تیرھویں صدی ہجری کی علمی روحانی شخصیت جن کے بارے میں
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان کو سو سے زائد علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی جن کو
زمانہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے
نام سے جانتا ہے، ان کا فقہی انسائیکلو پیڈیا بنام العطایہ النبویہ فی فتاویٰ
رضویہ کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے اساتذہ کرام اور بالخصوص طلبائے دین اور علمائے
کرام کو اس کے مطالعہ کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور کئی طلبا تو اس کا مکمل مطالعہ
بھی فرماچکے ہیں اور دارالافتا اہلسنت سے جاری ہونے والے فتاویٰ جات میں اس کے
جزئیات اپنی برکتیں بکھیر رہےہیں آئیے ہم اب اس کی دس خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ فتاویٰ ر ضویہ
قدیم اردو زبان میں لکھا گیا ہے جس کے
ذریعے ہمیں اصل اردو زبان کے بارے میں پتا چلتا ہے۔
۲۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
معاشرے کے رسم و رواج اور عرض کو نگاہ میں رکھا اور مفرد اھم سعی کی ہے کہ ایک
مسلمان آسانی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد سر انجام دینے کی سعادت حاص کرے۔(ماخوذ از
مقالہ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ، جلد۷، فتویٰ رضویہ مخرجہ)
۳۔ اعلیٰ حضرت نے بنیادی نکتہ پر بیان کیا ہے کہ فرائض کی
ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کو رضا مخلوق پر مقدم رکھنے اور فتنہ فساد سے
بچنے اور اضافی علوم کی مدارات اور مراعات کے لیے غیر اولیٰ امور کو ترک
کردیاجائے۔(ایضا)
۴۔ فتاویٰ رضویہ کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس میں اعلیٰ
حضرت نے اپنے فتاویٰ کے مختلف ابواب فقیہ میں سے بعض موضوعات منتخب فرمائے ہیں،
اور ان میں سے ہر موضوع پر ایک الگ اور مقبول رسالہ تصنیف کیا ہے، یہ رسائل جہاں
بلند درجہ تحقیق و تدقیق کے آئینہ دار ہیں وہاں تمام متداول فقہی مصادر و ماخذ کا
نچوڑ بھی پیش کرتے ہیں۔(ماخواز مقالہ پروفیسر ڈاکٹڑ ظہور احمد اظہر، قبل جلد
نمبر۶، فتویٰ رضویہ مخرجہ)
۵۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ علیہ نے بدعات کے رد پر جو رسائل تصنیف فرمائے ان کا بھی کوئی
جواب اب تک دینے سے قاصر ہے۔
۶۔ فتاویٰ رضویہ میں جہاں فقہی مسائل ہیں محقق کا انحصار ہے
وہیں عقائد و اعمال میں حد درجہ سے کم نہیں ہے،۔
زمین ساکن ہونے پر تحریر کیا جانے والا رسالہ اس قدر بے
مثال و بے نیاز ہے کہ اس کا رد بھی نہ ابھی تک آیا ہے اور نہ آسکے گا، ان شآ اللہ
۸۔اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ علیہ سے جس علم کے بارے میں سوال ہوا اسی علم کے بارے میں جواب
عطا فرمادیا۔
۹۔اعلیٰ حضرت سے اردو میں سوال ہوا تو اس کا جواب اردو میں
، فار سی میں سوال ہوا تو جواب فارسی میں اور اگر سوال عر بی میں ہوا تو اس کا
جواب بھی پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، کی زبان (یعنی
عربی) میں عطا فرمادیا۔(اگرچہ رضا فاؤنڈیشن والوں نے عربی اورفار سی سوالات و
جوابات کا اردو ترجمہ کردیا ہے)
۱۰۔ جہاں جہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی تحقیقات پیش کیں اور اگر کوئی اسلاف کی تحقیق کے
برعکس آئی تو اعلیٰ حضرت نے نہایت ادب سے کام لیا اور باکمال تحقیق کے ةعد اپنے
لیے ہمیشہ عاجزی ہی کے الفاظ استعمال فرمائے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فتاوی
رضویہ کی 10 خصوصیات :
اہلسنت کے امام ،مجدد
مائہ سابقہ ،امام احمد رضاخان رحمۃ
اللہ علیہ کی خدماتِ دین کی
فہرست تو بڑی طویل ہے جنہیں چند صفحات پر رقم طراز کرنا بہت مشکل ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علوم وفنون کے جوموتی بکھیرے ہیں انہی میں سے ایک عظیم علمی خزانہ
"فتاویٰ رضویہ" بھی ہے جو 30جلدوں پر مشتمل ہے اور غالباًاُردو زبان میں
دنیا کا ضخیم ترین مجموعہ فتاویٰ ہے جوکہ تقریباً بائیس ہزار (22000)صفحات، چھ
ہزار آٹھ سو سینتالیس (6847) سوالات کے جوابات اور دو سو چھ(206)رسائل پر مشتمل
ہے۔جبکہ ہزارہا مسائل ضمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔
فتاویٰ
رضویہ کی چند خصوصیات:
سیدی اعلیٰ حضرت کے
فقہی مقام کو سمجھنے کےلیے مسائل فقہ سے سجے ہوئے بے مثال فتاویٰ جات پر مشتمل
مجموعہ "فتاویٰ رضویہ" کی خصوصیات میں سے 10 خصوصیات پیش خدمت ہیں:
(1)فتاویٰ رضویہ
میں علمِ حدیث وفقہ کی کتب کا بھرپور علم موجود ہے۔(2)فتاویٰ رضویہ میں نادرو
نایاب حوالوں کا بھی جگہ بہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ (3)فتاویٰ رضویہ میں قرآن وحدیث
کی روشنی میں نت نئے مسائل حل کیے گئے ہیں۔(4) فنِّ ریاضی اور علم توقیت کے ساتھ
ساتھ علمِ میراث کے متعلق بھی نادر ونایاب تحقیق موجود ہے۔(5) دیگر مذاہب فقہیہ کے
قوانین اور جزئیات کا علم بھی شامل ہے۔ (6)ہر مسئلے میں قرآن وسنت کی پیروی کا اہتمام
کیا گیا ہے۔(7) بدعات ومنکرات کا ایمان افروز رد کیا گیا ہے۔(8) اس کے علاوہ سب سے
بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بڑے بڑے مفتیان کرام کو فقہی مسائل کے معاملے میں وقتا فوقتا
فتاویٰ رضویہ کی ضرورت پڑتی ہے، بہت سے مفتیانِ کرام فتویٰ دینے کے معاملے میں خاص
طور پر فتاویٰ رضویہ سے مدد لیتے ہیں اور ان شاء
اللہ تعالیٰ آئندہ بھی لیتے
رہیں گے۔(آئینہ رضویات، حصہ 2:ص228، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا ،کراچی)(9)فتاویٰ
