نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ منصور،نیول کالونی
اللہ پاک کا فرمان ہے:حٰفِظُوْا عَلَى
الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۗ(پ2،البقرة:238)ترجمۂ کنز
العرفان:تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی۔چنانچہ
بخاری شریف میں ہے:’’نمازِ وسطیٰ سے
مرادعصر کی نمازہے۔(بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء علی المشرکین،4 /216،حدیث:6396)جس طرح قرآنِ مجید میں نمازِ عصر کی اہمیت ذکر کی
گئی ہے۔اسی طرح احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ بھی نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت کے ذکر
سےمعمور ہے۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:رؤیتِ باری کی بشارت:جنتیوں کےلئےافضل ترین نعمتِ الٰہی اللہ پاک کادیدار ہے جس کے لیے تمام جنتی
انتظارکریں گے۔ایک بار ہو گا تو پھر دوبارہ دیدار کاانتظارہوگا۔نمازِ عصر ادا کرنے
والے کےلئے دیدارِ الہٰی کی بشارت بیان کی گئی ہے،چنانچہ حضرت جریر بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہم ایک رات نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔آپ نے
چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا تو فرمایا: یقیناً تم اپنے رب کو دیکھوگے جس طرح
تم اس چاندکودیکھ رہے ہو۔اسے دیکھنے میں تمہیں دھکم پیل نہیں کرنی پڑے گی،اس لیے
اگرتمہارے لیےممکن ہو تو طلوعِ آفتاب اورغروبِ آفتاب سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر
آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیت پڑھی:ترجمہ:آفتاب نکلنے
اورغروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیں۔(بخاری،کتاب
تفسیرالقران،حدیث:4851) جنت
میں داخلے کی بشارت:ایک مسلمان کے لئے جنت ایک نعمتِ عظمیٰ ہے اور ہر مسلمان (نیک
و بدسب)
جنتِ خلد پانا اور جہنم سے رہائی چاہتاہے اس لئے ہمیں نماز ِعصر کی پابندی کرنی
چاہیے۔کیونکہ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں(فجروعصر)پڑھتا رہا وہ
جنت میں داخل ہوگا۔(شرح مسلم ،2/256،حدیث:1337) نارِ
دوزخ سے رہائی کی بشارت:ارشادفرمایا:جس نے سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور اس کے
غروب ہونے سےقبل یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کی وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم،
کتاب المساجد و مواضع الصلٰوة، باب فضل صلاتی الصبح والعصر الخ ، 1 / 440، رقم : 634) عصر کا ترک اہل و مال کی تباہی کا سبب:جہاں نمازِ
عصر کی ادائیگی خلد کی نعمتِ عظمیٰ کے حصول کا سبب ہے وہیں اس کا ترک سببِ بربادیِ اعمال و ہلاکتِ اہل
و مال کا سبب ہے۔اس لئے کہ حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس
کی عصر کی نماز فوت ہوجائےگویا اس کا اہل و مال(سب کچھ)ہلاک
ہوگئے۔(شرح
مسلم ،2/247،حدیث:1317) عصر
کا ترک اعمال کے باطل ہونے کا سبب ہے،چنانچہ فرمایا:جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کا
عمل باطل ہو گیا۔(بخاری، کتاب مواقيت الصلٰوة، باب اثم من ترک
العصر، 1/203، رقم : 528)۔ چنانچہ تفسیر صراط الجنان میں سورۂ
بقرہ کی آیت نمبر 238 کی تفسیر میں ہے:نمازِ عصر کی تاکید کی ظاہری وجہ یہ سمجھ
آتی ہے کہ ایک تو اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں اوردوسرا یہ کہ اس وقت
کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے تو اس غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا
زیادہ اہم ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نماز قائم کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ آمین
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ مرزا عظیم بیگ،لائنز ایریا
اللہ پاک نے دنیا
میں ہر چیز کسی مقصد کے تحت تخلیق فرمائی ہے اور زندگی گزارنے کے لیے مختلف اصولوں
کو ترتیب دیا ہے تاکہ تمام کائنات کا نظام اپنے طرز پر چلتا رہے خواہ وہ دنیا کے
معاملات ہوں یا دینی معاملات ہوں اسی طرح ہم بھی اپنی زندگی کو ان اصولوں کے تحت
گزاریں تو ہمیں مختلف مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ دن کے وقت دن کے
معاملات اور رات کے وقت کی الگ طرزِ زندگی ہوتی ہے۔عبادات میں بھی اللہ پاک نے بنیادی
اصولوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے احکامِ شریعت نافذ فرمائے ہیں اور یہ سب اللہ کریم
نے اپنی آخری کتاب قرآنِ پاک جو کہ اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمائی اس میں ہر ہر بات کو خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ۔ظاہر ہے
کہ کلامِ الہٰی ہے خوبصورت تو ہوگا ہی اور جو اس پر عمل کرے اس کی زندگی اور آخرت
دونوں ہی سنور جاتی ہیں۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قرآنِ پاک کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے احسن انداز میں اسے ہم تک پہنچایا
اور تمام عبادات کی اہمیت اور فضیلت کا علم ہم تک پہنچایا جیسا کہ عبادتوں میں سب
سے زیادہ اہمیت نماز کو حاصل ہے کسی اور عبادات کو نہیں کیونکہ قرآنِ پاک میں نماز
کے بارے اللہ پاک نے سب سے زیادہ احکام نازل فرمائے ہیں۔قرآنِ پاک کی روشنی میں:ترجمۂ کنز الایمان:اور میری یاد
کے لیے نماز قائم رکھ۔(پ16،طہ:14)ایک آیتِ مبارکہ
میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان: بے شک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے۔(پ21،العنکبوت:45)نماز اللہ
پاک کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔نماز ہمیں برائیوں سے روکتی اور بے حیائی کے
کاموں سے بھی باز رکھتی ہے۔نماز انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔(سنن کبری
للنسائی،5/280،حدیث:8888)نماز سے ہمیں
روحانی اور جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔نماز میرے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(تنبیہ
الغافلین،ص150)نماز حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے کوئی ایسی چیز فرض نہ کی جو
توحید اور نماز سے بہتر ہو،اگر اس سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور فرشتوں پر فرض
کرتا،ان( یعنی فرشتوں)میں کوئی رکوع میں
ہے،کوئی سجدے میں۔(مسندالفردوس،1/65،حدیث: 610) نماز ایسی پیاری عبادت ہے کہ جیسے نمازی نماز شروع کرتا ہے نماز کے فیوض و
برکات حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس حدیثِ مبارکہ میں ہم سے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
حضور اکرم صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:بندہ جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس کے
لئے جنتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کے اور پروردگار کے درمیان حجابات یعنی
پردے ہٹا دئیے جاتے ہیں اورحورِ عین(یعنی بڑی بڑی
آنکھوں والی حوریں)اس کا استقبال کرتی ہیں،جب تک
ناک سنکے نہ کھنکارے۔(معجم کبیر،8/250،حدیث:7980)علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نماز عصر ہے،پھر نمازِ
فجر،پھر نمازِ عشا،پھر نمازِ مغرب،پھر نمازِ ظہر ۔آئیے! ہم نمازِ عصر کے بارے میں
قرآن اور حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس کی اہمیت اور فضیلت جاننے کی سعادت حاصل کریں
گی۔قرآنِ پاک کی روشنی میں:اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان:نگہبانی(یعنی
حفاظت) کرو سب نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی۔حدیثِ پاک کی روشنی میں عصر کی نماز کی اہمیت اور فضیلت:حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان
فرماتے ہیں:ہم حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں
حاضر تھے،آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب
یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گےجس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو،تو
اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نماز فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو۔( مسلم،ص239، حدیث:1437ملخصاً)ایک اور حدیثِ پاک میں ارشادِ
نبوی ہے:تابعی بزرگ حضرت ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ایک
ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابیِ رسول حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں
تھے،آپ نے فرمایا: عصر کی نماز میں جلدی کرو کیوں کہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔(بخاری،1/253،حدیث: 553)صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،اللہ پاک کے پیارے نبی،آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی نمازِ عصر نکل گئی یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر
چھوڑے گویا اس کے اہل و عیال اور مال وتر ہو گئے یعنی چھین لیے گئے۔(بخاری،1/252،حدیث:552)رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ ہی
کو ملامت کرے۔(مسندابی
یعلی،1/288،حدیث:4897)(بہار شریعت،3/435)حضرت محمد
صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم اس حدیثِ مبارکہ میں نمازِ عصر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے
ارشاد فرماتے ہیں:حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور
والے آقا صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ نماز یعنی عصر کی نماز تم سے پچھلے
لوگوں پر پیش گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا،لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا
اسے دگنا یعنی double اجر ملے گا۔ میری پیاری پیاری اورمیٹھی میٹھی اسلامی بہنو!کتنی پیاری
فضیلت حدیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی ہے! اس حدیثِ مبارکہ اور قرآنی آیتِ مبارکہ سے
یہ معلوم ہوا کہ نمازِ عصر کی اہمیت اور
فضیلت بہت زیادہ ہے ۔یہ وقت دن کا درمیانہ حصہ ہوتا ہے جو کہ مصروفیت کا وقت بھی
کہلاتا ہے، بازاروں وغیرہ کہیں جانا یا پھر کوئی آئے غرض کہ اس وقت میں مصروفیات
بڑھ جاتی ہیں اور ہم اتنی کاہل ہیں کہ اپنی دنیاوی مصروفیات کے باعث نمازِ عصر قضا
کر کے اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتی ہیں، یہ بھی نہیں بلکہ ڈھیروں اجر و ثواب
کو ضائع کرنے کا بھی سبب بنتی ہیں اور اس کا ہمیں یہ نقصان ہوتا ہے کہ نماز کا اجر
بھی گیا اور بلکہ مزید گناہوں کے کام میں پڑ جاتی ہیں۔آئیے!ہم نیت کرتی ہیں کہ
چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم کوئی بھی نماز قضا نہیں کریں گی اور خاص طور پر عصر کی
نماز کی بھی پابندی کریں گی۔ ان شاءاللہ
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ آصف جاوید،واہ کینٹ
اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے:حفظوا على الصلوات والصلوة الواسطى ترجمۂ کنزالاىمان: نگہبانى کرو سب نمازوں کى اور بىچ کى نماز کى۔ اس آىتِ مبارکہ سے ظاہر ہے کہ تمام نمازوں مىں بالخصوص نمازِ عصر کتنى اہمىت کى حامل ہے۔اس
کى اہمىت اور بے شمار فضائل حضور پرنور،جانِ جاناں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھى بىان فرمائے ہىں چنانچہ جہنم مىں داخل نہ ہوگا:حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِىَ اللہُ عنہ سے رواىت
ہے، فرماتے ہیں: مىں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے
سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کى ( ىعنى فجر اور عصر پڑھى) وہ ہر گز جہنم
مىں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،ص 250، حدىث: 1436)2:عاشقِ نمازِ عصر کا قبر مىں حال:حضرت جابر بن عبداللہ رَضِىَ اللہُ عنہ سے رواىت
ہے ،حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب مرنے والا قبر مىں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج
ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھىں ملتا ہوا بىٹھتا اور کہتا ہے: دعونى اصلى مجھے چھوڑ دو ، مىں نماز پڑھ
لوں۔ ( ابن ماجہ ج 4، ص 513)مفتى احمد ىار خان نعىمى رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت فرماتے ہىں:ىعنى
اے فرشتو! سوالات بعد مىں کرنا، عصر کا وقت جارہا ہے مجھے نماز پڑھ لىنے دو۔
ىہ وہى کہے گا جو دنىا مىں نمازِ عصر کا
پابند تھا۔ ارشاد فرمایا:نمازِ عصر اہل و مال سے افضل:تم مىں سے
کسى کے اہل و مال مىں کمى کردى جائے تو ىہ اس کے لىے بہتر ہے کہ اس کى نماز ِ عصر فوت ہوجائے۔(مجمع الزوائد، ج 2، ص 50، الحدىث 1715)پىارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى نمازِ عصر سے
محبت :حضرت ِ
على رَضِىَ اللہُ عنہ سے رواىت ہے، خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:انہوں نے ہمىں بىچ کى نماز ىعنى نمازِ عصر سے روک دىا، خدا
ان کے گھر اور قبرىں آگ سے بھردے۔(متفق علىہ)غزوۂ احد مىں حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جسمانى اذىت بہت پہنچى لىکن وہاں کفار کو دعائے ضرر نہ دى،ىہاں نماز
قضا ہونے پر دعائے ضرر دى ، معلوم ہوا!حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نمازىں جان سے پىارى تھىں۔(مراة المناجىح ج
1، ص 383)5: دو گنا اجر:حضرت ابو بصرہ غفارى رَضِىَ اللہُ عنہ سے رواىت
ہے، حضور انور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ىہ نماز ىعنى نمازِ عصر تم سے پچھلے
لوگوں پر پىش کى گئى تو انہوں نے اسے ضائع کردىا لہٰذا جو اسے پابندى سے ادا کرے
گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم ص 322، حدىث 1927)اللہ پاک ہمىں اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو خشوع و خضوع سے ادا کرنے کى توفىق عطا فرمائے۔
امىن بجاہ النبى الامىن صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ جمیل احمد عطاریہ،نیو کراچی
اللہ پاک پارہ 2
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 238 میں فرماتا ہے:حفظوا علی
الصلوات والصلوۃ الوسطی ق وقوموا لِلّٰہ
قنتین0ترجمہ: تمام نمازوں خصوصاً بیچ والی نماز (عصر )کی محافظت رکھو
اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے رہو۔(بہارشریعت،ص433،حصہ سوم) کسی نبی نے نمازِ عصر ادا فرمائی:حضرت عزیر علیہ السلام سو برس کے بعد زندہ فرمائے گئے،اس کے بعد آپ نے چار رکعتیں
ادا کیں تو یہ نمازِ عصر ہوگئی۔ (فیضانِ نماز،ص29) عصر کا نام رکھنے کی وجہ:عصر
کا معنی دن کا آخری حصہ۔چونکہ یہ نماز اسی وقت میں ادا کی جاتی ہے اسی لیے اس نماز
کو عصر کی نماز کہا جاتا ہے۔(فیضانِ نماز،ص114) پانچ نمازوں میں فضیلت کی
ترتیب:علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نمازوں میں سب
سے افضل نماز عصر ہے،پھر نمازِ فجر،پھر عشا،پھر مغرب،پھر ظہر اور پانچوں نمازوں کی
جماعتوں میں افضل جماعت نمازِ جمعہ کی جماعت ہے ،پھر فجر کی،پھر عشا کی۔نمازِ عصر
کی اہمیت و فضیلت:حدیث نمبر1:فرشتوں کی تبدیلیوں کے اوقات: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رات اور دن کے فرشتے تم میں باری باری آتے ہیں
اور نمازِ فجر اور عصر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں،پھر جو تمہارے پاس آئے تھے وہ اوپر کو
چڑھ جاتے ہیں۔ تو ان کا رب ان سے پوچھتا
ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال چھوڑا؟عرض کرتے ہیں:ہم
نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس گئے جب بھی وہ نماز پڑھ
رہے تھے۔(بہارشریعت،حصہ
سوم،ص440،حدیث:34)وضاحت:نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے کہ اس کے بارے میں سوال جواب ہوتا
ہے۔نمازِ فجر اور عصر دیگر نمازوں کے مقابلے میں عظمت والی ہیں کیونکہ فجر کے وقت
رزق تقسیم ہوتا ہے جبکہ دن کے آخری حصے میں یعنی عصر کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں
تو ان دونوں وقتوں میں رزق و عمل میں برکت دی جاتی ہے۔حدیث نمبر2: فجر اور عصر
پڑھنے والا جہنم میں نہیں جائے گا:حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی یعنی
فجر اور عصر وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(فیضانِ نماز،ص99)وضاحت:حضرت
مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اس کے دو مطلب ہیں:(1) فجر
اور عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہ جائے گا،اگر گیا تو
عارضی طور پر(2)فجر اور عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی۔حدیث نمبر3:نمازعصر
قضا ہو جانے کا گناہ:حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے،حضرت ابو الملیح رحمۃُ
اللہِ علیہ نے فرمایا: ہم ایک غزوے میں
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ عنہ کے ساتھ تھے
ایسے روز کے بادل چھائے ہوئے تھے تو انہوں نے فرمایا: نماز جلدی پڑھ لو کیونکہ نبیِ
پاک صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے نمازِ عصر ترک کر دی اس کے سارے اعمال ضائع
ہوگئے۔(بخاری،1/299،حدیث:523)وضاحت:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ جو عصر
چھوڑنے کا عادی ہوجائے اس کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے جس سے اعمال برباد
ہو جائیں،اس کا یہ مطلب نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر اور ارتداد ہے۔حدیث نمبر 4:نمازِ
عصر کا double اجر: حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نور
والے آقا صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی عصر تم سے پہلے پچھلے لوگوں پر پیش
کی گئی انہوں نے اسے ضائع کر دیا ،لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا یعنی
double اجر ملے گا۔(فیضانِ نماز،ص104)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ
عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،لہٰذا تم ان سے عبرت
پکڑنا۔حدیث نمبر 5:سنتِ عصر کے فضائل:طبرانی کبیر میں اُمُّ المومنین اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے راوی،رسول اللہ
صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس
کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے۔(بہار شریعت،حصہ4،ص661،حدیث:18)
نمازوں کے اندر خشوع اے خدا دے پئے غوث اچھی نمازی بنا دے
اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت!اے عاشقانِ نماز!نماز اللہ پاک کی بہت پیاری
عبادت ہے کہ شروع کرتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اس سے بے شمار فضائل اور
برکات حاصل ہوتے ہیں۔ نماز روح کو غذا فراہم کرتی ہے۔چہرہ چمکاتی ہے۔برکت لاتی ہے۔رزق
لاتی ہے اور سب سے بڑی نعمت یہ ہےکہ نمازی
کو قیامت کے دن اللہ پاک کا دیدار ہو گا۔ان شاءاللہ ہم بھی اللہ پاک کا دیدار پانے
کے لیے خوب خوب نمازوں کا اہتمام کرکے اپنے رب کریم کو راضی رکھنے کی کوشش کریں گی۔
دور ہوں بیماریاں بےکاریاں ناکامیاں دل
میں داخل ہو مسرت تم پڑھو دل سے نماز
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ محمد الیاس عطاریہ،احمد نگر بونگا
ہر مکلف یعنی
عاقل وبالغ مسلمان پر نماز فرض عین ہے۔اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔جو قصداً نماز
چھوڑے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسق ہے۔(بہار شریعت،الف،پہلا
حصہ) منیۃ المصلی میں ہے:ارشاد فرمایا:ہر شے کے لیے ایک علامت
ہوتی ہے اور ایمان کی علامت نماز ہے۔(بہارشریعت،ص439،الف،پہلا
حصہ)پانچ نمازوں میں فضیلت کی ترتیب:علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:پانچ نمازوں میں
سب سے افضل نماز عصر ہے،پھر نمازِ فجر،پھر عشا،پھر مغرب،پھر ظہر۔(فیضانِ نماز،ص85)عصر کے
معنی:عصر کے لغوی معنی روزگار،وقت،زمانہ
سماں ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد دن کی آخری نماز ہے جو غروبِ آفتاب سے پہلے پڑھی
جاتی ہے۔قرآنِ پاک میں نماز کا ذکر:قرآنِ پاک میں بھی نمازِ عصر کا ذکر ہے چنانچہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطیقوقومواللہ
قنتین0 (پ2،البقرۃ:238) ترجمۂ کنزلایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی
اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے۔اس آیتِ کریمہ میں
تمام نمازوں کی پابندی اور نگہبانی کرنا،اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا،با جماعت
پڑھنا،درست پڑھنااور صحیح وقت پر پڑھنا سب داخل ہیں۔بخاری شریف میں ہے:نمازِ وسطی
سے مراد عصر کی نماز ہے۔آیت میں نمازِ عصر کے تاکیدی حکم کی وجہ ایک تو اس وقت دن
اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں،دوسرا یہ کہ اس وقت کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا
ہے تو غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا زیادہ اہم ہے۔(صراط الجنان،1/263)عصر کے بارے میں آخری نبی،محمد
مصطفٰے صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے فرامین ملاحظہ کیجیے:(1):حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت
ہے، آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے
ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود
ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟وہ عرض کرتے ہیں:ہم نے انہیں
نماز پڑھتے چھوڑا۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔اس حدیثِ
پاک سے معلوم ہوا!نمازِ فجر و عصر دیگر نمازوں کے مقابلے میں اعظم( یعنی زیادہ عظمت والی) ہے۔(فیضانِ نماز،ص98)(2):حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب( یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز
ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ اس حدیثِ
پاک سےمعلوم ہوا!فجر اور عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ کے لیے نہ جائے
گا ،اگر گیا تو عارضی یعنی وقتی طور پر۔دوسرا یہ کہ فجر اور عصر کی پابندی کرنے
والوں کو ان شاءاللہ الکریم باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی۔(فیضانِ نماز،ص99)(3)جریر
بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں:ہم آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب یعنی قیامت کے دن
تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہوں ،تو اگر تم لوگوں
سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔پھر حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:وسبح
بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنے
رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔
دل کو جلوۂ ماہِ عرب درکار ہے چودھویں
کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں(فیضانِ نماز،ص100)
(4)حضرت ابو بصرہ غفاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں
نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دوگنا اجر ملے گا۔ حضرت
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ
علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی امتوں پر بھی نمازِ
عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے، تم ان سے عبرت پکڑنا ۔(فیضانِ نماز،ص104) (5)آخری
نبی صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے
تو وہ اپنے ہی کو ملامت کرے۔(فیضانِ نماز،ص109)نمازِ عصر کے بعد سونے کے
بارے میں شرعی راہ نمائی سے متعلق 6 فروری 2015 کے مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت
دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ سے سوال کیا گیا تو آپ نے
فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ عصر کے بعد سونا گناہ تو نہیں البتہ عقل زائل ہونے
کا خوف ہے یعنی عقل چلی جائے تو اپنے کو ملامت کرے۔اب اگرnight shift ہے تو کیا پورا دن سویا ہی رہے گا؟قُم قُم یا
حبیبی کَمْ تَنَامُ یعنی اٹھ اٹھ!اے میرے حبیب! کب تک سوئے گا؟نمازیں ساری ہی باجماعت
پڑھنی ہیں۔عصر بھی پڑھنی ہے۔عصر کے بعد مغرب کا وقفہ ہی کتنا ہوتا ہے!لہٰذا نہ
سوئے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ
نمازوں کے اندر خشوع اےخدا دے
پائے غوث اچھی نمازی بنا دے
الله پاک نے ہم پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے لیکن
ان میں سے نماز عصر کی بہت زیادہ تاکید کی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگان دین اس
نماز کا بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
عارف باالله ابو
العباس حَرِثی رحمۃ الله علیہ نماز عصر کی تیاری اس وقت سے شروع کردیتے جب ظہر کا
وقت ختم ہونے میں چالس منٹ باقی رہتے آپ کی تیاری کا طریقہ یہ ہوتا کہ نگاہیں جھکائے
مراقبے میں مشغول ہوجاتے اور وسوسوں سے استغفار کرتے رہتے اور ایسا اس لیے کرتے
تاکہ آپ پر عصر کا وقت اس حالت میں آئے کہ بارگاہ الٰہی میں حاضری سے آپ کے سامنے
کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ (فیضان نماز، ص 105 )
الله پاک نے بھی
قرآن کریم میں اس کی تاکید فرمائی ہے چنانچہ پارہ 2 سورہ بقرہ آیت 238 میں ارشاد
فرماتا ہے: حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ
الْوُسْطٰىۗ- ترجمہ کنز العرفان : تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً
درمیانی نماز کی ۔ اس آیت میں درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔
نماز عصر کی تاکید کی
وجہ : اس نماز کی تاکید وجہ کے بارے مفتی اہلسنت مفتی محمد قاسم
صاحب فرماتے ہیں : نماز عصر کی تاکید کی ظاہری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ایک تو
اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس وقت
کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے تو اس غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا
زیادہ اہم ہے ۔(صراط الجنان ، 1 / 363 )
حدیث پاک میں بھی نماز عصر کی فضیلت وارد ہے نماز عصر کے
بارے پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں :۔
حدیث (1) حضرت
سیدنا ابو بصرہ غفاری سے روایت ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے
لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔ (مسلم ،ص 322،حدیث: 1927)
مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں یعنی پچھلی
امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ، تم
ان سے عبرت پکڑنا۔ (مرآۃ المناجیح،2/166)
حدیث (2) حضرت
عُمارہ بِن رُوَیٔبَہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے سورج کے طلوع و غروب
ہونے سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی ) وہ ہرگز جہنم
میں داخل نہ ہوگا ۔(مسلم ،ص 250 ،حدیث: 1436)حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی اس حدیث
پاک کے تحت لکھتے ہیں اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ فجر اور عصر کی پابندی
کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہ جائے گا اگر گیا تو عارضی (یعنی وقتی)
طور پر۔ دوسرا یہ کہ فجر اور عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاء الله باقی نمازوں
کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی۔ (مرآۃ المناجیح ،1/394)
حدیث (3) حضرت
بُرَیْدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ
سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جس نے نماز عصر چھوڑدی اس کا عمل ضبط ہوگیا ۔ (بخاری ،1 /203 ،حدیث:
553)حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں غالباً عمل سے مراد وہ
دنیوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نماز عصر چھوڑی اور ضبطی (ضبط ہونے) سے مراد اس
کام کی برکت کا ختم ہو جانا یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر چھوڑنے کا عادی ہو جائے اس کے
لئے اندیشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے جس سے اعمال برباد ہو جائیں (البتہ) اس کا یہ
مطلب نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر و ارتداد ہے۔ (مرآہ المناجیح ، 1 / 381)
حدیث (4) حضرت ابو
ہریرہ سے روایت ہے حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے
ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں
رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں الله پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے
پوچھتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ عرض کرتے ہیں ہم نے انہیں
نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،ج
1 ،حدیث: 555)
حدیث (5)حضرت عبد الله بن عمر سے روایت ہے کہ الله پاک کے
پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : جس کی نماز عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑے
)گویا اس کے اہل و عیال و مال وَتْر (یعنی چھین لئے)گئے۔ (بخاری ، حدیث: 552)
حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ الله علیہ فرماتے
ہیں : وَتْر کا معنی ہے نقصان ہونا یا چھن جانا پس جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا
اس کا نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا لہذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس
طرح ڈرنا چاہئیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد
ہونے سے) ڈرتا ہے۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ، 2 / 590)
الله پاک ہم کو پنچ
وقتہ نماز اداء کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طارق عطاری (
درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج ،نیپال )
حدیث پاک میں نماز عصر پڑھنے کی بیشمار فضائل و اہمیات ہیں
جن میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے
تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی
نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں ، پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی
طرف چلے جاتے ہیں ، اﷲ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے : تم نے میرے
بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا
اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔(بخاری ،1/203، حدیث: 555
)
(2) حضرت
عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطفی جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے
سنا : جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (جس
نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا ۔ (مسلم ،ص 250، حدیث :1436)
(3)
حضرت ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر
دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دُگنا اجر ملے گا ۔(مسلم ص 322، حدیث :1927)
(4)
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : جس کی نماز عصر نکل گئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال ہلاک گئے ۔ (بخاری
،1/102، حدیث :552)
(5) حضرت جابر
بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظَّم ہے : جب مرنے والا
قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا
بیٹھتا ہے اور کہتا ہے : مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں ۔ (ابن ماجہ ،4/503، حدیث :4272) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
حدیث پاک کے اس حصے (سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں : یہ احساس
"مُنْکَر نَکِیْر" کے جگانے پر ہوتا ہے ، خواہ دفن کسی وقت ہو ۔ چوں کہ
نماز عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے ،
اس لئے یہ وقت دکھایا جاتا ہے ۔ حدیث کے اس حصے (مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں) کے
تحت لکھتے ہیں : اے فرشتوں ! سوالات بعد
میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو ۔ یہ وہی کہے گا جو دنیا میں
نماز عصر کا پابند تھا ، اﷲ نصیب کرے ۔ اسی لئے اللہ پاک فرماتا ہے : حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ
الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )
یعنی تمام نمازوں
کی خُصُوصاً عصر کی بہت نگہبانی کرو ۔ صوفیا فرماتے ہیں : جیسے جیوگے ویسے ہی مرو
گے اور جیسے مرو گے ویسے ہی اُٹھوگے ۔ خیال رہے مومن کو اس وقت ایسا معلوم ہوگا
جیسے میں سو کر اُٹھا ہوں ، نَزْع وغیرہ سب بھول جائے گا ۔ ممکن ہے کہ اس عرض
(مجھے چھوڑ دو! میں نماز پڑھ لوں) پر سوال جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان
کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی ۔ (مرآۃ المناجیح ،1/142)
پیارے اسلامی
بھائیو! مذکورہ بالا احادیث پاک سے معلوم ہوا کہ نماز عصر ادا کرنے کی کتنی فضیلت
اور ادا نہ کرنے وعیدیں ہیں ۔ لیکن افسوس! ہماری اکثریت نمازوں سے دور نظر آتی ہے
بالخصوص نماز عصر میں سستی کا شکار نظر آتی ، ہمیں چاہیے کہ ہم تمام نمازوں کو اس
کے وقت پر پابندی کے ساتھ ادا کریں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں پانچوں نمازیں باجماعت مسجد کی پہلی صف میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامين صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے اپنے پاکیزہ کلام میں نماز قائم کرنے کا حکم
دیا اور دن میں پانچ نمازوں کو پڑھنا فرض قرار دیا، نماز قائم کرنا اسلام کے
بنیادی اصولوں میں سے ہے، جس طرح نمازی کے لئے کثیر فضائل ہیں تو بے نمازی کے لئے
وعیدیں بھی آئی ہیں، تمام نمازوں کی اپنی فضیلت واہمیت ہے یہاں نماز عصر کی فضیلت
واہمیت ملاحظہ فرمائیں:
نماز عصر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ پاک
نے اس کی حفاظت کا حکم قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ
الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی
کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور
کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 ) اس آیت کے تحت تفسیر نسفی میں ہے: وهى صلاة العصر عند أبي حنيفة رحمه الله وعليه
الجمهور لقوله عليه السلام يوم الأحزاب شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر ملأ
الله بيوتهم ناراً. ترجمہ: امام
اعظم رحمۃُ اللہِ
علیہ اور جمہور کے نزدیک نماز وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے، خندق کے
دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے اس فرمان کی وجہ سے انہوں نے ہمیں نماز وسطیٰ نماز عصر سے روکے رکھا اللہ پاک
ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔(مدارك التنزيل وحقائق التأويل، 1/200)
مرآۃ المناجیح
میں ہے:خیال رہے کہ نماز عصر کو قرآن کریم نے بیچ کی نماز فرما کر اس کی بہت تاکید
فرمائی، نیز اُس وقت رات و دن کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے اور یہ وقت لوگوں کی
سیر و تفریح اور تجارتوں کے فروغ کا وقت ہے، اس لئے کہ اکثر لوگ عصر میں سستی کر
جاتے ہیں ان وجوہ سے قرآن شریف نے بھی عصر کی بہت تاکید فرمائی اور حدیث شریف نے
بھی۔(مرآۃ المناجیح، 1/372، نعیمی کتب خانہ گجرات)
نماز عصر کی فضیلت
واہمیت پر مشتمل پانچ احادیث:۔
(1) بخاری و مسلم کی حدیث پاک میں ہے:أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاَةُ العَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ
أَهْلَهُ وَمَالَهُ»ترجمہ: رسول ﷲ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کی نماز عصر جاتی رہی گویا اس کا
گھر بار اور مال لٹ گیا۔(صحيح بخاري،1/115، صحيح مسلم، 1/435)مرآۃ المناجیح میں
ہے:یعنی جیسے اس شخص کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی ایسے ہی عصر چھوڑنے والے کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچتا ہے۔(مرآۃ المناجیح، 1/372)مرقات المفاتیح میں ہے:فَوْتُ
صَلَاةِ الْعَصْرِ أَكْثَرُ خَسَارًا مَنْ فَوْتِ أَهْلِهِ وَمَالِهِ.ترجمہ: نماز عصر کا فوت ہونا اس کے مال و اہل وعیال کے فوت
ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 2/529)
(2) بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:مَنْ تَرَكَ
صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُه.ترجمہ: جس
نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہو گئے۔(صحيح البخاري، 1/115)مرآۃ المناجیح میں
مذکورہ حدیث پاک کے تحت ہے:غالباً عمل سے مراد وہ دنیوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے
نماز عصر چھوڑی۔
(3) مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے:«لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ
الشَّمْسِ، وَقَبْلَ غُرُوبِهَا» يَعْنِي الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ ترجمہ: وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جس نے سورج کے طلوع اور غروب یعنی فجر
و عصر سے قبل نماز ادا کی (مسلم، صحيح مسلم، 1/440)
(4) بخاری شریف کی حدیث پاک ہے: أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى البَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ» ترجمہ: جس نے
ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں ادا کی وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (صحيح بخاري، 1/119) اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القادری میں ہے:قَالَ كثير
من الْعلمَاء: البردان الْفجْر وَالْعصرترجمہ:
کثیر علماء نے فرمایا: بردان سے مراد فجر و عصر ہیں۔(عمدة القاري شرح صحيح
البخاري، 5/71)
(5) بخاری و مسلم کی حدیث پاک میں ہے:عَنْ
جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَيْلَةً يَعْنِي البَدْرَ فَقَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا
تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ
لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا
فَافْعَلُوا» ثُمَّ قَرَأَ:
وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ
رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِۚ(۳۹)ترجمہ: حضرت جریر ابن عبد
اللہ رضى الله عنه روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس بیٹھے تھے کہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چودھویں
شب میں چاند کو دیکھا، پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو ایسے دیکھو گے جیسے چاند کو
دیکھ رہے ہو، تم اس کے دیکھنے میں شک نہیں کرتے، تو اگر تم یہ کر سکو کہ سورج
نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلی والی نماز پر مغلوب نہ ہو تو کرو، پھرحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ قرأت
کی (اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے
سے پہلے)۔( صحيح بخاري،1/115 ، صحيح مسلم، 1/439)مرآۃ المناجیح میں ہے:ان دو
نمازوں پر پابندی اس دیدار کی لیاقت و قابلیت پیدا کرے گی یعنی فجروعصر کی پابندی
دنیا میں نماز ایسے پڑھو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو کیونکہ یہاں حجاب ہے وہاں
حجاب اٹھ جائے گا گویا ختم ہوجائے گا اسے دیکھ کر اس سے کلام کرو۔(مرآۃ المناجیح، 7/381،
نعیمی کتب خانہ گجرات)
بعث ىعنى بھىجنا۔
ظہور ِنبوت کو بعثت کہا جاتا ہے۔انبىا نبى کى جمع ہے۔ نبى اس بشر(ىعنى انسان) کو کہتے ہىں جس
کى طرف اللہ پاک نے مخلوق کى ہداىت ور اہ نمائى کے لىے وحى بھىجى ہو اور ان مىں سے
جو نئى شرىعت ىعنى اسلامى قانون اور خدائى احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے
ہىں۔انبىا علیہم السلام سب بشر
تھے اور مرد تھے نہ کوئى جن نبى ہوا نہ کوئى عورت ۔اللہ پاک سورۂ ىوسف کى آىت نمبر109 مىں ارشاد
فرماتا ہے:وما ارسلنا من قبلک الا رجالا ترجمہ:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھىجے سب مررہى تھے ۔ابوالبشر حضرت آدم علیہم السلام سے لے کر سردارِ انبىائے کرام،حضور سرورِ کائنات
صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کى تشرىف آورى تک اس زمىن مىں جتنے بھى انبىائے کرام اور
رسول علیہم السلام مبعوث ہوئے ان سب کى تشرىف آورى کا اصل مقصد
اللہ پاک کى واحدنىت اوربڑائی کو بىان کرکے ان کو معرفت ىعنى پہنچانِ الہٰى کا درس
دىنا تھا۔اللہ پاک کى پہچان انبىائے کرام علیہم السلام کے بىان کرنے سے
حاصل ہوتى ہے صرف عقل سے ہى اس منزل تک پہنچنا مىسر ىعنى آسان نہىں ہوتا۔ اللہ پاک
نے اپنى بارگاہ کی مقدس ہستىوں کو مخلوق
کى طرف بھىجنے کى حکمتىں اور مقاصد قرآنِ پاک مىں بىان فرمائے ہىں۔ان مىں سے 10
درج ذىل ہىں:1۔ نبى ہونے کے لىے اس پر وحى ہونا ضرورى ہے۔وحى وہ خاص قسم کا کلام
ہے جو کسى نبى پر اللہ پاک کى طرف سے نازل ہوا ہو خواہ فرشتہ کى معرفت سے ہو ىا بلاواسطہ نىز وحىِ نبوت انبىائے کرام علیہم السلام کے لىے خاص ہے۔ ارشادِ بارى ہے: وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ
الا وحیا اومن وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحى باذنہ مایشآء انہ على حکیم0ترجمہ: اور کسى آدمى کے لىے ممکن نہىں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے ، مگر وحى کے طور پر ىا ىوں کہ وہ( آدمى عظمت
کے) پردے کے پىچھے ہو ىا ( ىہ کہ ) اللہ کوئى فرشتہ بھىجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم
سے وہى پہنچائے جو اللہ چاہے بے شک وہ بلندى والا حکمت والا ہے۔(الشورى ، آىت 51)2:
انسانىت کو راہِ ہداىت عطا کرنے کے لىے رب کریم نے سلسلۂ انبىا قائم فرماىا ۔اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے۔:ولقد
بعثنا فى کل امۃ رسولا ان اعبدو اللہ واجتنبو الطاغوت فمنھم من ھدی اللہ ومنھم من
حقت علیہ الضللۃ فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین0 ترجمہ: اور بے شک ہر امت مىں
ہم نے اىک رسول بھىجا کہ ( اے لوگو) اللہ کى عبادت کرواور شىطان سے بچو تو ان مىں
کسى کو اللہ نے ہداىت دے دى اور کسى پر گمراہى ثابت ہوگئى تو تم زمىن مىں چل پھر
کر دىکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام
ہوا۔(النمل 36 آىت)3۔اللہ پاک کے حکم سےانبىا علیہم السلام کى اطاعت کى جائے:
اللہ پاک فرماتا ہے:وما
ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہترجمہ :اور ہم نے کوئى رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے
حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(النساء:64) 4:یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں
کو جنت کی بشارت اور کفر ونافرمانی پر
جہنم کی وعید سنادیں۔اللہ پاک فرماتا ہے: ومانرسل المرسلین الا مبشرین
ومنذرین فمن امن و اصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون0ترجمہ:اور ہم رسولوں کو اسى حال مىں بھىجتے ہىں کہ وہ خوشخبرى دىنے والے ڈر سنانے والے ہوتے ہىں تو جواىمان لائىں اور اپنى اصلاح کرلىں تو ان
پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگىن ہوں گے۔
(الانعام آىت 48)5۔
بارگاہِ الہى مىں لوگوں کے لىے کوئى عذر باقى نہ رہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:رسلاً
مبشرین ومنذرین لئلایکون للناس على اللہ حجة بعد الرسول وکان اللہ عزیزا حکیما0 ترجمہ:(ہم نے) رسول خوشخبرى دىتے اور ڈر سناتے(بھىجے) تاکہ رسولوں
( کو بھىجنے) کے بعد اللہ کے ىہاں لوگوں کے لىے کوئى عذر( باقى) نہ رہے اور اللہ زبردست
ہے حکمت والا ہے۔(النسا ء: 165)6: دىنِ اسلام کو
دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دىگر تمام ادىان پر غالب کردىا جائے ۔اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے:ھو الذى ارسل رسولہ بالھدىٰ ودین الحق لیظھرہ على الدین کلہ ولوکرہ المشرکون0 ترجمہ: وہى ہے جس نے اپنا رسول ہداىت اور سچے دىن کے ساتھ بھىجا تاکہ اسے تمام دىنوں پر
غالب کردے اگرچہ مشرک ناپسند کرىں۔(التوبہ آىت 33)7۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنى امت کو قرآن اور شرعى احکام پہنچادىں:اللہ پاک نے ارشاد فرماىا:کذلک
ارسلنک فى امة قد خلت من قبلھا امم لتتلواعلیہم الذى اوحینا الیک وھم یکفرون بالرحمن ترجمہ : اسى طرح
ہم نے تمہىں اسى امت مىں بھىجا جس سے پہلے کئى امتىں گزرگئىں تاکہ تم انہىں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہارى طرف وحى
بھىجى ہے، حالانکہ وہ رحمن سے منکر ہورہے ہىں۔(الرعد آىت30)8۔نبى کى تعظىم فرضِ عىن بلکہ اصلِ تمامِ فرائض ہے۔اللہ پاک
ارشاد فرماىا ہے:انا ارسلنک شاھدًا ومبشراونذیر0لتؤمنوا باللہ رسولہ وتعزروہ
وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ و اصیلا0ترجمہ : تاکہ ( اے لوگو) تم اللہ اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ اور رسول کى
تعظىم و توقىر کرو اور صبح و شام اللہ کى
پاکى بىان کرو۔آخر مىں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمىں انبىائے کرام علیہم السلام کے نقشے قدم پر
چلنے کى توفىق عطا فرمائے۔اللھم امىن
1۔ خداوند عالم
انبیا کر ام علیہم
السلام کی بعثت کے متعلق سورۂ
حدید کی پچیسویں آیت میں فرمایا ہے:ترجمہ:بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے
ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے
ساتھ قیام کریں۔2۔ اللہ پاک سورة النحل کی آیت نمبر 36 میں فرماتا ہے:ترجمہ: ہم نے
ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔34۔ اللہ پاک سورۂ الکہف 1/56 میں فرماتا ہے :ترجمہ : ہم تو
اپنے رسولوں کو صر ف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنائیں اور ڈرادیں۔(4) ا للہ پاک نے آ پ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بارے میں فرمایا:سورۂ جمعہ 2:ترجمہ: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان میں
سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے
اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے، یقینا اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔قر آنِ کریم میں ار شاد ہوتا ہے:5: ترجمہ: یقینا
تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ( موجود) ہے پھر اس شخص کے لیے جو اللہ پاک کی اور قیامت کے دن کی
توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ پاک کی یاد
کر تا ہے۔ ( الاحزاب 21)6۔ حضر ت نوح علیہ السلام کے بارے میں
قرآن کہتا ہے:ترجمہ: ہم نےنوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا: اے
میری قوم !تم اللہ کی عبادت کرواس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں،
مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا ااندیشہ ہے۔( اعراف 7، آیت 59)7۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں
قرآن کہتا ہے:ترجمہ: پھر ان کے بعد
ہم نے موسیٰ کو اپنے دلائل دےکر فرعون اور اس کے امراکے پاس بھیجا، مگر ان لوگوں
نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوگا۔( اعراف 7، آیت 103(8۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ترجمہ : یقیناً ہم نے تمہاری
طرف حق کے سا تھ اسی کتاب نازل فرمائی تا کہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے
اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔(سورة النسا آیت 105)9۔ حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں
قرآن کہتا ہے: ترجمہ: اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں
نے فرمایا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمہار امعبود
نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے۔10۔ اللہ پاک قرآنِ پاک میں بھی ارشاد فرماتا ہے۔ترجمہ:ہم
نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبری سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی
حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ پاک پر رہ نہ جائے، اللہ پاک بڑا غالب اور بڑا باحکمت
ہے۔(سورة النسا 165)
اللہ پاک نے مخلوق کی راہ نمائی کے لیے
ان کی طرف انبیا و رسولوں علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام لوگوں پر ان کو
فضیلت بخشی اور ان میں سے بعض کو بعض فضیلت عطا فرمائی ۔کچھ انبیا علیہم
السلام کا ذکر قرآنِ پاک میں فرمایا کچھ کا نہیں
فرمایا۔نبیوں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ
السلام
اور آخری نبی، پیارے آقا،محمد مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔اللہ پاک کی انبیائے کرام علیہم
السلام
کو معبوث فرمانے کی کئی حکمتیں قرآنِ پاک میں بیان ہوئیں ہیں۔ان میں سے 10 کا ذکر
کرتی ہوں۔1:امتوں میں پیدا ہونے والے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے:ترجمۂ
کنزالایمان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیا بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور
ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے
اختلافات میں فیصلہ کردے۔ (پ2،البقرۃ:213)تفسیر
: حضرت آدم علیہ السلام
سے حضرت نوح علیہ السلام
تک لوگ مومن رہے پھر ان میں اختلاف نمودار ہوا۔ بعض مومن بعض کافر ہوئے
پھر رب نے پیغمبر بھیجے۔(تفسیر نور العرفان)لوگوں
کی عقلیں اور نظریات مختلف ہیں تو اللہ پاک نے انبیا علیہم السلام کو
بھیجا تاکہ ان کے درمیان اختلاف کا فیصلہ کر دے۔2: اللہ پاک کی عبادت کا حکم دینے
کے لیے:ترجمۂ
کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری
قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں تو کیا تم ڈر نہیں۔(سورۃ
مومنون، آیت نمبر 23،پارہ 18)تفسیر: اس وقت تمام انسان آپ کی قوم
تھے کیونکہ انسان بہت تھوڑے تھے۔ لہٰذا آدم علیہ
السلام
اس وقت کے تمام انسانوں کے نبی تھے۔(تفسیر نور العرفان ،ص808)3:
اللہ پاک کے احکام بندوں تک پہنچانے کے لیے:اللہ پاک نے مخلوق کو اپنی عبادت کیلئے
پیدا کیا اور ان کیلئے امر و نہی پر مشتمل شریعت قائم کی،انبیا علیہم
السلام کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ
بنایا تاکہ یہ حضرات لوگوں تک احکام پہنچا دیں۔اب اگر انبیا علیہم
السلام نہ ہوتے تو مخلوق گمراہ ہو جاتی اور وہ یہ نہ
جان پاتے کہ عبادت کس طرح سے کرنی ہےاور کیا کام کرنے ہیں اور کن کاموں کو ترک
کرنا ہے؟ ترجمۂ کنز الایمان:اور
ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (
انعام : 48)اس
وجہ سے اللہ پاک نے مخلوق پر رسولوں کی اطاعت کو واجب کر دیا۔
(النور المبین صفحہ نمبر 53)اس آیت میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ
انبیا علیہم
السلام کو لوگوں کو احکامِ الٰہی بجا لانے پر خوشخبری
سنانے والا بھیجا اور جو پیروی نہ کریں ان کو ڈر سنا کر درست طریقہ عبادت کی طرف
لانے والا بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں پر اللہ پاک نے ان رسولوں کی اطاعت کرنا
واجب کر دیا۔4:مخلوق پر حجت پوری ہو جائے:اللہ پاک نے انبیائے
کرام علیہم
السلام کو بھیجا تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہوجائے
اور ان کے عذر ختم ہو جائیں ۔اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ: اور ہم
کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔(الاسراء:15)
اور فرماتاہے:ترجمۂ
کنز الایمان:رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں
کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(النور المبین
صفحہ 54)5:امت
کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کے لیے:ترجمۂ کنزالعرفان:جیسا کہ ہم
نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے
اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے
جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔تفسیر:آیت میں فرمایا:”اور تمہیں وہ
تعلیم فرماتا ہے “سے مراد ہےقرآن اور احکام الہٰیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ آپ
ہمیں سکھاتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، ص 274)6:تاکہ
دین غالب آجائے:ترجمۂ
کنزالایمان: اور
سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔ (سورۃ
التوبہ،آیت نمبر 32)اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم
السلام
کو معبوث فرمایا تاکہ اللہ پاک کا دین باطل ادیان پر غالب آجائے
اور حق اور باطل میں فرق ہو جائے۔7:لوگوں کے
لیے رحمت:ترجمۂ
کنز الایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(
الانبیاء،آیت نمبر 107) حضرت ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
نے فرمایا:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والو کے لیے بھی اور
اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا،مومن کے لیے بھی اور کافر کے لیے بھی۔(تفسیرِ
خزائن العرفان،ص 616) اس آیت اور تفسیر سے یہ بات ظاہر ہے کہ
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چاہے انس ہو یا جن،مومن ہو یا کافر سب کے لیے
رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔8:لوگوں کے لیے عدل کرنے کیلئے:ترجمۂ
کنزالایمان:بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ
کتاب اور عدل کی ترازو اتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔( الحدید،آیت
نمبر 25)اس
آیت کی تفسیر میں مفتی صاحب نے فرمایا: اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ان کی امتوں کی
طرف روشن دلیلوں کے ساتھ اور عدل کے ساتھ معبوث فرمایا۔( تفسیر صراط
الجنان ،ص 751،ج 9)9:حاضر وناظر بنا کر بھیجا:
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور
خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔حاضر وناظر کے شرعی معنی ہیں: قدسی قوت
والاجو ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھنے اور دور
نزدیک کی آوازیں سنے۔سورۂ احزاب آیت نمبر 6 میں اللہ پاک نے فرمایا :نبی ِکریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ (
الاحزاب:58،پارہ8)10:خوشخبری اور ڈر سنانے کے لئے:ترجمۂ
کنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(
بنی اسرائیل،آیت نمبر 105)اللہ پاک نے اپنے انبیائے کرام علیہم
السلام کو بھیجا تاکہ ایمان والو کو خوش خبری سنائے
اور کافروں کے لیے ڈر سنانے والا۔
بِعْثَتْ کے لُغَوی معنیٰ بھیجنے کے
ہیں جبکہ اَنبیا نبی کی جمع ہے۔ نبی اُس بَشَر(اِنسان) کو
کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہِدایت اور رَاہ نُمائی کے لیے وَحی
بھیجی ہواور اُن میں سے جو نئی شریعت یعنی اِسلامی قانون اور خُدائی اَحکام لے کر
آئے، اُسے رَسُول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیا،صفحہ نمبر :29،مطبوعہ
:مکتبۃ المدینہ)جیسا کہ مندَرَجہ بالا تعریف سے اَنبیا علیہم
السلام کی بعثت کا ایک مقصد بَخُوبی سمجھاجاسکتا
ہے، یعنی مخلوق کی ہدایت و رَاہ نُمائی۔ البتہ قرآنِ پاک کی کئی آیات نے بھی اِن
کی بِعثت کے مقاصد کو بیان فرمایا ہے۔ جِن میں سے چند یہ ہیں :(1)تَرجَمہ:اور
ہم نے تُم سے پہلے جتنے رَسُول بھیجے سب مَرد ہی تھے، جِنہیں ہم وحی کرتے۔ (پارہ:13،سُورۃ
یُوسُف،آیت نمبر:109)اِس آیت میں رَبّ کریم نے انبیا علیہم السلام کی بِعثت کے مقصد کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے(وحی
کرنا)۔
نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے۔ وحی کا لُغَوی معنیٰ ہے :پیغام بھیجنا،
دِل میں بات ڈالنا، خُفیہ بات کرنا۔ شریعت کی اِصطلاح میں وحی وہ خاص قِسم کا کلام
ہے جو کسی نبی پر اللہ پاک کے طرف سے نازِل ہوا۔ نیز وحیِ نُبُوَّت انبیا علیہم
السلام کے لیے خاص ہے، جو اِسے کسی غیرِ نبی کے
لیے مانے، وہ کافِر ہے۔ (سیرتُ الانبیاء، صفحہ نمبر :29،مطبوعہ
:مکتبۃ المدینہ)(2)تَرجَمہ:اور ہم نے ہر رَسُول اس کی قوم
ہی کی زَبان میں بھیجاکہ وہ اِنھیں صاف بتائے۔
(پارہ 13،سورۃ اِبراہیم، آیت نمبر:4)اِس آیت میں انبیائے کرام علیہم
السلام کی بعثت کے مقاصد کو کو صَراحۃً بیان کیا
گیا ہے۔ نبی کُفْر سے نِکال کر روشنیِ ایمان میں مخلوق کو داخِل کرتے ہیں۔ کفر،
ضلالت ،بدعَمَلی، ہر خَرابی سے نکالنا، پیغمبر ہی کا کام ہے،اِن کی مدد کے بِغیر
کُچھ نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :407،مطبوعہ :پیر
بھائی کمپنی لاہور)(3)انبیا و مُرسَلین علیہم السلام کی تشریف آوری کا ایک بُنیادی مَقصَد غیب کی
خَبَر دینا ہے، جیسے اُخرَوی حِساب کِتاب، جَنَّت و دوزخ، ثواب عَذاب، حَشر نَشر
اور فرِشتے وغیرہ سب غیب ہی کی خبریں ہیں جو خُدا کی عطا کَردہ ہیں۔ ارشادِ باری
ہے:تَرجَمہ:اور(اے
عام لوگو!) اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتَخَب
فرما لیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(پارہ 4،سُورۃ آلِ عِمران، آیت
نمبر:179)جبکہ
اللہ پاک کا اپنا عِلم ذاتی ہے، جِس کی کوئی حَدّ نہیں اور یہ ہمیشہ سے ہے۔(سیرتُ
الانبیا،صفحہ نمبر :43،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(4)اللہ پاک
کا ارشاد ہے:تَرجَمہ:یُوں
کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور
اُس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا اِبراہیم و اِسماعیل و اِسحٰق و
یعقُوب اور اِن کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے مُوسٰی و عیسٰی اور جو عطا کیے گئے
باقی انبیا اپنے رَبّ کے پاس سے، ہم اِن میں کسی پر ایمان میں فَرق نہیں کرتے اور
ہم اللہ کے حُضُور گردن رکھے ہیں۔ (پارہ:1،سورۃ
البَقَرۃ، آیت نمبر:136) اِس آیتِ مبارکہ سے انبیا علیہم
السلام کی بعثت کے چند مَقَاصِد واضح ہوئے:*سارے
نبیوں پر ایمان لایا جائے، اِن کی
تعداد مُقَرَّر نہ کی جائے، کیونکہ انبیائے
کرام علیہم
السلام کی تعداد کسی قطعی دَلیل سے ثابِت نہیں۔*سب
نبیوں پر ایمان لانا فرض ہے، ایک کا اِنکار بھی کُفر ہے۔*اپنی طرف سے نبیوں کے
مَراتب میں فَرق نہ کیا جائے، اللہ پاک نے جو فَرق رکھا ہے، اُسے مانا جائے۔(تفسیر
نُورُالعِرفان ،صفحہ نمبر :31،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(5)تَرجَمہ:اُن
کے پاس اُن کے رَسُول آئے روشن دلیلیں
اور صحیفے اور چمکتی کِتاب لے کر۔(پارہ :22،سُورۃ الفاطِر،آیت نمبر:25)یہاں
روشن دَلیلوں سے مُراد نُبُوَّت پر دَلالت کرنے والے معجزات ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان ،صفحہ نمبر :787،مطبوعہ :پاک کَمپنی لاہور)یعنی
وہ معجزات جن سے اِن کی نُبُوَّت ثابِت ہو۔(تفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :697،مطبوعہ:پیر بھائی کمپنی لاہور)
اِس آیت میں بھی انبیا علیہم السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد بیان ہوئے(روشن
دَلائل، صَحیفوں اور چمکتی کِتاب کا لانا)(6)تَرجَمہ:اور
ہم نے کوئی رَسُول نہ بھیجا مگر اِس لیے کہ اللہ کے حُکم سے اس کی اِطاعَت کی
جائے۔ (پارہ:5،سُورَۃُالنِّساء،آیت
نمبر:64)یعنی
اگرچہ ہم بھی دُنیا میں آئےاور نبی بھی
مگر دونوں آمَدوں کی منشاء میں فرق ہے۔ ہم نبی و رَسُول کی اِطاعَت و فرمانبرداری
کے لیے اور وہ ہم پر حُکُومت کرنے کے لیے آئے۔نیز
اِس سے یہ بھی مَعلُوم ہوا! نبی کے ہر قول کی اِطاعَت اور ہر فِعل کی اِتِّباع
چاہیے۔(تفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :138،مَطبوعہ:پیر بھائی کَمپنی لاہور)(7)تَرجَمہ:اور
زَمین جَگمگا اُٹھے گی اپنے رَبّ کے نُور سے اور رَکھی جائے
گی کِتاب اور لائے جائیں گے
انبیا۔(پارہ
:24،سُورۃُالزُّمَر،آیت نمبر:69)اِس آیتِ مبارکہ میں انبیائے کرام علیہم
السلام کی بِعثَت کے ایک شاندار مَقصَد کو بَیان
کیا گیا ہے جو اِن کا بروزِ قِیامت مُدعَی کی حَیثیت سے تشریف لانا ہے۔(تَفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر:743،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(8)انبیا
علیہم
السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد میں سے ایک مَقصَد
یہ بھی ہے کہ دینِ اِسلام کو دَلائل اور قُوت دونوں اِعتِبار سے دیگر تمام اَدیان
پر غالِب کر دیا جائے۔ ارشادِ باری
ہے:تَرجَمہ:وہی
ہے جِس نے اَپنا رَسُول ہِدایَت اور سَچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اِسے تمام دینوں
پر غالِب کردے اگرچہ مُشرِک ناپسند کریں۔(سیرتُ
الانبیا،صَفحہ نمبر:51،مَطبُوعہ :مکتبۃ المدینہ)ارشاد ربّ کریم
ہے:تَرجَمہ:عَدل
والی کِتاب اللہ کے سَخت عَذاب سے ڈَرائے اور ایمان
والوں کو جو نیک کام کریں بشارَت دے کہ اُن کے لیے اچھا ثَواب ہے۔(پارہ:15،سُورَۃَالکَھَف،آیت
نمبر:2)یہاں
عَدل والی کِتاب سے قرآنِ پاک مُراد ہے۔(تَفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ
نمبر :467،مطبوعہ :پیر بھائی کَمپنی لاہور)یہاں خاص مصطفٰےجانِ
رَحمَت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کی بِعثَت کے مَقَاصِد بَیان ہوئے کیونکہ قرآنِ
پاک آپ ہی پر نازل ہوا۔(9)آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کُفّار یا غافِلوں کو دُنیاوی یا
اُخرَوی عَذابوں سے ڈَرائیں۔(10)نیک مُؤمنین کو خُوشخَبری دیں۔(تَفسیر
نُورُالعِرفان ،صَفحہ نمبر:467،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)