باجماعت نماز بہت اہمیت و فضیلت کی حامل ہے، اس میں بہت سی حکمتیں موجود ہیں، باجماعت نماز سے اللہ کے لئے بھائیوں اور دوستوں کا آپس میں تعارف اور جان پہچان ہوتی ہے اور محبت کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کے بغیر ایمان کا برقرار رہنا آسان نہیں ہے، نماز باجماعت کی فضیلت یہ بھی ہے، جو آدمی مسلسل چالیس دن تکبیر تحریمہ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے گا تو اللہ اس کو نفاق اور جہنم کی آگ سے بَری اور آزاد کردے گا۔

فرامینِ آخری نبی ﷺ:

1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:دو یادو کے اوپر جماعت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب امامۃ)

2۔ باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر 27 درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری)

3۔ جو اللہ کے لئے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی، ایک دوزخ سے، دوسری نفاق سے۔(صحیح مسلم وبخاری)

4۔ لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔

5۔ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آ گیا ہے اور تم لوگ اپنی ذمّہ جماعت سے نماز لازم کر لو، کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے، جو اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہو گئی ہو۔حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔(سنن ابی داؤد)

باجماعت نماز پابندی سے پڑھنے کا درس: عبداللہ ابن عمر بازار میں تھے، مسجد میں نماز کے لئے اقامت کہی گئی، آپ نے دیکھا کہ بازار والے اٹھے اور دکان بند کر کے مسجد میں داخل ہوگئے، تو فرمایا: رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ یعنی وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا، ایسے لوگوں کے حق میں ہے۔

جماعت سے تو گر نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا

اللہ پاک دل جمعی کے ساتھ اور جوش و چستی کے ساتھ مسلمانوں کو تمام نمازیں باجماعت پابندی کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمدللہ ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

1۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لئے جائے، لیکن وہ لوگوں کو پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہوں تو اللہ اسے باجماعت نماز پڑھنے والوں کی مثل اجر عطا فرما دیتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔(حسن سنن ابی داؤد:564، سنن نسائی:856)

2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اندھیروں میں مساجد کی طرف جانے والوں کو بروزِ قیامت مکمل نور کی بشارت دے دو۔(حسن سنن ابی داؤد:561، سنن نسائی:223)

3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری)

4۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب فی فضل التکبیرۃ ا ل اولیٰ 1:281، رقم 241)

5۔حضرت عبداللہ بن مسعود نے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی1:452، رقم 654)

خلاصہ:ان احادیث سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں نماز وقت پر پڑھنی چاہئے اور مردوں کو باجماعت نماز پڑھنی چاہئے۔

اللہ پاک ہم سب کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اے عاشقانِ نماز! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار نعمتیں عطا ہوئی ہیں، ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح جماعت کی نعمت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

آیت مبارکہ: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0

ترجمہ کنزالایمان:اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ:

1۔ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج2، ص9،حدیث 5112)

2۔جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(حلیۃ ال اولیٰ اء جلد 7، صفحہ 299، حدیث10591)

3۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، ح647)

4۔نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 232، ح645)

5۔جس نے فجر اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 22، حدیث 2875)

فرض نماز جماعت سے ادا کرنے کے بے شمار فضائل ہیں، اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل ہوتا ہے، باجماعت نماز پڑھنے والا پل صراط سے سب سے پہلے بجلی کی طرح گزر جائے گا، باجماعت نماز ادا کرنے والوں کی شان و شوکت دیکھ کر اہلِ محشر رشک کریں گے، نماز کے لئے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے، بروزِ قیامت عرش کا سایہ نصیب ہوگا، باجماعت نماز کی تکبیر اولیٰ پانا سو اونٹنیاں پانے سے بہتر ہے۔

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا

علامہ سید محمد احمد رضوی فرماتے ہیں:ہر عاقل، بالغ مسلمان جو قدرت رکھتا ہو، اس مرد پر نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے اور بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے، بلکہ ایک جماعت علماء بھی یہی فرماتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل فرض نماز کی جماعت کو فرضِ عین فرماتے ہیں، اگر فرض ِعین نہ مانا جائے تو اس کے بعد واجب و ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں ہے، حضور ﷺ عمومی طور پر فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے تھے، مگر یہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔

بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا

ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا

اللہ پاک ہمیں فرامینِ مصطفیٰ ﷺ پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین


تمہید:عاقل، بالغ، آزاد اور قادر پر مسجد کی جماعت   اولیٰ واجب ہے، بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گناہ گار اور مستحق سزا ہے، کئی بار ترک کرے تو فاسق اور مردود الشہادة اور اس کو سخت سزا دی جائے گی۔

جماعت کی تعریف:چند لوگوں کا ایک ساتھ اکٹھے ہو کر ایک جگہ پر ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کہلاتا ہے، جماعت چند لوگوں کے اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں۔

باجماعت نماز کی بہت زیادہ فضیلت ہے، حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے، ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی ہوگا۔

احادیث مبارکہ:

اثنان فما فوقہماجماعۃدو یادو کے اوپر جماعت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیہا، باب الاثنان جماعۃ، جلد1، صفحہ522، حدیث 972)

2۔ باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر 27 درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان،باب فضل الصلاۃ الاجماعۃ، جلد1، صفحہ231، حدیث 219)

3۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کر دیا جاتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاجماعۃ والامامۃ،باب فضل الصلاۃ الاجماعۃ، جلد1، صفحہ232، حدیث 220)

4۔ جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب فی فضل التکبیرۃ ال اولیٰ ، جلد1، صفحہ281، حدیث 241)

5۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالتِ اسلام میں کل(قیامت کے دن) اللہ پاک سے کامل مؤمن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے، وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے، یعنی وہ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرے۔(صحیح مسلم، کتاب الامساجد ومواضع الصلاۃ،باب صلاۃ الاجماعۃ من سنن الھدی، جلد1، صفحہ452، حدیث 654)

خلاصہ:

٭نماز پنجگانہ باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ یکجا ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں۔

٭باجماعت نماز کی ادائیگی قرب و موا نست اور محبت کے رشتے کو مضبوط و مستحکم بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

٭باجماعت نماز سے اطاعتِ امیر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

٭معاشرے کے اندر حدث و یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔

٭وقت کی پابندی کا درس ملتا ہے۔

٭عملاً مساوات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

٭باجماعت نماز پڑھنے سے محبت بڑھتی اور مل کر اللہ کا ذکر کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔

٭باجماعت نماز پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے۔


موضوع باجماعت نماز کے فضائل وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0 (پ 1،البقرۃ:43) ترجمۂ کنز العرفان اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

جماعت سے متعلق پانچ احادیث:

1۔ جو الله کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لئے دو( ٢)آزادیاں دی جاتی ہیں ۔ایک نار (جہنم) سے اور دوسری نفاق سے۔ (مومن کی نمازص 193)

2۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مومن کی نماز ص193)

3۔ الله پاک باجماعت نماز پڑھنے والے کو محبوب یعنی پیارا رکھتا ہے(مسند احمدبن حنبل جلد 2 ص 309 حدیث 5112)(فیضان نماز ص 140)

4۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں پچیس 25درجے زائد ہے(بخاری جلد 1 ص 233 حدیث 647)

5۔ نماز تنہا پڑھنے سے ستائس (27)درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری جلد 1 232 حدیث 645)

باجماعت نماز کی اہمیت : علامہ سید محمود احمد رضوی فرماتے ہیں ہر عاقل بالغ ہر (یعنی آزاد) اور قادر (یعنی جو قدرت رکھتاہو) ہر مسلمان (مرد) پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر (یعنی بغیر کسی مجبوری کے )ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گناہ گار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے بلکہ ایک جماعت علما جن میں (امام) احمد بن حنبل بھی شامل ہیں وہ جماعت کو فرض عین قرار دیتے ہیں اگر فرض عین نہ مانا جائے تو اس کے واجب ہونے میں ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں حضورﷺ کا عمو می عمل یہ ہی تھا کے آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے اِلّا (یعنی مگر)یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی (فیوض الباری جلد 3 ص 297 بتغیر قلیل) (فیضان نماز140)

باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 972)

باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم کی چند احادیث درج ذیل ہیں :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 619)

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 620 3)

3۔ جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب في فضل التکبيرة الاولیٰ، 1 : 281، رقم : 241 4)

4۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔‘‘ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔( مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی، 1 : 452، رقم : 654 )

جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟ بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ : أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِيْنًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ الْعِشَاءَ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامۃ، باب وجوب صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 618 ) واللہ اعلم ورسولہ اعلم


با جماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ دو آدمی بھی ہو تو جماعت قائم کریں ایک امام بنے دوسرا مقتدی۔ نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ یکجاہونے کہ مواقع میسر ہوتے ہیں ۔ اس طرح انہیں اہل محلہ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ کون کس حال میں ہے کوئی ایسا تو نہیں جو پریشان و تنگدست ہے یا بیمار ہے ۔ با جماعت نماز کی ادائیگی قرب و موانست اور محبت کے رشتے مضبوط و محکم بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی اور سکھ دکھ میں شریک ہوکر ایک صحتمند اور خوشحال معاشرے کی تعمیر ممکن ہے ۔ وحدت و یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا درس ملتا ہے ۔ عملاً مساوات کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اتحاد، نظم اور یقین محکم کا درس ملتا ہے اور تربیت ہوتی ہے ۔ نیکیوں میں سبقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

با جماعت نماز کے فضائل پر پانچ فرامین مصطفیٰ:

1۔باجماعت نماز ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاذان ، باب الفضل صلاة الجماعت ، 1: 231،رقم : 219 )

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کرکے مسجد کی طرف جاتا ہے کہ نماز کے سوا دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے پھر وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے ہیں جب تک وہ با وضو رہتا ہے اور اس کے لئے یہ دعا کرتے ہیں ، اے اللہ ! اس پر سلامتی بھیج اے اللہ ! اس پر رحم فرما۔

3۔ جو اللہ تعالیٰ کےلئے چالیس دن نماز با جماعت پڑھےاور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لئے دو آزادیاں ہے ایک جہنم سے اور دوسری نفاق سے۔ (سنن ترمذی ابواب الصلوۃ ، باب فی فضل التکبیرة ال اولیٰ ، 281: 1، رقم:241 )

4۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس ذریعے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹادے اور درجات کو بلند کردے ۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ کہا مشقت کے باوجود وضو کرنا اور ایک۔نماز کے بعد دوسری کا انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود مسجد میں ہی نماز پڑھنا۔ پس یہ تمہارے لئے نفس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

5۔ فرمان مصطفٰی ﷺ جس نے نماز عشاء با جماعت ادا کی گویا اس نے نصف رات کا قیام کیا۔ کسی ایک کے لئے یا جماعت کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مسجد قریب ہونے کہ باوجود گھر میں نماز ادا کرے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت میں ) اللہ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہےوہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نماز پنجگانہ با جماعت ادا کرے)


بے شک مسجد میں آنا، مسجد سے محبت کرنا، مسجد میں دل لگانا، پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا، نیک بندے کی علامت ہے، اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ کنز العرفان:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیوں کہ جماعت کی نماز پر 27 درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، پارہ 1، سورۃ بقرہ، زیر آیت 43، جلد 1، صفحہ 340)

ہر مسلمان مرد جو عقلمند ہے پاگل نہیں ہے، بالغ ہے نا بالغ نہیں ہے، آزاد ہے، پہلے دور میں جیسے باقاعدہ پیسوں سے غلام خریدے جاتے تھے، ایسے غلام نہیں ہے اور جو قادر ہے، یعنی مسجد تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے، اس پر پانچوں نمازیں مسجد میں آکر باجماعت ادا کرنا واجب ہے، اگر بغیر کسی شرعی مجبوری کے ایک بار بھی جماعت چھوڑ دے گا تو گناہ گار ہوگا اور اگر کئی بار ترکِ جماعت کرے گا تو ایسا شخص فاسق ہے۔(بہار شریعت، جلد 1، صفحہ582، حصہ 3،بتغیر قلیل)

اور جو شخص مسجد میں پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا، مثلاً نابینا ہے یا اس کی ٹانگیں سلامت نہیں ہیں، شدید بیمار ہے، چل پھر نہیں سکتا، تو ایسے شخص پر اگرچہ جماعت واجب نہیں ہے، البتہ اس کے لئے بھی افضل یہی ہے کہ جیسے ممکن ہو، مسجد میں آئے اور نماز باجماعت ہی ادا کرے۔

الحمدللہ ہمارے آقا و مولا، محبوبِ خدا ﷺ کا عمومی عمل مبارک یہی تھا کہ آپ ﷺ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے نعتیہ دیوان میں لکھتے ہیں:

میں پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت

ہو توفیق ایسی عطا یا الہی

نماز باجماعت سے متعلق پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ:

1۔ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 309، حدیث 5112)

2۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سوال کرے، تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔(کنزالعمال، کتاب الصلوۃ، جزء 7، جلد 4، صفحہ 227، حدیث 20239)

3۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے افضل ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، صفحہ 223،حدیث 646)

4۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(تاریخ بغداد، جلد 2، صفحہ 404)

5۔ جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اس کے لئے جنت الفردوس میں 70درجے ہوں گے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا یعنیtrained تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا 70 سال میں طے کرتا ہے اور جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے جنتِ عدن میں 50 درجے ہونگے، ہر دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا یعنیtrained تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے اور جس نے عصر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے اولادِ اسماعیل میں سے ایسے 8 غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا، جو کعبہ شریف کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں اور جس نے مغرب کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے حجِ مبرور(یعنی مقبول حج) اور مقبول عمرے کا ثواب ہو گا اور جس نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے لیلۃ القدر میں قیام(یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔(شعب الایمان، باب الصبر، جلد 7، صفحہ137، حدیث 9761)


حقیقتِ حال سے بے خبر رکھ کر دوسرے کو غلط راستے پر ڈالنے کا نام دھوکا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ایک دھو کا ہے ہم بہت سی خواہشات لیے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمیں پتہ ہے کہ دنیا کی زندگی ایک دھوکا ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں دھوکے سے متعلق ارشاد فرمایا : اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے۔( پ 22، الفاطر :5)

دھوکے کی مختلف صورتیں: دھوکا دینا کئی طرح سے ہوتا ہے مثال کے طور پر (1) الله اور اس کے رسول کی پیروی نہ کرنا۔ (2)والدین اور عزیز و اقارب کو دھوکہ دینا۔(3) خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکہ دینا ۔اسلام نے ان تمام صورتوں سے منع کیا ہے پس ہم پر لازم ہے کہ ہم قراٰن و سنت پر عمل کر کے دونوں جہاں میں۔ سرخرو ہو سکیں۔

نکاح میں دھو کا: اب تو ایسا زور آگیا ہے کہ معاذ اللہ نکاح کے معاملات میں بھی دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے کبھی لڑکے کی آمدن تو کبھی لڑکی کی تعلیم اور عمر کے حوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دھو کر دیا جاتا ہے۔

معزز قارئین! اب دھوکہ کی مذمت پر چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر کیے جائیں گے اللہ کرے ہم ان فرامین کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں۔

(1) اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(ترمذی، 3/378، حدیث:1948)

(2) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشار فرمایا کہ اہل مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی فریب کرے گا (یعنی دھوکہ دے گا) وہ گھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔(بخاری شریف )

(3) اللہ کے آخری نبی نے ارشاد فرمایا کہ من غمش فلیش منا یعنی جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث :283)

(4) حضور علیہ السلام نے جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر اسے بیچنے سے منع فرمایا ہے یہ دھوکہ ہے اور حضور نے دھوکہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حدیثِ پاک میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا : بکری اور اونٹنی کے تھنوں میں (دھوکہ دینے کی غرض سے بیچنے کے لیے) دودھ روک کر نہ رکھو ( مسلم ،حدیث:928)

(5) اللہ کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ ( بخاری شریف، حدیث: 6966)

الله پاک ہمیں دھوکہ دینے سے محفوظ رکھے اور اپنے پیارے محبوب کے ان فرامین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین


مسلمانوں کو دھوکہ دینا سخت قابل نفرت عمل ہے۔ دھوکے (یعنی مکر و فریب) کی قراٰن مجید میں اور احادیث مبارکہ میں مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک قراٰن مجید میں کفار کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا انہیں وہاں سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو ۔(پ14 ،النحل: 45)

دھوکا دینے والا ملعون ہے: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ملعون (لعنت کیا گیا ) ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔ (سنن ترمذی، جلد 3، حديث: 1948)

دھوکا دہی کی تعریف: برائی کو دل میں چھپا کہ اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔ (تفسیر نعیمی، پا1، البقرة، 1/164،تحت الآيۃ: 9) دھوکا دہی کی چند مثالیں: کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا ، اصل بنا کر نقل دے دینا ، خریدار سے چھپا کر صحیح چیز کے ساتھ کچھ خراب چیز بھی ڈال دینا جیسا کہ بعض پھل فروش ایسا کرتے ہیں، غلط بیانی کر کے کسی سے مال بٹورنا جیسا کہ پیشہ ور بھکاریوں کا طریقہ ہے۔

دھوکا دہی کے متعلق مختلف احکام: (1): مسلمانوں کے ساتھ مَکر یعنی دھوکا بازی قطعاً حرام اور گناہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے۔ (2) : مکر و فریب اور ڈرا دھمکا کر کسی سے مال لینا قطعی حرام ہے۔

دھوکے کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: يا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے (تری والے غلے کو) اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، پھر فرمایا: جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(صحیح مسلم)

(2) جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں: الله پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، حديث :101،ص 55) علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔ (فيض القدير، 6/ 240 ، تحت الحديث: 8879)

(3) مکرو فریب کرنے والا ملعون ہے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائیے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(ترمذی، 3/378،حدیث:1948)

(4) دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا: ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایسے سال آئیں گے کہ جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا، جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو چھوٹا بنا کر پیش کیا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور رُوَیبضہ خوب بولے گا۔ عرض کی گئی: رُوَیبضہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: لوگوں کے اہم معاملات میں مداخلت کرنے والا حقیر اور کمینہ شخص۔ (ابن ماجہ ، ج4/ 377، حدیث: 4036)

(5) پاکیزہ ترین کمائی کونسی ہے؟: رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پاکیزہ ترین کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد ہوا: ہر وہ تجارت جس میں دھوکا نہ ہو اور اپنے ہاتھ کی کمائی ۔(لمسندامام احمد ، 6/112،حدیث :17266)

دنیا کی زندگی دھوکا نہ دے: ایک دھوکا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ انسان اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے مقصد حیات کو بھول جانا اور دنیا کی رنگینیوں میں پڑ جانا، آخرت کو بھی فراموش کر دینا اور دنیا میں جوا، سود اور حرام کے کاموں میں لگ جانا اور ہر برائی والا کام کرنا۔ یہ انسان کا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ چنانچہ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ ترجمہ ٔکنز الایمان: تو ہر گز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی۔ (پ 22، الفاطر :5)

حكايت: عجیب انداز میں نفس کے دھوکے کی گرفت:

حضرت سید ابو محمد مُرتَعِش رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے بہت سے حج کئے اور ان میں سے اکثر سفر کسی قسم کا زادِ راہ لئے بغیر کئے ۔پھر مجھ پر آشکار ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکہ تھا کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھے گھڑے میں پانی بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس پر ان کا حکم گراں گزرا ، چنانچہ میں نے سمجھ لیا کہ سفرِ حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی لذت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا کیونکہ اگر میرا نفس فناء ہو چکا ہوتا تو آج ایک حقِ شرعی پورا کرنا اسے بے حد دشوار کیوں محسوس ہوتا ؟(الرسالۃ القشیریۃ ،ص135)

دھوکے سے بچنے کا درس : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا دھوکا چاہے انسان دنیا کے دھوکے کی زندگی سے کھائے یا وہ نفس کا دھوکا ہو یا وہ خرید و فرخت والے معاملے میں اعلی و عمدہ چیز کا گھٹیا و کم تر کے بدلے بیچنا ہو۔ ہر طرح کا دھوکا بڑا ہے اور خرید و فرخت والے معاملے میں دھوکا دہی دینا تو لڑائی اور جھگڑے کا سبب بھی بن سکتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کے دھوکے کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ دھوکا دینا شیطانی کام ہے اور دھوکا دینے کیلئے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اور اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجمۂ کنزالعرفان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔(پ3،آلِ عمرٰن:61) اور دھوکا دینے والا قیامت کے دن بھی رسوا اور ذلیل و خوار ہوگا حدیث مبارکہ ہے: ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا (صحیح بخاری، حدیث: 6966) الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے دھوکے سے بچائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


پیارے قارئین (Readers) ! اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے ۔ ہمیں چاہیے کہ الله پاک کا شکر ادا کریں اور نیک کام کریں ۔ یاد رکھیں نیکیاں ایمان کو مضبوط کرتی جبکہ گناہ ایمان کو برباد کرتے بلکہ کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔

ایک بہت بڑا گناہ جو اللہ پاک کو ناپسند ہونے کے ساتھ لوگوں کو بھی ناپسند ہے، جسکی وجہ سے لوگ دور ہو جاتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں یہاں تک کہ رشتہ داری بھی باز اوقات ختم کر دیتے ہیں وہ دھوکہ بازی فریب کاری ہے۔

دھوکا کسے کہتے ہیں؟: علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے کسی چیزی اصلی حالت original arts) کو پوشیدہ (چھپا ) ہوا رکھنا دھوکا ہے ۔ (فیض القدیر ، ج ، ص 24 الحديث 22099 متعلق)

دھوکہ کی مثالیں : (1)فروٹ منڈی میں بیچنے والا اوپر اچھا مال اور نیچے خراب مال رکھتے ہیں۔(2) نوکری حاصل کرنے کے لئے جعلی سرٹیفکیٹ بنانا یا بنوانا۔ حقیقت کو چھپاکر ، اچھائی ظاہر کرنا ۔ اللہ پاک کی پناہ !

(1) جن سے ہم محبت کرتے ہیں، آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: وہ ہم میں سے نہیں جو دھوکا دے۔(مسلم ،کتاب الایمان ،حدیث :283 )

الله اکبر ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اگر قیامت کے دن ہمیں ایسے گروپ سے نکال دیا تو ہم کیا کریں گے!

(2) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دھوکہ کتنا ناپسند تھا حدیثِ پاک سے اندازہ لگائیے۔ فرمایا: ملعون ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔ ( ترمذی ، کتاب البر، 2 /378 ،حدیث: 1948 )

یاد رکھیئے اللہ پاک کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ ضرور دھوکا دینے والے جیسا کریں گے ویسا بھریں گے ۔

(3 ) فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کو ضرر پہنچائے اللہ (پاک) ضرور اس کو ضرر پہنچائے گا اور جو مسلمانوں کو مشقت میں ڈالے اللہ (پاک) اُس کو مشقت میں ڈالے گا۔ ( سنن ترمذی ، کتاب البر والصلۃ،3/378، حدیث:1947)

(4)فرمان آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو ہمارے ساتھ دھوکہ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر و دھوکا بازی جہنم میں ہے۔ ( کنز العمال، کتاب الاخلاق،حدیث : 7821)

(5) امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

پیارے قارئین اپنی روزمرہ کو دیکھیں اور اگر کوئی دھوکے کی صورت ہو تو فوراً توبہ کریں اور دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عادت یا بری صحبت کی وجہ سے اس کا احساس نہیں ہوتا، اس لیے اپنی صحبت (Gathering ) اچھی کر لیں۔ دعوت اسلامی کے دینی ماحول کو اختیار کریں ان شاء الله خوف خدا و عشق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملیں گے۔


اللہ پاک نے انصاف کے ساتھ تولنے کا حکم دیا ہے:وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (پ 27، الرحمن 9:)

(1) حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جس نے ہم سے دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکر اور دھوکا جہنم میں ہے۔(المعجم الکبیر، حدیث : 10234)

(2) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک سیاح افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مکر دھوکا اور خیانت جہنم میں ہیں۔ ( المستدرک، حدیث: 8831)

(3) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: دھوکے باز جنت میں داخل نہ ہوگا اور نہ ہی بخیل اور احسان جتلانے والا۔( المسند، حدیث :32 )

(4)شہنشاہ خوش خصال، پیکر حُسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : مؤمن سیدھا سادہ کرم کرنے والا جبکہ فاسق مکار کمینہ ہے۔(جامع ترمذی، حدیث :1963)

(5) دافع رنج و ملال صاحب جود و نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : پانچ قسم کے لوگ جہنمی ہے ان میں اس آدمی کا بھی ذکر ہے جو صبح شام تیرے اہل یا مال میں تجھ سے دھوکا کرتا ہے۔ ( صحیح مسلم، الحدیث: 7207 )


دھوکا ایک ایسا عیب ہے جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں بیان کی گئی ہے چنانچہ منافقین کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)یہاں اللہ پاک نے منافقین سے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ رَبِّی َ الاَعْلٰی ہے اور منزَّہ ہے کہ اس کو کوئی دھوکا دے ۔

دھوکےکا معنی : یُخٰدِعُوْنَ خَدَع سے بنا ہے جس کا لغوی معنی "چھپانا"ہے اور اصطلاح میں " خَدَع "کے معنی دھوکہ ہیں یعنی برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا۔(تفسیر نعیمی،1/162)

پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ )بیچ رہا تھا ،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (تر،گیلا)تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :"لیس منا من غش" جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔(سنن ابن ماجہ ،النہی عن الغش ،ج2/ 424،حدیث: 2225،دار التاصیل)

(2) عرب کے اندر یہ دھوکا دہی موجود تھی کہ جانور بیچنے سے کچھ دن پہلے دودھ دوہنا چھوڑ دیتے تا کہ تھنوں میں دودھ زیادہ نظر آئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اونٹنیوں اور بکریوں میں تصریہ نہ کرو ،یعنی پہلے سے ان کا دودھ دوہنا مت چھوڑو ،جو شخص ایسا جانور خرید لے اور پہلی دفعہ دودھ دوہنے کے بعد آیندہ دودھ کم نکلے تو اسے دو اختیار ہیں :چاہے تو یہی جانور اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو یہ جانور واپس کر دے اور جو دودھ نکالا گیا ہے اس کے بدلے میں ایک صاع چھوہاڑے دے دے ۔(صحیح مسلم ،کتاب البیوع ،باب تحریم بیع الرجل الخ ،ص 615،حدیث: 1515،بیت الافکار)

(3) لا یدخل الجنۃ خب ،ولا بخیل ،ولا منان "حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :دھوکے باز اور بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں نہیں داخل ہو گا ۔(سنن ترمذی ،باب ما جا ء فی البخیل ،3/ 511، حدیث: 1963،دار الغرب الاسلامی)

(4)ان رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قال "الحرب خدعۃ" رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ۔(سنن ابو داؤد ،باب المکر فی الحرب ،4/ 273،حدیث: 2636،دار الرسالۃ العالمیۃ) امام خطابی فرماتے ہیں :یعنی جنگ کے دوران کفار کو دھوکا دینے جائز ہے بشرطیکہ یہ دھوکا ان سے کئے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔(سنن ابو داؤد ،باب المکر فی الحرب ،4/ 273، حدیث:2636،دار الرسالۃ العالمیۃ)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :"المؤمن غر کریم ،والفاجر خب لئیم " مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے جب کہ منافق دھوکہ باز اور بخیل ہوتا ہے ۔(سنن ترمذی ،باب ما جا ء فی البخیل ،3/ 512، حدیث:1964،دار الغرب الاسلامی)