رضویہ کے رسائل عقلی اور منقولی دلائل سے ایسے مزین ہیں کہ ان کو پڑھنے والا تنگی
محسوس نہیں کرتا بلکہ مطمئن ہوجاتا ہے۔
فتاویٰ
رضویہ کاخطبہ:
(10)فتاویٰ رضویہ کی
خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بلکہ خصوصیات کا مجموعہ اس کا حیرت انگیز خطبہ بھی ہے جو
خطبے کے تمام تر لوازمات یعنی حمد،نعت، فضائل ومناقب وغیرہ پر مشتمل ہونےکے ساتھ ساتھ
بہت ساری کتب اور آئمہ کرام کے ناموں کا مجموعہ بھی ہے۔اس میں فصاحت و بلاغت کے
اعتبار سے دلکش اشارات،روشن تلویحات،خوشنماتشبیہات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ نوے چیزوں اور اَسّی کتابوں کے نام،سات اعلام اور
تین فقہی اصطلاحات موجود ہیں جو اہل علم
کو وَرْطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں اسی لیے
تو کسی نے کہا تھا
وادی رضا کی کوہِ ہمالہ رضا کا ہے جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے
اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت علم دین
پر جوکچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
علم دوست افراد اپنی علمی پیاس بجھانے کے
لیے جب اس کا مطالعہ کرینگے تو اپنی آنکھوں سے اپنے قلوب و اذہان کواس کے نایاب موتیوں سے مزین ہوتا ہوا دیکھ
رہے ہونگے۔اللہ پاک ہمیں بھی ان
خصوصیات سے مستفید ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی
ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فتاوی رضویہ کی نمایاں
خصوصیات:
اعلی
حضرت عظیم المرتبت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی کا شاہکار کارنامہ
"فتاوی رضویہ" کی اہمیت و افادیت مُسلم الثبوت ہے۔یعنی روزِ روشن کی طرح
بالکل عیاں ہے۔فتاوی رضویہ کی تمام جلدوں کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے یعنی اُس
پر تنقیدی تبصرہ کیا جائے تو ہمیں ان گنت فنی محاسن(خصوصیات) کا علم ہوتا ہے۔
اُن میں سے چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
فقہ
احناف کی فتاوی کی جلدوں میں سب سے زیادہ
جلدیں فتاوی رضویہ کی ہیں۔یعنی اس میں 200
سے زائد رسائل،مختلف علوم،سائنس،جغفرافیہ،طبیعیات وغیرہ کے حوالے سے درجنوں سوالات
مذکور ہیں۔
صحتِ
زبان یعنی اُسلوب ،طرز تحریر میں اعلی حضرت کا کوئی ثانی نہیں کیوں الحمد اللہ موصوف کا شمار اُردو ادب کے کم یاب
ترین بلند پایہ انشا پردازوں میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اعلی حضرت نے اپنے علم کے جوہر فتاوی رضویہ میں دکھائے یعنی عام فہم انداز میں نہایت
عمدگی سے مدعے کو سمجھایا گیا جسے پڑھ کر قارئین کے دل و دماغ پر رضا کا اُسلوب
چھایا رہا۔یہ کہا جائے کہ برِ صغیر پاک و ہند سمیت پوری دُنیا میں فتاوی رضویہ کا طوطی بولتا ہے تو مُبالغہ ہر گز نہ
ہوگا۔ہر خاص و عام یعنی عام قاری (طالب علم) ہو یا بلند پایہ عالم دین ہو وہ اپنی
علم کی پیاس بجھانے فتاوی رضویہ کے پاس ضُرور آتا ہے۔
فتاوی رضویہ کی نمایاں ترین خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ
بھی ہے کہ اِس میں حوالہ جات کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔یعنی اولین ماخذ ،ثانوی ماخذ
وغیرہ پر بہت زیادہ قابلِ تعریف محنت کی گئی ہے۔علاوہ ازیں نادر و نایاب حوالہ جات
کی کثرت فتاوی رضویہ میں پڑھنے کو ملتی ہے۔جسے پڑھ کر قارئین
دنگ رہ جاتے ہیں کہ ایک مسئلے کے حل کے لیے اعلی حضرت نے کس قدر متانت و سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے تحقیق کی ہے۔
سوادِ
اعظم (اہل سُنت والجماعت حنفی بریلوی) کے علما و مفتیانِ کرام کو جب بھی کوئی شرعی
مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ فتاوی رضویہ سے خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔
اس
کے علاوہ فتاوی رضویہ کے محاسن کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں
کہ کس قدر پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل حتی کہ دورِ جدید کے نت نئے مسائل کا بھی
بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کس قدر دُور اَندیش فِکر کے
مالک تھے۔
سب
سے منفرد خصوصیت یہ ہے کہ کئی سال گزرنے کے باوجود گویا رضا کے علم کے جوہر تا حال
اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ وجاوید ہیں۔ان گنت لوگ روزانہ کی بُنیاد پر خرید رہے ہیں۔استفادہ
کرکے اصلاحِ معاشرہ میں اپنا کَلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔یعنی تاحال علمِ دین کے
شیدائی فتاوی رضویہ سے فیوض و برکات حاصل کرکے اپنی اور ساری
دُنیا کے لوگوں کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
مضمون فتاویٰ
رضویہ کی 10 خصوصیات:
”فتاویٰ
رضویہ“اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان
علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ذہانت و فَطانت ، تَبَحُّرِ عِلمی اور تَفَقُّہ فی الدین
کا ایک عظیمُ الشان اور فقیدُ المثال شاہکا ر ہے۔ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اب تک فقہِ حنفی کے فتاویٰ جات کاایسا
جامع ، مَبْسوط، مُدَلَّل اور مُبْرَہَن کوئی دوسرا مجموعہ مُرَّتب نہ ہوسکا۔ اسے ہم بلا مبالغہ اردو زبان میں دنیا کا ضَخیم ترین
فتاویٰ کہہ سکتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ کا تعارف:
اس
بے مثال علمی شاہکار کا نام امام ِاہلِ سنت علیہ
رحمۃ ربِّ العزّت نے ”اَلْعَطَایَا
النَّبَوِیَّہ فِی الْفَتَاوی الرضَوِیَّہ“ رکھا ہے، جو جدید تحقیق و
تخریج کے ساتھ شائع ہونے کے بعد33 جلدوں میں
تقریباً 22 ہزار صفحات، 6847 سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہزاروں مسائل ضِمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔
فتاوٰی رَضَوِیہ کی خصُوصِیات:
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو!آئیے!اب ہم مسائلِ فِقْہ سے سجے ہوئے بے مثال فتاویٰ جات
پرمُشتمل مجموعہ بنام”فتاویٰ رضویہ“ کی خصُوصیات میں سے چند خصُوصِیات کے بارے میں
سنتے ہیں چُنانچہ
(01) علم ِ کلام ، علمِ حدیث و اصولِ حدیث و فقہ کے علاوہ طب ، نُجوم، تاریخ، ہیئت، فلسفہ اور اس جیسے
کئی علومِ جدیدہ قدیمہ کے متعلق فتاویٰ جات و مسائل بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہیں۔
(02)
نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کے افضلُ الْمُرسَلِین ہونے پر ایک عالمِ دین نے
سوال کیا کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی افضلیت پر صراحۃً کوئی آیتِ قرآنی نہیں ملتی تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے 10 آیاتِ کریمہ اور 100 احادیثِ عظیمہ سے حق کو
اُجاگر فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص129)
(03)
فتاویٰ رضویہ کا 15 صفحات پر مشتمل مختصر ترین رسالہ بنام ”اَلتَّحْبِیْر
بِبَابِ التَّدْبِیْر“ بھی 21آیات قرآنی، 40احادیث نبوی اورکثیر نصوص و جزئیات سے
معمور ہے۔اتنا تحریر کرنے کے بعد صاحبِ فتویٰ اعلیٰ حضرت علیہ
رحمۃ ربِّ العزّت کی شان دیکھئے آپ فرماتے ہیں: فقیر غَفِرَلَہُ
اللہُ تعالٰی دعویٰ کرتا ہے کہ اِنْ
شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اگر
محنت کی جائے تو ، دس ہزار سے زائد آیات و احادیث اس پر جمع ہو سکتی ہیں۔
(04) فتاویٰ رضویہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں نِتْ
نئےمسائل حل کیے گئے ہیں۔
(05) دِیگر مذاہبِ فقہیہ کےقوانین اورجُزئیات کاعلم بھی شامل ہے
۔
(06)
ہر مسئلے میں قرآن وسُنَّت کی پیروی کا اِہتمام کیا گیاہے۔
(07)
بِدْعات ومُنکِرات کاایمان افروز رَدّکیاگیاہے۔
(08) سجدۂ تعظیمی کی حُرمت پرجب مصنفِ فتویٰ نے قلم کو جُنبش دی
تو 40 احادیث اور ڈیڑھ سو نُصُوص سے اپنے
دعوے کو ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص251)
(09) فتاویٰ رضویہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی
ہے کہ اس میں موجود ہر رسالہ کا نام تاریخی ہے جس سے اس رسالہ کا سنِ
تحریر نکالا جا سکتا ہے ۔
(10)
اس کے علاوہ سب سے بڑی خُصُوصیت یہ ہے کہ بڑے بڑے مُفتیانِ کرام کو فقہی مسائل
کےمُعاملے میں وقتاًفوقتاًفتاویٰ رضویہ کی ضرورت پڑتی ہے،بہت سے مفتیانِ کرام فتویٰ
دینے کے معاملے میں خاص طور پر فتاویٰ رَضویہ سےمددلیتے ہیں اور اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ آئندہ بھی لیتےرہیں
گے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
مضمون فتاویٰ رضویہ کی دس
خصوصیات:
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد دین وملت
مفتی احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ دین برحق کے ایسے امام ہیں جن کے کمالات عرب و عجم میں اہل دین کے قلوب پر اپنا سکہ جما
چکے ہیں آپ کا فتاویٰ تحقیق و دلائل میں
علمائے سابقین کے فتاویٰ سے کہیں زیادہ
بہتر ہے۔
آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے
لاکھوں فتویٰ لکھے لیکن کچھ کو نقل کیا گیا، جس کا نام ’’ العطایہ النبویہ فی الفتاو
رضویہ“ رکھا گیا
اس فتاویٰ میں کل 206 رسائل ہیں۔(فتویٰ
رضویہ ج 30۔ ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور)
ارگر اس فتاویٰ کی
خصوصیات بیان کی جائیں تو شاید ایک ضخیم کتاب بھی کم ہو تو محض آپ کے فتاویٰ کی دس
خصوصیات کو بیان کا جاتا ہے۔
۱۔ فتاویٰ رضویہ کا
عربی خطبہ ہے جو بلاشبہ فصاحت و بلاحت کا ایک انوکھا شہکار ہے، خوبصورت ہے، خوبصورت استعارات
اور خوشنما تشبیہات پر مشتمل ہے، یعنی کت ب فقہ کے ناموں اور آئمہ کرام کے اسمائے گرامی کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ کہیں اللہ پاک کی حمد کے غنچے چٹک اٹھے اور کہیں نعت کے پھول کھل
اٹھے اور کہیں منقبت کے گجرے بن گئے، اور کہیں دورد و سلام کی ڈالیاں تیار کی
گئیں۔(جہانِ امام احمد رضا جلد۱، صفحہ ۲۶ ، مکتبہ بشیر برادرز)
۲۔ ہر فتوے میں دلائل
کا سمندر نظر آتا ہے، قرآن و حدیث، فقہ منطق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ اس کے مطالعے سے ہی لگایا جاسکتا
ہے۔(ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت ، صفحہ ۳۴، مکتبہ المدینہ)
۳۔ اعلیٰ حضرت کے اس
فتویٰ نے اہل علم کی دست گیری کی اور ضلالت وبے راہ روی کا شکار ہونے والے افراد کی ہدایت و رہبری کی۔
۴۔اہل علم پر یہ بات
خوب واضح ہے کہ آج فتاویٰ رضویہ ہر
دارالافتا کی زینت بنا ہوا ہے مفتیانِ کرام فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں مسئلے کا حل
تلاش کرتے ہیں، اور صاحبِ علم و دانش تحقیقات رضاپر واہ واہ کرتے ہیں۔(جہانِ امام احمد رضا، جلد ۱، صفحہ ۲۲۲،
مکتبہ شیربرادرز)
۵۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے جس زبان میں سوال ہوا آپ نے اسی زبان میں جواب ارشاد
فرمایا، جیسے اگر سوال ار دو میں ہوتا تو جواب بھی اردو میں ارشاد ہوتا، اگر سوال
عربی میں ہوتا تو جواب بھی عربی ہی میں ہوتا، اور بعض افریقہ کے اہل عشق نے
انگریزی میں سوال کیا تو جواب بھی انگریزی میں دیا گیا۔
۷۔ فتاویٰ رضویہ صرف
فقہی مسائل و احکام کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ قرآن کی تفسیر، اصول تفسیر، اصول حدیث، شروح حدیث، فقہ بشمول متن، شروح ،
حواشی، اصول فقہ ، اورکئی علوم و فنون کا ایک عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے۔
(جہانِ امام احمد
رضا، جلد ۱، صفحہ ۱۹، مکتبہ شبیر برادرز)
۷۔فتاویٰ رضویہ تحقیق
و براہین سے مزین اور توضیح و تفصیل میں بے نظیر و بے مثال ہیں۔
۸۔ اعلیٰ حضرت کا یہ
خاصہ بھی رہا ہے کہ ایک سوال کے استفتا پر پورا ایک مستقل رسالہ تحریر فرمادیا۔
۹۔ فتاویٰ رضویہ میں
مسئلہ کی تحقیق میں زیر بحث رہے اور اگر مسئلہ میں اٰئمہ کا اختلاف ہوتا اس کو بھی
ذکر کرتے اور مسئلہ میں ترجیح کی صورت کو بھی بیان کرتے۔(جہانِ امام احمد رضا، جلد
۱، صفحہ ۵۶، مکتبہ شیرنرادرز)
۱۰۔ مؤلف فتاویٰ نے فتاویٰ رضویہ کو ایسے کمالات اور ایسی
خوبیوں سے سجایا ہے کہ دیکھ کر بے ساختہ کہہ اٹھیں۔
ملکِ سخن کی شاہی تم
کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہوسکے
بٹھا دیئے ہیں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کےفِقْہی مقام کو سمجھنے کے لئے
مسائلِ فِقْہ سے سجے ہوئے بے مثال فتاویٰ جات پرمُشتمل مجموعہ بنام”فتاویٰ رضویہ“
کی خصُوصیات میں سے چند خصُوصِیات کے بارے میں سنتے ہیں ۔چُنانچہ
٭فتاویٰ رضویہ میں علمِ حدیث و علمِ فقہ کی کُتُب کا بَھر
پُورعِلم موجود ہے۔
٭ فتاویٰ رضویہ میں نادرونایاب حوالوں کابھی جگہ بہ جگہ ذِکرکیا
گیاہے۔
٭ فتاویٰ رضویہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں نِتْ نئےمسائل حل
کیے گئے ہیں۔
٭فنِّ رِیاضی اورعلمِ تَوقِیْت کے ساتھ ساتھ علمِ میراث کے
متعلق بھی نادرو نایاب تحقیق موجودہے۔
٭دِیگر مذاہبِ (فقہیہ) (فِقْ ہِیْ یَہ)کےقوانین اورجُزئیات
(جُزْ۔ئی۔یات) کاعلم بھی شامل ہے ۔
٭ہر مسئلے میں قرآن وسُنَّت کی پیروی کا اِہتمام کیا گیاہے۔
٭بِدْعات ومُنکِرات کا ایمان افروز رَدّکیاگیاہے۔
٭اس کے علاوہ سب سے بڑی خُصُوصیت یہ ہے کہ بڑے بڑے مُفتیانِ
کرام کو فقہی مسائل کےمُعاملے میں وقتاًفوقتاًفتاویٰ رضویہ کی ضرورت پڑتی ہے،بہت
سے مفتیانِ کرام فتویٰ دینے کے معاملے میں خاص طور پر فتاویٰ رَضویہ سےمددلیتے ہیں
اور اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلّ آئندہ
بھی مدد لیتے رہیں گے ۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ ان عُلمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے
دینِ حَق کو پھیلانے کے لئے انتہائی ذوق و شوق کیساتھ عُلُوم و فُنون حاصل کئے اور
اس کے بعدان عُلوم وفُنون کے فیضان کو پوری دیانتداری کے ساتھ بے شُمار طلبائے
علمِ دین کے سینوں میں منتقل فرمایا۔یقیناً یہ آپ رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کھُلی کرامت تھی،اس لئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے شب و روز
کے معمولات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہ
ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا اکثر وقت تصنیف و تالیف میں ہی گُزرجایا کرتا تھا۔
جیسا کہ ملِکُ
العُلَماحضرتِ علّامہ مفتی محمدظفرُ الدِّین بہاری رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اَکْثر اَوْقات آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تصنیف وتالیف
میں مَشْغول رہتے۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت)
عُموماً علمائے کرام فارغُ التحصیل ہونے کے بعد تصنیف و تالیف
کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے زمانَۂ طالب علمی سے ہی کتابیں
تصنیف کرنے کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا۔(حیات اعلیٰ حضرت)
جس کی ایک روشن مثال یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے محض8 برس کی عمر میں درسِ نظامی یعنی
عالم کورس کے نصاب میں شامل علمِ نحو کی مشہور و معروف کتاب بنام’’ھَدایَۃ
ُالنَحْوْ‘‘نہ صرف پڑھ لی بلکہ اسی ننھی سی عُمر میں ہی اس کتاب کی عربی زبان میں
شرح بھی لکھ ڈالی۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فتاوی رضویہ اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃکی ذہانت و تفقہ فی الدین( دین میں
سمجھ )کا ایک عظیم الشان اور فقیدالمثال(جس کی مثال نہ ہو )شاہکار ہے کئی دہائیاں
گزرنے کے باوجود ایسا جامع فتاوی کا مجموعہ مرتب نہ ہو سکا33جلدوں پر مشتمل یہ فتوی
جات جسے ہم بلا مبالغہ اردو زبان میں دنیاکا ضخِیم ترین(نہایت بڑا)فتاوی کہہ سکتے
ہیں اس بے مثال علمی شاہکار کا نام امام اہلسنت علیہ
الرحمۃ نے "العطایا النّبوِیّہ فی الفتاوی الرضویہ" رکھا
ہے۔( اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات صفحہ 8 تا9)
جو کہ تقریبا22000
صفحات 6847سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے علمی و تحقیقی بے مثال فتاوی جات
پر مشتمل مجموعہ فتاوی رضویہ کی کئی خصوصیات میں سے10 زینتِ تحریر ہیں ۔
1: فتاوی رضویہ شریف کی خصوصیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جاسکتا ہے کہ اس میں اِسْتِفْتاء شدہ(پوچھےگئے)مسائل نہ صرف عوام الناس کے ہیں
بلکہ بڑے بڑے مُفتِیانِ کرام و مُصنِّفینِ عُظّام کے تحریر ہیں۔
2:فتاوی رضویہ میں ہر مسئلہ دلائل کی روشنی میں ذکر ہے اور اگر
جواب تفصیل طلب ہو تو مکمل رسالہ تحریرہے ۔
3:فتاوی رضویہ میں محض جمع و نقلِ اقوال نہیں بلکہ جا بجا اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمۃ نے اپنا تبصرہ بھی ذکر فرمایا ہے ۔
4:دینی مسائل کے ساتھ عصرِ حاضر(موجودہ دور) کے پیچیدہ مسائل
جامع انداز میں ذکر ہیں۔
5:دیگر مباحث کے ساتھ قدیم یونانی فلسفہ کے متعلق سوالات کا
ٹھوس علمی جواب تحریر ہے۔
6:فتاوی رضویہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف علومِ
ظاہریہ بلکہ علومِ باطنیہ کا بھی ذکر ہے سائل کے حال کے مطابق اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے انفرادی کوشش بھی ذکر فرمائی ہے ۔
7:فتاوی رضویہ میں فقہ احناف کی ماخذ احادیث کا ذخیرہ موجود
تھے
8:تفصیل طلب موضوعات پر پہلے اجمالی اور پھر تفصیلی کلام ذکر
کے سوال کے تمام گوشوں کو واضح کیا گیا ہے ۔
9:علمِ کلام علمِ حدیث اصولِ حدیث و فقہ کے علاوہ طب نجوم تاریخ
فلسفہ علومِ جدیدہ و قدیمہ کے متعلق فتاویٰ جات 'فتاوی رضویہ کا ہی خاصہ ہے ۔
10:ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ فتاوی رضویہ تقریبا تمام اصول فتاویٰ
پر مشتمل ہے نیز ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں موجود ہر رسالہ کا نام تاریخی
ہے اس میں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن کا کسی دوسری کتاب میں یا تو سرے سےوجود نہیں یا
پھر اس مضبوط انداز سے کہیں اور بیان نہیں ہوئے۔
کیا بیاں کیجئے اور کیا چھوڑئیے یہ تو اس عظیم و بے نظیر
شاہکار کے بحرِ بے کراں (وسیع سمندر) میں سے چند قیمتی موتی بطور نمونہ ذکر کیے
گئے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ تحقیقی اعتبار
سے فتاوی رضویہ کی نظیر ملنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے ،ایک مسئلے پر
دلائل کا انبار لگا دینا بلاشبہ فخر اہلسنت امام اہلسنت عاشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کا ہی حصہ ہے ۔( فتاویٰ رضویہ کا
تعارفی و تجزیاتی مطالعہ من ٠تہذیب الافکار جلد 4 شمارہ 2 ص 89 تا 93)
ہر ورق تیرا شریعت کی دلیلِ روشن
ایک قانونِ مکمل ہے فتاوی تیرا
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
تعارف:
العطایہ النبویہ فی
الفتاوی الرضویہ چودھویں صدی کے مجدد امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جنہیں علما ئے حق مجتہد فی المسائل
کہتے ہیں ۔فتاویٰ رضویہ (جدید)۳۰ جلدوں، ۲۱۶۵۶
صفحات، ۶۸۴۷ سوال و جواب ۲۰۶ رسائل اور سینکڑوں مسائل پر مشتمل ہے۔
خصوصیات:
۱۔ فتاویٰ رضویہ فصاحت و بلاغت کا بے مثال نمونہ
ہے اس کے خطبے میں حمد بھی ہے نعت بھی،
مدح ،صحابہ و اہل بیت بھی، ذات اور آل واصحاب پر درود بھی، نیز 90 چیزوں کے نام 80 کتابوں کے نام،
اور 3 فقہی اصطلاحیں مذکور ہیں اور چند عقائد کی وضاحت ہے جس کتا ب کے خطبے کا یہ
عالم ہے اس کے فتاویٰ کا عالم کیا ہوگا۔
۲۔ فتاویٰ رضویہ میں
دلائل کا سمندر موجزن ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ نے حنفی فقہ کو دلائل سے آراستہ کیا ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ سوال کے جواب کے بعد اس پر قرآنی آیات پھر احادیث نبوی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم پھر علما کے اقوال بطور دلائل بیان فرماتے ہیں، حضرت مفتی
امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر کسی
صاحب کو دلائل کا شوق ہو تو فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرے کہ اس میں ہر مسئلہ کی ایسی
تحقیق کی گئی ہے جس کی نظیر آج دنیا میں موجود نہیں اور ایسے مسائل ملیں گے جن سے
علما کے کان بھی آشنا نہیں۔ (بہار شریعت حصہ ۱،۲ /۲۸۰)
علم کا چشمہ ہوا ہے
موجزن تحریر میں
جب قلم تو نے اٹھایا
اے امام احمد رضا
۳۔ جیسا سوال کرنے
والے کا مزاج ، اسی کے حساب سے جواب ہے، اگر سوال مختصر جواب کا تقاضا کرے تو جواب
مختصر ہے، لیکن اکثر فتاویٰ تفصیلی جواب پر مشتمل ہیں اگر سوال کے جواب کی کئی
صورتیں بنتی ہوں تو جواب میں ان تمام سورتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
۴۔ اس میں ایک سے
زائد زبانوں میں فتاویٰ جات موجود ہیں جس زبان میں سوال ہے اسی زبان میں جواب ہے
پھر چاہے وہ زبان
اردو ہو یا ہندی، عربی ہویا فارسی، اگر سوال نثر میں ہے تو جواب بھی نثر میں ہے،
اگر سوال نظم میں ہے توجواب بھی نظم میں ہے۔
۵۔ فتاویٰ رضویہ میں
صرف سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا، بلکہ ساتھ میں نیکی کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
۶۔ فتاویٰ رضویہ میں
علم کلام ، علم حدیث و اصول و حدیث، فقہ و اصول فقہ کے علاوہ طب، نجوم، تاریخ، ہیئت ، فلسفہ اور اس جیسے کئی
علوم جدیدہ و قدیمہ کے متعلق فتاویٰ جات موجود ہیں(ماہنامہ فیضان ِ مدینہ صفر
المظفر ۱۴۳۹ھ ، صفحہ نمبر۲۴)
۷۔ فتاویٰ رضویہ میں موجود ہر رسالہ
کا نام تاریخی ہے جس سے علم ابجد کے ذریعے ا س رسالہ کا کا سن تحریر نکالا جاسکتا
ہے۔( ماہنامہ فیضان ِ مدینہ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ ، صفحہ نمبر۲۴)
۹۔ فتاویٰ رضویہ میں
موجود کئی فتاویٰ جات علما و مفتیان کرام کے پوچھے ہوئے سوالوں پرمشتمل ہیں، نیز
بیشتر مفتیان کرام فتویٰ دینے کے لیے فتاویٰ رضویہ سے مدد لیتے ہیں۔
۱۰۔ فتاویٰ رضویہ
دیکھ کر علما کی عقل حیران رہ جاتی ہے حتی کہ مخالفین بھی سرجھکاتے نظر آتے ہیں،
حرم شریف کی لائبریری
کے محافظ سید اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ نے جب چند عربی فتاویٰ کا مطالعہ فرمایا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ سے فرمایا: میں سچ کہتا ہوں اگر آپ کے یہ فتاویٰ امام اعظم
ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دیکھتے توان کی
آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور آپ کو اپنے اصحاب میں شامل فرمالیتے۔
کس طرح اتنے علم کے
دریا بہا دیئے۔
علمائے حق کی عقل تو
حیران ہے آج بھی
فتاویٰ رضویہ کی چند خصوصیات
:
فتاویٰ رضویہ شریف شہنشاہِ بریلوی امام اہلسنت کا لکھا ہوا ار دو زبان کا
مجموعہ فتاویٰ ہے، جس میں ۲۰۰ سے زائد مسائل ، ہزار ہا فتویٰ اور تقریبا ۲۰ ہزار سے
زائد مسائل ہیں۔
خاصہ رضویہ بقلم رضا :
سرکارِ اعلیٰ حضرت
بذا تِ خود فتاویٰ رضویہ پہلی جلد کے متعلق فرماتے ہیں: بظاہر اس پہلی جلد میں 114 فتوے اور 28 رسالے
ہیں مگر بحمدللہ
تعالیٰ ہزار ہا مسائل پر
مشتمل ہے جن میں صد ہا وہ کہ اس کتاب کے سوا کہیں نہ ملیں گے۔
(فتاویٰ رضویہ ج۱، ص ۲۱، مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
خاصہ
رضویہ بقلم عطار :
حضرت علامہ
مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی فتاویٰ رضویہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام احمد رضا بے مثال ذہانت و
فطانت ، کمال درجہ فقاہت اور قدیم و جدید
علوم میں کامل دسترس و مہارت رکھتے تھے ، آپ كی تقریبا ایک ہزار کتب ہیں آپ کے 55
سے زائد علوم و فنون آپ کی تبحر علمی پر
دال پر ہیں، آپ کی جن کاوشوں کو بین القوامی شہرت حاصل ہوئی ان میں سے کنزالایمان، حدائق بخش اور فتاوی رضویہ شامل ہیں۔
آخر الذکر (فتاویٰ رضویہ شامل ہیں، آخر
الذکر(فتاویٰ رضویہ ) تو علوم و فنون کا ایسا بحر بیکراں ہے جو پیکراں ہے جو بے
شمار و مستند مسائل و تحقیقات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جسے پڑھ کر قدر دان
انسانی Appieciative Persm بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ۔ ہے کہ امام احمد
رضا امام اعظم کی مجتہدانہ بصیرت کا پرتو ہیں آپ کی کتب رہتی دنیا تک کے مسلمانوں
کے لیے مشعل رہا ہے۔(والدین ، زوجین اور ساتذہ کے
حقوق اصل ، ۱۲، ۱۳ مکتبہ المدینہ )
رسائل
کے نام سے ہی ان کا سالِ تصنیف بھی معلوم :
امام احمد رضا علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف
میں اکثر رسائل کا ایسا نام تجویز فرماتے
ہیں کہ جس سے نہ صرف واضح طور پر موضوع کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ حرفِ ابجد کے حساب سے ان کا سال تصنیف
بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ، جلد ۱، ص ۲۱، مکتبہ المدینہ )
اصول
فتاوی ٰ نویسی سیکھنے کے لیے فتاویٰ رضویہ پڑھیے:
مفتی قاسم صاحب
دامت برکاتہم العالیفرماتے ہیں :کہ اگر کسی کو فتاویٰ
لکھنے کے بنیادی اصول سیکھنا ہوں تو فتویٰ لکھنے کے لیے جو بنیادی اہلیت و صلاحیت
چاہیے اسے حاصل کرنے کے لیے اگر وہ فتاویٰ رضویہ کا بغور مطالعہ کرتا ہے تو اسے فتاویٰ
نویسی کے تمام کے تمام اصول بڑی اچھی مشق کے ساتھ مل جائیں گے۔
خطبہ
میں ہی مسئلہ کا اجمالی ذکر :
امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ اپنی اکثر و پیشتر تصنیفات کے خظبوں میں اللہ پاک کی حمد و ثنا اور درود شریف کے ساتھ ساتھ وہ مسئلہ بھی بیان فرماتے ہیں جسے بعد ازاں تفصیلی دلائل کے ساتھ بیان کرنا
ہوتا ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ۱، ص ۲۳، مکتبہ رضا فاونڈیشن لاہور)
فتاویٰ رضویہ کسی
مفتی کی تصنیف ہے یا ماہر طبیب کی :
امام احمد رضا وہ
بالغ نظر مفتی ہیں جو احکامِ شریعہ معلوم کرنے کےلیے تمام احکام ماخذ کی طرف رجوع
کرتے ہیں ایک ماہر طبیب جب فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرتا ہے تو دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے پھر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ
وہ کسی مفتی کی تصنیف پڑھ رہا ہے یا ماہر طبیب کی۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۱، ص ۲۲، مکتبہ رضا فاونڈیشن لاہور)
مفتیان
کرام نے بھی استفتا طلب کیے :
عام طور پر مفتیانِ
کرام کی طرف عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور احکام ِ شریعہ دریافت کرتے ہیں فتاویٰ
رضویہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ امام احمد رضا بریلوی کی طرف رجوع کرنے
والوں میں بڑی تعداد ان حضرات کی ہے جو
بجائے خود مفتی تھے، مصنف تھے، جج تھے، یا وکیل تھے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ۱، ص ۲۲، مکتبہ رضا فاونڈیشن لاہور)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فتاویٰ رضویہ کی 10 خصوصیات:
فتاویٰ رضویہ علوم و فنون کے جواہر پاروں سے مُزیَّن
ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی نظیر فتاویٰ رضویہ کا خطبہ ہے جس میں ائمۂ مجتہدین و
کُتُب ِ فِقہ کے تقریباً 90 اسمائے گرامی کو صَنْعَتِ بَراعتِ اِستہلال استعمال
کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لَڑی میں پرو دیا ہے کہ اللہ عَزّوَجَلّ کی حمد و ثنا بھی ہوگئی اور ان اسمائے مقدسہ سے
تبرک بھی حاصل ہوگیا۔ اس خطبے سے مصنف کی فَقاہت، قادرُ الکلامی اوروُسعتِ علمی کا
بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس میں موجودفتاویٰ جات قرآن و حدیث، نُصوصِ فقہیہ
واقوالِ سَلف و خَلف سے بھرپورنظر آتے ہیں۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کے فقہی مقام کو سمجھنے کے لیے مسائل فقہ سے
سجے ہوئے بے مثال فتاویٰ جات پر مشتمل مجموعہ بنام " فتاویٰ رضویہ " کی خصوصیات ملاخطہ فرمائیے ۔
1 .علم ِ کلام ، علمِ حدیث و اصولِ حدیث، فِقہ
کے علاوہ طِبّ، نُجوم، تاریخ، ہیئت، فلسفہ اور اس جیسے کئی علومِ جدیدہ قدیمہ کے
متعلق فتاویٰ جات و مسائل بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہیں۔
2 .
سوال کے ہر پہلو پر تَنْقِیح بھی فتاویٰ رضویہ کا خاصّہ ہے جیسا کہ ایک سوال ،طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے
کے متعلِق پوچھا گیا تو جواب میں اعلیٰ
حضرت علیہ
رحمۃ ربِّ العزّت نے فرمایا: جس طرح سوال کیا گیا ہے اور جو معاملہ کی نوعیت
ہے اس لحاظ سے تو اس سوال کے 58 جواب ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس کی 58 شکلیں بنتی ہیں
نہ جانے سوال کرنے والے کو کون سی شکل درپیش ہو۔ لہٰذا تمام ممکنہ صورتوں کا جواب
بھی مَرحمت فرمایا اور کہیں سائل 58 شکلوں کے اس جواب کو دیکھ کر پریشان نہ ہو
جائے اور اسے فیصلہ کرنا دشوار نہ ہو جائے ان سب صورتوں کا حکم چار اصل کلّی سے
نکال کر اس جواب کو آسان بھی فرما دیا۔( فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص436،ملخصاً)
3 . دلائل و اِستشہادات کی کثرت کی جو بہار فتاویٰ
رضویہ میں ہے کسی اور فتاویٰ میں اس کا عُشرِعَشِیر بھی نہیں ملتا جس کی ایک جھلک ”لَمْعَۃُ الضُّحٰی فیِ اِعْفَآءِ
اللُّحٰی“ جیسا تحقیقی فتویٰ ہے جو
ایک مُٹھی داڑھی کے وجوب پر تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں زوائد کے علاوہ اصلِ مقصد میں
18 آیتوں 72حدیثوں،60 ارشاداتِ علماء وغیرہ
کل ڈیڑھ سو نُصُوص کے ذریعے باطل
کااِبطال اور حق کا اِحقاق کیا گیا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص607)
4 . نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے نام پاک پر انگوٹھے
چومنے کے مسئلے پر ”مُنِیْرُ الْعَیْن فِیْ حُکْمِ
تَقْبِیْلِ اْلاِبْہَامَیْن“ کے
نام سے تقریبا 200 صفحات پر مشتمل یہ فتوی بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہے
جو30 افادات اور 12 فائدوں پر مشتمل ہے اور ہر فائدے میں ایک اُصولِ حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کے اِثبات میں دلائل کا
انبار لگا دیا ،حدیثِ ضعیف کے قبول و رَد پر علمِ اصولِ حدیث کے قواعد کی روشنی میں
ایساجامع اور مُفَصّل کلام کیا کہ دیکھنے والے اَنگُشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فتاویٰ
رضویہ ،5ج،ص429)
5 . نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے افضلُ الْمُرسَلِین ہونے
پر ایک عالمِ دین نے سوال کیا کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی افضلیت پر صراحۃً کوئی آیتِ قرآنی نہیں ملتی
تو آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے 10 آیاتِ کریمہ اور 100 احادیثِ عظیمہ سے حق کو
اُجاگر فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص129)
6 . سجدۂ تعظیمی کی حُرمت پرجب مصنفِ فتویٰ نے قلم کو جُنبش دی
تو 40 احادیث اور ڈیڑھ سو نُصُوص سے اپنے
دعوے کو ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص251)
7 . فتاویٰ رضویہ میں فن ریاضی اور علم توقیت کے ساتھ ساتھ علم میراث کے
متعلق بھی نادر و نایاب تخلیق موجود ہے۔
8 . فتاویٰ رضویہ میں دیگر مذاہبِ فقہیہ(فِق ۔
ہِیْ ۔ یہ) کے قوانین اور جُزئیات (جُز ۔ ئی ۔ یات ) کا علم بھی شامل ہے۔
9 . فتاویٰ رضویہ کی ایک نمایاں خصوصیت کہ اسمیں موجود ہر رسالے کا نام
تاریخی ہے جس سے اس رسالہ کا سن تحریر نکالا جاسکتا ہے ۔
10. اس کے علاوہ سب سے بڑی خُصُوصیت یہ ہے کہ
بڑے بڑے مُفتیانِ کرام کو فقہی مسائل کےمُعاملے میں وقتاًفوقتاًفتاویٰ رضویہ کی
ضرورت پڑتی ہے،بہت سے مفتیانِ کرام فتویٰ دینے کے معاملے میں خاص طور پر فتاویٰ
رَضویہ سےمددلیتے ہیں اور اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَل َّآئندہ
بھی لیتےرہیں گے۔ (آئینۂ رضویات،ج2 ،ص228،ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا کراچی)
حشر تک جاری رہے
گا فیض مُرشِد آپ کا
فیض کا دریا بہایا
اے امام احمد رضا
(وسائلِ بخشش
مرمم،ص525)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فتاویٰ رضویہ
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا ایک علمی شاہکار ہے جس کا نام امام اہلسنت علیہ الرحمۃ
نے ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ“ رکھا ہے، (فتاویٰ
رضویہ ار شادیہ ص ۳)، فتاویٰ رضویہ علوم فنون کے جواہر پاروں سے مزین ہے اس
کی ایک چھوٹی سی نظیر خطبہ فتاوی رضویہ ہے اس خطبے میں آئمہ مجتہد ین و کتب فقہ کے
۹۰ اسمائے گرامی کو صنعت استہلال استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لڑی میں پُرو
دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی ہوگئی
اور ان اسما مقدسہ سے برکت بھی حاصل ہوگی۔
۲۔ سجدۂ تعظیمی کی
حر مت پر جب مصنف فتویٰ نے قلم کو جنبش دی تو 40 احادیث اور ڈیڑھ سو نصوص سے اپنے دعویٰ کو ثابت کیا۔(فتاویٰ
رضویہ ۲۲/۲۵۱)
۳۔ دلائل و استشہادات
کی کثرت کی جو بہار فتاویٰ رضویہ میں ہے کسی اور فتاویٰ میں اس کا عشر ِعشیر بھی
نہیں ملتا جس کی ایک جھلک (لمعة الضحی فی اعفاء اللحی ) جیساتحقیقی فتویٰ ہے جو ایک مٹھی داڑھی کے وجوب پر تحریر کیا گیا ہے، اس میں 18 آیتوں 72 حدیثوں، 60 ارشاداتِ علما و غیرہ کل ڈیڑھ سو نصوص کے ذر یعے باطل کا ابطال اور حق کا احقاق کیا گیا ۔(فتاویٰ
رضویہ ۲۲/ ۶۰۷)
۴۔ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے افضل المرسلین ہونے پرایک عالم دین نے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی افضلیت پر صراحتہ کوئی آیت نہیں ملتی آپ نے ۱۰ آیت کریمہ ۱۰۰ احادیث سے حق کو اُجاگر کیا۔(فتاویٰ
رضویہ ۳۰/۱۲۹)
۵۔ نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک پرانگوٹھے چومنےکے
مسئلے پر (منیر العین
فی حکم تقبیل الابہامین ) کے نام سے تقریبا ۲۰۰ صفحات پر
مشتمل فتویٰ میں فتاویٰ رضویہ کا حصہ
ہے جو ۳۰ افادات پرمشمل ہے۔
ہر فتوے میں اصول
حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کے دلائل کا انبار لگادیا۔(فتاویٰ رضویہ ۵/۴۲۹)
۶۔ سوال ہے کہ ہر
پہلو پر تنقح بھی فتاویٰ کا خاصہ ہے جیسا کہ ایک سوال طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے
کے متعلق پوچھا گیا تو جواب میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ جس طر ح سوال کی نوعیت ہے
اس لحاظ سے تو اس سوال کے 58 جواب ہوسکتے ہیں کونکہ اس کی 58 شکلیں بنتی ہیں، تمام
ممکنہ صورتوں کا جواب بھی مرحمت فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ ۱۲، ۴۳۶) ملخصاً
۷۔ امریکی مجسم
پروفیسر البرٹ نے 1919دسمبر 17 كو ایک
ہولناک پیشن گوئی کی جس میں سورج میں
سوراخ ہونے زمین میں تباہی کے انکشافات کیے تھے اعلیٰ حضرت نے آیاتِ قرانیہ اور ۱۷ دلائل عقلیہ سے اس کی پیش گوئی کو پارہ پارہ رکرنے کے بعد آخر میں فرمایا منجم پر اور مواخذات بھی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ۲۷/۲۴۱۔۲۴۲) پھر سب نے دیکھا
اس منجم کی پیشن گوئی جھوٹی اور امام اہلسنت کا کلام سچا ہوا۔
۸۔ فتاویٰ رضویہ کا
۱۵ صفحات پر مشتمل مختصر رسالہ بنام (التحیریات التدبیر) بھی ۲۱ آیت قرآن ۴۰ احادیث نبویہ کثیر نصوص و جزئیات سے معمور ہے، اتنا تحر یرکرنے کے بعد
صاحبِ فتاویٰ کی شان دیکھئے آپ فرماتےہیں :فقیر دعویٰ کرتا ہے کہ ان
شآ اللہ اگر محنت کی جائے تو ۱۰۰۰سے زائد آیات و احادیث اس پر جمع
ہوسکتی ہے۔
۹۔علم کلام، و علم حدیث و اصول حدیث فقہ کا علاوہ طب نجوم و تاریخ ہیئت فلسفہ اور اس
جیسی کئی علوم جدیدہ قدیمہ کے متعلق
فتاویٰ جات و مسائل بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہیں۔
۱۰۔ فتاویٰ رضویہ کی
ایک نمایاں خصوصیات یہ بھی ہے کہ اس میں موجود ہر رسالے کا نام تاریخی ہے جس سے اس
رسالہ کا سن تحریر نکالا جاسکتا ہے۔
کیا بیان کریں اور
کیا چھوڑیں یہ تو اس عظیم بے نظیر شاہکار کے بحربے کر اں میں سے چند قیمتی موتی بطور نمونہ ذکر کیے
گئے ہیں ورنہ اس کی گہرائیوں میں سے گوہر نایاب نکالنے کے لیے محققین اب تک اس
سمندر میں غوطہ زن ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ان شا اللہ
عزوجل
ملکِ سخن کی شاہی تم
کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھادیئے
ہیں
زندگیاں ختم ہوئیں
اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک
باب بھی پورا نہ ہوسکا
تربیت، انسانی اخلاق
کو سنوارنے والی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں معزز بن جاتا ہے۔
تربیت
کا درست وقت:
ویسے تو تربیت کا
تعلق کسی خاص وقت سےنہیں ہوتا، لیکن خاص
طور پر بچے کی تربیت بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے
اس پر جو بھی لکھا جائے وہ پتھر پرلکیر کا کام دیتا ہے، یعنی ابتداء ًہی جو بات اس کے دل ودماغ میں ڈال دی جائے وہ
مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہے۔لہٰذا والدین کوچاہیے کہ وہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر
بھر پور توجہ دیں ،اسے بچہ سمجھ کر یا بول کر (Ignore) یعنی نظرانداز نہ کریں۔
بچوں
کی تربیت کا انداز کیسا ہو؟
ہمارے پیارے آقاصلی
اللہ علیہ وسلم ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں حضورِ پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔
بچوں
کو اپنے ساتھ بٹھا کرکھلائیےاور مثبت انداز سے سمجھائیے:
رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانہ کھلاتے جس سے بچوں کی دلجوئی
کے ساتھ ساتھ تربیت کا سامان بھی ہوتاتھا ۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی
اللہ عنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ رضی
اللہ عنہ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی اِدھر پڑتا،کبھی اُدھر۔رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے
سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پر ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے
جارہے ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"يَا غُلاَمُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ،
وَكُلْ مِمَّا يَلِيك" اے بچے!جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے
کھاؤ۔
(صحیح
بخاری:کتاب الاطعمۃ:باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین:حدیث 5376)
تربیت کرنے والوں کے
لیے اس فرمان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ ابتداءً ٹوکنے کے بجائے کچھ آداب
بیان کرنے کی وجہ سے انداز بھی مثبت رہا اور مقصود بھی حاصل ہوگیا یہی وجہ ہے کہ
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرے کھانے کا انداز ویسا ہی رہا جیسا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاتھا۔
بوقت
ضرورت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جائے:
رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ
عنہ نے دس سال رسول پاک صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس
کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔(مسلم
:کتاب الفضائل: بَابُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا:حدیث 2309)
اور اگر کہیں تربیت
کے معاملے میں پیار ومحبت سے سمجھانا مؤثر
نہ ہورہا ہو اور معاملہ فرائض کا ہو تو وہاں بطورِ تنبیہ ڈانٹ ڈپٹ کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے،چنانچہ فرمایا:"مُرُوا
أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ
عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْر"یعنی اپنی
اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو
نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔
(سنن ابی
داؤد:کتاب الصلاۃ:حدیث495)
اللہ پاک ہمارے بچوں کی اچھی تربیت کے معاملے میں ہمارے معاون ومددگارپیدا
فرمائے،اور انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنائے۔آمین بجاہ
النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم