ابو الحازم کرم حسین عطاری(ڈویژن نگران نصیر آبادمجلس
عشراوستا محمد،پاکستان)
ماہ رمضان المبارک کی احادیث میں بہت فضائل ذکر کیئے گئے
ہیں ان میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش
کرتے ہیں: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا :میری امت کو رمضان میں
پانچ ایسی خصلتیں عطاکی گئیں ہیں جو ان سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں کی گئیں:(1)
روزے دا ر کے منہ کی بُو اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے(2)
اور ان کے افطار کرنے تک مچھلیاں ان کے لئے استغفار کرتی ہیں (3)اور اللہ پاک
روزانہ اپنی جنت کو سجا تا ہے اور فرماتا ہے کہ عنقریب میرے نیک بندوں سے تکلیف
اٹھا لی جائے گی اور وہ تیری طرف آئیں گے ،(4)اور اس میں سرکش شیاطین کو قید کردیا
جاتا ہے اور وہ رمضان میں اس کا م کے لئے
ہرگز کوئی راہ نہیں پاتے جس میں وہ رمضان کے علاوہ مصروف ہوتے تھے(5) اور رمضان کی
آخری رات میں ساری امت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ عرض کیا گیا :یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم !کیا یہ آخری رات شب قدر ہے؟ فرمایا: نہیں، مزدور کو پوری مزدوری اسی
وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام پورا کر لیتاہے۔ (مسند احمد ،3/144،حدیث: 7922)
حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک میں ایک نفل
ادا کرنا فرض ادا کرنے کے برابر ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر 70فرض کے برابر ہے۔
رمضان المبارک کی
خصوصیات:(1) روزہ،(2) تراویح،(3) اعتکاف،(4) شب قدر،(5) فطرہ
️(1) روزہ : یہ
ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی دوسری عبادت نہیں یہی وجہ ہے کہ زورہ
ہر امت پر فرض کیا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ
الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے
جیسے اگلوں پہ فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔(پ 2،بقرہ:183)
(2) تراویح:رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :جو رمضان میں ایمان
کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
رمضان المبارک میں عشا کے فرض اور سنت کے بعد مرد اور عورت
دونوں کے لئے بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے۔تراویح میں پورا قرآن پاک ایک مرتبہ
ختم کرنا سنت ہے۔ رمضان میں ستائسویں شب پورا قرآن ختم کرنا افضل ہے مگر اس سے پہلے بھی جائز ہے۔
(3) اعتکاف:پچھلی امتوں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی چنانچہ پارہ
اول سورہ بقرہ کی آیت نمبر 125میں اللہ پاک کا فرمان عالی شان ہے: وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى
اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ
الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تاکید
فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف
والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔(پ 1،بقرہ:125)
اعتکاف کی تعریف:لغوی معنی: ٹھہرنا، شرعی
معنی:روزے دار کا نیت کے ساتھ جماعت والی مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف ہے۔ (تعریفات دراسیہ) رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت
مؤکدہ علی کفایہ ہے۔
(4) شب قدر:شب قدر کے بارے میں اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ
خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)ترجمۂ کنزالایمان : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔(پ 30،قدر
:3)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان
المبارک مہینہ آیا تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ
آنے والا ہے جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے
محروم رہ گیا گویا ساری خیر سے محروم رہ گیا
اور اس شب کی خیر سے وہی محروم رہے گا جو پورا پورا محروم ہوگا۔
سونے والے رب کو سجدہ کر کہ
سو
کیا خبر اٹھے نہ اٹھے صبح کو
(5) صدقہ فطر:صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ
فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا
کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں
میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک
کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اس لئے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے
بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث بنتا ہے۔( فیضان رمضان ،ص174)
عبد اللہ ہاشم عطاری مدنی(فارغ جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ ،کراچی،پاکستان)
ماہِ رَمضان کی ہر گھڑی رَحمت بھری ہے،رَمضانُ المبارَک میں
نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ، 3/137)نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جاتا
ہے ،عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں۔( فیضانِ رمضان، ص
21)
خاصیت کی تعریف و اہمیت:خصائص خاصۃ کی جمع ہے اس کے لغوی معنٰی یہ ہے کہ وہ مخصوص صفت جو دوسروں سے ممتاز بنا دے یا اسی صفت کو خاصہ یا خاصیت کہا جا تا ہے جو اس میں تو پائی جائے اور اس کے علاوہ دوسرے میں نہ پائی جائے۔
اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ ھو ما تختصّ بالشی ولا یوجد فی غیرہ
اصلاً۔(المرضاۃ)
ماہِ رمضان کی
خصوصیات:
(1) نزولِ قرآن مجید:ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہاللہ پاک نے اِس میں
قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ 2 سورۃ البقرۃآیت185 میں مقد س قراٰن میں
خدائے رَحمٰن کا فرمانِ عالی شان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ
الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ
الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-ترجمہ کنز
الایمان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی
اور فیصلے کی روشن باتیں ۔(پ 2،البقرہ:185)
(2) ثواب میں اضافہ:ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ میں عبادت کرنے
والوں کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب
ثواب کے لیے قیام کرے ،تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(مسلم، ص382،حدیث:759)
(3) ہزار مہینوں سے
بہتر رات : اللہ پاک کا خاص الخاص کرم ہے کہ لیلۃ القدر جیسی عظیم رات
صرف اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمت کو عطا کی گئی ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک
میں ارشاد فرماتا ہے :اِنَّاۤ
اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا
لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ
ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ
اَمْرٍۙۛ(۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ
حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵)ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک ہم نے اسے شبِ قَدر میں اُتارا
اورتم نے کیا جانا، کیا شبِ قدر؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اِس میں فرشتے اور
جبریل اُترتے ہیں اپنے رب کے حُکم سے، ہرکام کیلئے ، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(پ
30،قدر :1 تا 5 )
مفسرین کرام رحمہم اللہ السلام سورہ قدر کے ضمن میں فرماتے ہیں : اِس رات میں
اللہ پاک نے قراٰنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازِل فرمایا اور پھر
تقریباً 23 برس کی مُدَّت میں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اسے بتدرِیج نازِل کیا۔( تفسِیرِ
صاوی 6/2398)
نَبِیِّ مُعَظَّم، رَسُولِ مُحتَرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے
میری امت کو شب قدر عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں فرمائی۔
(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب، 1/173،حدیث:674)
(4) جنت کے دروازے
کھول دیئے جاتے ہیں:حضرتِ سَیّدُناابو سعید خدری رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے: مکی مَدَنی سلطان، رحمت عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے : ’’جب ماہِ
رَمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری رات
تک بندنہیں ہوتے۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارَک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے
تَواللہ پاک اُس کے ہر سجدے کے عوض(یعنی بدلے میں ) اُس کے لئے پندرہ سو نیکیاں
لکھتا ہے اور اُس کے لئے جنت میں سُرخ یا قوت کا گھر بناتا ہے۔ (شُعَبُ الایمان، 3/314،حدیث:
3635 مُلَخَّصاً )
(5) مغفرت طلب کرنے
والوں کو بخش دیا جاتا ہے:حضرتِ سَیِدُنا
عبدُ اللہ ابنِ مسعود رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ شہنشاہ ِذیشان، مکی مَدَنی سلطان،رحمت عالمیان، محبوبِ رحمٰن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
رَحمت نشان ہے: رَمضان شریف کی ہرشب آسمانوں میں صبح صادِق تک ایک منادِی (یعنی
اعلان کرنے والافرشتہ)یہ ندا (اعلان) کرتا ہے: اے بھلائی طلب کرنے والے! ارادہ
پختہ کر لے اور خوش ہوجا، اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے !برائی سے باز آجا۔ ہے
کوئی مغفرت کا طلب گار! کہ اُس کی طلب پوری کی جائے ۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا! کہ
اُس کی توبہ قبول کی جائے ۔ ہے کوئی دُعامانگنے والا!کہ اُس کی دُعا قبول کی
جائے۔ہے کوئی سائل! کہ اُس کا سوال پورا کیا جائے۔(شُعَبُ الْاِیمان، 3/304،حدیث:3606)
محمد عبدالقدیر عطاری
(درجہ سادسہ مدنی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ اوکاڑہ ،پاکستان)
رمضان شریف کی بہت فضیلت ہے۔ قرآن و احادیث نے رمضان کی
فضیلت کو بیان کیا ہے اس کے بارے میں بہت سی احادیث مبارکہ ہے ۔اللہ پاک نے قرآن
مجید میں رمضان المبارک کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :شَهْرُ رَمَضَانَ
الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ ترجمۂ کنز العرفان :رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے
لئے ہدایت اور رہنمائی ہے۔(پ 2،البقرہ:185)
اور اس کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی کئی
احادیث میں ارشاد فرمایا ہے ۔
(1) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه
- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ
وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول
دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اورشیاطین کو قید کردیا جاتا
ہے۔( صحیح البخاري ، حدیث : 1898 ، 1 / 625)
ایک
روایت میں ہے، کہ رحمت کے دروازے کھول دیے
جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے
جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے
جاتے ہیں ۔( صحیح مسلم ، حدیث : 1079 ، ص 534 )
(2) صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی، حضورِ اقدس صلی
اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جب رمضان آتا ہے، آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں
۔ اور امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ
کی روایت میں ہے، ’’جب ماہِ رمضان کی پہلی
رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّ قید کر لیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں تو اُن میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اُن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا
اور منادی پکارتا ہے، اے خیر طلب کرنے والے! متوجہ ہو اور اے شر کے چاہنے والے!
