے جاتے تھے ۔ ایک روز اُم
قیس بنت محصن اپنے شیر خوار بچے کو خدمتِ اقدس میں لائیں، آپ صلی
اللہ تعالیٰ علہ وسلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھالیا اُس نے آپ صلی
اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر پانی بہادیا (یعنی پاک کرنے کے طریقہ پر اسے پاک
کر لیا )اور کچھ نہ فرمایا۔
آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے ایک روز آپ حضرت حسن بن علی رضی
اللہ عنہما کو چوم رہے تھے اقرع بن حابس تمیمی آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے دیکھ کر کہنے
لگے، میرے دس لڑکے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما، آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، جو رحم نہیں کرتا اس
پر رحم نہیں کیا جاتا۔
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ اسے رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا کرتے تھے آپ اس
پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ خدایا ہمیں اپنے مدینے میں اور اپنے پھل میں اور اپنے مد
اور اپنے صاع میں برکت دے۔اس دعا کے بعد جو بچے حاضر خدمت ہوتے ان میں سے سب سے
چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔( سیرت رسول عربی)
بچّوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا
ہے۔ بچّوں کی اچھے انداز میں تربیت اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے بنیادی حیثیت
رکھتی ہے، اس کے لئے سرکار ِدوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بچّوں کی
تربیت کا انداز کیسا تھا یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے اور
بعد آپ سے بڑھ کر بہترین تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔([i])
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی شفقت، مَحبّت، حُسنِ سلوک اور نرمی و حکمت بھرے انداز سے بچّوں
کی تربیت کا بھی خاص اہتمام فرمایا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ڈانٹنے سے
اجتناب فر ماتے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں گزارے مگر نہ تو کبھی آپ مجھ پر ناراض ہوئے اور نہ کبھی مجھے ڈانٹا
بلکہ یہ بھی نہ فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں کیا؟ یا کیوں نہ کیا؟ ۔([ii])
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے ،ایک
بار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے
میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے
کینہ نہ ہو، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمَحبّت کی اس نے
مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔([iii])
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دستر خوان پر بچّوں کو ساتھ بٹھاتے
اور انہیں کھانے پینے کے آداب سکھاتے۔ اگر کوئی بِسْمِ اللہ شریف پڑھے بغیر کھانا شروع کردیتا تو آپ
نرمی سے فرماتے بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر کھانا کھاؤ اسی طرح اگر کوئی بچّہ دوسرے کے سامنے سےکھانے لگتا تو
آپ اسے پیار سے فرماتے: بیٹا! کھانا اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔([iv])
اپنے مبارک افعال کے ذریعے بھی بچّوں کی تربیت فرماتے چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچّوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتے([v]) تاکہ انہیں سلام میں پہل کرنے کی عادت ہوجائے۔ آپ نے بچّوں
کے بارے میں فریا کہ وہ بڑوں کو سلام کرنے
میں پہل کیا کریں۔([vi])
جب کوئی بچّہ غلط کام کرتا تو سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے شفقت و
نرمی سے سمجھاتے، اس کے حق میں دعا بھی فرماتے، ممنوعات سےمنع فر ماتے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بچپن میں مدینہ شریف کے باغوں میں جایا کرتے اور کھجور کے درختوں پر پتھر
مار کر کھجوریں گِرا کر کھجور کھاتے، آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نرمی سے فرمایا: پتھر مت مارا کرو البتہ جو کھجوریں پک کر نیچے گر جاتی
ہیں، انہیں کھا لیا کرو۔(وہ صحابی فرماتے ہیں) پھر آپ نے محبت سے میرے سَر پر ہاتھ
پھیرا اور میرے حق میں دعا فرمائی: ”اے اللہ !اس کا پیٹ بھر دے۔“([vii])
اللہ پاک ہمیں اچھے انداز میں اصلاح کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
لاہور شمالی زون کی فیروز پور کابینہ کی علاقائی دورہ
ذمہ داراسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 9ستمبر 2020ء کو جوہر
ٹاؤن میں جنوبی لاہور زون کا مدنی مشورہ ہواجس میں پاک علاقائی دورہ ذمہ دار، لاہور ریجن علاقائی دورہ ذمہ دار اور لاہور جنوبی زون ذمہ
دار اسلامی بہن نے جنوبی لاہور زون کی کابینہ
ذمہ داران اور ڈویژن، علاقہ اور حلقہ سطح کی اسلامی بہنوں کی تربیت فرمائی۔
مدنی مشورے میں ذمہ داراسلامی بہنوں کو شیڈول کے مطابق کام کرنے نیز تقرریاں مکمل کرنے
کے حوالے سے اہداف دئیے اور مدنی مشورے کے اختتام پر حوصلہ افزائی کے لیے مدنی تحائف پیش
کیے۔
شیخ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے
جسم کے مختلف اعضاء بالخصوص زبان اور نگاہ کو گناہوں اور فضولیات سے بچانے کے عظیم
جذبے کے ساتھ یوم قفل مدینہ کی مدنی تحریک
کا آغاز فرمایا
چنانچہ
نگران عالمی مجلسِ مشاورت کا کابینہ سائیٹ ایریا میں ڈویژن نگران اسلامی
بہن کی شادی کی محفلِ نعت میں شرکت
نگران عالمی مجلسِ مشاور ت کا مجلس بیرونِ ملک کے مختلف سطح کے ذمہ داران کے ساتھ مدنی مشورہ
کردم
از عقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل
در گوش دلم گفت کہ ایمان ادب است
میں
نے عقل سے سوال کیا کہ تو یہ بتا کہ
"ایمان" کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان ادب کا نام
ہے۔(فتاوی رضویہ ج23ص393)
پیارے
اسلامی بھائیوں ! ادب سرا سر دین ہے ادب چراغ راہ مبین ہے ادب رضائے العالمین ہے ادب ہے تو دین ہے ادب نہیں تو کچھ
نہیں ادب کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا:
ادب
تاجیست از فضل الٰہی
بنہ
برسر برو ہر جا کہ خواہی
ترجمہ
: ادب اللہ کے فضل کا
تاج ہے سر پے رکھ اور جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے
حضرت منصور بن عمار
کا انداز ادب:
حضرت
سیدنا منصور بن عمار رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ ان کو
راہ میں کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم اللہ
الرحمٰن الرحیم لکھا تھا۔ انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی
تو اسے نگل لیا۔ رات خواب دیکھا کوئی کہہ رہا ہے اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت
سے اللہ نے تجھ پر
حکمت کے دروازے کھول دیئے۔(فیضان سنت ص 113)
سیدنا امیر
معاویہ کا انداز ادب:
ایک
صحابی حضرت عابس ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی
صورت کچھ کچھ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے
ملتی تھی جب وہ تشریف لاتے حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ عنہ تخت سے تعظیماً سیدھے کھڑے ہو جاتے۔(ملفوظات اعلی حضرت ص377
مطبوعہ العلمیہ)
ایمان کی حفاظت کا نسخہ:
حضرت
علامہ ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ سے منقول ہے حضرت سیدنا جنید بغدادی علیہ الرحمۃنے فرمایا محفل میلاد میں ادب و تعظیم کے ساتھ حاضری دینے والے کا ایمان
سلامت رہے گا۔(فیضان سنت ص 112)
بے ادبی کی نحوست:
تفسیرِ
روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا
تھا تو اللہ اسے (اس کی
بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔
ایک
اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی
اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ
تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (روح البیان پارہ 17۔آداب مرشد کامل ص 25)
محفوظ
خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے
اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
بے ادبی کا وبال :
شیطان
نے لاکھوں سال اللہ پاک کی
عبادت کی ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سے
چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور وہ بے ادبی حضرت آدم
علیہ السلام کی تعظیم نہ کرنا تھا ۔
(
ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب ص26 مطبوعہ جمیعت اشاعت اہلسنت)
اسی
لیے قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا" وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ
تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس
میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور
تمہیں خبر نہ ہو۔(الحجرات ۔2)
خاموش
بھری محفل میں چلانا اچھانہیں
ادب
پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں