دھوکہ دینا ایک ایسا مذموم عمل ہے جس سے معاشرتی امن و سکون تباہ ہوتا اور لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ ختم ہو جاتا جس کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔

دھوکے کی تعریف:کسی چیز کی(اصلی)حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،6/240)مثلاً خرید و فروخت کرتے وقت گاہک کو اچھا مال دیکھا کر خراب مال دے دینا، کسی کو بیرون ملک بھیجنے کے جھانسے میں پیسے ہڑپ کر لینا، زمین کے جعلی کاغذات دیکھا کر پیسے لے کر بھاگ جانا وغیرہ

دھوکہ دینے والا ملعون: امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا اسے فریب (دھوکہ) دیا تو وہ ملعون ہے۔( سنن ترمذی،کتاب البروالصلة،باب ما جاء فی الخیانة والغش، حدیث: 1941)

دھوکہ دینے والا حکمران: کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس شخص کو اللہ پاک کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حالت میں مرے کہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا تھا تو اللہ پاک اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔( صحیح مسلم کتاب الایمان ، باب استحقاق الوالی الغاش لرعیتة النار حدیث: 142)

مومن کریم النفس ہوتا: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن (دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریم النفس ہوتا ہے جبکہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔( ابوداؤد، كتاب الأدب، باب فى حسن العشرة حدیث: 4790)

پاکیزہ کمائی کون سی ؟:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ ارشاد فرمایا :آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اچھی خریدو فروخت (یعنی جس میں خیانت اور دھوکہ وغیرہ نہ ہو)۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1 /581، حدیث 2140)

دین کے ذریعے دنیا کمانے والے دھوکے باز: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو دھوکہ اور فریب کے ساتھ دین کے ذریعے دنیا کمائیں گے لوگوں کو نرمی دکھانے کے لئے بھیڑ کی کھال پہنیں گے ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل(کی طرح )ہوں گے اللہ پاک (ان سے ) فرمائے گا: کیا تم میرے ساتھ دھوکہ کرتے ہو یا مجھ پر جرأت کرتے ہو مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان لوگوں پر ان ہی میں سے ضرور فتنہ بھیجوں گا جو ان میں سے سمجھ دار لوگوں کو بھی حیران اور پریشان کر دے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد،4 / 181 الحدیث: 2412)

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم دھوکہ دہی اور فریب سے بچ جائیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں رحم دل، نرمی کرنے والا اور خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والا دل عطا فرمائے اور دھوکے کی نحوست سے ہمارے دامن کو محفوظ فرمائے۔ اٰمین


کھوئی ہوئی چیز وہیں سے مل جاتی ہے جہاں وہ گمُی تھی سوائے اعتبار کے کہ جس شخص کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہوجائے دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے۔ اعتبار ختم ہونے میں اہم کردار" دھوکے" کا بھی ہے جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے توحقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسا نہیں کرے گا دھوکہ دینے کی بُری عادت نے تاجر اور گاہک، مزدور اور سیٹھ ،اور کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کردیا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں دھوکہ دینا عام ہو چکا ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے دھوکہ کرنے والے کئی مرتبہ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیں کرتے فی زمانہ دھوکہ دینے کی نت نئی صورتیں سامنے آتی ہیں کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے قرعہ اندازی میں انعام نکل آنےیا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورلیتا ہے توکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو دُکھ وتکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے افسوس دھوکا دینا لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہےجب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ۔

اللہ پاک نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر9میں منافقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے ،ارشاد فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)

(1) صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ''نجش‘‘ ( فریب‘ دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا۔

(2) امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔

(3)صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی آپ نے فرمایا! یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آسمان سے بارش ہوئی تھی آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

(5)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن(دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریم النفس ہوتا ہے جبکہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔


کسی بھی معاشرے کی تکمیل اس میں رہنے والے عمدہ لوگوں سے ہوتی ہے ،معاشرے میں رہائش پذیر لوگ جتنے عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ، صدق و صفا ، دیانتداری ، حیا ،اخلاص وغیرہ سے مزین ہوں تو معاشرہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا چلا جاتا ہے ، اور اگر معاشرے میں رہنے والے بری خصلت مثلاً فحاشی، عریانی ، زنا، چوری چکاری ، جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی، میں مشغول ہوں ،تو ایسے لوگ معاشرے کے زوال کا باعث بنتے ہیں ، ہم اپنے معاشرے کی اگر بات کریں ،تو لاتعداد جرائم سے دوچار ہے ، ان میں ایک سنگین برائی وہ غدر ، دھوکہ ، اور لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے ۔ دھوکے کی تعریف یہ ہے : وہ کام کہ جس کے کرنے والے کا باطنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو ۔ ( فیض القدیر ، 6/ 258،تحت الحدیث: 9233) خرید و فروخت میں دھوکہ تو جزوِ لازم بنتا جا رہا ہے ، اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح جنگ کے دوران دو سپاہی تلوار لیے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں ، دونوں موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی لمحہ ایسا آے کہ میں دوسرے پر غلبہ پا لوں اور اس کو قتل کر دوں ایسا ہی معاملہ آج کل گاہک اور تاجر کا ہے ، ہر ایک اس سوچ میں مگن ہوتا ہے ، کوئی تو موقع ایسا ملے میں سامنے والے کو بیوقوف بنا لوں ،اسے دھوکا دے کر اپنے مال کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کر لوں ، ہمارے معاشرے میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً (1) بعض سنار سونا چاندی کو خرید کر اس میں کھوٹ ملا دیتے ہیں اور سارے کو سونا ظاہر کر کے بیچتے ہیں۔ (2) بعض تاجر اپنی دکان کو اس قدر روشن کرتے ہیں کہ بھدی چیز بھی بھلی نظر آتی ہے خریدنے کے بعد گھر جاکر اس چیز کو دیکھا جائے تو چیز میں دکھائی گئی صورت باقی نہیں رہتی۔

یاد رکھئے دینِ اسلام سختی سے ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں کثیر مقامات پر اس کی مذمت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ چناچہ

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب قول النبی من غشنا فلیس منا ،حدیث 283، ص :695)

(2) آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی کے لیے عیب بیان کیے بغیر کوئی چیز بیچنا جائز نہیں ، اور جو عیب کو جانتا ہو اس کے لیے عیب بیان نہ کرنا جائز نہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل ، حدیث واثلہ بن الاسقع، 5/ 421، حدیث: 16013)

(3) حضور سے مروی ہے فرمایا : جس نے عیب والی چیز بیچی اور عیب بیان نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے یا فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(سنن ابنِ ماجہ ، ابوب التجارت ، من باع عیبا فلیبینہ، حدیث: 2247، ص 2611)

(4) آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مومن ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام دور دراز ہوں اور فاجر لوگ ایک دوسرے سے دھوکا اور خیانت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام قریب قریب ہوں۔(الترغیب والترہیب کتاب البیوع وغیرہا ،2/368، حدیث:2750 )

(5) ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک جو امانت دار نہیں اس کا دین نہیں۔( مسند البزار، مسند علی بن ابی طالب،3/61، حدیث: 819)

ذرا سوچئے کس قدر دھوکا کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ایک مسلمان کی کبھی یہ شان نہیں ہو سکتی کہ اپنے ہی مسلمان بھائی کو دھوکا دے ، اس کو نقصان پہنچائے، مومن تو وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے ۔اپنے اندر خیر خواہی کا جذبہ بیدار کیجیے ، انشاء اللہ اس سے مال میں برکت بھی ہو گی اور گناہ سے بچنا بھی نصیب ہوگا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دھوکے کے فریب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


دھوکہ بازی اسلام میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ اصلی چیز کو نقلی کے ساتھ بیچنا سراسر اسلام کے منافی ہے ،کسی چیز میں ملاوٹ کر کے بیچنا اور ڈھیر اس انداز سے رکھنا کہ نیچے ردی مال ہو اور اوپر خالص مال ہو ، تو ڑے اور بوری وغیرہ میں نیچے اور سائیڈوں میں اور منہ کی جانب درست مال اور درمیان میں ردی مال رکھ کر فروخت کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔

چیز کا عیب نہ بتانا اور غلط چیز کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھا کر اعتبار دلا کر فروخت کرنا ناجائز ہے۔ قسم اٹھا کر چیز تو بک جائے گی مگر برکت اڑ جائے گی۔

(1) بخاری شریف میں ہے حضرت ابوم مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ بازی سے منع فرمایا ہے ۔

(2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ (1) دھوکہ باز (2) بخیل (3)احسان جتانے والا ۔(كنز العمال)

(3) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے خرید و فروخت میں دھوکہ دیا گیا ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس سے سودا کروا سے کہدو کہ دھوکہ بازی نہ ہو ۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مسلمان عزیر اور محترم ہے مگر فاسق اور دھوکہ باز مکار اور بدبخت ہے۔

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے ڈھیر کے پاس سے گزرے تو اپنا ہاتھ اس میں ڈالا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انگلیاں تر ہو گئیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اے غلہ والو یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر بارش ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا تو نےاسے غلہ کے اوپر کیوں نہیں کیا تاکہ لوگ اسے دیکھتے ۔ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (بخاری شریف)

رب کریم اس مختصر مضمون کو قارئین اور ہم سب مومنین کے لئے مفید اور کارآمد بنائے، نیز دھوکہ بازی اور جہنم کے شدید ترین عذاب سے بچائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی کا چلن عام ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھے۔ اسی طرح نکاح کے معاملات میں بھی دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ لڑکے کی آمدن اور کئی مرتبہ لڑکی کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔

(1) صحیح بخاری میں حضرت عبد الله بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے ، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نجش (فریب ، دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا ۔ (کتاب البیوع، حدیث : 2 214 )

(2) صحیح بخاری میں ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر دھوکہ دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔ (کتاب الحیل ، حدیث : 6966)

(3)صحیح بخاری میں حضرت عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبد الرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج سے پوچھا اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرما یا تھا ، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیونکہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔(کتاب الحرث والمزارعۃ)

(4) ترمذی شریف میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔( مناقب کا بیان ،حدیث:3928)

(5) ابن ماجہ میں ابو الحمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا، آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک برتن میں گیہوں تھا۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس گیہوں میں ڈالا پھر فرمایا: شاید تم نے دھوکہ دیا ہے جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (حدیث :2225 )

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دین، نکاح، تجارت اور زندگی کے تمام معاملات میں سچائی اور خیر خواہی سے ہی کام کا لینا چاہیے اور دھو کے اور فریب سے ہر صورت بچنا چائیے۔


دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

کسی نے کیا خوب لکھا ہے : وقت، اعتبار اور عزت ایسے پرندے ہیں جو اُڑ جائیں تو واپس نہیں آتے، ہمارے معاشرے کی کہانی میں بھی یہ پرندے اُڑتے دکھائی دیتے ہیں، ہر بازار ہر گھر اور ہر دفتر کا حال یہ ہو گیا کہ مسلمان ،مسلمان ہی کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے دھوکہ دے رہا ہے کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے لاٹری میں انعام نکل آنے،یا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا شروع کردیتا ہے تو کہیں کوئی کسی کی زمین کے جعلی کاغذات دِکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے اورکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے،اس طرح اعتبار کی زنجیر کو پاش پاش کر دیا جاتا ہے ۔

آج جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبار کا رشتہ مضبوط ہے وہ سکھی اور جنہیں کسی نے دھوکا دیا ہو وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب اسلام اس کی پرزور انداز میں تردید کرتا ہے۔ دھوکا دینے والے سے اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لہٰذا دھوکے کے متعلق 5 حدیثیں ذیل میں ذکر کرتا ہوں :-

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکا باز اور کمینہ ہوتا ہے۔ (سنن ابوداؤد،جلد سوم،حدیث: 1387)

(2) اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم، ص65، حدیث:101)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا دھوکا کی بیع سے اور کنکر کی بیع سے۔(سنن ابوداؤد،جلد دوم،حدیث: 1600)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم خریدار کو دھوکا دینے کے واسطے کسی چیز کی قیمت نہ بڑھایا کرو ۔(سنن نسائی،جلد دوم،حدیث: 1152)

دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا، جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا ہوگا ،چنانچہ حسابِ ِآخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیا میں سچی توبہ کرکے اپنا حساب کرلیں کہ جس جس سے رقم ہتھیائی ہے اس کو واپس کریں یا معاف کروالیں ،اگر وہ زندہ نہ ہوتو اس کے وارثوں کو ادائیگی کریں یا معاف کروا لیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجھے سچّی توبہ کی توفیق دیدے،

پئے تاجدارِ حرم یاالٰہی


اللہ تعالی قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ(۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے آدمی تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے ۔(پ30،الانفطار:6)

اس آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ا نسان! تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا کہ تو نے اس کی نعمت اور کرم کے باوجود اس کا حق نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی جو تجھے عدم سے وجود میں لے کر آیا،پھر اس نے تمہارے اعضاء کو ٹھیک بنایا اور تجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ،چلنے کے لئے پاؤں ،بولنے کے لئے زبان،دیکھنے کے لئے آنکھ اور سننے کے لئے کان عطا کئے،اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللہ پاک کی ان کرم نوازیوں کو دیکھ کر بھی ا س کی نافرمانی سے نہیں رکے بلکہ تم انصاف کے دن کو جھٹلانے لگے اور اعمال کی جزاملنے کے دن کاانکار کرنے لگ گئے۔( جلالین، الانفطار، تحت الآیۃ: 6، ص492، ملتقطاً)

دھوکے کی تعریف : نفس کا اس بات پر ٹھہر جانا جو خواہشِ نفس کے مطابق ہو اور شیطانی شبہ اور فریب کے باعث طبیعت اس کی طرف مائل ہو دھو کا کہلاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو۔ اس نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتلا دیا۔ اس دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دستِ مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا، اس پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے دھوکا دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، جلد 3، حدیث : 57)

عقل مندوں( یعنی علم والوں) کے کھانے پینے اور سونے کی بھی کیا بات ہے ،انہیں جاہلوں کی شب بیداری اور عبادت میں محنت ومشقت کیسے دھوکا دے سکتی ہے ؟صاحب تقوی اور یقین رکھنے والے کا ذرہ برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں کے زمین بھر کے عمل سے افضل ہے ۔(الزھد للامام احمد بن حنبل ، زہدابی الدرداء،ص162،حدیث : 738)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی وہ بے وقوف ہے جو کام کرے دوزخ کی اور امید کرے جنت کی ،کہا کرے اللہ غفور الرحیم ہے باجرہ بوئے اور امید کرے گیہوں کاٹنے کی،کہا کرے اللہ غفور الرحیم ہے کاٹتے وقت اسے گندم بنا دے گا اس کا نام امید نہیں۔ عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے اور بیوقوف وہ ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے پھر بھی اللہ پاک سے امید رکھے۔ (مرأة المناجیح،7/103)

خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کو جھوٹی امید نے سیدھے راہ نیک اعمال سے ہٹا دیا ہے جیسے جھوٹی بات گناہ ہے ایسے ہی جھوٹی آس بھی گناہ ہے ۔(احیاء العلوم، 3/1125)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ دھوکا تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اسی سے ہلاکت میں ڈالنے والے تمام معاملات کی ابتدا ہوتی ہے تو ان تمام چیزوں کا جاننا ضروری ہے جو دھوکے کی طرف لے جانے والے ہیں ۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھوکا دینے والے کی عزت سماج میں نہیں ہوتی ہے سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: "دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں ہے" تو اس کی عزت سماج میں کیسے ہو سکتی ہے اور ایسے لوگوں کو عوام الناس پسند نہیں کرتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رضى اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (اس حدیث میں ایک لفظ غرّ ذكر ہوا جس کا معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص) (، ترمذی، ابوداؤد)

وعن أبي هريرة قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم هلك كسرى فلا يكون كسرى بعده وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده ولتقسمن كنوزهما في سبيل اللہ وسمى الحرب خدعة ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کسریٰ ہلاک ہوگیا، اس کسری کے بعد اور کوئی کسری نہیں ہوگا اور یقیناً قیصر یعنی روم کا بادشاہ بھی ہلاک ہوگا جس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا، نیز ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا۔ (بخاری و مسلم)

دھوکے سے بچنے کا علاج :دھوکے سے بچنے کے دوعلاج ہیں:(1) ایک ایمان کی تصدیق کے ذریعے(2) دوسرا دلیل حجّت سے ۔

پہلا ایمان کی تصدیق اس طرح کرے کہ اللہ پاک کے ان تمام فرامین کو سچّا جانے جو دھوکے کی وعید کے متعلق نازل ہوئی ۔ دوسرا یہ ہے کہ انسان ان تمام خیالات کے پیچھے نہ پڑے جو شیطان کے طرف سے ہو اس لیے کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور ہمیشہ شریعت کو پیشِ نظر رکھیں ،تو آپ دھوکا سے بچ سکتے ہیں اور دھوکا سے بچنے کے تین اسباب علمائے کرام بیان فرماتے ہیں (1)عقل (2) معرِفت (3)علم اس کی تفصیل جاننے کے لیے آپ احیاء العلوم جلد سوم کا مطالعہ فرمائیے (ص1223سے1226تک)

حاصل کلام ایک لفظوں میں یہ ہے کہ دھوکا سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس کی عقل و ذہانت عمدہ ترین میں شمار ہوتا ہو اور شریعت کا علم رکھتا ہو۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کے پاک پروردگار عالم ہم تمام مسلمانوں کو دھوکہ دہی اور مکرو فریب سے محفوظ ومامون فرمائے اور ہم تمام مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین 


ہمارے معاشرے میں دھوکا دینا عام ہوتا جا رہا ہے اور مختلف معاعملات میں لوگوں کو دھوکہ دینے میں کوئی گناہ و برائی سمجھتیں ہی نہیں ہیں لیکن مذہب اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکہ بازی اور دغابازی کرنے کو تو قطعاً حرام و گناہ قرار دیا گیا ہے ۔

آئیے دھوکہ دینے کے متعلق پانچ حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:

مکر و فریب کی تعریف: وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا باطنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو مکر کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 163)

(1) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص ہمارے ساتھ دھوکہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے مکر اور فریب جہنم میں ہوں گے۔(الترغیب والترہیب، 2/428) جو لوگ تجارت کرتے ہیں اور مال میں ملاوٹ کرتے اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کو اس حدیث سے درس حاصل کرنا چاہیے ۔

(2) صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کی ڈھیری کے پاس گزرے اس میں ہاتھ ڈال دیا ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو انگلیوں میں تری محسوس ہوئی ارشاد فرمایا: اے غلہ والے! یہ کیا ہے؟ اس پر اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! اس پر بارش کا پانی پڑگیا تھا ارشاد فرمایا کہ تونے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کردیا کہ لوگ دیکھتے جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم, کتاب الایمان،باب قول النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم من غشنا فلیس منا، حدیث:164 )

(3) امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(سنن الترمذی کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش،3/378، حدیث: 1948)

(4) حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اگر چہ ان کے علاقے ایک دوسرے سے دور ہوں اور ان کے جسم ایک دوسرے سے الگ ہوں جبکہ فاجر لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتے ہیں خواہ ان کے گھر ایک دوسرے کے قریب ہوں اور ان کے جسم ایک دوسرے کے قریب ہوں ۔( الترغیب والترہیب ،2/433)

(5) امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

ایک حدیث پاک میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کو عیب والی چیز عیب بیان کئے بغیر بیچنا جائز نہیں۔( سنن ابن ماجہ ابواب التجارات،حديث : 2246 ، ص : 2611) ہمیں چاہیے کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کریں۔

اللہ پاک ہم سب کو نیک ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں مسلمانوں کو دھوکا دینے اور ملاوٹ کرنے سے محفوظ رکھے۔ اٰمین


عاشقان  رسول کی دین تحریک دعوت اسلامی کے تحت 15 اکتوبر2022 ء کو مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین عطاری نے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں جامعۃ المدینہ کے ناظمین کا مدنی مشورہ فرمایا۔

رکن شوریٰ نے دوران مشورہ سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے شرکا کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی ۔ بعدازاں جامعۃ المدینہ کے انتظامی معاملات میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات بتائے ۔ اس موقع پر مدنی مشورے میں مجلس جامعۃ المدینہ کے نگران واراکین بھی موجود تھے۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری ) 


15 اکتوبر2022 ء کو دعوت اسلامی  کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں شعبہ فیضان مرشد سے وابستہ اسلامی بھائیوں کا تربیتی اجتماع ہوا جس میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا۔

دوران بیان رکن شوریٰ نے اسلامی بھائیوں کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کرتے ہوئے انہیں 12 دینی کام کرنے کا ذہن دیا نیز ہر ماہ تین دن کے مدنی قافلے میں سفر کرنے اور اوروں کو سفر کروانے کی ترغیب دلائی ۔ مزید ہفتہ وار مدنی مذاکرہ میں آنے کی دعوت بھی دی جس پر شرکا نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )


دعوت اسلامی  کے زیر اہتمام پچھلے دنوں صوبہ بلوچستان کوئٹہ ڈویژن میں اجتماع میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں ٹیچرز، اسٹوڈنٹس اور شعبہ تعلیم سے متعلق شخصیات نے شرکت کی۔

آغا ز تلاوت قراٰن پاک سے ہوا پھر ثناء خوانوں نے آقا ﷺ کی بارگاہ میں نظرانہ عقیدت پیش کئے۔ اس کے بعد مبلغ دعوت اسلامی طارق مدنی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور حاضرین کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں آنے اور مدنی مذاکرہ دیکھنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )


دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن  حاجی بغداد رضا عطاری نے مورخہ 16 اکتوبر 2022ء کو جہلم ڈسٹرکٹ کا ماہانہ مدنی مشورہ فیضان مدینہ جہلم میں فرمایا۔

دوران مدنی مشورہ رکنِ شوریٰ نے اسلامی بھائیوں کو 12 دینی کاموں کو مزید بڑھانے کے حوالے سے ذہن سازی کی۔ بعدازاں فیضان اسلامک اسکول سسٹم میں بچوں کے داخلےکروانے کی ترغیب دلائی نیز ٹیلی تھون، پیشگی کارکردگی شیڈول کے متعلق مدنی پھول دیئے۔ساتھ ساتھ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے آنے کی دعوت دی جس پر شرکا نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )