عصر کا معنی” دن کا آخری حصہ“ چونکہ یہ نماز اسی وقت میں ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عصر کی نماز کہا جاتا ہے۔حضرت  عزیر علیہ السلام سو برس کے بعد زندہ فرمائے گئے اس کے بعد آپ نے چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ عصر ہو گئی۔ پانچ فرامینِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :روایت ہے حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے، فرماتی ہیں: نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بمقابلہ تمہارے جلدی ظہرپڑھتے تھے اور تم عصر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے جلدی پڑھتے ہو۔(احمد و ترمذی/مراۃ المناجیح،1/379)اس حدیث سے معلوم ہوا !عصر کی نماز وقت شروع ہوتے ہی نہ پڑھے کچھ دیر سے پڑھے، اگر حضور دو وقت شروع ہوتے ہی پڑھا کرتے تو یہ حضرات اس سے پہلے کیسے پڑھ سکتے ہیں؟ روایت ہے، حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا :وہ شخص آگ میں ہر گز داخل نہ ہوگا جو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے کی نمازیں پڑھتا رہے یعنی فجر اور عصر۔(مسلم،مراۃ المناجیح،ص381) روایت ہے،حضرت ابنِ مسعود اور سمرہ ا بنِ جندب سے،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بیچ کی نماز عصر ہے۔(ترمذی،مراۃ المناجیح،ص385) (کیونکہ یہ نماز دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس وقت دنیاوی کاروبار زیادہ زور پر ہوتے ہیں اس لیے اس کی تاکید زیادہ فرمائی گئی اکثر صحابہ کا یہی قول ہے)حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(فیضانِ نماز،ص30)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر نہ چھوڑو۔ پھر حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔ (مسلم،ص239،حدیث:1434)


(1) جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے گا۔(معجم کبیر،23/281،حدیث:211-فیضانِ نماز،ص109)(2) حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا اور کہتا ہے:مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔(فیضانِ نماز،ص107)(3)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔ (فیضانِ نماز،ص104) (4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(بہار شریعت،1/661)(5)امام احمد ابو حریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: رات اور دن کے ملائکہ نمازِ فجر و عصر میں جمع ہوتے ہیں جب وہ جاتے ہیں تو اللہ پاک ان سے فرماتا ہے: کہاں سے آئے؟ وہ جانتا ہے عرض کرتے ہیں: تیرے بندوں کے پاس سے جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں نماز پڑھتا چھوڑ کر تیرے پاس حاضر ہوئے ہیں۔(بہار شریعت،1/440)


حدىث نمبر 1:فرشتوں کى تبدىلىوں کے اوقات:حضرت  ابوہرىرہ رَضِىَ اللہُ عنہ سے رواىت ہے، مدىنے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشا دفرماىا:تم مىں رات اور دن کے فرشتے بارى بارى آتے ہىں اور فجر و عصر کى نمازوں مىں جمع ہوجاتے ہىں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم مىں رات گزارى ہے اوپر کى طرف چلے جاتے ہىں، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے مىرے بندوں کو کس حال مىں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہىں: ہم نے انہىں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھى وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخارى 1، ص 2:3 ، حدىث 555)حدىث نمبر2:عصر پڑھنے والا جہنم مىں نہىں جائے گا:حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِىَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مىں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے(ىعنى نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کى( ىعنى جس نے فجر و عصر کى پڑھى) وہ ہر گز جہنم مىں داخل نہ ہوگا۔( مسلم ص 25،حدىث 1436)حدىث نمبر3:نمازِ عصر کا ڈبل اجر:حضرت ابوبصرہ غفارى رضی اللہ عنہ سے رواىت ہے،نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ىہ نماز ىعنى نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پىش کى گئى تو انہوں نے اسے ضائع کردىالہٰذا جو اسے پابندى سے ادا کرے گا،اسے دگنا ىعنى (Double) اجر ملے گا۔ (مسلم ص 322، حدىث: 1937) حدىث نمبر4:عصر کى سنتوں کى فضىلت :فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتىں پڑھىں۔(ابوداود ج 2، ص 35، حدىث:1271)حدىث نمبر5:عصر کى سنتوں کى فضىلت:فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو عصر سے پہلے چار رکعتىں پڑھے، اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔


1: نمازِ عصر کا ڈبل اجر: حضرتِ  ابو بَصرہ غِفارِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نُور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرےگا اسے دُگنا(یعنی Double) اجر ملے گا۔ (مسلم، ص322، حدیث:1927) حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تَحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی اُمَّتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مُستحق ہوئے، تم ان سے عِبرت پکڑنا۔ (مراۃ المناجیح،2/1927) د‌گنے اجر کی وجوہات کے مدنی پھول:پہلا اجر‌ پچھلی امّتوں کے لوگوں کی محالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی وجہ سے ملے گاجس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے۔ پہلا اجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر قناعت کرتے ہوئے خریدو فروحت چھوڑنے پر ملے گا کیوں کہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں۔ پہلا اجر عصر کی فضیلت کی وجہ سے ملے گا کیوں کہ یہ صلوۃِ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ہے اور دوسرا اجر اس کی پابندی کے سبب ملے گا۔2:اہل‌و عیال اور مال میں بربادی :صحابی ابنِ صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِ عصر نکل گئی( یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اس کے مال‌ و عیال وتر ہو (یعنی چھین لیے) گے۔وتر کا مطلب:حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :وتر کا معنیٰ ہے:نقصان ہونا یا چھین جانا۔پس جس کے بال بچے چھن گے یا اس کا نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد ہونے) سے ڈرتا ہے۔3:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے: مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ ( ابنِ ماجہ،4 /503، حدیث:4272)اے فرشتو! سوالات بعد‌ میں کرنا:حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے اس حصے ” سورج ڈوبتا ہوا معلوم ‌ہوتا‌ ہے“کے ‌تحت فرماتے ہیں :یہ احساس منکر نکیر کے جگانے پر ہوتا ہے خواہ دفن کسی وقت ہو ۔چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب( یعنی سورج ) کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے،اس لیے یہ وقت دکھایا جاتا ہے۔حدیث کے اس حصے ”مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں “کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اے فرشتو!سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔ یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا۔ اللہ نصیب کرے۔ اسی لیے رب کریم فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: نگہبانی ( یعنی خفاظت ) کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ ( پ2 البقرہ: 238 ) یعنی‌ تمام نمازوں کی‌ حصوصاً عصر کی بہت نگہبانی ( یعنی حفاظت) کرو۔صوفیا فرماتے ہیں:جیسے جیو گے ویسے ہی مرو گے اور جیسے مرو گے ویسے ہی اٹھو گے۔خیال رہے! مومن کو اس وقت ایسا معلوم ہوگا جیسے میں سو کر اٹھا ہوں نزع وغیرہ سب بھول جاے گا۔ ممکن ہے کہ اس عرض ( مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں ) پر سوال جواب نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی۔ (مراۃ المناجیح،1/ 142) 4: فرشتوں کی تبدیلیوں کے اوقات :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟عرض کرتے ہیں:ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔( بخاری ،/ 203 ،حدیث: 555 )حضرت مفتی‌ احمد‌ یار‌ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے اس حصے ” فجر و عصر کی‌ نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں“ کے تحت فرماتے ہیں: یہاں فرشتوں سے مراد یا تو اعمال لکھنے والے دو فرشتے ہیں یا انسان کی حفاظت والے ساٹھ فرشتے ہر نا بالغ کے ساتھ ساٹھ (60) فرشتے رہتے ہیں اور بالغ کے ساتھ 62 فرشتے اسی لیے نماز کے سلام اور دیگر سلاموں میں ان کی نیت کی جاتی ہے ان ملائکہ کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں دن میں اور رات میں مگر عصر و فجرپچھلے فرشتے جانے نہیں پاتے کہ اگلے ڈیوٹی والے آجاتے ہیں تاکہ ہماری ابتدا و انتہا ( یعنی شروع کرنے اور ختم کرنے کی کیفیت ) کے گواہ زیادہ ہوں اس حصے” اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں“ کے تحت لکھتے ہیں:اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف جہاں ان کا مقام ہے ۔ مفتی صاحب حدیث کے اس حصے ” ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے“ کے تحت تحریر کرتےہیں:اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فرشتے نمازیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں کہ آس پاس کی نیکیوں کا ذکر اور درمیان کے گناہوں سے خاموشی یا یہ مطلب ہے کہ اے مولا ! جن بندوں ابتدا و انتہا ( یعنی شروعات اور ختم ہونے کی کیفیت ) ایسی ہو اس میں ہمیشہ برکت ہی رہتی ہے۔ ( مراۃ المناجیح،1/ 394تا 395) 5: فجر و عصر پڑھنے والا جہنم میں نہیں جائے گا: حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے ( یعنی نکلنے اور ڈوبنے )سے پہلے نماز ادا کی( یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہو گا۔ ( مسلم،ص 250 ،حدیث: 1436)


ایمان لانے کے بعد تمام عبادتوں میں سب سے اہم عبادت نماز ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں مختلف مقامات پر اس کی فضیلت و اہمیت اور فرضیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز کو دینِ اسلام کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:الصلوۃ عماد الدین من اقامھا فقد اقام الدین ومن ترکھا فقد ھدم الدینیعنی نماز دین کا ستون ہے جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے دین کو ڈھا دیا۔تمام نمازوں میں سب سے زیادہ فضیلت و اہمیت اور تاکید نمازِ وسطیٰ یعنی نمازِ عصر کی بیان ہوئی ہے۔اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قٰنتین0 ترجمہ:یعنی نمازوں کی محافظت کرو خصوصاً نمازِ وسطیٰ یعنی نمازِ عصر کی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں ادب سے کھڑے رہو۔ (البقرۃ:228)صلوۃِ وسطیٰ میں اگر چہ فقہائے کرام کا اختلاف ہے مگر راجح قول یہی ہے اور بہت ساری احادیثِ مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ صلوۃِ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ امام ابنِ ابی شیبہ،امام ترمذی اور امام ابنِ حبان نے حضرت ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: صلوۃِ وسطیٰ نمازِ عصر ہے۔ (تبیان القرآن،1/904)نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:(1):حدثنا عبد اللّٰہ بن یوسفَ قال اخبرَنا مالك عن نافع عن عبد اللّٰہ بنُ عمر انَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قال الذي تفوتُه صلوۃُ العصرِ فکأنما وُتِرَ أھلُه و مالُه۔حضرت عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس شخص سے نمازِ عصر فوت ہو جائے گویا اس کا گھر بار اور مال ہلاک ہوگئے۔(بخاری،1 /78،مطبوعہ/فاروقیہ بک ڈپو)مذکورہ حدیثِ پاک کو امام مسلم نے اپنی مسلم شریف جلد اول صفحہ نمبر226 باب التغلیظِ فی تفویتِ صلوۃِ العصرِ کے تحت اور امام ترمذی نے اپنی ترمذی جلد اول صفحہ نمبر 24 باب ما جاء فی السھوِ عن وقتِ صلوٰۃ العصرِکے تحت بھی ذکر کیا ہے۔ (2):حدثنا ابو بکرِ بنُ أبي شیبةَ قال نا أبو أسامةَ عن ھشامٍ عن محمدٍ عن عبیدةَ عن علی قال لمَّا کانَ یومُ الاحزابِ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مَلَأَ اللّٰہ قبورَھم و بیوتَھم ناراً کما حبَسُونا و شغَلُونا عنِ الصلوۃِ الوسطیٰ حتّٰی غابَتِ الشمسُ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا: اللہ پاک ان مشرکین کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے انہوں نے ہمیں (جنگ میں)مشغول کرکے نمازِ عصر سے روک دیا۔(مسلم،1 /226، مطبوعہ/مجلس برکات الجامعۃ الاشرفیہ) (3):حدثنا عونُ بنُ سلامٍ الکوفی قال أنا محمدُ بنُ طلحةَ الیَاميِّ عن زبیدٍ عن مرَّةَ عن عبدِاللّٰہ قال حبَسَ المشرکونَ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم عن صلوۃِ العصرِ حتّٰی احمرَّتِ الشمسُ أو اصْفرَت فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم شَغَلونا عنِ الصلوۃِ الوسطیٰ صلوۃِ العصرِ مَلَأَ اللّٰہ اجوافَھم و قبورَھم ناراً أو حشی اللّٰہ اجوافَھم و قبورَھم ناراً۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو عصر کی نماز سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: (مشرکوں نے) ہمیں صلوۃِ وسطیٰ یعنی نمازِ عصر سے روکے رکھا،اللہ پاک ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔(مسلم،1/227، /مجلس برکات الجامعۃ الاشرفیہ)(4):حدثنا ابو بکرِ بنُ ابي شیبةَ وأبو کریبٍ واسحقُ بنُ ابراھیمَ جمیعاً عن وکیعٍ قال ابو کریبٍ نا وکیعٌ عن ابنِ ابي خالدٍ ومسعرٍ والبختري بنِ المختارِ سَمِعُوہ من ابي بکرِ بنِ عُمارۃَ بنِ رُویبةَ عن ابیه قال سمعتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یقول لن یَلِجَ النارَ احدٌ صلّی قبلَ طلوعِ الشمسِ و قبلَ غروبِھا یعني الفجرَ والعصرَ فقال له رجلٌ من اھلِ البصرۃِ انتَ سمعتَ ھذا من رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قال نعم الرّجلُ وانا أشھد أني سمتُه من رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سمعتْه اُذناي وَوَعاہ قلبي۔حضرت عمارہ بن رویبہرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنا:آپ فرما رہے تھے کہ جس شخص نے طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے یعنی نمازِ فجر اور عصر پڑھی وہ ہرگز دوزخ میں نہ جائے گا۔بصرہ کے ایک شخص نے ان سے پوچھا :کیا تم نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے خود سنی ہے؟ حضرت عمارہ نے کہا: ہاں! اس شخص نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ حدیث سنی،میرے کانوں نے اس کو سنا اور دل نے یاد رکھا۔( مسلم،1/228،مجلسِ برکات الجامعۃ الاشرفیہ(5):حدثنا ھذابُ بنُ خالدٍ الازديِّ قال نا ھمّامُ بنُ یحيٰ قال حدثني أبو جَمرۃَ الضَّبَّيُّ عن ابي بکرٍ عن أبیه أنَّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قال من صلّی البَردَیْنِ دخلَ الجنّة۔ابو بکرہ کے والدرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (عصر اور فجر) پڑھیں وہ جنت میں جائے گا۔(مسلم،1 /228،مجلسِ برکات الجامعۃ الاشرفیہ)


فرمانِ باری ہے:اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج کے چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے۔(ترجمۂ کنزالایمان) فرمانِ مصطفے:حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو پھر حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی جو اوپر بیان کی گئی۔(مسلم،حدیث:1443) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم،حدیث:1927) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل رہے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔(بہارِ شریعت،جلد4)فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف جاتے ہیں اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری،جلد1) فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی یعنی فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،حدیث:1436)


اللہ پاک نے معراج کی رات سردار دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے توسط سے امتِ محمدیہ پراپنا فضل وکرم فرماتے ہوئے پنجگانہ نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ان الصلوة كانت على المؤمنين كتاباموقوتا0ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔(پ 5،النساء : 103)جہاں پانچوں نمازوں کے ان گنت فضائل ہیں وہیں ہر نماز کے الگ الگ بھی کئی فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ نمازِ عصر کے چند فضائل ملاحظہ فرمائیے:1:نمازِ عصر سے متعلق ارشار باری ہے :حفظو اعلى الصلوات والصلوة الوسطىترجمۂ کنزالعرفان:تمام نمازوں کی حفاظت کرواور درمیانی نماز کی۔( پ2،البقرۃ:238)اکثر علما کے نزدیک اس آیت میں نمازِ عصر کو صلوةالوسطى سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔2: حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ہم حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا:عنقریب (قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو،تو اگر تم سے ہو سکے تو نماز فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔پھر حضرت جریر رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی :وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھاترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(فیضانِ نماز، ص100-مسلم، ص239 ،حدیث:1434)3- حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نوروالے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(فیضانِ نماز ،ص104-مسلم، ص322،حدیث:1927)4:حضرت عمارہ بن روَیبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی(یعنی فجر وعصر پڑھی)وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہو گا۔(فیضانِ نماز، ص99-مسلم، ص250،حدیث:1436)5:صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی نمازِ عصر نکل گئی(یعنی جان بوجھ کر عصر چھوڑ ے) گویا اس کے اہل وعیال و مال وتَر(یعنی چھین لیے )گئے۔(فیضانِ نماز،ص106-بخاری، 1/202،حدیث:552)اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازوں کی بروقت اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادائیگی نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


قال اللہ:حفظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ (پ2،البقرۃ:238) جمہور علمائے کرام کے نزدیک یہاں نمازِ عصر مراد ہے ۔اسی مناسبت سے شوقِ نماز بڑھانے اور فیضانِ حدیثِ نبوی حاصل کرنے کے لیے نمازِ عصر کے متعلق پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیارے فرامین ملاحظہ فرمائیے۔نمازِ عصر کے فضائل: (1) حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،ص250،حدیث:1436)(2)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز( عصر) تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔ (مسلم،ص322،حدیث:1927) (3)رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے۔(معجم کبیر،23/281،حدیث:611) سبحان اللہ!لیکن جہاں نمازِ عصر پڑھنے کے اتنے فضائل ہیں وہیں نمازِ عصر چھوڑنے کی وعیدیں بھی آئی ہیں چنانچہ نمازِ عصر چھوڑنے کی وعیدیں:صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے)گویا اس کے اہل و عیال اور مال واتر ہو گئے( یعنی چھین لیے گئے۔)(بخاری،1/202،حدیث:552)رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عصر میں تاخیر کرنا منافق کی علامت قرار دیا ہے چنانچہ(5) خادمِ نبی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا :یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے حتٰی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آ جائے( یعنی غروب ہونے کے قریب ہو جائے) تو کھڑا ہو کر چار چونچے مارے کہ ان میں اللہ پاک کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔اللہ پاک ہمیں نمازِ پنجگانہ بالخصوص نمازِ وسطی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


نماز مسلمانوں کے لئے اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہےجو اس نے اپنے فضل وکرم سے ہم پر لازم کی ہے ۔نماز پڑھنے والا دنیا کے تمام تر مشاغل  یہاں تک کہ حلال چیزوں کو بھی ترک کر کے اپنے آپ کو اللہ پاک کی بارگاہ میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔یوں تو پانچوں نماز کے اپنے فضائل ہیں لیکن ہم یہاں خصوصاً نمازِ عصر کے متعلق ارشادِ نبی پڑھیں گی لیکن اس سے پہلے قرآنِ کریم کی یہ آیت ِمبارکہ ضرور پڑھیے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْاللہ قٰنِتِیْنَ0(البقرۃ:238) ترجمۂ کنز العرفان:تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:نمازِ عصر کی تاکید کی ظاہری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک تو اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔(بخاری،4/549، حدیث:7429-شرح السنہ،5 / 370، تحت الحدیث: 2510)دوسرا یہ کہ اس وقت کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے تو اس غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا زیادہ اہم ہے۔ اب یہاں 3 فرامینِ مصطفٰے نمازِ عصر کی فضیلت ملاحظہ کیجئے:(1)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے ( یعنی فجر اور عصر کی)نماز ادا کی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، 250 ،حدیث: 1436)(2)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: (عنقریب قیامت کے دن )تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس کو دیکھ رہے ہو ،تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور نمازِ عصر کبھی نہ چھوڑو ۔ (مسلم، 239 ،حدیث: 1434)(3)حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئیں تو انہوں نے اسے ضائع کردیا،لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دوگنا( یعنی ڈبل) اجر ملے گا۔نمازِ عصر کے چھوڑنے پر وعیدیں بھی حدیثِ پاک میں خصوصا وارد ہوئی ہیں جو درج ذیل ہیں:اہل و عیال اور مال برباد ہوگئے :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال و مال وتر ہو گئے۔( یعنی چھین لیے گئے)( بخاری، 202 ،حدیث: 553)


اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا اور اس امت کے سردار، رحمت دو جہاںصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پیدا فرمایا جو تمام جہان کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بے شمار معجزے عطا فرمائے جن میں ایک معجزہ معراج شریف کا ہے جس میں آقا علیہ سلام نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ پاک کا دیدار کیا اور اس سفر پر آقا علیہ السلام کو آپ کی امت کے لیے پچاس نمازوں کا تحفہ ملا جو تخفیف ہو کر پانچ رہ گئی مگر ثواب اب بھی پچاس نمازوں کا ہی ہے۔ ان پانچ نمازوں فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشا کی نماز کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔نمازِ عصر کی بھی بہت اہمیت اور فضیلت ہے۔آئیے ! عصر کی نماز کی اہمیت اور فضیلت سنتی ہیں۔نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔(فیضانِ نماز،ص105) (2)تین فرامینِ مصطفٰے:(1)اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(2) جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمائے گا۔(3)جوعصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اسے آگ نہ چھوئے گی۔(فیضانِ نماز،ص109)(3) حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہر گز جہنم میں نہیں جائے گا۔(فیضانِ نماز،ص99)(4)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں،پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ۔اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(فیضانِ نماز،ص98)(5) آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔ (فیضانِ نماز،ص100)


امام احمد رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:رات اور دن کے فرشتے نمازِ فجر و عصر میں جمع ہوتے ہیں،جب وہ جاتے ہیں تو اللہ پاک ان سے فرماتا ہے: کہاں سے آئے ہو؟ حالانکہ وہ جانتا ہے۔عرض کرتے ہیں:تیرے بندوں کے پاس سے، جب ہم ان کے پاس گئے تو نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں نماز پڑھتا چھوڑ کر تیرے پاس حاضر ہوئے۔(بہار شریعت،1/154)(2) حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا :میں نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص ہر گز آگ میں داخل نہیں ہوگا جو نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں۔( مسلم:634)(3)حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں فجر اور عصر پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مسلم:635) (4)حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسےاس چاند کو دیکھ رہے ہو،اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو تو سورج طلوع ہونے پہلے والی نماز یعنی فجر اور سورج غروب ہونے سے پہلی والی نماز یعنی عصر سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ:پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔(ترمذی:2551)(5)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج غروب ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے،وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے :ذرا ٹھہرو مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(باب ذکر القبر،4/503،حدیث:4272)


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  پاکستان بھر میں مارچ 2022ء میں ہونے والے اسلامی بہنوں کے آٹھ دینی کاموں کی کارکردگی کا اجمالی جائزہ ایک نظر میں ملاحظہ ہو:

انفرادی کوشش کے ذریعے دینی ماحول سے منسلک ہونے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 6 ہزار 107

روزانہ گھر درس دینے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 78 ہزار 608

امیراہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا بیان/ مدنی مذاکرہ سننے والی اسلامی بہنوں کی: 98 ہزار 242

مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد : 4 ہزار761

ان میں پڑھنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد : 55 ہزار 298

ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کی تعداد: 9 ہزار 655

ان میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 3 لاکھ ،4 ہزار،725

ہفتہ وار علاقائی دوروں میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد : 22 ہزار507

ہفتہ وار رسالہ پڑھنے / سننے والی اسلامی بہنوں کی تعداد : 11 لاکھ،13 ہزار،363

وصول ہونے والے نیک اعمال کے رسائل کی تعداد :63 ہزار 941