باز رہ اور کچھ لوگ جہنم سے آزاد ہوتے ہیں اور یہ ہر رات میں ہوتا ہے۔( جامع
الترمذي ، حدیث : 682 ، 2/155)
(3) امام احمد ونسائی کی روایت انھیں سے ہے، کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: 'رمضان آیا، یہ برکت کا مہینہ ہے، اﷲ پاک نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ،
اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں
اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں
اور سرکش شیطانوں کے طوق ڈال دیے جاتے ہیں
اور اس میں ایک رات ا یسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کی بھلائی سے محروم
رہا، وہ بیشک محروم ہے۔( سنن النسائي
،حدیث : 2103 ، ص 355)
(4) بیہقی شعب
الایمان میں سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے
راوی، کہتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے شعبان کے آخر دن میں وعظ فرمایا۔
فرمایا: اے لوگو! تمہارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس
میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اﷲ پاک نے فرض کیے اور
اس کی رات میں قیام (نماز پڑھنا) تطوع
(یعنی سنت) جو اس میں نیکی کا کوئی کام
کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض
ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا
ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ مواسات کا ہے
اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا
ہے، جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے،
اُس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اس کی
گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا
جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اُس کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔ ہم نے عرض کی، یا رسول اﷲ (صلی
اﷲ علیہ وسلم) ! ہم میں کا ہر شخص وہ چیز
نہیں پاتا، جس سے روزہ افطار کرائے؟ حضور
(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے فرمایا: اﷲ پاک یہ ثواب اس شخص کو دے گا، جو ایک گھونٹ دودھ
یا ایک خُرما یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو بھر
پیٹ کھانا کھلایا، اُس کو اﷲ پاک میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا
یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ اُس کا اوّل
رحمت ہے اور اس کا اوسط مغفرت ہے اور اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے جو اپنے غلام
پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام
میں کمی کرے، اﷲ پاک اُسے بخش دے گا اور
جہنم سے آزاد فرما دے گا۔ (شعب الإیمان ، حدیث : 3608 ، 3/305)
(5) طبرانی اوسط
میں اور بیہقی ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے
راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ پاک کے نزدیک اعمال 7 قسم کے ہیں ۔ دو عمل واجب کرنے والے اور دو کا
بدلہ ان کے برابر ہے اور ایک عمل کا بدلا 10 گنا اور ایک عمل کا معاوضہ سات سو ہے اور ایک
وہ عمل ہے، جس کا ثواب اﷲ پاک ہی جانے۔ وہ دو جو واجب کرنے والے ہیں ان میں : (1) ایک یہ کہ جو خدا سے اس حال میں ملے
کہ خالص اسی کی عبادت کرتا تھا، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرتا تھا، اُس کے لیے
جنت واجب۔ (2) دوسرا یہ کہ جو خدا سے ملا اس حال میں کہ اُس نے شرک کیا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب اور (3) جس نے برائی کی،
اس کو اسی قدر سزا دی جائے گی اور(4) جس نے نیکی
کاارادہ کیا، مگر عمل نہ کیا تو اُس کو ایک نیکی کا بدلا دیا جائے گا اور (5) جس نے نیکی کی،
اُسے دس گنا ثواب ملے گا اور (6) جس نے اﷲ پاک کی
راہ میں خرچ کیا، اُس کو 7 سو کا ثواب ملے
گا۔ ایک درہم کا سات سو درہم اور ایک دینار کا ثواب 7 سو دینار اور روزہ اﷲ پاک کے
لیے ہے، اس کا ثواب اﷲ پاک کے سوا کوئی نہیں جانتا۔(شعب الإیمان ،حدیث : 3589 ، 3/298)
(6) بیہقی جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں :میری اُمّت کوماہِ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو
نہ ملیں ۔ اوّل یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے، اﷲ پاک ان کی طرف نظر فرماتا
ہے اور جس کی طرف نظر فرمائے گا، اُسے کبھی عذاب نہ کرے گا۔ دوسری یہ کہ شام کے
وقت اُن کے منہ کی بُو اﷲ پاک کے نزدیک مُشک سے زیادہ اچھی ہے۔ تیسری یہ ہے کہ ہر
دن اور ہر رات میں فرشتے ان کے لیے
استغفار کرتے ہیں ۔ چوتھی یہ کہ اﷲ عزوجل جنت کو حکم فرماتا ہے، کہتا ہے: مستعد ہو
جا اور میرے بندوں کے لیے مزّین ہو جا
قریب ہے کہ دنیا کی تعب سے یہاں آکر
آرام کریں ۔ پانچویں یہ کہ جب آخر رات
ہوتی ہے تو ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ کسی نے عرض کی، کیا وہ شبِ قدر ہے؟
فرمایا: نہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں ، جب کام
سے فارغ ہوتے ہیں اُس وقت مزدوری پاتے ہیں
۔
بخاری و مسلم
میں ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی، حضورِ
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لئے رمضان کا
روزہ رکھے گا، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے رمضان کی راتوں کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے
جائیں گے اور جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب
کے لیے شبِ قدر کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔
یہ کچھ احادیث مبارکہ ہیں رمضان المبارک کی فضیلت کے بارے
میں اور رمضان کے روزے ہر مسلمان پر فرض عین کے یہ تو ہر مسلمان نے رکھے ہی ہے
حدیث شریف کا مضمون ہے کہ جس کی جتنی زیادہ اور اچھی نیت اتنا زیادہ ثواب ہے اور یہ تو کچھ معلومات ہے رمضان المبارک کے
بارے میں اگر آپ اور معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند ہے تو اور معلومات بخاری
ومسلم اور احادیث کی کتب سے مل سکتی ہے۔
عبد الباسط عطاری(درجہ رابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان
عثمان غنی، کراچی،پاکستان)
رمضان المبارک کی باسعادت گھڑیاں قریب ہیں۔ اس کی برکتیں
اور رحمتیں بے شمار ہیں۔ یہ مہینہ آخرت کمانے، باطن سنوارنے، اور زندگی بنانے کا
ہے۔ اس لئے اس کی پہلے سے تیاری کی ضرورت ہے۔ اس ماہ(رمضان المبارک) میں جتنے کام
عام طور پر پیش آتے ہیں، ان میں سے جتنے کام رمضان المبارک سے پہلے ہو سکیں، پہلے
ہی کر لیے جائیں۔ او رجو کام رمضان المبارک میں کرنے ہوں، ان کے کرنے میں بھی کم
سے کم وقت لگایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت رمضان المبارک میں ذکر وعبادت اور
دعا و تلاوت کے لیے فارغ کرسکیں۔ بلا ضرورت لوگوں سے ملاقات کرنا ترک کردیں، تاکہ
فضولیات میں قیمتی مہینہ یا اس کے قیمتی لمحات ضائع نہ ہوں۔ اس ماہ میں گناہوں سے
بچنے کی خوب کوشش کریں، آنکھ، کان، ناک، دل زبان اور ہاتھ پیروں کو گناہوں سے
بچائیں۔ T.V دیکھنے، گانا
سْننے سے بچیں، خواتین بے پردگی کے گناہ سے بطور خاص اپنی حفاظت کریں۔ جھوٹ، غیبت،
چغلی، گالم گلوچ، اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب برتیں۔ تراویح پورے ماہ پابندی سے ادا
کریں۔ کیوں کہ عموماً لوگ دس یا پندرہ روزہ تراویح پڑھ کر سمجھ کر لیتے ہیں کہ اب
ان پر آگے تراویح نہیں۔ ان کا فرض پورا ہوگیا۔ یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ایک دفعہ
تراویح میں قرآن کی سماعت کرلینے سے فرض پورا ہوگیا ؟ نہیں! مکمل قرآن تروایح میں
سننا الگ سنت ہے،اور پورا ماہ پابندی سے تراویح پڑھنا الگ سنت۔ اسی طرح اللہ پاک
سے گڑ گڑا کر اپنے والدین، اہل وعیال اور تمام مسلمان مردوں وعورتوں کی مغفرت کے
لیے دعا کریں۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ
هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ
مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ
فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا
یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى
مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت
اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے
روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی
چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی
بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔(پ 2،البقرہ:185)
پانچ منفرد خصوصیات :پہلی خصوصیت : رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل ہوئے۔ جو
تعداد میں دس تھے۔ پھر سات سو سال بعد 6 رمضان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت کا
نزول ہوا۔ پھر پانچ سو سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام پر13 رمضان کو زبور کا نزول
ہوا۔ زبور سے بارہ سو سال بعد 18 رمضان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل کا
نزول ہوا۔ پھر انجیل کے بعد پورے چھ سو سال بعد24 رمضان کو لوح محفوظ سے دنیاوی
آسمان پر پورے قرآن کا نزول ہوا اور اسی ماہ کی اسی تاریخ کو خاتم الانبیاء محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ (تفسیر مظہری ،2 /181،
روح المعانی ،2/61)
دوسری خصوصیت: روایات کے مطابق اس مبارک مہینے میں روزانہ افطار کے وقت
ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے آزادی عطا فرما دی جاتی ہے جو اعمالِ بد کے حوالے
سے جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، نیز جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان
سے اس آخری دن جتنی تعداد جہنم سے آزاد کردی گئی ہوتی ہے اس تعداد کے برابر اس ایک
دن میں ایمان والوں کو جہنم سے آزادی کے پروانے عطا کردیے جاتے ہیں۔(کنزالعمال ، 8
/ 268)
تیسری خصوصیت:اس مبارک مہینے میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں اعمال کی
قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے، اس مبارک مہینے میں ادا کیا جانے والا ایک نفلی عمل
اجر کے اعتبار سے ایک فرض کے اجر کے برابر قرار دیا جاتا ہے اور ایک فرض کے اجر کے
عمل کو ستّر(70) فرائض کے اجور تک بڑھا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان ، 3 / 305)
چوتھی خصوصیت:اسی ماہ مبارک میں نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قیامت تک کے اپنے زمانوں میں پائے جانے والے
اپنے عاشقین کو یہ خوشخبری بھی عطا فرمائی ہے کہ جس شخص نے بھی رمضان کے مہینے میں
عمرہ کیا گویا اس نے میرے ساتھ حج کیا۔(بخاری شریف ، 2 /251)
پانچویں خصوصیت: نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ہر اس شخص کو جس کے ماتحت نوکر، خادم یا غلام وغیرہ ہوں
اس کے کاموں میں اس کے بوجھ کو ہلکا کر دینے کی ترغیب دلاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا
ہے : جو لوگ اس مہینے میں اپنے ماتحت کی ذمہ داریوں میں کچھ کمی کردیں اﷲ پاک ان
کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کو آگ (جہنم) سے آزادی عطا فرما دیتے ہیں۔(شعب الایمان ،
5 / 223)
رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت رکھیٔے):1) لَااِلٰہَ
اِلَّااﷲُ (2) استغفار (3) جنت کی طلب (4)دوزخ سے پناہ،یہ چاروں چیزیں اس دعا میں جمع ہیں: لَااِلٰہَ
اِلَّااﷲُ ، اَسْتَغْفِرُاﷲَ،اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ
لہذا میٹھے اسلامی بھائیو ! اس لئے اس ماہ مبارک کی دل و جان سے قدر کریں
اور مذکورہ تمام فضائل حاصل کرنے کی فکر کریں۔ ورنہ گیا وقت ہاتھ نہیں آتا جو کچھ
حاصل کرنا ہے جلدی کر لیں ورنہ آخرت میں پچھتانے سے کچھ نہ ہو گا۔ اس مہینے کی بہت
ساری ایسی خصوصیات ہیں جو صرف اسی کے ساتھ خاص ہیں، کسی دوسرے مہینے کو وہ خصوصیات
حاصل نہیں۔
سرکش شیاطین کا قید ہونا: آپ اپنی کھلی
آنکھوں سے دیکھ لیجیے کہ رمضان شروع ہوتے ہیں ساری دنیا میں مساجد آباد ہونا شروع
ہو جاتی ہیں ، سحر و افطار ، روزه ، تراویح ، تلاوت قرآن ، ذکر اللہ ، صدقہ و
خیرات اور دیگر عبادات میں لوگ مشغول ہو جاتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ سرکش شیاطین قید
ہوتے ہیں ۔ باقی جو کچھ گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ نفس کی خباثت کا اثر ہوتا ہے اور
سال بھر میں گناہوں کی کثرت کی وجہ سے دل سیاه ہو چکا ہوتا ہے اور بعض گناه دل کی
سیاہی کی وجہ سے طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ہر گناہ شیاطین کی وجہ
سے نہیں ہوتے بلکہ کبھی گناہوں کا سبب نفس بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے صوفیاء و مشائخ کی
محنت نفس کی اصلاح ہوتی ہے ۔
آخری رات میں بخشش: رمضان المبارک کی آخری رات بہت قیمتی ہوتی ہے ۔ اس رات میں
اللہ پاک روزہ داروں کی بخشش فرماتے ہیں مہینہ بھر روزہ رکھنے کا انعام عطا فرماتے
ہیں ۔ لیکن ہم اس رات موج مستی میں مصروف ہوتے ہیں ، حالانکہ یہی تو وہ وقت ہوتا
ہے جب اللہ سے اپنی بخشش کرائی جائے ، اپنے لئے مغفرت کا فیصلہ کرایا جائے ۔ اے
کاش !ہمیں اس بات کا احساس ہو سکے کہ ہم کتنی بڑی دولت اپنے ہاتھ سے ضائع کر
بیٹھتے ہیں ۔
اللہ پاک ہمیں یہ
تمام خصوصیات عطا فرمائے اور اس رمضان کو ہماری بخشش کا فیصلہ فرما دے ۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ایک ایسا مہینہ جس کا انتظار سال بھر کیا جاتا ہے جس کو
پانے کیلئے دعائیں کی جاتیں ہیں وہ عظمتوں رحمتوں برکتوں رفعتوں والا پیارا مہینہ
جس کی ہر گھڑی رحمت بھری جس کی ایک کی
ساعت میں ہزاروں کو جہنم سے آزادی ملے اس
برکت والے مہینے کا نام ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں ذکر کیا گیا اور وہ عظمت
والا مہینہ رمضان المبارک ہے۔ جی ہاں اسی
کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اللہ ارشاد
فرماتا ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ
هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-ترجَمۂ کنزُالایمان:
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی
روشن باتیں۔(پ 2،البقرہ:185)
اگر ہم اس کو سمجھنے کیلئے آسان کریں تو یہ بنے گا کہ اے
لوگوں رمضان تو مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا یعنی رمضان المبارک کا مہینہ بہت
عظمت والا ہے اور جب اس کی نسبت قرآن پاک اترنے کی طرف کی گئی تو رمضان المبارک کی
عظمت کو مزید چار چاند لگ گئے۔
رمضان المبارک ہی وہ پیارا مہینہ ہے جس کے لئے جنت کو سجایا
جاتا ہے اللہ پاک کے اور آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک جنت سال کے شروع سے اگلے سال تک
رمضان المبارک کیلئے سجائی جاتی ہے۔( شعب الایمان ،3 /312) دیکھے جنت خود اتنی
خوبصورت ہے کہ جس کی ایک اینٹ سونے کی دوسری چاندی ہے اور خود بھی سجی سجائی اور
پھر بھی رمضان المبارک کی عظمت کیلئے مزید سجائی جاتی ہے اور اس کی سجاوٹ ہمارے
وہم و گمان سے وراء ہے۔ رمضان المبارک میں
تو مسلمانوں کے وارے ہی نیارے ہیں کہ ذکراللہ کی بہت فضیلت ہےمگر رمضان المبارک
میں ذکر کرنے والوں کے متعلق سرکار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ رمضان ذکراللہ کرنے والے کو بخش دیا
جاتا ہے اور اس مہینے میں اللہ پاک سے مانگنے والا محروم نہیں رہتا۔( شعب الایمان ،
3/311) اور حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں رمضان المبارک میں ایک
مرتبہ تسبیح کرنا( سبحان اللہ) کہنا رمضان المبارک کے علاوہ میں ایک ہزار
مرتبہ تسیح کہنے سے افضل ہے۔( تفسیر در منثور ،1/404)
اللہ ہمیں رمضان المبارک کی عظمت کو سمجھ کر اس میں روزے
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطاری
(درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے
راشدین راولپنڈی،پاکستان)
اسلامی سال کے ہر مہینے کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں اور
بالخصوص رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیات ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جو تمام اسلامی
مہینوں کا سردار ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اس کے علاوہ کسی
اسلامی ماہ کا ذکر نہیں۔ اسی طرح اور بہت سی خصوصیات اللہ پاک نے رمضان المبارک کو
عطا کیں۔ رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیات میں سے پانچ منفرد خصوصیات کا ذکر کیا
جاتا ہے:
(1)قرآن مجید : اللہ پاک فرماتا ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ
اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ترجمۂ
کنزالایمان : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔(پ 2،البقرہ:185) یعنی رمضان المبارک کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس مہینے میں قرآن مجید آسمانِ
دنیا پر اترا۔
(2)لیلۃ القدر : اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ
الْقَدْرِۚۖ(۱) ترجمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔(پ 30،قدر :1)چونکہ قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا اور شب قدر میں نازل
ہوا تو معلوم ہوا کہ شب قدر رمضان المبارک کے مہینے میں ہے اور یہ رات اتنی اعلٰی
ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے :لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)ترجمۂ کنزالایمان : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔(پ 30،قدر :3)
(3)حکمت والے کاموں کی تقسیم :اللہ پاک فرماتا ہے:فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)ترجمہ کنزالعرفان :اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا
جاتا ہے (پ 25 ، دخان :4)مفسرین نے فرمایا اس رات سے مراد شب قدر ہے یعنی رمضان کا
مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ایسی ہے کہ اس رات میں سال بھر کے تمام حکمت
والے کام جیسے موت وحیات ، رزق وغیرہ کے احکام فرشتوں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں۔
(4)شیاطین کا قید ہونا : حضور نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ جب ماہ رمضان آتا ہے تو شیاطین
زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم
، کتاب الصیام ، باب فضل شھر رمضان، حدیث: 1079، ص850) یہی وجہ ہے کہ باقی گیارہ
ماہ کے مقابلے رمضان المبارک میں مسلمان کثرت سے عبادت اور ریاضت کرتے ہیں۔
(5) عمرے کا ثواب حج کے برابر : حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے۔(سنن
ابن ماجہ ، حدیث: 2993)بقیہ مہینوں میں عمرہ کرنے کا بلا شبہ بہت ثواب ہے لیکن جو
فضیلت رمضان کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ۔ اسی لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اس فضیلت
کو حاصل کرنے کے لیے جب بھی عمرہ کرنا ہو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں کیا جائے
اور ساتھ صحیح العقیدہ عالمِ دین بھی ہو تو کیا ہی بات ہے۔
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے
کہ محروم ہے وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رمضان
میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی۔(معجم اوسط ، 5 /366 ، حدیث :7627)
لہذا ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں خصوصیت کے
ساتھ عبادات و ریاضات کا سلسلہ رکھیں،گناہوں سے بچیں، خوب صدقہ و خیرات کریں ،اور
مغفرت اور بخشش کی خلوصِ دل کے ساتھ دعائیں کریں،انشاء اللہ الکریم دنیا میں بھی
اللہ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں بھی بیڑا پار ہو جائے گا۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ ضمیر علی(درجہ ثالثہ
جامعۃ المدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد،پاکستان)
رمضان المبارک کی
پانچ منفرد خصوصیات :
(1) پیارے آقا سلطان دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: رمضان شریف کی ہر شب آسمانوں میں صبح صادق تک ایک منادی یہ ندا کرتا ہے۔
اے اچھائی مانگنے والے، مکمل کر ( اللہ پاک کی اطاعت کی طرف آگے بڑھ ) اور خوش ہو
جا۔ اور اے شریر! شر سے باز آجا اور عبرت
حاصل کر۔ ہے کوئی مغفرت کا طالب اس کی طلب پوری کی جائے ، ہے کوئی توبہ کرنے والا
کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ،
ہے کوئی سائل کہ اس کا سوال پورا کیا جائے ۔ اللہ پاک رمضان المبارک کی ہر شب میں
افطار کے وقت ساٹھ ہزار گناہگاروں کو دوزخ سے آزاد فرما دیتا ہے اور عید کے دن
سارے مہینے کے برابر گناہگاروں کی بخشش کی
جاتی ہے۔(فیضان سنت، باب فضائل رمضان شریف ، ص 34)
(2)آخری نبی مکی
مدنی مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماہ شعبان کے آخری دن فرمایا :اے
لوگو! تمہارے پاس عظمت والا برکت والا مہینہ آیا وہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی
بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس
(ماہ مبارک ) کے روزے اللہ پاک نے فرض کیے۔ اور اس کی رات میں قیام سنت ہے۔(فیضان
سنت، باب فیضان رمضان ، ص24)
(3) رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70
گنا ملتا ہے۔(ایضاً، ص28)
(4) رمضان میں
ابلیس قید کر لیا جاتا ہے ، دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت آراستہ کی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔(ایضاً،
ص28)
(5) رمضان شریف میں
افطار اور سحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔ یہ
مرتبہ کسی اور مہینے کو حاصل نہیں۔(ایضاً، ص30)
ہر گھڑی رحمت
بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں
ماہِ رَمضاں
رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے
ہماری خوش
قسمتی کہ اللہ پاک
نے اپنے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے صدقے ہم
کو اپنی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال جھومتا، مسکراتا اپنا پیارا پیارا
اور مقدّس مہینا رمضان عطا فرمایا۔ ماہِ رمضان کی تو کیا ہی شان ہے،اس مقدس مہینے کے
ہر ہر لمحے میں اللہ پاک کی رحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔
یوں تو سارے مہینے ہی مقدس اور خوب برکتوں والے
ہیں مگر جو خوبیاں اور خصوصیات رمضان کے ساتھ خاص ہیں وہ کسی اور مہینے کے ساتھ
نہیں۔خاص سے مراد وہ بات یا کام ہے جو صرف ایک ہی شے یا چیز میں پایا جائے۔ معزز
قارئین آئیے ہم بھی ماہِ رمضان کی چند منفرد خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)رمضان میں قراٰن پاک کا نازل ہونا: اللہ پاک
نے ماہِ رمضان میں قراٰنِ پاک کے نزول کی ابتدا فرما کر اس کی عظمتوں اور برکتوں
کو مزید چار چاند لگا د یئے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:
رمضان کامہینہ،جس میں قراٰن اتارا۔(پ 2، البقرہ :185)
(2)لیلۃُ القدر کا رمضان میں ہونا: رمضانُ
المبارک میں شبِ قدر بھی اپنی بھرپور برکتوں کے جلوے لٹا رہی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر،شب
قدر ہزار مہینوں سے بہتر۔(پ30،القدر:1تا 3)
سُبْحٰنَ
اللہ ! اللہ پاک نے شب ِقدر کو اس مہینے میں رکھ
کر دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینے کی شان میں مزید اضافہ فرما دیا ۔جمہور
علمائے کرام و مفسّرینِ عظام کے نزدیک شبِ قدر جیسی بابرکت رات ماہِ رمضان کی
ستائیسویں شب ہے۔
(3)کاش سارا سال رمضان ہی ہوتا:
اس طرح رمضان ایسا مبارک مہینا ہے جس کی تشریف آوری پر مسلمانوں کے چہرے خوشی سے
کِھل اٹھتے ہیں اور جب یہ مہینا رخصت ہوتا ہے تو عشّاق اس کی جدائی کے غم میں خوب
اشک بہاتے ہیں۔ اسی لئے تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمّت تمنا کرتی کہ کاش!
پورا سال رَمضان ہی ہو۔(صحیح ابنِ خُزیمہ، 3/ 190، حدیث: 1886)
(4)خصوصی عبادات:
ماہِ رمضان کی ایک اور منفرد خصوصیت جو کسی اور مہینے میں نہیں وہ یہ کہ اس
مہینے میں کوئی اور فرض روزے نہیں رکھ سکتے سوائے رمضان کے فرض روزوں کے۔ اس کے
علاوہ تین ایسی عبادات ہیں جن کی سعادت صرف رمضانُ المبارک میں ہی ملتی ہے وہ یہ
ہیں:(۱)تراویح (۲)سنّتِ اعتکاف (۳)شبِ قدر میں عبادات۔
(5)شیطان کا قید ہونا:
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت جو اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ رمضان کے
مبارک مہینے میں شیطان مردود کو قید کر دیا جاتا ہے، جبکہ رمضان کا مبارک مہینا
رخصت ہوتے ہی دوبارہ آزاد کر دیا جاتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں
صحیح معنوں میں رمضانُ المبارک کی قدر کرنے اور اس میں خوب خوب عبادات کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد سہیل،دہلی
نماز کی فضیلت:حضرت جابر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے ارشاد فرمایا: بندے اور اس کے کفر کے درمیان فرق صرف
نماز کا چھوڑنا ہے۔(مسلم،حدیث: 82)اللہ پاک
فرماتا ہے:حفظوا
علی الصلوات والصلوة الوسطی،وقوموا للہ
قنتین0 ترجمہ ۔ تمام
نمازوں خصوص بیچ والی نماز (عصر) کی محافظت رکھو اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے
رہو۔(پ 2، البقرۃ: 238)رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ار شاد فرمایا:وہ شخض دوزخ میں نہیں جائے گا جو سورج
نکلنے سے پہلے( یعنی فجر)اور سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی عصر) نماز پڑھے
گا۔(نسائی ، 1،حدیث: 474)ابنِ ابی
خالد، مسعر اور بختری بن مختار نے یہ روایت ابوبکر بن عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے سنی ،انہوں
نے اپنے والد سے روایت کی ،انہوں نے کہا :میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:وہ شخص ہر گز آگ میں داخل نہیں ہوگا
جو سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتاہے، یعنی فجر اور عصر کی
نمازیں۔اس پر بصرہ کے ایک آدمی نے ان سے کہا:کیا آپ نے یہ روایت رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنی تھی؟انہوں نے کہا: ہاں!اس آدمی نے کہا: میں شہادت
دیتا ہوں کہ میں نے بھی یہ روایت ر سول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنی ہے، میرے دونوں کانوں نے اسے سنا اور مرے دل نے اسے
یاد رکھا۔(مسلم،حدیث:1436)رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا :تم میں سے کسی کے اہل اور مال میں کمی کردی
جائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ اس کی نمازِ عصر فوت ہوجائے۔(مجمع
الزوائد ، 2/ 50، حدیث: 145)فرمانِ
مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا
ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے:دعونی اصلی ذرا
ٹھہرو! مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(ابن ماجہ، حدیث:4272:ج 06، ص 503)حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃُ
اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے اس حصے ”دعوی اصلی(یعنی ذرا ٹھہرو مجھے
نماز تو پڑھنے دو)“ کے بارے میں فرماتے ہیں: یعنی اے فرشتو ! سوالات بعد میں کرنا، عصر کا وقت جارہا ہے مجھے نمازِ
عصر پڑھ لینے دو۔یہ وہ کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا، اللہ پاک نصیب
کرے۔مزید فرماتے ہیں:ممکن ہے کہ اس پر سوا ل و جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان ، کیونکہ اس کی
یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہوچکی۔(بہار شریعت ج 1:ص 110) امام احمد
ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم فرماتے ہیں:رات اور دن کے ملائکہ نمازِ فجر و عصر میں جمع
ہوتے ہیں، جب وہ جاتے ہیں تو اللہ پاک ان سے فرماتا ہے:کہاں سے آئے؟حالانکہ وہ
جانتا ہے،عرض کرتے ہیں:تیرے بندوں کے پاس سے،جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ
رہے تھے اور انہیں نماز پڑھتا چھوڑ کر تیرے پاس حاضر ہوئے۔(مسندامام احمد ، مسند ابی ہر یرہ،حدیث:
7394:ج3: ص 68۔ بہار
شریعت ، 3/442)
بخاری:552:نبیِ
کریم صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی نمازِ عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور
مال سب لٹ گیا یعنی عصر مبارک نماز کا فوت ہونا بربادیِ اعمال میں سے ہے۔مسلم:1468:
پیارے آقا صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص ہر گز جہنم میں نہیں جائے گا جو
سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنےسے پہلے نماز پڑھے یعنی جو فجر اور عصر کی نماز
ادا کرے۔بخاری:573:حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے
ہیں:ہم لوگ نبیِ کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا ،پھر فرمایا :تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح
دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ،اسے دیکھنے میں تم کو کسی بھی قسم کی مشقت
اور تکلیف نہیں ہو گی۔ اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع سے پہلے(فجر)اور غروب سے پہلے(عصر)کی نمازوں کے
پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو ،پھر آپ نے اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت
کی:فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا ترجمہ:تو سورج نکلنے اور
ڈوبنے سے پہلے اللہ کی پاکیزگی بیان کرو۔حدیثِ پاک
میں ہے:رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو فجر اور عصر کی نماز پڑھے وہ جنت میں داخل
ہوگا۔حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو
فجر اور عصر پڑھے وہ جنت میں داخل ہوگا۔صحیح
ابوداود:428:حضرت فضالہ لیثی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت
ہے،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نمازوں پر محافظت کرو۔میں نے کہا:
یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں لہٰذا آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے
کا حکم دیجیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہوجائے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عصرین پر محافظت کرو۔ عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا اس
لیے میں نے پوچھا:عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو
نماز ایک سورج نکلنے سے پہلے اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی فجر اور عصر۔)
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
طارق محمود،سیالکوٹ
حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(بہار شریعت،1/661،حصہ:4)(2)حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ کریم اس کے بدن کو آگ پر حرام
کر دے گا۔(بہار شریعت،1/661،حصہ:4) (3) اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کی
نمازِعصر نکل گئی یعنی کہ جان بوجھ کر چھوڑ دی گویا اس کے اہل و عیال اور مال چھین
لیے گئے۔(فیضانِ
نماز،ص106) مولیٰ علیرضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔(بہار شریعت،1/4،حصہ:661)(5)عمرو بن عاص رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجمعِ صحابہ میں جبکہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے فرمایا: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اسے
آگ نہ چھوئے گی۔ (بہار شریعت،1/661،حصہ:4)
نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
محمدحنیف،برج اناڑی
ہر مسلمان عاقل
بالغ مرد و عورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے ۔اس کی فرضیت یعنی فرض ہونے کا
انکار کفر ہے۔ جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرے وہ فاسق، سخت گنہگار اور عذابِ نار
کا حق دار ہے۔
جنت ایک بے نمازیو! کس طرح پاؤ گی؟
ناراض رب ہوا تو جہنم میں جاؤ گی
نمازِ عصر کس نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی:حضرت عزیر علیہ
الصلوۃ والسلام سو برس کے بعد زندہ فرمائے گئے، اس کے بعد آپ نے چار رکعتیں
ادا کیں تو یہ نمازِ عصر ہو گئی۔(شرح معانی الآثار،1/226،حدیث:1014)نمازِ عصر
کی فضیلت: نمازِ عصر کی درج ذیل فضیلتیں ہیں: (1)حضرت ابو بصرہ غفاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں
نے اسے ضائع کر دیا،لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا یعنی double اجر ملے گا۔(مسلم،ص322،حدیث:1927) (2)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا
معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا اور کہتا ہے:مجھے چھوڑ دو میں نماز
پڑھ لوں۔(ابن ماجہ،4/503،حدیث:4272) ابواحمدو ابو داؤد وترمذی بافادۂ تحسین عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے
چار رکعتیں پڑھیں۔(ابوداود،2/35،
حدیث:1271)(4)حضرت عمارہ بن
رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے
نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا ۔(مسلم،ص25،حدیث:1436)(5)علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں میں
سے افضل نمازِ عصر ہے، پھر نمازِ فجر ،پھر عشا، پھر مغرب، پھر ظہر۔ (فیض القدیر،2/53)